Daily Ausaf:
2025-07-26@07:10:32 GMT

امام اہلسنت حضرت مفتی احمدالرحمن نوراللہ مرقدہ

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

اپنے محسنوں کی یاد منانا زندہ قوموں کا شیوہ رہا ہے، جو قوم اپنے محسنوں کو بھول جائے زمانہ اسے اپنی ٹھوکروں پہ رکھ لیا کرتاہے ،ان کا شمار بھی اس قوم کے محسنوں میں ہوتا ہے،وہ چونکہ خود بھی صوفی باصفا عالم باعمل اور دین اسلام کے سچے سپوت تھے،اس لئے ان کے عہد اہتمام میں ان کے جامعہ سے پڑھ کر نکلنے والے اسلامی اسکالرز اور علماء نے علم کی دولت بانٹنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو حریت و آزادی کے نغمے بھی سنائے ،وہ جامعہ بنوری ٹائون کے ایسے جرات و غیرت والے مہتمم بالشان تھے کہ ان کے بعد ان جیسا نہ دیکھا اور نہ ہی سنا،ان کی وفات کو 33 برس بیت گئے ، لیکن 33 برس قبل انہوں نے مجھ جیسے گہنگار پر جو شفقتیں فرمائیں، وہ آج بھی مجھے یاد ہیں وہ علم و تصوف اور جہاد کا حسین امتزاج تھے، ہزاروں علماء کے استاد اور مجاہدین کے روحانی باپ تھے ، انسانیت کا درد رکھنے والے امام اہلسنت مفتی احمد الرحمن نور اللہ مرقدہ کے حوالے سے ان کے فرزند ارجمند عزیزم مفتی حذیفہ رحمانی نے بالکل درست لکھا کہ ’’حضرت مفتی احمد الرحمن کی پیدائش 6 رجب کی اور وفات 14 رجب کی ہے، یہ آٹھ روز کا سفر ان کا مظاہرالعلوم سہارنپور کے علمی اور روحانی مرکز سے شروع ہوکر 52 سال کے بعد عالم اسلام کے بین الاقوامی مرکز جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹائون میں ناناجان محدث العصر علامہ سید محمددیوسف بنوری نوراللہ مرقدہ کے ’’حیاومیتا‘‘ جانشین کے خطاب کے ساتھ ایسا اختتام پذیر ہوا کہ تاقیامت اپنے شیخ و مربی کے پہلو میں ان کو محواستراحت کردیا۔‘‘
حضرت یوسف بنوری ؒکی دوراندیش نظر و فراست نے نوجوانی میں ان کی صلاحیتوں کو پہچان کر ان کو اپنا جانشین بنایا، پھر دنیا نے مدرسہ عربیہ اسلامیہ کو جامعہ علوم الاسلامیہ اور نیوٹائون کوعلامہ بنوری ٹائون بنتے دیکھا اور اب دنیا اس ادارے کو جامع العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹائون کے نام سے تاقیامت یاد کرے گی۔چودہ سال کے قلیل عرصے میں ’’مدرسہ عربیہ اسلامیہ‘‘ جہاں’’جامعہ علوم اسلامیہ‘‘ کے نام سے تمام دینی علوم اور تحریکات کا عالمی مرکز بنا، وہیں پاکستان اور بیرون کے سینکڑوں مدارس و مکاتب کے وجود میں آنے کا ذریعہ بن گیا، یہ سب حضرت بنوریؒ کے اخلاص کا ثمرہ اور ان کی نظر فراست کا نتیجہ ہے، 14 رجب المرجب 1411ھ اکتیس جنوری 1991ء کا دن مفتی احمد الرحمن کی رحلت کی خبر غم لئے طلوع ہوا، ہر فرد اس ناگہانی خبر سے غم میں ڈوب ڈوب چکا تھا، کوئی اس خبر کو جھٹلانا چاہ رہا تھا، لیکن قضا آ چکی تھی، فیصلہ ہو چکا تھا، وہ دن والد صاحب کی میت حتیٰ کہ قبر میں اترتے دیکھ کر بھی ایک سات سال کے بچے کے لئے چھٹی کے دن اور ایک ایونٹ کے سوا کچھ نہ تھا، جو یتیم ہونے کو مطلب نہیں سمجھتا تھا، لیکن گزرتے وقت نے اس کو سارے معانی سمجھا دئیے کہ باپ بچھڑ جانا اور سر سے اس کے سایہ کے اٹھ جانے کا مطلب تپتی دھوپ، چبھتے کانٹوں اور اندھیرے راستوں کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن اللہ کی بھی اپنی شان ہے، اس نے والد مرحوم کی دعائوں کا ثمرہ ہمیں عطا فرمایا۔ والد صاحب اپنے شیخ و سسر حضرت المحدث البنوریؒ کے حکم پر جب سب کچھ قربان کردیتے ہیں اور دنیا بے سروسامانی کے عالم میں رخصت ہوتے ہیں تو یہ صرف ان کے لئے دنیا و آخرت کے سرخروئی ہی کا باعث نہیں بنا بلکہ ان کی اولاد کی دینی تعلیم و تربیت کا باعث بنا، فللہ الحمد، مفتی احمد الرحمنؒ ، حضرت حکیم الامت ؒکے خلیفہ اجل، تلمیذ شیخ الہند و سہارنپوری حضرت مولانا عبدالرحمن کاملپوریؒ کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے اور سہارنپور میں 6 رجب 1358ھ مطابق 22 اگست 1939ء کو پیدائش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم وہاں اور پھر تقسیم کے بعد دادا جان کی سرپرستی میں خیر المدارس اور تعلیم القرآن راولپنڈی میں رہی اور 1958-59ء میں تکمیل و تخصص کے لئے حضرت اقدس عبد الرحمن کاملپوری نے کراچی حضرت بنوریؒ کے پاس بھیجا تو فرمایا کہ اپنا بیٹا آپ کے سپرد کر رہا ہوں اور حضرت بنوریؒ نے جب والد صاحب کو دامادی کے لئے چنا تو مولانا کا ملپوریؒ کے پاس گئے اور فرمایا کہ لوگ بیٹی لینے آتے ہیں، میں بیٹا لینے آیا ہوں۔
مفتی احمد الرحمن پر اپنے استاذ و شیخ کا بہت اثر تھا اور ان کی عقیدت، محبت اور احترام کا اندازہ کچھ احوال و واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔حذیفہ رحمانی لکھتے ہیں کہ والد اور والدہ دونوں پشتو گھرانے سے تھے، لیکن شادی تک والدہ صاحبہؒ کو پشتو نہیں آتی تھی، فرماتی تھیں کہ میرے سامنے کوئی پشتو میں بات کرتا تو مجھے سکتہ سا ہوجاتا، اسی بنا پر نانا جان حضرت بنوریؒ نے والد صاحب سے فرمایا کہ اس کے ساتھ اردو میں بات کرنا، اس کو پشتو نہیں آتی، بعد میں والدہ صاحبہ کو پشتو آبھی گئی، لیکن عام انداز و لہجے میں بطور مشورہ شیخ و استاذ کے منہ سے نکلی بات کو تادم مرگ، حکم سمجھ کر اپنے لئے باعثِ سعادت سمجھا اور بعد میں والدہ صاحبہ کو پشتو آجانے کے باوجود ان کے ساتھ پشتو میں بات نہیں کی۔شیخ کی محبت اور عقیدت تھی کہ چھوٹے ماموں جان جامعہ کے موجودہ مہتمم استاذ حضرت سید سلیمان بنوری دامت برکاتہم العالیہ کی تکمیل قرآن مجید کی ایسی عظیم الشان تقریب والد صاحب نے منعقد کی کہ جامعہ میں نہ اس سے پہلے کسی کے لئے ایسی تقریب ہوئی اور نہ شائد آئندہ ہوسکے اور والد صاحب کا خوشی سے تمتماتا چہرہ ان کے حوالے سے میری چند یاد داشتوں میں آج بھی محفوظ ہے۔
حضرت یوسف بنوریؒ نے کبار اساتذہ و مشائخ سے مشاورت اور استخارہ کر کے مفتی احمد الرحمن کو جب اپنا جانشین مقرر کیا تو ساتھ ہی یہ حکم بھی تحریر فرمایا کہ آپ کو سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنی ہوگی، والد صاحب نے شیخ کے حکم کی تعمیل میں سب کچھ چھوڑ کر جامعہ کے لئے جو اس وقت مدرسہ عربیہ اسلامیہ تھا، اپنے آپ کو وقف کردیا، پھر یہ مدرسہ عربیہ اسلامیہ جامعہ علوم اسلامیہ میں عالمی مرکز بن کر ابھرا اور جب کچھ بدخواہوں کو نام و نسبتِ بنوری سے چِڑ ہونے لگی تو والد صاحب نے نہ صرف علاقے کا نام نیو ٹائون سے علامہ محمد یوسف بنوری ٹائون کروایا بلکہ پوری دنیا میں اس نام و نسبت سے مراکز دینیہ کا قیام فرما کر شیخ کے نام کو چار دانگ عالم میں پھیلا دیا۔جامعہ کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا امداد اللہ یوسفزئی دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ سواد اعظم تحریک میں باوجود بڑے بڑے نامور علماء و صلحاء کے مفتی صاحب ؒ جیسی کوئی ایسی شخصیت نہ تھی جن پر سب کے سب متفق ہوتے، اسی لئے متفقہ طور پر علماء کی طرف سے حضرت مفتی صاحب کو امام اہلسنت کے لقب سے نوازا گیا تھا مولانا عزیز الرحمن رحمانی جو حضرت مفتی احمد الرحمن کے بڑے صاحبزادے اور جانشین ہیں، کو مفتی احمد الرحمنؒ نے وفات سے تقریباً ایک ہفتہ قبل جو وصیت فرمائی میں سے ایک کا ذکر اس لئے ضروری ہے تاکہ آج کے ماحول میں دین کا کام کرنے والے بھی اس سے نصیحت حاصل کر سکیں، فرمایا کہ ’’دین کا کام کرنا چاہتے ہو تو اختلافات سے بچ کر کام کرنا، تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اختلافات میں الجھ کر دین کی محنت کماحقہ نہیں ہو پاتی‘‘ اللہ تعالیٰ حضرت رحمہ اللہ کے درجات بلند فرمائے ان کی قبر کو روضۃ من ریاض الجنہ بنائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مدرسہ عربیہ اسلامیہ بنوری ٹائون جامعہ علوم حضرت مفتی والد صاحب کے ساتھ کو پشتو کے لئے

پڑھیں:

بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن

اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دہشتگردی، کشمیر، فاٹا کے انضمام اور سود کے خاتمے سے متعلق حکومت کی پالیسیوں پر اپنے تحفظات اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا مسئلہ 11 ستمبر کے بعد نہیں بلکہ 40 سال سے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ علما کی جانب سے امریکا کے افغانستان پر قبضے کے باوجود پاکستان میں مسلح جدوجہد کو ناجائز قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوج نے مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف کئی آپریشن کیے، جن کی وجہ سے آج بھی لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اب دوبارہ لوگوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ شہر خالی کر دیے جائیں، اور سوال اٹھایا کہ جو لوگ افغانستان گئے تھے، وہ واپس کیسے آئیں گے۔ انہوں نے دہشتگردی کے خاتمے میں سیاسی ارادے کی کمی پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بھارت کو 4 گھنٹے میں شکست دے دی گئی لیکن دہشتگردی کو 40 سال سے شکست کیوں نہیں دی جا سکی۔

مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمن نے بھی 28 اگست کی ملک گیر ہڑتال کی حمایت کردی

کشمیر کے حوالے سے انہوں نے پاکستان کی پالیسی پر نکتہ چینی کی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کشمیر پر پاکستان مسلسل پیچھے ہٹتا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے کردار اور کشمیر کمیٹی کی صدارت کے حوالے سے کہا کہ انہیں کہا جاتا تھا کہ انہوں نے کشمیر کمیٹی کے لیے کیا کچھ کیا، لیکن اب کئی برس سے وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نہیں، تو سوال اٹھتا ہے کہ اب کیا کیا گیا؟

انہوں نے کشمیر کی 3 حصوں میں تقسیم، جنرل پرویز مشرف کے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھے ہٹنے کے فیصلے اور 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے پر قرارداد میں اس کا ذکر شامل نہ ہونے پر سوالات اٹھائے۔ فاٹا کے انضمام پر بھی حکومت کی حالیہ پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ فاٹا کے لوگوں پر فوج اور طالبان دونوں کے ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔

فلسطینی حماس کے رہنما خالد مشعل کے فون کال کا ذکر کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر پاکستان جنگ میں مدد نہیں کر سکتا تو کم از کم انسانی امداد میں کردار ادا کرے۔

مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی وعدے سے نہ پھرتی تو الیکشن بروقت ہو جاتے، مولانا فضل الرحمن

سود کے خاتمے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جمیعت علمائے اسلام نے 26ویں آئینی ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبردار کرایا اور مزید 22 نکات پر مزید تجاویز دیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے 31 دسمبر 2027 کو سود ختم کرنے کی آخری تاریخ دی ہے اور آئندہ یکم جنوری 2028 تک سود کا مکمل خاتمہ دستور میں شامل کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ اگر وہ اپنے وعدے پر عمل نہ کرے تو عدالت جانے کے لیے تیار رہیں کیونکہ آئندہ عدالت میں حکومت کا دفاع مشکل ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کوئی اپیل معطل ہو جائے گی، اور آئینی ترمیم کے تحت یکم جنوری 2028 کو سود کے خاتمے پر عمل درآمد لازمی ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بھارت جمیعت علمائے اسلام سود فلسطینی حماس کشمیر کشمیرکمیٹی ملی یکجہتی کونسل مولانا فضل الرحمن

متعلقہ مضامین

  • سابق صوبائی وزیر حبیب الرحمان تنولی انتقال کر گئے
  • امام صحافت مجید نظامی کی برسی آج منائی جائے گی
  • رائے عامہ
  • الہیٰ خزانہ۔۔۔ ظلم کے تقدّس کے خلاف معاصر عہد کا ایک وصیّت نامہ(1)
  • اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کا گردوارہ دربار صاحب کرتارپور کا دورہ
  • وفاقی وزیر ریلوے محمد حنیف عباسی کی زیر صدارت حضرت بری امام سرکارؒ کے سالانہ عرس مبارک کے انتظامات سے متعلق ذیلی کمیٹی کا اجلاس
  • اہلِبیت اطہارؑ کی محبت و عقیدت قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے، علامہ رانا محمد ادریس
  • کوئٹہ، امام جمعہ علامہ غلام حسنین وجدانی کی رہائی کیلئے احتجاج
  • بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن
  • حمائمہ ملک نے فون کرکے اپنی غلطی تسلیم کی، مفتی طارق مسعود