حکومتی مہنگائی کو کم کرنے کے دعوؤں کا فائدہ عام آدمی کو نہیں پہنچ رہا، شاداب نقشبندی
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
ایک بیان میں سربراہ پاکستان سنی تحریک نے کہا کہ ملک کو نوچ نوچ کر کھانے والے عیش و عشرت کی زندگی گذار رہے ہیں ان کے خلاف کوئی قانون کی گرفت کرنیوالا نہیں ہے، عوام تعلیم، انصاف، صحت اور روزگار چاہتے ہیں مگر مظلوم غریب عوام ان سے محروم ہیں جو جمہوریت کے خلاف عمل ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سربراہ پاکستان سنی تحریک محمدشاداب رضا نقشبندی نے کہا ہے کہ ملک کو آگے لے جانا ہے تو حکمرانوں کو قول و فعل میں تضاد ختم کرنا ہوگا، مہنگائی پر کنٹرول اور غریبوں کو ریلیف دینے کیلئے مذہبی و سیاسی اکائیوں کو ایک ہوکر جدوجہد کرنا ہوگی، حکومتی مہنگائی کو کم کرنے کے دعوؤں کا فائدہ عام آدمی کو نہیں پہنچ رہا، جمہوری حکمرانوں نے عوام کو مہنگائی مسائل میں اضافہ اور کرپشن کے تحفے دیئے ہیں، حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کا عذاب عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے، ملک میں مالی، اخلاقی اور سیاسی کرپشن کرنیوالوں کا بے رحم احتساب ہونا چاہیئے، کرپشن نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے، کرپشن کے باعث پیدا ہونیوالا بچہ بھی ہزاروں کا مقروض ہوتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مرکز اہلسنت سے جاری ایک بیان میں کیا۔
شاداب رضا نقشبندی کا کہنا تھا کہ سیاست سے دین کو نکال دیا جائے تو چنگیزیت رہ جاتی ہے اور آج ملک میں چنگیزیت کی سیاست کا دور دورہ ہے، عوام کو ان کے بنیادی حقوق میسر نہیں ہے، حکمرانوں نے تعلیم، صحت اور انصاف کو امیر اور غریب میں تقسیم کردیا ہے۔ انہوں کا کہنا تھا کہ سودی نظام عذاب الہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے، قرآن و سنت کی روشنی میں سود کا کاروبار حرام اور سود لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں، علما کرام سود کے کاروبار کے حوالے سے حکمرانوں کو آئینہ دیکھائیں تاکہ سود کی لعنت کو ملک سے جلد از جلد ختم کیا جاسکے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
حکومتی یوٹرن، گرڈ کی کمزوریوں سے صاف توانائی منتقلی مشکلات کا شکار
اسلام آباد:پاکستان میں توانائی کا شعبہ ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں پالیسی سمت اور اس کے عملی نفاذکے درمیان بڑھتا ہوا تضاد ملک کی صاف توانائی کی منتقلی کو شدید خطرے میں ڈال رہا ہے۔
حکومت، جو ایک وقت میں گھریلو اور تجارتی سطح پر شمسی توانائی کو بجلی کے بڑھتے نرخوں اور توانائی کی عدم تحفظ کا دیرپا حل قرار دیتی تھی، اب نیٹ میٹرنگ پالیسی میں یوٹرن لے رہی ہے، اس فیصلے نے عوام اور کاروباری طبقے کو حکومت کی قابلِ تجدید توانائی کے عزم پر سوالات اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔
ملک میں گرمیوں کے دوران بجلی کی طلب 29 ہزارمیگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے جبکہ نصب شدہ پیداواری صلاحیت 46 ہزار میگاواٹ سے تجاوزکر چکی ہے، اس کے باوجود ناقص گرڈ ڈھانچے، درآمدی ایندھن پر بڑھتے انحصار اور پیداواری صلاحیت کے ناکافی استعمال کی وجہ سے بجلی کی ترسیل غیر مؤثر ہو چکی ہے۔
2022 سے 2024 کے درمیان شمسی توانائی، خاص طور پر چھتوں پر لگے سولر سسٹمز میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ نیٹ میٹرنگ اسکیم کے تحت رجسٹرڈ صارفین کی تعداد 2.8 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور مجموعی صلاحیت 2813 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔
تاہم حالیہ حکومتی فیصلے کے تحت نیٹ میٹرنگ کے نرخ کو 27 روپے فی یونٹ سے گھٹاکر 10 روپے کرنے سے شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں شدید مایوسی پھیل گئی ہے۔
پاکستان انڈسٹریل اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشنز فرنٹ کے سرپرست اعلیٰ میاں سہیل نثار نے کہاکہ شمسی توانائی کی منتقلی، جسے ایک وقت میں پاکستان کے توانائی کے مستقبل کی بنیاد سمجھا جاتا تھا، اب حکومت کی نظر میں بوجھ بن چکی ہے، یہ پالیسیاں عوامی اعتماد اور سرمایہ کاروں کے حوصلے کو تباہ کر رہی ہیں۔
توانائی ماہرین کاکہنا ہے کہ نیٹ میٹرنگ پالیسی میں تبدیلی کی اصل وجہ مالیاتی دباؤ ہے، شمسی صارفین کے گرڈ پر کم انحصار اور زائد بجلی کی فروخت کے باعث بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اپنے بنیادی اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہو گئی ہیں، صرف 2024 میں ہی گرڈ پر انحصار کرنیوالے صارفین پر 159 ارب روپے کا اضافی بوجھ منتقل ہوا، اگر یہی صورتحال جاری رہی تو آئندہ دہائی میں یہ عدم توازن 4000 ارب روپے تک جا سکتا ہے۔
سابق پاور سیکٹر افسر کے مطابق مسئلہ شمسی توانائی نہیں، بلکہ ناقص منصوبہ بندی ہے، حکومت نے گرڈ کو اپ گریڈ کرنے میں کوتاہی کی، اب وہ اپنی ناکامی کا ملبہ سولر صارفین پر ڈال رہی ہے۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ نئے 'گراس میٹرنگ' ماڈل کو مرحلہ وار متعارف کرانا چاہیے تھا ، اس تبدیلی نے ان صارفین کو بھی مایوس کیا ہے جنہوں نے حکومت کی ترغیب پر بھاری سرمایہ کاری کی تھی اور اب وہ اپنے مالی نقصان، غیر یقینی بلنگ اور ممکنہ طور پر اسمارٹ میٹرزکی خفیہ تبدیلی جیسے خدشات کا سامنا کر رہے ہیں۔
توانائی تجزیہ کار فرید حسین کا کہنا تھا کہ ہماری سب سے بڑی ناکامی جامع اور مربوط توانائی روڈ میپ کی عدم موجودگی ہے، وقتی پالیسیوں سے دیرپا تبدیلی ممکن نہیں، توانائی شعبے کا گردشی قرضہ 2.6 ٹریلین روپے سے تجاوزکر چکااور حکومت نے ناقص نظام کو درست کرنے کے بجائے بوجھ صارفین پر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔
ماہرین اور صنعت کاروں کا متفقہ مطالبہ ہے کہ پاکستان کو واضح اور مستقل توانائی حکمت عملی کی ضرورت ہے، بصورت دیگر ملک ان ہی متبادل توانائی حلوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا جو اس کے مستقبل کو روشن بنا سکتے ہیں۔