اسلام آباد : نائب صدر پاکستان پیپلز پارٹی کی شیری رحمٰن نے اسرائیل اور حماس کے غزہ میں جنگ بندی کے اعلان پر ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔

زرائع کے مظابق انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ غزہ میں امن کی آڑ میں کوئی بھی غیر منصفانہ سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہیے۔

فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کا احتساب ضرور ہونا چاہیے۔

شیری رحمٰن کا کہنا ہے کہ حقیقی امن کے لیے ضروری ہے کہ فلسطین کے عوام کے حقوق، ضروریات اور مفادات کا احترام کیا جائے۔

اسرائیل کی جانب سے 15 ماہ اور 1 ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران غزہ پر 85 ہزار ٹن بارود برسایا گیا۔

اسرائیلی فوج نے 47 ہزار فلسطینیوں کی نسل کشی کی اور 1 لاکھ 15ہزار افراد کو زخمی کیا۔

تباہ شدہ شہروں کی عمارتوں اور گھروں کے ملبے سے ہزاروں لاپتہ فلسطینیوں کی لاشیں ملنے کا خدشہ ہے۔

.

ذریعہ: Juraat

پڑھیں:

نسل کشی کا جنون

اسلام ٹائمز: آج غزہ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی وجہ صرف جنگ نہیں ہے بلکہ وہ ایک منصوبہ بیندی کے تحت نسل کشی کا نتیجہ ہے جو یا تو مغرب کی خاموشی اور یا اس کے براہ راست تعاون سے جاری ہے۔ امریکہ غاصب صیہونی رژیم کو دھڑا دھڑ اسلحہ فراہم کر رہا ہے جبکہ فلسطینیوں کی حمایت کرنے والے مغربی اور بین الاقوامی تعلیمی، قانونی، انسانی حقوق اور دیگر اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کے ذریعے فلسطینیوں کی نسل کشی میں برابر کا شریک ہے۔ آزاد میڈیا ذرائع کی اخلاقی اور انسانی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان مجرمانہ اقدامات کو برملا کریں اور غزہ میں فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی اور فلسطینیوں کی نسل کشی میں ملوث حکمرانوں کے خلاف عدالتی کاروائی کے لیے موثر اقدامات انجام دیں۔ تحریر: رسول قبادی
 
غزہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا کھلا زندان بن چکا ہے۔ ایسا زندان جس کے قیدیوں کا واحد جرم فلسطینی ہونا ہے اور انہیں اس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ مارچ 2025ء سے غزہ کی پٹی کا مکمل گھیراو جاری ہے اور حتی بنیادی ضرورت کی انسانی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن کی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی تقریباً تمام آبادی جو 22 لاکھ افراد پر مشتمل ہے غذائی قلت کا شکار ہو چکی ہے۔ اعداد و شمار دل دہلا دینے والے ہیں: 9 لاکھ 24 ہزار افراد غذائی بحران جبکہ 2 لاکھ 44 ہزار افراد غذائی اشیاء کی قلت کے باعث موت کے خطرے سے روبرو ہیں۔ اس خاموش جنگ کی بھینٹ چڑھنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد بچوں کی ہے اور اب تک سینکڑوں بچے غذائی قلت کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
 
اسی طرح 60 ہزار بچے غذائی قلت کے باعث شدید خرابی صحت کا شکار ہیں۔ فلسطینی مہاجرین کی امداد رسانی کرنے والے ادارے نے رپورٹ دی ہے کہ اس کے طبی مراکز میں معائنہ ہونے والے ہر 10 بچوں میں سے ایک غذائی قلت کے باعث خرابی صحت کا شکار ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کے معیارات کی روشنی میں یہ صورتحال مرحلہ وار نسل کشی ہے اور بین الاقوامی ادارے واضح طور پر اسرائیل پر قحط کو جنگی ہتھیار کے طور پر بروئے کار لانے کا الزام عائد کر چکے ہیں۔
بھوکے افراد کا قتل عام، بے مثال جرم
گذشتہ کچھ عرصے سے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف ایک نئی قسم کا مجرمانہ اقدام انجام پا رہا ہے جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ وہ یہ کہ غذائی امداد تقسیم کرنے کے بہانے مخصوص مراکز میں بھوکے فلسطینیوں کو بلایا جاتا ہے اور پھر صیہونی فوج ان پر فائرنگ کر کے ان کا قتل عام کرتی ہے۔
 
جی ایچ ایف، اسرائیل کے چہرے پر امریکی نقاب
حال ہی میں امریکہ اور اسرائیل نے مل کر غزہ میں انسانی امداد کی تقسیم کے لیے ایک نیا ادارہ بنایا ہے جس کا نام جی ایچ اف (Gaza Humanitarian Foundation) رکھا گیا ہے۔ یہ ادارہ اس وقت غزہ میں "قاتل انسانی امداد" کی علامت بن چکا ہے۔ اس ادارے نے وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا اور تشہیر کے ذریعے غزہ میں بھوکے فلسطینیوں کو اپنے امدادی مراکز آ کر امداد وصول کرنے کی ترغیب دلائی ہے اور جب ان مراکز میں فلسطینیوں کا اکٹھ ہو جاتا ہے تو صیہونی فوجی فائرنگ کر کے دسیوں فلسطینیوں کو شہید اور زخمی کر دیتے ہیں۔ یہ ادارہ وسیع پروپیگنڈے کے ذریعے خود کو اہل غزہ کا نجات دہندہ ظاہر کرتا ہے اور اس کا ماہیانہ بجٹ 140 ملین ڈالر ہے۔ ماہرین کی نظر میں اس ادارے کی تشکیل کا اصل مقصد غزہ میں فلسطینیوں کی مدد نہیں بلکہ انہیں کنٹرول کرنا ہے۔
 
جبری منتقلی اور اندھی بمباری
غزہ میں شدید قحط کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی جنگی مشینری بھی پوری طرح سرگرم عمل ہے اور آئے دن نہتے فلسطینیوں پر زمین اور ہوا سے وحشیانہ حملے جاری ہیں۔ 20 اور 21 جولائی کی بات ہے جب اسرائیلی ٹینک غزہ کے مرکزی حصے میں واقع دیر البلح شہر میں گھس گئے اور شہری علاقوں پر شدید گولہ باری شروع کر دی۔ اس حملے میں کم از کم تین عام شہری شہید اور ہزاروں دیگر شہری وہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے تھے۔ اس وقت غزہ کا تقریباً 90 فیصد حصہ غاصب صیہونی رژیم کے فوجی تسلط یا وہاں سے شہریوں کی جبری جلاوطنی کا شکار ہے۔ امریکی اور صیہونی حکام نے حال ہی میں ایک اور منصوبہ بنایا ہے جسے "انسان پسند شہر" نام دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت غزہ کے جنوب میں 6 لاکھ فلسطینیوں کو جمع کرنا ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں نے اس کی مذمت کی ہے۔
 
مغرب کی مجرمانہ خاموشی اور تعاون
عالمی سطح پر غزہ میں فلسطینیوں کی جاری نسل کشی کے ردعمل میں دنیا کے اکثر ممالک نے زبان کی حد تک مذمت کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ پاپ کوئی چہاردھم نے بھی اپنے سرکاری بیانیے میں اسرائیلی اقدامات کو "وحشیانہ" قرار دیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور اسرائیل کے دیگر مغربی اتحادی ممالک کھل کر اس کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ امریکہ نے تو تمام حدیں پار کرتے ہوئے عالمی فوجداری عدالت پر بھی اسرائیلی حکمرانوں کے خلاف فیصلہ سنانے کے جرم میں پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ یورپی یونین نے غزہ کے لیے امدادرسانی کے معاہدے پر دستخط کے باوجود اب تک غزہ میں فلسطینیوں تک امداد پہنچنے کی یقین دہانی کے لیے کوئی موثر اقدام انجام نہیں دیا ہے۔ انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں نے یورپی یونین پر بھی اسرائیلی جرائم میں شریک ہونے کا الزام لگایا ہے۔
 
فلسطینیوں کی نسل کشی میں مغرب کا کردار
آج غزہ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی وجہ صرف جنگ نہیں ہے بلکہ وہ ایک منصوبہ بیندی کے تحت نسل کشی کا نتیجہ ہے جو یا تو مغرب کی خاموشی اور یا اس کے براہ راست تعاون سے جاری ہے۔ امریکہ غاصب صیہونی رژیم کو دھڑا دھڑ اسلحہ فراہم کر رہا ہے جبکہ فلسطینیوں کی حمایت کرنے والے مغربی اور بین الاقوامی تعلیمی، قانونی، انسانی حقوق اور دیگر اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کے ذریعے فلسطینیوں کی نسل کشی میں برابر کا شریک ہے۔ آزاد میڈیا ذرائع کی اخلاقی اور انسانی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان مجرمانہ اقدامات کو برملا کریں اور غزہ میں فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی اور فلسطینیوں کی نسل کشی میں ملوث حکمرانوں کے خلاف عدالتی کاروائی کے لیے موثر اقدامات انجام دیں۔

متعلقہ مضامین

  • مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا لیکن اب بہتری کی طرف جانا چاہیے، بیرسٹر گوہر
  • مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا لیکن اب بہتری کی طرف جانا چاہیے: بیرسٹر گوہر
  • پاکستان، چین کے درمیان جہاز سازی کی صنعت میں تعاون بڑھانے کیلئے سمجھوتہ
  • تحریک تحفظ آئین پاکستان اور پی ٹی آئی کا ملک میں آئین و قانون کی بحالی، منصفانہ انتخابات کیلئے نئی سیاسی تحریک شروع کرنے کااعلان
  • نسل کشی کا جنون
  • حکومت اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہو گا،مولانافضل الرحمان
  • سیلابی صورتحال کی 1912ء کے ماڈل سے لوگوں کو ارلی وارننگ دی جا رہی ہے: شیری رحمان
  • فلسطین کی صورتحال پر مسلم ممالک اپنی خاموشی سے اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں، حافظ نعیم
  • چھبیسویں ترمیم معاہدہ: حکومت وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا، مولانا فضل الرحمان
  • 26ویں ترمیم معاہدہ: حکومت وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا، مولانا فضل الرحمان