پاکستان کے معروف گلوکار جواد احمد کی اہلیہ کے بیوٹی پارلر میں بجلی چوری پکڑی گئی ہے۔

لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) کی ٹیم نے بیوٹی پارلر پر چھاپہ مارا تو اس دوران گلوکار جواد احمد نے لیسکو ملازمین پر تشدد کیا، اور ان سے میٹر بھی چھین لیا۔

یہ بھی پڑھیں جواد احمد کی اہلیہ کے بیوٹی پارلر میں بجلی چوری، ’اسکی ذمہ داری بھی عمران خان پر ڈالی جائے گی؟‘

لیسکو حکام نے گلوکار جواد احمد کی جانب سے ملازمین پر تشدد کرنے کے خلاف پولیس کو درخواست دے دی ہے، اور بجلی چوری کا مقدمہ درج کرنے کے لیے بھی رجوع کیا ہے۔

لیسکو حکام کے مطابق جب ملازمین نے بیوٹی پارلر پر چھاپہ مارا تو اس دوران جواد احمد اپنی گاڑی میں پہنچے اور میٹر ریڈر اصغر اور شاہد کو زدوکوب کرنے کے ساتھ ساتھ میٹر بھی چھین لیا۔

لیسکو حکام نے رپورٹ دی ہے کہ چھاپے کے دوران صارف کے میٹر کا فیز ڈیڈ پایا گیا، نواب ٹاؤن تھانے میں ملازمین پر تشدد، بجلی چوری کی درخواست دے دی ہے۔

لیسکو حکام نے بتایا ہے کہ اسٹاف کی جانب سے میٹر ٹمپرڈ کی رپورٹ اعلیٰ حکام کو بھجوا دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ: بجلی چوری میں ملوث میٹر سپروائزر کی درخواست ضمانت خارج

ذرائع کے مطابق پولیس نے ابھی تک بجلی چوری اور لیسکو ملازمین پر تشدد کا مقدمہ درج نہیں کیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews بجلی چوری بیوٹی پارلر جواد احمد گلوکار لیسکو حکام مقدمے کے لیے درخواست وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بجلی چوری بیوٹی پارلر جواد احمد گلوکار لیسکو حکام مقدمے کے لیے درخواست وی نیوز گلوکار جواد احمد ملازمین پر تشدد جواد احمد کی لیسکو حکام بجلی چوری

پڑھیں:

’’صرف گولی سے مارنے کی اجازت ہے‘‘

’’ صرف گولی سے مارنے کی اجازت ہے۔‘‘ گل بانو ستکزئی نے براہوی زبان میں یہ الفاظ ادا کیے۔ پھرکسی مرد کی آواز آئی، ’’ ان سے قرآن مجید لے لو۔‘‘ بانو نے ان الفاظ کو ادا کرنے سے پہلے یہ بھی کہا کہ ’’ مجھ سے سات قدم دور رہو‘‘ بانو کے بھائی نے گولی چلائی۔ پہلے بانو زمین پر گری، پھر اس کے شوہر احسان کو گولیاں ماری گئیں۔ اس جوڑے کا صرف قصور یہ تھا کہ انھوں نے اپنی پسند کی شادی کی تھی۔

اس جوڑے کے قتل کا واقعہ کوئٹہ سے 40 میل دور ڈکاری کے مقام پر رونما ہوا جہاں پولیس کی عملداری نہیں ہے۔ گزشتہ ہفتے اس جوڑے کے قتل کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو دنیا بھر کو قبائلی معاشرے کی فرسودہ روایات کے بہیمانہ اثرات کا علم ہوا۔ اس بھیانک قتل کی واردات کی کسی کو فوری اطلاع نہ ہوئی۔ کوئٹہ کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ اس جوڑے نے چھپ کر اپنی پسند کی شادی کی تھی مگر اس علاقے میں موجود نہیں تھے۔

اس دوران علاقے کے بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ احسان کو لڑکی کے اغواء پر قتل کیا جائے مگر دوسری طرف یہ کہا گیا کہ لڑکی اپنی مرضی سے شادی پر تیار ہوئی ہے تو پھر دونوں کو قتل کرنے پر بزرگوں کا اتفاق ہوا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ احسان نے اپنے قبیلے کے سردار کے پاس پناہ لی ہوئی تھی مگر اس جوڑے کو دعوت کے نام پر بلایا گیا اور وہاں انھیں قتل کا فیصلہ سنایا گیا۔ جب یہ وڈیو وائرل ہوئی تو اس وڈیو میں لڑکی اور لڑکے کے نام کچھ اور بتائے گئے تھے۔

اس قبیلے اور وقوع کے مقام کا نام بھی ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔ بلوچستان کی حکومت نے بھی اس وڈیو پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے علاقے اور قبیلے کا نام ظاہر نہیں کیا تھا مگر جب سوشل میڈیا پر یہ مطالبہ مسلسل آنے لگا کہ علاقے اور قبیلے کا نام ظاہرکیا جائے تو بعض صحافیوں نے اس قبیلے اور اس مقام کی نشاندہی کی۔ بلوچستان کی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اب تک تیرہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے مگر وزیر اعلیٰ کا نیا موقف یہ ہے کہ قبیلے کا سردار شیر باز ستکزئی اس جرم میں ملوث نہیں ہے۔

 90ء کی دہائی میں انسانی حقوق کمیشن HRCP کی سابق چیئر پرسن حنا جیلانی اور عاصمہ جیلانی کے لاہور میں قائم کردہ شیلٹر ہوم میں پشاور کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان کی لڑکی نے پناہ لی ہوئی تھی کیونکہ اس نے اپنے شوہر سے طلاق لے کر اپنی مرضی سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس لڑکی کی ماں جو ڈاکٹر تھیں، ایک شخص کے ساتھ اس لڑکی سے ملنے آئی۔ جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئی، ان کے ساتھ آئے شخص نے اس لڑکی پر گولی چلائی ۔ اس شخص کی دوسری گولی سے حنا جیلانی بال بال بچ گئیں۔ حنا کے دفتر پر تعینات پولیس کانسٹیبل نے جوابی گولی چلائی۔ اجرتی قاتل بھی مارا گیا مگر تمام تر کوششوں کے باوجود لڑکی کی ماں کو گرفتار نہیں کیا گیا، اس زمانے میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔ پیپلز پارٹی کے بیرسٹر اعتزاز احسن اور بیرسٹر اقبال حیدر سینیٹر تھے۔ انھوں نے اس واقعے کی مذمت کی قرارداد سینیٹ میں پیش کی تھی۔

صرف ایم کیو ایم کے حمایت یافتہ معروف شاعر جمیل الدین عالی نے قرارداد کی حمایت کی تھی۔ کالعدم نیشنل عوامی پارٹی کے سابق سیکریٹری جنرل اور عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ترقی پسند ادیب اجمل خٹک بھی سینیٹر تھے مگر وہ بھی اس لڑکی کے قتل کی مذمت کی قرارداد کی حمایت پر تیار نہیں ہوئے۔ یوں یہ قرارداد اکثریتی ووٹ حاصل نہ کرسکی۔

2008 میں جب پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم اور آصف علی زرداری صدر تھے تو ان کی مخلوط کابینہ میں اسرار زہری بھی وزیر تھے۔ زہری کا تعلق بلوچستان کے ایک بڑے قبیلے سے تھا۔ اس وقت چھ لڑکیوں کو بلوچستان میں زندہ دفن کرنے کی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں۔ وزیر موصوف نے کہا تھا کہ ’’ یہ تو ہماری روایات کے مطابق ہے۔‘‘ اس وقت حاصل بزنجو زندہ تھے، انھوں نے اس وقت واقعے کی شدید مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ ’’ وزیر موصوف نے بلوچ روایات کے برعکس یہ موقف پیش کیا ہے۔‘‘

یہ رسم ہزاروں سال سے جاری ہے۔ سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اب بھی اس رسم پر عمل کیا جاتا ہے اور اس عمل کو غیرت کے نام پر قتل کہا جاتا ہے۔ جب انگریز آئے تو انگریزوں نے ستی کی رسم اور کاروکاری کو غیر آئینی عمل قرار دیا تھا مگر کاروکاری کے مرتکب افراد کو سزا دینے کے لیے سخت قوانین نافذ نہیں کیے۔ انگریز حکومت نے 1860میں کاروکاری کو جرم قرار دیا تھا مگر اس کی سزا کم رکھی تھی۔

فیڈرل شریعت کورٹ نے 1990میں اس بارے میں قوانین میں ترمیم کی اور اس کو شریعت کے مطابق بنایا۔ 1999 میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی کہ کاروکاری کے بارے میں قوانین کمزور ہیں اور حکام ان معاملات میں ملزمان کو سزائیں دلوانے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ بین الاقوامی اداروں کے دباؤ پر دسمبر 2004میں حکومت نے اس قانون میں ترمیم کی۔ نئے قانون کے تحت غیرت کے نام پر قتل کرنے والے افراد کو 7 سال عمر قید تک کی سزا تجویز کی گئی۔

2005 میں حکومت پاکستان نے ایک ایسے قانون کے مسودے کو مسترد کیا، جس میں کاروکاری کے مجرموں کی سزا میں اضافے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ 2006میں خواتین کے تحفظ کا قانون نافذ ہوا۔ اس قانون کے تحت کاروکاری کے مجرموں کو عمر قید کی سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا ، 2010 میں Criminal Law (Amendment Offences in the name of pretext of honour) نافذ ہوا۔ اس قانون کے تحت سزا یافتہ مجرم کو قریبی رشتے داروں کی جانب سے معافی دینے کا اختیار ختم کیا گیا۔ اس قانون کے تحت اب مجرموں کو 14 سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

 انسانی حقوق کمیشن HRCP کی کونسل رکن سعدیہ بلوچ اپنی کتاب میں اپر سندھ کے واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’’ جب فصل کٹتی ہے توکوئی بھی شخص اپنے کسی دشمن سے انتقام لینے کے لیے خاتون یا لڑکی کو قتل کرتا ہے، پھر اپنے دشمن کو قتل کرکے یہ اعلان کرتا ہے کہ اس نے ناجائز تعلقات کی بنا ء پر اپنی قریبی عزیزہ اور دشمن کو قتل کیا ہے۔‘‘ ایک اور رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سندھ میں کاروکاری میں قتل ہونے والے افراد کو نہ توکفن دیا جاتا ہے نہ ان کی نمازِ جنازہ ہوتی ہے۔ ان لوگوں کو کسی دور افتادہ مقام پر دفن کیا جاتا ہے۔

سندھ یونیورسٹی کی متحرک استاد ڈاکٹر عرفانہ ملاح اور پروفیسر امر سندھو نے اپنی ایک تحریر میں لکھا کہ انھوں نے کاروکاری ہونے والی خواتین کی قبریں دیکھی ہیں۔ کاروکاری کے فیصلے جرگے میں ہوتے ہیں۔ جرگے میں صرف مرد شرکت کرتے ہیں۔ قبیلوں کے سردار اور عمائدین ہر فیصلے پر قادر ہوتے ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کے تحت جرگے کے انعقاد پر پابندی ہے مگر ملک بھر میں جرگے ہوتے ہیں۔

کئی جرگوں میں وزراء، منتخب اراکین ، اعلیٰ پولیس افسران تک بھی شریک ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بھی 392 خواتین کاروکاری کے الزام میں قتل ہوئیں۔ ایسے مقدمات کی پیروی کرنے والی وکیل حنا جیلانی نے بتایا ہے کہ کاروکاری کے مقدمات کی عدالتوں میں شنوائی کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے اور شاذ و نادر ہی اس جرم میں کسی شخص کو سزا ہوتی ہے۔

 بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے قتل ہونے والی عورت اور مرد کے متعلق جو نیا بیانیہ اختیارکیا ہے، اس سے جرم کی سنگینی میں کمی کرنے کا تاثر ملتا ہے۔ کوئٹہ کے ایک صحافی کا کہنا ہے اس مقتولہ کے جنازے میں سیکڑوں افراد کی شرکت سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ علاقے کے لوگ گل بانو کو مظلوم سمجھتے ہیں۔ بلوچستان کے تناظر میں سب سے اہم بات یہ کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیم بلوچ یکجہتی کمیٹی اس قتل کے خلاف بھرپور احتجاج کرے۔ غیرت کے نام پر قتل کی روایت اس وقت ختم ہوگئی جب پدر شاہی نظام ختم ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • وطن لوٹنے والے افغان مہاجرین کو تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا
  • بابوسر سیلاب میں بہہ جانے والی ڈاکٹر مشعال کے 3 سالہ بیٹے کی لاش 3 روز بعد مل گئی۔
  • امریکی اداکارہ خاتون پر حملے، تشدد اور چوری کے الزام میں گرفتار
  • ’’صرف گولی سے مارنے کی اجازت ہے‘‘
  • آپشن ہونا چاہیئے کہ شہری اجرک والی یا پاکستانی پرچم والی نمبر پلیٹ لگائیں، آفاق احمد
  • آپشن ہونا چاہیے شہری اجرک والی یا پاکستانی پرچم والی نمبر پلیٹ لگائیں، آفاق احمد
  • کراچی: شوہر کے تشدد کا نشانہ بننے والی نوبیاہتا خاتون دم توڑ گئی
  • شوہر کے بدترین جنسی تشدد کا شکار ہونے والی بیوی زندگی کی بازی ہار گئی
  • کراچی: شوہر کے مبینہ بدترین تشدد سے کوما میں جانے والی نوبیاہتا دلہن انتقال کرگئی
  • خیبر پختونخوا میں انوکھی واردات، چور بجلی کی ٹرانسمیشن لائن لے اُڑے