WE News:
2025-09-18@20:06:51 GMT

اہم شخصیت سے ملاقات، پس منظر اور پیش منظر

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

ہمارے ہاں دیہاتوں میں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں کسی شک شبہے میں یا کسی تفتیش کے چکر میں تھانے والے بلاتے ہیں، وہاں ان سے تھانے والے اپنے روایتی انداز میں’ تفتیش‘ کرتے ہیں، جب وہ کپڑے جھاڑتے ہوئے تھانے سے نکلتے ہیں، واپس گاؤں میں پہنچتے ہیں، گاؤں والے پوچھتے ہیں کہ خیر کا معاملہ رہا؟ وہ اپنی لُنگی کو درست کرتے ہوئے، مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہتے ہیں’ چوہدری صاب ( تھانے دار) نے بلایا تھا، ایک کیس کے سلسلہ میں مشورہ کرنا تھا۔‘ یہ الگ بات ہے کہ سوال کرنے والوں کو بھی خوب علم ہوتا ہے کہ تھانے دار نے مشورہ کے لیے نہیں، ’تفتیش‘ کے لیے بلایا ہوگا، پولیس والوں نے اپنے تمام تر روایتی حربے استعمال کرتے ہوئے خوب ’تفتیش‘ کی ہوگی۔

شاید اس قسم کے لوگ ہمارے ہاں ہی ہوتے ہیں، یہ ہمارے معاشرے میں تفنن طبع کا ایک اہم ترین ذریعہ ہیں۔ یہ لوگ نہ ہوں تو باقی لوگوں کو منہ چھپا کر کھی کھی کرنے کا موقع میسر ہی نہ آئے۔ گزشتہ روز یہ لوگ مجھے بے طرح سے یاد آئے۔ کیوں اور کیسے؟ تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے۔

کل صبح سویرے ایک ٹیلی ویژن چینل پر ذرائع سے خبر چل رہی تھی کہ پشاور میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور ایک اعلیٰ ترین شخصیت کے مابین مذاکرات ہوئے ہیں۔ یہ خبر دیکھتے ہی اندازہ ہوا کہ ذرائع جس ’اعلیٰ شخصیت‘ کا ذکر رہے ہیں، وہ کون ہوسکتی ہے۔ خبر کے مطابق یہ ملاقات پیر کے روز ہوئی تھی۔ پی ٹی آئی رہنما پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور تھے۔

بیرسٹر صاحب اسلام آباد میں تھے جب انھیں پشاور میں طلب کیا گیا۔ انھیں جیسے ہی یہ پیغام ملا،  وہ ہواؤں کے دوش پر پشاور پہنچنے کو تیار ہوگئے کہ محبوب کے قدموں میں فوراً سے پیشتر پہنچنا چاہتے تھے۔ جب وہ پشاور کی طرف عازم سفر تھے تو ان کے چہرے پر ویسی ہی مسکراہٹ تھی جیسی ان کے قائد عمران خان کے چہرے پر تھی، جب دو ہزار چودہ کے دھرنے کے دوران میں انھیں اُس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بلایا تھا، اور وہ کار کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر محبوب سے ملنے کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ عمران خان کے چہرے پر ویسی مسکراہٹ نہ کسی نے پہلے دیکھی تھی نہ ہی اس کے بعد۔ یقیناً آج بھی وہ تصویر گوگل فوٹوز میں مل جائے گی۔

دس اپریل دو ہزار بائیس کو جب جناب عمران خان ایوان اقتدار سے بے دخل ہوئے تھے، تب سے انھوں نے پہلے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے رابطے کی کوششیں کی، پھر اگلے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے۔ ان رابطوں کی کوششوں کا سارا احوال خود جناب عمران خان کے بیانات سے آشکار ہوجاتا ہے۔ وہ خود بتایا کرتے تھے کہ انھوں نے بارہا رابطے کی کوشش کی لیکن دوسری طرف سے مکمل خاموشی ہوتی ہے۔ میجر کی سطح سے اوپر کا کوئی افسر اُن سے بات کرنے کو تیار ہی نہ تھا حتیٰ کہ وہ جیل میں قید کرلیے گئے۔

عمران خان کی گرفتاری کو پونے دو برس بیت چکے ہیں۔ اس دوران میں پی ٹی آئی کی دوسری سطح کی لیڈرشپ نے افسروں سے رابطے کی ہزار بار خواہش کی لیکن وہ اس خواہش سے زیادہ کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ ظاہر ہے کہ جو افسر پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین سے بات کرنے کو تیار نہ تھے، وہ پی ٹی آئی کی دوسری سطح کی لیڈرشپ سے کیسے بات کرسکتے تھے۔

پی ٹی آئی کے رہنما ایک تسلسل سے لوگوں کے سامنے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ سے بات ہو گئی ہے، جلد ہی شہباز شریف حکومت کی چھٹی ہوجائے گی۔ اسد قیصر بڑے تیقن سے کہتے رہے کہ دسمبر دو ہزار چوبیس میں حکومت کی رخصتی دیکھ رہا ہوں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، نہ ہی کچھ ہونے کا فوری امکان ہے، شاید اگلے چار برس میں بھی نہیں۔ اس تناظر میں جب عمران خان کے کارکن چیئرمین بیرسٹر گوہر کو  پشاور سے ’چوہدری صاب‘ کا بلاوا آیا،  پھر ان کی پشاور کی طرف دوڑیں لگتے صاف طور پر دیکھی جاسکتی ہیں۔

میں نے کہیں ایک کہانی پڑھی تھی، کہاں پڑھی تھی اور کس کی لکھی ہوئی تھی، بالکل بھی یاد نہیں۔ ورنہ میں وہ پوری کہانی یہاں بیان کرتا۔ کہانی بہت مزے کی تھی۔ خلاصہ یہ ہے کہ مالی طور پر کمزور ایک نوجوان اپنے چھوٹے سے گھر میں رہتا تھا۔ اس کے گھر کے سامنے ایک بڑا گھر تھا جہاں ایک خوبصورت دوشیزہ بھی رہتی تھی۔ جب وہ گھر کی پہلی منزل سے  گلی میں جھانکتی تو مالی طور پر کمزور نوجوان اسے دیکھ کر آہیں بھرا کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ اسی انتظار میں ہوتا تھا کہ وہ کب سامنے آئے، اور اس کا دیدار ہو۔

اس یکطرفہ عشق کو مہینوں بیت گئے، لیکن ’محبوبہ‘ سے کبھی بات تو درکنار، روبرو ہونا بھی نصیب نہ ہوا۔ ایک روز  جب ’محبوب‘ چوری چوری ’محبوبہ‘ کا دیدار کر رہا تھا، ’محبوبہ‘ نے اس کی چوری پکڑ لی۔ اس نے ’محبوب‘ کو اشارہ کیا کہ وہ اس کے  گھر کے مرکزی دروازے پر آئے۔ ’محبوب‘ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اسے یقین ہوگیا کہ بالآخر ’محبوبہ‘ اس کے عشق سے متاثر ہوگئی۔ اب ’محبوبہ‘ اسے کیا کہے گی، یہ بھی کوئی مشکل سوال نہ رہا تھا۔

 جب ’محبوب‘ مرکزی دروازے پر پہنچا، ’محبوبہ‘ نے اس کا حال احوال پوچھا، اس کی زندگی کے بارے میں کچھ سوالات پوچھے۔ ’محبوب‘ کو مزید یقین ہوگیا کہ ’ محبوبہ‘ گھائل ہوگئی ہے۔ اس کی زندگی کے بارے میں سوالات پوچھنے کا کوئی دوسرا مقصد نہیں ہو سکتا۔ دونوں کے مابین کافی دیر گفتگو رہی۔ پھر ’محبوبہ‘ کہنے لگی کہ مجھے اب تم سے ایک کام ہے۔ ’محبوب‘ نے وفور مسرت سے  فی الجملہ کام سرانجام دینے کی ہامی بھر لی۔

دوشیزہ نے کہا کہ وہ کچھ دنوں کے لیے کسی سفر پر جا رہی ہے، اس کی غیر موجودگی میں، وہ  اس کے پالتو کتے کی دیکھ بھال کرے۔ اور پھر حسین و جمیل لڑکی کی غیر موجودگی میں’محبوب‘ کتے کی دیکھ بھال  کا حق ادا کرنے لگا۔ جب ’محبوبہ‘ واپس آئی تو وہ ایک بار پھر اپنے پالتو کتے کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگی اور ’ محبوب‘ سے بالکل انجان بن گئی۔ کہانی شاید اس سے کچھ زیادہ تھی۔ لیکن آپ اسی پر اکتفا کیجیے اور اس لمحہ کو چشم تخیل سے دیکھیے جب دوشیزہ نے یکطرفہ محبوب کو مرکزی دروازے پر بلایا تھا ، اور پھر یکطرفہ محبوب کی خوشی کو بھی محسوس کیجیے۔ اور پھر بیرسٹر گوہر خان کی خوشی کو محسوس کیجیے جب وہ پشاور جا رہے تھے۔

خیر! وہاں سے واپس ہوئے تو ان کی ملاقات اڈیالہ جیل میں جناب عمران خان سے ہوئی۔ جہاں لیڈر نے بیرسٹر گوہر خان کو سمجھایا کہ میڈیا کو  کیسے اس ملاقات کا احوال بتانا ہے۔ چنانچہ ’ذرائع‘ نے رپورٹرز کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بتایا کہ ملاقات میں عمران خان کو ملک کی موجودہ صورتحال اور درپیش چیلنج سے آگاہ کرنے کے بارے میں بھی بات ہوئی، ملاقات میں تمام معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا گیا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ بیرسٹر گوہر نے اہم شخصیت سے ہونے والی بات چیت سے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو آگاہ کر دیا، اب اگلے تین دن میں ملاقات کے اثرات نظر آنے کا امکان ہے۔

تین دن میں ملاقات کے اثرات کیا نظر آنے تھے، تین گھنٹوں بعد ہی نظر آگئے جب میڈیا کے سامنے اس ملاقات کا اصل احوال پہنچ گیا۔معلوم ہوا کہ ملاقات میں بیرسٹر گوہر اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کے ساتھ صرف خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورت حال پر بات ہوئی تھی۔ شریف النفس بیرسڑ  کو اس ملاقات میں اس لیے شامل کیا گیا تھا کہ وہ پارٹی چیئرمین ہیں۔

موقع کو غنیمت جانتے ہوئے جب بیرسٹر گوہر خان نے سیاسی معاملات پر گفتگو کرنے کے لیے لب کھولے تو انھیں کہا گیا کہ یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے، سیاسی گفتگو صرف سیاست دانوں سے کریں۔ اس دوران وزیراعلیٰ نے بیرسٹر کو عجب مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا، گویا کہہ رہے ہوں ’ کہا تھا نا کہ اس طرح کی بات یہاں نہ کرنا۔‘ اور بیرسٹر شرمندہ ہوکر زمین پر بچھے قالین کو دیکھنے لگے۔

ابھی تو گاؤں کے لوگوں نے پوچھا ہی نہیں تھا کہ ’تھانے‘ کیوں گئے تھے؟ پی ٹی آئی والے خود ہی بتا رہے ہیں کہ چوہدری صاب نے بلایا تھا، کسی کیس کی بابت مشورہ کرنا تھا۔ وہ توبھلا ہو تھانے والوں کا، کہ انھوں نے بتا دیا کہ تھانے میں کیا ہوا تھا۔

اس تحریر کے اختتام پر مجھے تحریک انصاف کے ’نظریہ سول سپریمیسی‘ پر بات کرنا تھی، اس کے ’نظریہ خالص جمہوریت‘ پر کچھ عرض کرنا تھا لیکن میرا خیال ہے کہ اس کی اب ضرورت باقی نہیں رہی۔ سب کچھ لوگوں پر عیاں ہوچکا ہے۔

بدقسمتی سے دوسری جماعتوں سے مختلف ہونے کا دعویٰ کرنے والی تحریک انصاف بھی اصل میں محبوب کے دیدار کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ جی ہاں! کچھ بھی۔

مفلوک الحال محبوب کو محبوبہ نے  وصل کا موقع عطا نہ کیا تو اس نے اسی پر اکتفا کرلیا تھا کہ ’تو نہیں تو تیرا کتا ہی سہی‘۔ اور کتے کو نہلانا، آغوش میں لینا اور چومنا شروع کردیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبیداللہ عابد

اردو کالم بشریٰ بی بی بیرسٹر گوہر خان پاکستان تحریک انصاف پشاور عبید اللہ عابد عمران خان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اردو کالم بیرسٹر گوہر خان پاکستان تحریک انصاف پشاور عبید اللہ عابد پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر خان تحریک انصاف کے عمران خان کے ملاقات میں پی ٹی ا ئی کو تیار سے بات کے لیے تھا کہ

پڑھیں:

پاکستان اور چین کی دوستی وقت کی ہر آزمائش پر پوری اتری، صدر آصف علی زرداری

سنکیانگ میں سیکرٹری کمیونسٹ پارٹی سنکیانگ کا صدر پاکستان سے ملاقات میں کہنا تھا کہ سنکیانگ خوشحالی اور پائیدار امن کا مرکز بن چکا ہے، جی ڈی پی 5.6 کھرب یوان سے تجاوز کر گیا ہے، ‏سنکیانگ انتہا پسندی کی بنیادی وجوہات پر قابو پانے اور سماجی ترقی کے لئے اقدامات کر رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کہا کہ پاکستان اور چین کی دوستی وقت کی ہر آزمائش پر پوری اتری ہے، چین کے ساتھ بہترین تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہے۔ صدر آصف علی زرداری سے سیکرٹری کمیونسٹ پارٹی سنکیانگ چن شیاوجیانگ کی ملاقات ہوئی، ملاقات میں گورنر سنکیانگ ارکن تونیاز بھی موجود تھے، سیکرٹری کمیونسٹ پارٹی سنکیانگ نے صدر مملکت کا خیرمقدم کیا۔ صدر آصف زرداری نے کہا کہ چین کے عوام کی یکجہتی اور سنکیانگ کی ترقی متاثر کن ہے، چین کے ساتھ زراعت، صنعت، نئی ٹیکنالوجی کےشعبوں میں تعاون بڑھائیں گے۔

‏‏صدر زرداری نے کہا ‏پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے چین کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا، اُمید ہے دونوں ممالک کے عوام جلد ایک دوسرے کے ممالک سڑک کے ذریعے آسانی سے سفر کر سکیں گے۔ ملاقات میں سینیٹر سلیم مانڈوی والا، سندھ کے وزیر توانائی ناصر شاہ، پاکستان اور چین کے سفراء بھی شریک تھے۔ اس موقع پر چن شیاوجیانگ نے کہا صدر زرداری نے فروری 2025ء میں بیجنگ میں صدر شی چن پنگ سے ملاقات کی تھی اور اہم معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے، ‏حالیہ دورہ وزیراعظم شہباز شریف کے موقع پر سی پیک کے دوسرے مرحلے کی رفتار تیز تر ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ سنکیانگ خوشحالی اور پائیدار امن کا مرکز بن چکا ہے، جی ڈی پی 5.6 کھرب یوان سے تجاوز کر گیا ہے، ‏سنکیانگ انتہا پسندی کی بنیادی وجوہات پر قابو پانے اور سماجی ترقی کے لئے اقدامات کر رہا ہے۔ چن شیاوجیانگ کا کہنا تھا کہ ‏پاکستان اور چین کے درمیان 8 سسٹر سٹی معاہدے ہیں جن میں ارومچی اور پشاور بھی شامل ہیں، ‏پاکستان اور چین دہشتگردی اور علیحدگی پسندی کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی پر کاربند رہیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور چین کی دوستی وقت کی ہر آزمائش پر پوری اتری، صدر آصف علی زرداری
  • وزیرتجارت کی ایران کے وزیر زراعت غلام رضا نوری سے ملاقات، دونوں ممالک کے درمیان زرعی تعاون بڑھانے پراتفاق
  • بانیٔ پی ٹی آئی سے کسی پارٹی رہنما کی ملاقات نہ ہو سکی
  • پانی کی لائن ٹوٹنے سے یونیورسٹی روڈ دریا کا منظر پیش کرنے لگی
  • سعودی ولیعہد سے علی لاریجانی کی ملاقات
  • صدر زرداری کی چینی کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری سے ملاقات
  • وزیراعظم کی   آج سعودی ولی عہدسے اہم ملاقات طے
  • زیارت سے اغوا ہونے والے اسسٹنٹ کمشنر اور بیٹے کی ویڈیو منظر عام پر، رہائی کے لیے مطالبات تسلیم کرنے کی اپیل
  • کراچی؛ پانی کی لائن ٹوٹنے سے یونیورسٹی روڈ دریا کا منظر پیش کرنے لگی
  • برطانیہ میں کسی کو رنگ یا پس منظر کی وجہ سے خوفزدہ نہیں ہونے دیا جائے گا: کیئر اسٹارمر