ملک میں گاڑیوں کی فروخت میں 28 فیصد اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
اسلام آباد: جاری مالی سال کے پہلے 6ماہ کے دوران ملک میں گاڑیوں کی فروخت میں سالانہ بنیادوں پر28فیصد نموریکارڈکی گئی ہے۔
آل پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے اعدادوشمارکے مطابق مالی سال کے پہلے6ماہ میں ملک میں گاڑیوں کے 776126یونٹس کی فروخت ریکارڈ کی گئی ہے جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 28فیصدزیادہ ہے۔
گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں ملک میں 605668یونٹس گاڑیوں کی فروخت ریکارڈکی گئی تھی،دسمبر2024میں ملک میں 135134یونٹس گاڑیوں کی فروخت ہوئی جونومبرکے مقابلے میں ایک فیصد اوردسمبر2023کے مقابلے میں 49فیصدزیادہ ہے۔نومبرمیں ملک میں گاڑیوں کے 134340یونٹس اوردسمبر2023میں 90888یونٹس کی فروخت ہوئی تھی۔
اعدادوشمارکے مطابق مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں کاروں کے 46398یونٹس کی فروخت ہوئی جوگزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے 30662یونٹس کے مقابلے میں 51فیصدزیادہ ہے۔
دسمبرمیں کاروں کے 7864یونٹس کی فروخت ہوئی جودسمبر2023کے مقابلے میں 60فیصدزیادہ ہے،دسمبر2023میں ملک میں کاروں کے 4915یونٹس کی فروخت ریکارڈکی گئی تھی۔
مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں الیکٹرک گاڑیوں کے مجموعی طورپر104یونٹس جبکہ دسمبرمیں 41یونٹس کی فروخت ریکارڈکی گئی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے مقابلے میں کی فروخت ہوئی میں ملک میں مالی سال کے کی گئی
پڑھیں:
تنخواہ 10، پنشن میں 7 فیصد اضافہ، سولر پینل، آن لائن کاروبار، ڈیجیٹل سروسز، گاڑیاں مہنگی، جائیداد کی خرید و فروخت پر ٹیکس ریلیف
اسلام آباد (عترت جعفری+ وقار عباسی+ نمائندہ خصوصی+ وقائع نگار+ نوائے وقت رپورٹ+ این این آئی) مالی سال 2025-26 کے لیے 17 ہزار 573 ارب روپے کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی اور سینٹ میں پیش کر دیا گیا ہے جس میں مالی خسارہ کا تخمینہ 6501 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ یہ بجٹ وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ وفاقی بجٹ کے تحت 17573 ارب روپے کے کرنٹ اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ پنشن کی مد میں 1055 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ گرانٹس اور ٹرانسفرز کے لیے 1928 ارب روپے، سبسڈیز کی مد میں 1186 ارب روپے اور سول حکومت کو چلانے کے لیے 971 ارب روپے مختص کیا گیا ہے۔ ایمرجنسی امداد کی فراہمی کے لیے 389 ارب، 14 ہزار 131 ارب روپے ایف بی آر کا سالانہ ریونیو ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 547 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ اس طرح گراس ریونیو وصولیاں 19278 ارب روپے کی ہوں گی۔ اس میں سے صوبوں کا حصہ 826 ارب روپے ہوگا۔ نیٹ وصولیاں 11 ہزار 72 ارب روپے ہوں گی۔ 2874 ارب روپے غیر بینکنگ ذرائع سے حاصل کیے جائیں گے جبکہ 3435 ارب روپے بینکوں سے قرض لیکر پورے کیے جائیں گے۔ نجکاری کے عمل سے 87 ارب روپے کی وصولی کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ وفاقی اخراجات کا تخمینہ 17573 ارب روپے ہے، 106 ارب روپے ایکسٹرنل فائنانسنگ سے حاصل کیے جائیں گے۔ دو طرفہ اور کثیر القومی 460 ارب روپے حاصل کیے جائیں گے جبکہ 6309 ارب روپے کی نیٹ ڈومیسٹک فنانسنگ کی جائے گی۔ اس میں سے نیشنل سیونگ سکیم کے ذریعے 210 ارب روپے، گورنمنٹ سکیورٹیز کے ذریعے 6 ہزار 99 ارب روپے حاصل کیے جائیں گے۔ بجٹ میں جی ڈی پی کی مناسبت سے مالی خسارہ منفی تین اعشاریہ نو فیصد ہے۔ پرائمری سرپلس 31 70 ارب روپے ہوگا۔ پرائمری سرپلس کا ہدف 2.4 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ بجٹ دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال میں نومینل جی ڈی پی ایک لاکھ 29 ہزار567 ارب روپے ہو جائے گی۔ ایف بی آر کے 1413 ارب روپے کے سالانہ ریونیو ہدف میں براہ راست ٹیکسوں سے 902 6 ارب روپے حاصل ہوں گے اس میں سے 6811 اربوں روپے انکم ٹیکس, 17.1 ارب روپے کیپٹل ویلیو ٹیکس 25.7 ارب روپے ورکر ویلفیئر فنڈ سے حاصل ہوں گے جبکہ بالواسطہ ٹیکسوں سے 729 7ارب روپے وصولی ہوگ\, اس میں کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 158 ارب روپے سیلز ٹیکس کی مد میں 4753 ارب روپے اور فیڈرل ایکسائز کی مد میں 88 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5147 ارب روپے ہے۔ اس میں 12 ارب روپے موبائل ہینڈ سیٹ لیوی 17.7 ارب روپے، آئی سی ٹی ایڈمنسٹریشن 53 ملین روپے ایئرپورٹ فی سے حاصل ہوں گے۔ پی ٹی اے کی فور جی لائسنس کی نیلامی سے 22 ارب روپے حاصل ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ریگولیٹری اتھارٹیز کے سرپلس اور جرمانوں سے 6.2 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ سرکاری تحویل کے کاروباری اداروں کو دیے جانے والے وفاقی قرضوں کہ مارک اپ سے 188 ارب روپے وصولی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ڈیویڈنڈ سے 206 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ سٹیٹ بینک کے پرافٹ سے 24 ارب روپے ملیں گے۔ پٹرولیم لیوی سے وصولی کا تخمینہ 1468 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ قدرتی گیس کے سرچارج سے 49 ارب روپے، سٹیزن شپ سے 70 ارب روپے، کروڈ آئل کے رائلٹی سے 69 ارب روپے، قدرتی گیس کی رائلٹی سے 138 ارب ارب روپے، گیس انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس سے 2.4 ارب روپے، ایل پی جی پر پٹرولیم لیوی سے پانچ ارب روپے وصول کیے جائیں گے۔ دستاویزات کے مطابق 1280 ارب روپے سے زائد کے نئے ٹیکس عائد ہوں گے اور تمام سیلری سلیب پر 2.5 فیصد انکم ٹیکس کم کرنے کی تجویز ہے۔ تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 7 فیصد اضافہ اور انکم ٹیکس میں کمی کا اعلان کیا گیا۔ وزارت خزانہ کی دستاویزات کے مطابق پیٹرولیم لیوی 78روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 100 روپے فی لیٹر کرنے کی تجویز ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات صرف ڈیجیٹل ادائیگی سے خریدی جاسکیں گی جبکہ نقد پیٹرولیم مصنوعات خریدنے پر 2 روپے فی لیٹر اضافی ادا کرنے ہوں گے۔ دستاویزات میں بتایا گیا کہ نان فائلرز کے لیے بینک سے 50 ہزار روپے سے زیادہ کیش نکلوانے پر ٹیکس کی شرح بڑھا کر 1.0 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ آئندہ مالی سال کیلئے اقتصادی ترقی کی شرح 4.2 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ افراط زر کی اوسط شرح 7.5 فیصد متوقع ہے۔ ستر سال سے کم عمر وہ پنشنر جو سالانہ ایک کروڑ روپے سے زائد پنشن وصول کر رہے ہیں ان کی ایک کروڑ روپے سے زائد پنشن کی آمدنی پر پانچ فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کر دیا گیا۔ نان فائلرز کے لیے نقد رقم 50 ہزار سے زائد نکلوانے پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح 0.6 فیصد سے بڑھا کر 1فیصد کر دی گئی ہے۔ بنک اکاؤنٹ نہیں کھلوا، جائیداد نہیں خرید سکے گا۔ یہ پابندی مشروط ہے۔ جو افراد اپنے گوشوارے، اپنی ویلتھ سٹیٹمنٹ جمع کرائیں گے وہی صرف بڑے مالیاتی لین دین کر سکیں گے۔ سولر پینلز کی درآمدات پر 18 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔18 فیصد سے کم شرح کی حامل ہائبرڈ سمیت تمام گاڑیوں پر جی ایس ٹی کی شرح 18فی صدکر دی گئی ہے۔ ای کامرس پلیٹ فارمز کی طرف سے سیل کرنے والے کوریئرز اور لاجسٹکس خدمات فراہم کرنے والے ادارے 18 فیصد کی شرح سے سیلز ٹیکس وصول کر کے جمع کرائیں گے۔ فنانس بل کے تحت ڈیجیٹل موجودگی سے حاصل شدہ آمدنی پر ٹیکس کا قانون متعارف کرایا گیا ہے جس کے تحت پاکستان کے دائرہ اختیار میں غیر ملکی تاجروں کی طرف سے فروخت کی گئی اشیاء اور خدمات پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت تمام ادارے بشمول بینک مالیاتی ادارے لائسنس یافتہ ایکسچینج کمپنیاں اور دیگر ادائیگی کے ذرائع اس بات کے پابند ہوں گے کہ وہ پاکستان میں باہر سے اشیاء اور خدمات فراہم کرنے والے غیر ملکی تاجروں کو کی جانے والی ڈیجیٹل ادائیگیوں پر پانچ فیصد ٹیکس وصول کریں۔ تجویز کیا گیا ہے کہ پٹرول، ہائی سپیڈ ڈیزل، فرنس آئل پر 2.5 روپے فی لیٹر کی شرح سے کاربن لیوی لگے گی جو مالی سال 2026 -27 میں پانچ فیصد کر دی جائے گی۔ اس کے علاوہ فرنس آئل پر پٹرولیم لیوی بھی وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ شرح کے مطابق عائد کی جائے گی۔ الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ دینے کی پالیسی کے تحت ایک لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے جو معدنی تیل استعمال کرنے والی گاڑیوں کی فروخت اور درآمد پر انجن کی طاقت کے مطابق مختلف درجوں پر عائد ہوگی۔ مالی سال26 ۔2025 تنخواہ طبقے کو ٹیکسوں میں میں ریلیف فراہم کر دیا گیا ہے، چھ لاکھ روپے سے 12 لاکھ روپے تک سالانہ آمدن والے تنخواہ دار طبقہ کے لیے ٹیکس کی شرح پانچ فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کر دی گئی ہے، 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن کے حامل تنخواہ دار کی پر ٹیکس کی موجودہ شرح 30 ہزار روپے ہے اسے کم کر کے چھ ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔ 22 لاکھ روپے سالانہ تک آمدن حاصل کرنے والے تنخواہ دار کے لیے کم سے کم ٹیکس کی شرح 15 فیصد کی بجائے 11 فیصد کر دی گئی ہے۔ 22 لاکھ سے 32 لاکھ روپے تک سالانہ تنخواہ لینے والوں کے لیے ٹیکس کی شرح 25 فیصد سے کم کر کے 23 فیصد کر دی گئی ہے۔ ملک سے برین ڈرین کو روکنے کے لیے ایک کروڑ روپے سے زیادہ آمدنی والے افراد پر سرچارج میں ایک فیصد کی کمی کر دی گئی ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کے لیے اس وقت پورے خطے میں زیادہ ہے۔ اس بوجھ میں کمی لانے کے لیے سپر ٹیکس کی شرحوں میں نظر ثانی کی گئی ہے۔ 20 کروڑ روپے سے 50 کروڑ روپے تک سالانہ آمدنی حاصل کرنے والی کارپوریشن کے لیے سپر ٹیکس کی شرح میں 0.5 فیصد کی کمی کی گئی ہے۔ جائیدادوں کی خرید وفروخت پر ٹیکس ریلیف دیدیا گیا۔ تعمیرات کے سیکٹر کو بھی پیکج دیا گیا ہے۔ جائیداد کی خریداری پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح چار فیصد سے کم کر کے 2.5 فیصد اور3.5 فیصد سے کم کر کے دو فیصد اور تین فیصد سے کم کر کے 1.5 کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ تعمیرات کے شعبے میں بوجھ کو مزید کم کرنے کے لیے کمرشل جائیدادوں، پلاٹس اور گھروں کی منتقلی پر گزشتہ سال سات فیصد تک کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی گئی تھی جسے ختم کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کے لیے قرض فراہم کرنے اور موڈ گیج کی حوصلہ افزائی کے لیے 10 مرلے تک کے گھروں اور2 ہزار سکوئر فٹ تک کے فلیٹس پر ٹیکس کریڈٹ متعارف کرا دیا گیا ہے۔ موڈ گیج فائنانسنگ کو پروموٹ کیا جائے گا اور ایک جامع نظام متعارف کرایا جائے گا۔ اسلام آباد کی حدود میں جائیداد کی خریداری پر سٹامپ پیپر پر ڈیوٹی چار فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ وفاق نے صوبوں سے سفارش کی ہے کہ وہ بھی غیر منقولہ جائیداد کی منتقلی پر عائد بھاری ٹیکسوں میں کمی کریں۔ بجٹ میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ سود کی آمدن پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دی جائے تاہم چھوٹے پیمانے پر بچت کرنے والے اور اس آمدن پر انحصار کرنے والوں پر اس شرح کا اطلاق نہیں ہوگا۔ یہ شرح قومی بچت کی سکیموں پر عائد نہیں ہوگی۔ میوچل فنڈز پر حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس کی شرح کو بڑھایا گیا ہے۔ یہ وضاحت کی گئی ہے کہ شیئر پر حاصل ہونے والے منافع کی شرح 15 فیصد رہے گی تاہم قرض کی بنیاد پر ہونے والی آمدنی پر اب 25 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا تاکہ حصص کی مارکیٹ میں میوچل فنڈز میں سرمایہ کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ حکومت نے پنشن سے آمدن حاصل کرنے والے افراد پر بھی کسی حد تک ٹیکس کا نفاذ کیا ہے۔ 70 سال سے کم عمر وہ پینشنر جو سالانہ ایک کروڑ روپے سے زائد پینشن وصول کر رہے ہیں ان کی ایک کروڑ روپے سے زائد پینشن کی آمدنی پر پانچ فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے تاکہ ٹیکس کی بنیاد رسمی کی جا سکے۔ حکومت کم اور درمیانے وصول کرنے والوں پر ٹیکس عائد کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی، کیش لیس معیشت فروغ دینے کے لیے بعض ٹیکس اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، نان فائلرز کے لیے نقد رقم نکلوانے پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح 0.6 فیصد سے بڑھا کر 0.8 فیصد کر دی گئی ہے، جہاں کوئی ٹیکس دہندہ کسی ایک سیل انوائس پر دو لاکھ روپے سے زیادہ رقم نقد وصول کرے تو اس فروخت پر ہونے والی اخراجات کے 50 فیصد کی اجازت نہیں دی جائے گی، انکم ٹیکس کی مد میں بعض اہم اقدامات کیے گئے ہیں، تجارتی جائیدادوں سے ہونے والی کرایہ کی آمدنی پر اب فیئر مارکیٹ ویلیو کے چار فیصد ویلیو کے چار فیصد کی معیاری شرح کی بنیاد پر تسلیم کی جائے گی، اپیلوں کا طریقہ کار بہتر بنایا گیا ہے۔ ٹیکس دہندگان اپنی اپیلیں کمشنر اپیل یا براہ راست اپیلٹ ٹریبونل کو دائر کر سکیں گے۔ کاروبار کی لاگت کو کم کرنے کے لیے اور موجودہ تجارتی طور طریقوں کو اپنانے کے لیے ٹیکس قوانین میں جہاں کراس چیک کا ذکر کیا گیا ہے وہاں ان میں آن لائن ٹرانزیکشن اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع سے کی جانے والی ادائیگیوں کو بھی شامل کر لیا جائے گا۔ انکم ٹیکس میں کلاسیفیکیشن سسٹم متعارف کروایا جائے گا جس میں فائلر اور نان فائلرز کے فرق کو ختم کر دیا جائے گا۔ جو افراد اپنے گوشوارے اور اپنی ویلتھ سٹیٹمنٹ جمع کرائیں گے وہی صرف بڑے مالیاتی لین دین کر سکیں گے جن میں گاڑیوں، غیر منقولہ جائیداد کی خریداری، سیکیورٹیز اور میوچل فنڈ میں سرمایہ کاری، بعض بینک اکاؤنٹس کھولنے کی سہولت شامل ہے۔ ان لوگوں کے لیے ضروری ہوگا کہ ایف بی آر کے پورٹل کے ذریعے اپنی مالی حیثیت، آمدنی، تحائف، قرضے اور وراثت جیسے مالی ذرائع کے دستاویزی ثبوت ظاہر کرے۔ دیانتدار ٹیکس دہندگان کو مالیاتی لین دین کرنے کا اہل ہونے کے لیے ٹیکس کا گوشوارہ بھرنے کا آپشن دیا جائے گا۔ اس طرح نان فائلرز کے لیے گاڑیوں، غیر منقولہ جائیداد کی خریداری، سکیورٹیز میوچل فنڈ اور بعض بینک اکاؤنٹس کھولنے کی سہولتیں ایک طرح سے ختم ہو جائیں گی۔ شیڈول بینکوں اور ایف بی آر کے درمیان بینکاری اور ٹیکس کے حوالے سے معلومات کے تبادلے کے لیے قوانین متعارف کرائے جا رہے ہیں جس سے خامیوں کی نشاندہی اور ٹیکس قوانین کی پاسداری بہتر ہو سکے گی۔ ایف بی آر کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ ٹیکس کی بنیاد وسیع کرنے اور انفورسمنٹ کو بہتر کرنے کے لیے بیرونی آڈیٹرز کی خدمات حاصل کرے، سیلز ٹیکس کی بابت میں بھی بہت اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔ درآمد شدہ اور مقامی طور پر تیار کردہ سولر پینلز کے درمیان مسابقت میں مساوات کو یقینی بنانے کے لیے تجویز ہے کہ سولر پینلز کی درآمدات پر 18 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے، یہ تجویزکیا گیا ہے کہ ای کامرس پلیٹ فارمز کی طرف سے سیل کرنے والے کوریئرز اور لاجسٹکس خدمات فراہم کرنے والے ادارے 18 فیصد کی شرح سے سیلز ٹیکس وصول کر کے جمع کرائیں گے، پیٹرول یا ڈیزل استعمال کرنے والی اور ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس میں یکسانیت لانے کے لیے یہ تجویز کیا گیا ہے کہ 18 فیصد ٹیکس سے کم شرح والی گاڑیوں پر بھی 18 فیصد عمومی سیلز ٹیکس عائد کیا جائے، کھاد اور کیڑے مار ادویات پر ٹیکس عائد نہیں کیا گیا۔ اس کے لیے آئی ایم ایف سے اجازت لی گئی ہے، سیلز ٹیکس میں ٹیکس کی چوری کو روکنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ غیر رجسٹرڈ کاروباری اداروں کے خلاف سخت سزاؤں کو مزید بڑھایا گیا ہے۔ ان میں بینک اکاؤنٹس کو منجمد کرنا، جائیداد کی منتقلی پر پابندی اور سنگین جرائم میں کاروباری جگہ کو سیل کرنے اور سامان کو ضبط کرنے کے اختیارات ایف بی آر کو دیے گئے ہیں، تاہم ان اختیارات کو بروئے کار لانے سے پہلے پبلک نوٹس متعلقہ نگران کمیٹی کے سامنے سماعت کا موقع دینا اور تیس دن کے اندر اپیل کا حق حاصل ہوگا، فنانس بل کے تحت ڈیجیٹل موجودگی سے حاصل شدہ آمدنی پر ٹیکس کا قانون متعارف کرایا گیا ہے جس کے تحت پاکستان کے دائرہ اختیار میں غیر ملکی تاجروں کی طرف سے فروخت کی گئی اشیاء اور خدمات پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت تمام ادارے بشمول بینک مالیاتی ادارے لائسنس یافتہ ایکسچینج کمپنیاں اور دیگر ادائیگی کے ذرائع اس بات کے پابند ہوں گے کہ وہ پاکستان میں باہر سے اشیاء اور خدمات فراہم کرنے والے غیر ملکی تاجروں کو کی جانے والی ڈیجیٹل ادائیگیوں پر پانچ فیصد ٹیکس وصول کریں۔ فیڈرل ایکسائز کی مد میں جو اقدامات کیے گئے ہیں ان میں جن اشیاء پر اصلی ٹیکس سٹیمپ یا بار کوڈ موجود نہ ہوں انہیں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے تحت فوری طور پر بحق کے سرکار ضبط کر لیا جائے گا۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے تحت انفورسمنٹ کو یقینی بنانے کے لیے چھوٹے شہروں اور دہی علاقوں میں صوبائی افسروں کو بعض ایس او پیز کے تحت اختیارات دیے جا رہے ہیں تاکہ بغیر ڈیوٹی تمباکو کی سمگلنگ پر قابو پایا جا سکے۔ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلی اور گرین انرجی پروگرام کے لیے مالی وسائل فراہم کرنے کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ پٹرول، ہائی سپیڈ ڈیزل، فرنس آئل پر 2.5 روپے فی لیٹر کی شرح سے کاربن لیوی لگے گی جو مالی سال 2026 -27 میں پانچ فیصد کر دی جائے گی۔ اس کے علاوہ فرنس آئل پر پٹرولیم لیوی بھی وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ شرح کے مطابق عائد کی جائے گی۔ بجلی کے میں گردشی قرضوں پر سرچارج کی ادائیگی کے حوالے سے بھی نیپرا ایکٹ میں ترمیم تجویز کی گئی ہے۔ تجویز میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے توانائی کے شعبہ پر ناقابل برداشت گردشی قرضوں کا بوجھ ہے جو گزشتہ مالی سال کے اختتام پر 2393 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ اس گردشی قرضے پر دو فیصد سے 5.4 فیصد تک مالیاتی چارجز عائد ہوتے ہیں اور مالی سال 202 میں اس کی متوقع لاگت 454 ارب روپے تک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ واقعی حکومت کا ارادہ ہے کہ موجودہ مہنگے قرضوں کی ری فائنانسنگ، سستے اور شریعت کے مطابق بینک فائنانسنگ کے ذریعے کی جائے۔ اس طرح موجودہ قرض کی ادائیگی کے لیے ڈیٹ سروسنگ سرچارج کو صرف منافع یا مارک اپ کے لیے نہیں بلکہ اصل قرض کی ادائیگی کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نیپرا ایکٹ میں ایک ترمیم تجویز کی جا رہی ہے جس سے وفاقی حکومت کو ڈی ایس ایس پر 10 فیصد سرچارج ادا کرنے کی پابندی کوکیس ٹو کیس بنیاد پر مخصوص مدت اور مقصد کے لیے بڑھانے کا اختیار حاصل ہو جائے گا۔ حکومت نے دو اور تین پہیوں والی الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کو فروخت دینے کے لیے انرجی وہیکل پالیسی تیار کی ہے۔ اس پالیسی کا مقصد پٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں کے بجائے الیکٹرک گاڑیوں کو ترجیح دینا ہے تاکہ ہمارے ماحول کو آلودگی سے بچایا جا سکے۔ اس پالیسی کے تحت گاڑیوں کی تیاری اور فروخت کو فروغ دینے کے لیے ایک لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے جو معدنی تیل استعمال کرنے والی گاڑیوں کی فروخت اور درآمد پر انجن کی طاقت کے مطابق مختلف درجوں پر عائد ہوگی۔گریڈ ایک سے 22 تک کے وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کی تجویز ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں سات فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ اہل ملازمین کو تیس فیصد کی شرح سے ڈسپیرٹی ریڈکشن الاؤنس دینے کی تجویز ہے۔ معذور ملازمین کیلئے خصوصی کنوینس الاؤنس 4 ہزار سے بڑھا کر 6 ہزار کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے آخر میں اپوزیشن سمیت تمام جماعتوں کو ملکی ترقی کیلئے ملکر چلنے کی دعوت دی۔ آن لائن کاروبار، ڈیجیٹل مارکیٹ پلیس، ڈیجٹیل سروسز، ای کامرس پلیٹ فارم، کوریئر سروس ڈیجیٹل پر منگوائی جانے والی اشیاء اور خدمات پر ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ ستر سال سے کم عمر وہ پینشنر جو سالانہ ایک کروڑ روپے سے زائد پینشن وصول کر رہے ہیں ان کی ایک کروڑ روپے سے زائد پینشن کی آمدنی پر پانچ فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کر دیا گیا۔ نان فائلرز کے لیے نقد رقم 50 ہزار نکلوانے پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح 0.6 فیصد سے بڑھا کر 0.8 فیصد کر دی گئی ہے، جو افراد اپنے گوشوارے اور اپنی ویلتھ سٹیٹمنٹ جمع کرائیں گے وہی صرف بڑے مالیاتی لین دین کر سکیں گے۔ آن لائن کاروبار ڈیجیٹل مارکیٹ پلیس، ای کامرس پلیٹ فارم کوریئر سروس ڈیجیٹل پر منگوائی جانے والی اشیاء اور خدمات پر ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ آن لائن مارکیٹ پلیس کوریئر سروس اور ادائیگی میں معاونت کرنے والے پر لازم ہوگا کہ وہ ہر ماہ ٹرانزیکشن ڈیٹا اور وصول کیے جانے والے ٹیکس کی رپورٹ جمع کرائیں۔ میوچول فنڈز پر حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس کی شرح کو بڑھایا گیا ہے۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد اور پنشن میں7 فیصد اضافہ کی تجویز دی گئی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کیلئے آمدنی کی تمام سلیب میں انکم ٹیکس کی شرح میں نمایاں کمی کی تجویز دی گئی ہے ۔گریڈ ایک تا سولہ کے ملازمین کو تیس فیصد ڈسپیرٹی الاؤنس دینے کی تجویز ہے۔ مجموعی خام ریونیو کا ہدف 19298 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔ اور خالص ریونیو کا ہدف 11072 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے۔ جبکہ ایف بی آر ٹیکس وصولی کا ہدف 14131 ارب رکھنے جبکہ نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5147 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے اور اگلے مالی سال میں اداروں کی نجکاری سے87 ارب حاصل کرنے کا ہدف تجویز کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئندہ مالی سال اقتصادی ترقی کی شرح 4.2 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ افراط زر کی شرح 7.5 فیصد، متوقع بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 3.9 فیصد، پرائمری سرپلس 2.4 فیصد، ایف بی آرکے محصولات کا تخمینہ 14 ہزار 131 ارب، صوبوں کا حصہ 8206 ارب، وفاقی نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5147 ارب روپے اور خالص آمدنی 11072 ارب روپے، وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 17 ہزار 573 ارب، گورننس کیلئے 11 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ معاشی اصلاحات کے ذریعے معاشی استحکام لایا گیا۔ معیشت کی بہتری کے لیے کئی اقدامات کیے، افراط زر میں نمایاں کمی ہوئی اور ترسیلات زر 10 ماہ میں 36 ارب ڈالر رہیں۔ مالی سال 2025-2026 کے لیے اقتصادی ترقی کی شرح4.2فیصد رہنے کا امکان ہے۔ افراط زر کی اوسط شرح 7.5فیصد متوقع ہے۔ برآمدات 35 ارب 80 کروڑ ڈالر، درآمدات کا ہدف 65 ارب 20 کروڑ ڈالر ہے۔ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 3.9فیصد، پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا 2.4فیصد ہوگا۔ وفاقی بجٹ میں ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ 14ہزار 131 ارب روپے ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ وفاقی بجٹ 2025-26ء غریب عوام کی مشکلات کو سامنے رکھ کر بجٹ تیار کیا گیا ہے۔ موجودہ حالات میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنرز میں اضافہ سے ان کی مالی مشکلات میں کمی آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین گزشتہ حکومت کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی کی چکی میں پس رہے تھے۔ انقلابی اقدامات کی وجہ سے ملکی معیشت کو استحکام ملا۔ موجودہ حکومت میں جب مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، قومی خزانہ خالی تھا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ دور حکومت میں ملک میں غربت کی شرح میں دن بدن اضافہ ہو رہا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں ملک بحرانی کیفیت سے نکل کر اب مکمل طور پر ترقی کے راستہ پر چل نکلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب ہماری توجہ معاشی استحکام، ترقی کی جانب مرکوز ہے۔ ہم اسی خلوص اور حوصلے کے ساتھ معیشت کو مستحکم اور عوام کی فلاح کو یقینی بنائیں گے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں ترقی کا سفر اور معاشی اصلاحات کا سفر کامیابی سے کیا اور معیشت کو استحکام بخشتے ہوئے مستقبل کو مضبوط بنایا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ایسی معیشت کی تشکیل چاہتے ہیں جس کا فائدہ براہ راست ہر طبقے کو ہو اور ہر شخص کی دہلیز تک ترقی پہنچے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے اس دورانیے میں ہر شعبے میں ترقی کی اور پر امید ہیں۔سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی اجلاس ہوا۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ تقریر میں کہا کہ یہ بجٹ تاریخی موقع پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ مخلوط حکومت کا دوسرا بجٹ ہے۔ پاکستان نے دشمن کے خلاف بے مثال کامیابی حاصل کی۔ ہماری افواج نے غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کو بھرپور جواب دیا۔ فائلنگ اور ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد میں 100 فیصد اضافہ ہوا۔ یکم جولائی سے 800 کالم والا ریٹرن سادہ فارمیٹ میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ سادہ ریٹرن فارمیٹ میں صرف 7 بنیادی معلومات درکار ہوں گی۔ یہ ریٹرن فارمیٹ بالخصوص تنخواہ دار ا ور چھوٹے کاروبار کے لئے متعارف کرایا جا رہا ہے۔ اس ریٹرن فارمیٹ کے بعد کسی وکیل یا ماہر کی مدد کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ٹیکنالوجی کے ساتھ انسانی وسائل پر بھی بھرپور توجہ دے رہے ہیں۔ معیشت کی بہتری کے لئے کئی اقدامات کیے۔ افراط زر میں نمایاں کمی ہوئی۔ وزیراعظم کی قیادت میں حکومت نے کئی اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ ترسیلات زر 10 ماہ میں 36 ارب ڈالر رہیں۔ سب سے اہم مسئلہ محصولات میں کمی تھی۔ پاکستان کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی صرف 10 فیصد تھی۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو 14 فیصد تک لانا ناگزیر تھا۔ کچھ لوگ منی بجٹ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے تھے، کوئی منی بجٹ نہیں آیا۔ ڈیجیٹل پروڈکشن ٹریکنگ کا آغاز چینی کے شعبے سے کیا گیا۔ اب سیمنٹ، مشروبات، کھاد اور ٹیکسٹائل تک ڈیجیٹل پروڈکشن ٹریکنگ کی توسیع کی جا رہی ہے۔ سرکاری خزانے سے بوجھ کم کرنے کے لئے پنشن سکیم میں اصلاحات کی ہیں۔ قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی حوصلہ شکنی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پنشن اضافہ سی پی آئی سے منسلک کیا جائے گا۔ ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کے لئے اس وقت خطرہ ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی ہماری بقاء کا مسئلہ ہے۔ ایک سال کی محنت کے بعد آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک ارب 40 کروڑ ڈالر فراہم کیے۔ حکومت پاکستان نے پہلے گرین سکوک کا بھی اجرا کیا ہے۔ یہ 40 ارب ڈالر عالمی بنک، آئی ایف سی کنٹری پارٹنر شپ کے تحت دیں گے۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی )آئندہ مالی سال کے فنانس بل کے تحت سیلز ٹیکس میں رجسٹریشن اور معاشی ڈاکومنٹیشن کے لیے سے سیکس ایکٹ میں سیکشن 4 اے سی 14 اے ڈی اور 14 اے ای متعارف کروائی گئی ہے جس کے تحت غیر رجسٹرڈ فرد کے لیے بنک اکاؤنٹ آپریشنز، غیر منقولہ جائیداد، بزنس احاطے کو سیل کرنے، پراپرٹی کو ضبط کرنے جیسے اقدامات کیے جا سکیں گے۔ اسی طرح پیٹ فوڈ جن میں کتوں اور بلیوں کی خوراک جو درآمد کی گئی ہو اور پیکنگ میں بیچی جائے، کافی جو ری ٹیل پیکنگ میں فروخت کے لیے پیش کی جائے، درآمدی چاکلیٹس جو ریٹیل پیکنگ میں فروخت کے لیے پیش ہوں اور درامدیز سیریل بارز جو ریٹیل پیکنگ میں فروخت کے لیے پیش ہوں ان پر سیلز ٹیکس لگے گا۔ منرل واٹر بھی مہنگا ہو گیا۔ اس وقت 850 سی سی موٹر کارز کی مقامی سپلائی پر 12.5 فیصد کے حساب سے سیلز ٹیکس نافذ ہے، اب اس سپلائی پر معمول کا سیلز ٹیکس لگے گا، سویوں اور شیر مال پر اس وقت 10 فیصد کا سیل ٹیکس ہے جسے بڑھا کر 18 فیصد کر دیا گیا ہے۔ بن اور رس کی مقامی سپلائی پر اس وقت 10 فیصد سے ٹیکس ہے جسے ختم کر دیا گیا ہے۔ فراز بل میں ایک نئی ترمیم کے تحت پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی طرف سے جہازوں کی درآمد یا لیز پر سیل ٹیکس پر چھوٹ دے دی گئی ہے، آئی ٹی اور آئی ٹی انیبلڈ سروسز کے سوا بعض مخصوص سروسز پر انکم ٹیکس کے ریٹ کو چار فیصد سے بڑھا کر چھ فیصد کر دیا گیا ہے۔ غیر مخصوص سروسز پر کا انکم ٹیکس کا فلیٹ ریٹ 15 فیصد ہو گا، سپورٹس پرسن پر انکم ٹیکس کا ریٹ 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کر دیا گیا ہے، ایک کروڑ روپے کی سالانہ پینشن پر کوئی ٹیکس نہیں لگے گا، نان فائلر کی طرف سے کیش نکالنے پر ود ہولڈ ٹیکس کا ریٹ 0.6 فیصد سے بڑھا کر 0.8 فیصد کر دیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں فائلرز کے لیے غیر منقولہ جائیداد پر سٹمپ ڈیوٹی ڈیوٹی کی شرح کو ایک فیصد پر برقرار رکھا گیا ہے تاہم نان فائلرز کے لیے سٹیمپ ڈیوٹی کی شرح چار فیصد سے کم کر کے دو فیصد کر دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں سروسز پر جی ایس ٹی کا نفاذ اب نیگٹو لسٹ کی بنیاد پر ہو گا، ایف بی آر ایک لسٹ جاری کرے گا جس میں ان سروسز کا ذکر ہوگا جن پر جی ایس ٹی نہیں ہے، باقی تمام سروسز پر جی ایس ٹی کا معمول کا ریٹ لگے گا۔ ایسی تمام گاڑیاں جو فرانزک میں یہ ثابت ہوں کہ ان کے چیسز نمبر ٹمپر کیے گئے ہیں انہیں سمگلڈ گاڑی سمجھا جائے گا اور اسے ضبط کیا جائے گا، خواہ وہ کسی موٹر رجسٹریشن اتھارٹی کے پاس رجسٹر ہی کیوں نہ ہو، کسٹم میں کسٹم کمانڈ فنڈ قائم کیا جائے گا، قانون کے تحت کمشنر انکم ٹیکس کو اس بات کا اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی شخص کے بنک اکاؤنٹ کے آپریشن کو روک سکے گا اور اسے ہدایت کر سکے گا کہ وہ قانون کے تحت خود کو رجسٹرڈ کرے۔ کمشنر کو اس بات کا اختیار بھی دے دیا گیا ہے کہ وہ غیر رجسٹرڈ شخص کی خریدی ہوئی پراپرٹی کی رجسٹریشن نہ کرنے کے لیے پراپرٹی رجسٹرنگ اتھارٹی کو ہدایت جاری کرے، غیر رجسٹرڈ فرض کیے بزنس حیات کو سیل کیا جا سکے گا، اس کی غیر منقولہ جائیداد کو ضبط کرنے کا اختیار ہو گا، انگلینڈ ریونیو کے تفتیشی افسر کو ٹیکس فراڈ کی تفتیش کے دوران بعض ٹھوس وجوہات کی بناء پر گرفتاری کا حق دے دیا گیا ہے تاہم افسر کو اس سلسلے میں کمشنر سے منظوری لینی ہوگی، فناس بل میں اہل پرسن کا تصور دیا گیا ہے۔ اہل پرسن وہ ہوگا جو انکم ٹیکس کی ریٹرن فائل کرتا ہو اور اس کی ویلتھ سٹیٹمنٹ کے اندر کافی مالی وسائل ظاہر کیے گئے ہوں، اس شخص کے فیملی ممبرز والدین، بیوی اور زیر کفالت بچے شامل ہوں گے، بل میں نااہل شخص کا تصور بھی دیا گیا ہے اس کے مطابق جو اہل نہیں وہ نااہل تصور ہو گا۔ تنخواہ دار طبقہ کو جو ریلیف فراہم کیا گیا ہے اس کے تحت 22 لاکھ روپے سے 32 لاکھ روپے سالانہ تک اس وقت ایک لاکھ 80 ہزار روپے کے علاوہ 22 لاکھ سے زائد آمدن کا 25 فیصد انکم ٹیکس ہے، اس کیٹگری میں اب نئی سلیب کے تحت انکم ٹیکس کا ریٹ ایک لاکھ 16 ہزار روپے 22 لاکھ سے زائد آمدن کا 23 فیصد انکم ٹیکس لگے گا۔ انکم ٹیکس کی سیکشن 236 سی کے تحت غیر منقولہ پراپرٹی کی فروخت اور ٹرانسفر پر ایڈوانس ٹیکس کا تعین کیا گیا ہے جہاں جائیداد کی قیمت 50، 50 ملین روپے تک ہو تو وہاں ایڈوانس ٹیکس کا ریٹ 4.5 فی صد ہوگا اور 50 ملین سے 100 ملین تک کی جائیداد پر پانچ فیصد ایڈوانس ٹیکس لگے گا، آئندہ مالی سال کے فنانس بل کے تحت کسٹم میں تین نئی ٹیرف سلیبز متعارف کرا دی گئی ہیں، جن کی شرح پانچ، 10 اور 15 فیصد مقرر کی گئی ہیں، جبکہ اس سے قبل کسٹم میں تین فیصد، 11 فیصد اور 16 فیصد کی ٹیرف سلیبز موجود تھی جنہیں ختم کر دیا گیا ہے، اس طرح کسٹم ڈیوٹی کی انتہائی حد جو پہلے 16 فیصد تھی اب کم ہو گئی ہے، اس سے درآمدی سامان میں کچھ ریلیف ملے گا، اس وقت 2201 ٹیرف لائنز پر زیرو کی ٹیرف لائن موجود ہے، اس کے دائرے میں مزید اشیاء کو شامل کر دیا گیا ہ۔ ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی کی شرح میں بھی کمی کر دی گئی ہے۔ اس سے درآمدات کی لاگت میں کمی آئے گی۔ کسٹم کی 518 ٹیرف لائنز جن پر 15 پرسنٹ کسٹم ڈیوٹی تھی، ان پر چار فیصد اضافی ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی لگتی تھی اب اسے دو فیصد کر دیا گیا ہے۔ 216 ٹیرف لائنز پر جن پر ٹیرف کا سلیب 20 فیصد تھا ان پر چھ فیصد کی ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی تھی جسے چار فیصد کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کسٹم ٹیرف کوڈ 54 کے تحت آنے والی تمام اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی کو ختم کر دیا گیا ہے، جبکہ ریگولیٹری ڈیوٹی کا زیادہ سے زیادہ ریٹ 90 فیصد سے کم کر کے 50 فیصد کر دیا گیا ہے،کسٹم کے بعد میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ ایک سینٹرلائزڈ اسیسمنٹ یونٹ بنایا جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ ایک سینٹرلائزڈ ایگزامینیشن یونٹ بھی تشکیل دیا جائے گا، اس کا مقصد شفافیت پیدا کرنا ہے، بل کے تحت یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ ڈیجیٹل انفورسمنٹ یونٹس قائم کیے جائیں گے جو تمام اہم مقامات پر ہوں گے اور ان کا مقصد سمگلنگ کے خلاف آپریشنز کو مستحکم کرنا ہے،کارگو کی شفافیت کے ساتھ موومنٹ کو چیک ضوکرنے کے لیے وکارگو ٹریکنگ سسٹم متعارف کرا دیا گیا ہے، درآمد کنگ کو یہ سہولت دے دی گئی ہے کہ وہ ڈیوٹی اور ٹیکسز ایڈوانس ادا کیے جی ڈی فائل کر سکتے ہیں، بندرگاہوں پر پڑے ہوئے انکلیمڈ سامان کو نہ اٹھانے پر پینلٹی عائد کر دی گئی ہے۔ ایک نئی کسٹم آکشن ڈائریکٹریٹ بنائی جائے گی، جبکہ کسٹم کے اندر ایک نئی ڈائریکٹریٹ آف کمیونیکیشن اینڈ پبلک ریلیشنز بھی قائم کی جائے گی، ای کامرس پر اس وقت ایک فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس عائد ہے اس سے بڑھا کر دو فیصد کر دیا گیا ہے۔ ڈیجیٹل پیمنٹس پر جو بنکوں فائنانشل اداروں ایکسچینج کمپنیوں اور پیمنٹ گیٹ ویز کے ذریعے ہوں گی، ان پرسیلز ٹیکس لگے گا، اس کے علاوہ ود ہولڈنگ ٹیکس کا ریٹ ایک فیصد سے بڑھا کر دو فیصد کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پٹرول اور بجلی مہنگی ہونے کا خدشہ ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق وفاقی بجٹ میں گردشی قرضوں کی ادائیگی کیلئے 10 فیصد سرچارج عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے فنانس بل کے مطابق حکومت کو سرچارج کا ریٹ بڑھانے کا اختیار بھی حاصل ہو گا۔