قیام پاکستان کا مقصد یہاں ایک مثالی اسلامی معاشرہ کا قیام تھا جہاں امیر و غریب کی تفریق کے بغیر ہر ایک کو آگے بڑھنے کے مواقع میسر آئیں لیکن اقتدار اور دولت کے پجاریوں نے اسے اپنے مفادات کے حصول کی آماجگاہ بنا لیا ۔میرے نزدیک پاکستان کو درپیش مسائل کا اصل سبب یہی ہوسِ اقتدارہے۔کبھی اقتدار کے حصول اور کبھی اقتدار کو طوالت دینے کیلئے کی گئیں ناقابل تلافی غلطیوں نے اس ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ۔ اس بات سے شاید ہی کوئی انکار کر سکے کہ صاحبانِ اقتدار کی ہوسِ اقتدارنے ہی مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے پر محبور کر دیا تھا۔ ہوس کے بجائے اگر میں اس کیلئے نشہ کا لفظ بھی استعمال کروں تو لوگوں کو اعتراض نہیں ہو گا ۔ ویسے تو نشہ کسی بھی چیز کا ہو انسان اور انسانیت کیلئے زہر قاتل ہے لیکن اقتدار کانشہ سب سے خطرناک ہے۔ اس نشہ کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ عقل کو مائوف اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتا ہے ۔ پھر وہ شخص ایسی ایسی حرکتیں کرنے لگ جاتا ہے جس کو وہ خود ہوش وحواس میں کسی کو کرتے دیکھے تو شرمندگی محسوس کرے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب ایک بار کسی کو اقتدار کے نشہ کی لت لگ جاتی ہے تو اسے چھوڑنا ممکن نہیں ہوتا پھر جیلیں اور سزائیں برداشت کر کے بھی اقتدار کی خواہش مدھم نہیں پڑتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے عمومی رویے بھی اس لعنت کا شکار ہو چکے ہیں ہم دولت، اقتدار اور اختیار کے نشے میں اتنے دھت ہیں کہ موٹرسائیکل والا سائیکل والے کو کسی خاطر میں لانے کو تیار نہیں، گاڑی والا موٹر سائیکل والے کو کچھ نہیں سمجھتا اسی طرح سے آگے بڑھتے جائیں ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یاد رکھیں جن قوموں میں صبر و شکر کے ساتھ اللہ رب العزت کے عطا کر دہ وسائل پر انحصار کر نے کا حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے تو انقلاباتِ زمانہ ان کے قدم چومتے ہیں ۔تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور سب سے بڑی مثال مسلمان قوم کی ہے کہ جب تک وہ اس اصول پر کاربند رہے دنیا ان کے قدموں میں ڈھیر ہوتی رہی ۔مسلمان علوم وفنون میں بھی دنیا کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ ہمیں اپنے مسلمان اور ایک آزاد ملک کے شہری ہونے پر فخر کرنا چاہئے اور بجا طور پر یہ ایک ایسا اعزاز ہے جس پر ہم رب کریم کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔
’’پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے‘‘ یہ جملہ ہماری قوم قیام پاکستان کے وقت سے ہی سنتی اور پڑھتی چلی آ رہی ہے۔تقریباً تمام سیاسی رہنمائوں اور ہر حکمران نے اقتدار سنبھالتے یا اقتدار کو بچانے کیلئے یہ’’ تاریخی الفاظ‘‘ ضرور ادا کئے ۔ پاکستان نے اپنی 77سالہ تاریخ میں متعدد نشیب و فراز دیکھے، یہاں مارشل لاء بھی لگے اور جمہوری حکومتیں بھی آئیں لیکن اس ایک جملہ پر سب حکمرانوں کا اتفاق رہا اور اس میں کوئی ردوبدل نہیں ہوا۔ یہ جملہ اتنے تواتر کے ساتھ بولا جاتا رہا کہ عوام بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ یہ کیسا نازک ترین دور ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ عوام کی ایک بڑی اکثریت کی رائے تو یہ ہے کہ اس جملہ کی آڑ میں حکمران طبقہ نے ہمیشہ عوام کو بے وقوف بنا کر اپنے مفادات کا بھرپور تحفظ کیا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اتنے ’’نازک ترین ادوار‘‘ سے گزرنے کے بعد بھی یہ ملک قائم و دائم ہے تویہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل وکرم ہے۔ ہم نے اپنے آبا واجداد سے سن رکھا ہے کہ تحریک پاکستان کے دوران برصغیر کے مسلمان گلی کوچوں میں’’ پاکستان کا مطلب کیا۔لا الٰہ الا اللہ‘‘کا نعرہ بڑے جوش و خروش سے لگاتے تھے۔ مسلمانوں کی خواہش تھی کہ انہیں ایک ایسا خطۂ ارض میسر آ جائے جہاں وہ بغیر روک ٹوک دین اسلام کے مطابق زندگی بسر کر سکیں ۔ جو ملک کلمہ طیبہ کی بنیاد پر معرض وجود میںا ٓیا ہو تو اس کی حفاظت بھی مالک ارض وسما خود ہی کر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 77برسوں میں ہماری تمام تر نا اہلیوں اور نالائقیوں کے باوجود پاکستان نہ صرف قائم بلکہ عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت بھی ہے۔پاکستان کا دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بننا کوئی معمولی واقعہ نہیں ورنہ قیام پاکستان کے وقت تو ہماری حالت یہ تھی کہ دفاتر میں کاغذات کو نتھی کرنے کیلئے پن تک موجود نہ تھی اور ببول کے کانٹوں سے کاغذات کو نتھی کیا جاتا تھا۔
قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی قائداعظم محمد علی جناح کا سانحۂ ارتحال اس قوم کیلئے حقیقتاً نازک ترین وقت تھا ۔بابائے قوم کے انتقال سے ایسے لگا کہ قوم یتیم ہو گئی ہے اور پھررفتہ رفتہ اقتدار ان کے ہاتھوں میں آگیا جن کا تحریک پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا بقول محسن بھوپالی ؎
نیرنگی ٔ سیاستِ دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
آج ہر پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال ابھر رہا ہے کہ ’’پاکستانی تاریخ کا نازک ترین دور‘‘ کب ختم ہوگا ؟ اس دور کو ختم کرنے کیلئے ہمیں من حیث القوم اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانا اور مثبت سوچ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔جب تک ہم اپنے قول وفعل میں تضادکو ختم،اپنے اعمال کودرست اورخود احتسابی کی روش نہیں اپنائیں گے اس وقت تک ہم اس نازک دور سے نہیں نکل سکتے ۔ آئیے ہم عہد کریں کہ جہد مسلسل کو اپنا شعار بناتے ہوئے کسی کرپٹ‘ جھوٹے اور منافق شخص کی حمایت نہیں کریں گے ، حق کا ساتھ دیں گے اور اپنے اندر اتنی اخلاقی جرأت پیدا کریں گے کہ غلط کو غلط کہہ سکیں۔صرف اسی صورت ہی ہم پاکستان کو دنیا کی مہذب اور ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں شامل اور ’’نازک دور‘‘ کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر طرح کی نعمتوں سے نواز رکھا ہے اور اہل ، محنتی و ایماندار قیادت ان نعمتوں کو صحیح استعمال میں لا کر ملک وقوم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: قیام پاکستان پاکستان کے پاکستان کو ہے اور
پڑھیں:
وفاق کو قرض دینے کی حیثیت بھی رکھتے ہیں ، وزیراعلیٰ خیبرپختونخواکادعویٰ
ڈیرہ اسماعیل خان: خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ صوبے کے ریونیو میں اضافہ ہوا ہے اور اب ہم وفاق کو قرض دینے کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ہمارا بجٹ ٹیکس فری بجٹ ہوگا جس میں عوام کو ریلیف دیں گے اور روزگار کے نئے مواقع فراہم کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ روزگار کے پہلے جو پراجیکٹس چل رہے ہیں جن میں لوگوں کو بلاسود قرضہ دے کر اپنے پیروں پر کھڑا کررہے ہیں، اس پر بھی کام ہوگا اور ہم ہیومن ڈیولپمنٹ پر دوبارہ فوکس کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے صوبے کے جو ایسے پراجیکٹس جن سے معیشت بہتر ہوگی اور روزگار میں اضافہ ہوگا، اس پر فوکس کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے میگا پراجیکٹس میں تعلیم شامل ہے، تعلیمی ایمرجنسی لگائیں گے جس کے تحت اسکول نہ جانے والے طلبہ کی تعداد کم کریں گے اور ساتھ ہی تعلیم کا معیار بھی بہتر کریں گے، صرف ڈگری دینا ہمارا مقصد نہیں ہے بلکہ اس ڈگری کی قدر بڑھانی ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا کہ اس کے علاوہ ہم صحت پر بھی فوکس کریں گے اور جن علاقوں میں صحت کی ضروریات کی کمی ہے اس کو فوری طور پر پورا کریں گے جب کہ ہم ذراعت پر بھی فوکس کریں گے اور بجلی سے متعلق پراجیکٹس بھی شامل ہیں اور سوات سمیت دیگر موٹرویز پر بھی کام ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اس وقت جو معاشی حالات ہیں ان کو دیکھ کر تمام صوبوں کو عمران خان کے ویژن کے مطابق اپنے پیروں پر کھڑا ہونا پڑے گا کیوں کہ مقروض قومیں کبھی بھی خود مختار اور خدار نہیں ہوسکتی۔
انہوں نے کہا کہ شکر ہے ہمارا صوبہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا ہے اور وفاقی حکومت کی تو یہ حالت ہے کہ وہ ہم سے امداد مانگ رہی ہے اور ہم امداد دینے کی حیثیت بھی رکھتے ہیں کیوں کہ خیبر پختونخوا کے ریونیو میں اضافہ ہوا ہے، اب تو ہم وفاق کوبھی قرضہ دے سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ این ایف سی بہت ضروری ہے جو 15 سال سے نہیں ہوئی، جس سے ہمارے ضم اضلاع کے پیسے ہمیں نہیں مل رہے، اب فیصلہ ہوا ہے کہ اگست میں این ایف سی ہوگی تو اس میں ہمارے صوبے کا آئینی حق ہمیں مل جائے گا اور اس سے بھی ہمیں پیسے ملیں گے۔
علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ 50 ارب تک کا قرضہ ہم نے پچھلے سال میں اتارا ہے اور ایک روپے بھی مزید قرضہ نہیں لیا جب کہ اس وقت ہم نے اکاؤنٹ میں صرف قرض اتارنے کے لیے ڈیڑھ سو ارب روپے رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے حوالے سے پہلے دن سے ہمارا یہی ایجنڈا اور ویژن ہے کہ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل ہوں، وفاقی حکومت نے جو مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا ، جرگے میں دوبارہ ان سے کہا کہ صوبائی حکومت کو بھی اس عمل میں شامل کیا جائے اور قبائلی مشران کو بھی اس کا حصہ بنایا جائے تاکہ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی رہائی عدلیہ سے منسلک ہے اور ہماری عدلیہ آزاد ہی نہیں ہے، ہم بار بار کہہ رہے ہیں ان پر کوئی کیس نہیں، ابھی ہم نے دوبارہ پورے پاکستان میں تحریک شروع کریں گے کیوں کہ ہمیں لگ رہا ہے عدلیہ اپنے فیصلوں میں خودمختار نہیں ، اس لیے ہم انہیں سپورٹ دیں گے کہ آپ اپنے فیصلے خود کریں۔