Express News:
2025-06-09@22:07:31 GMT

خلائی سولر اسٹیشن!

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

چین نے سائنس کی دنیا میں ایک محیر العقول کارنامہ سرانجام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ خلا میں ایک سولر پاور اسٹیشن بنانے کا اعلان ۔ اس سنگ میل کو چین کا Manhattan Project بھی کہا جا رہا ہے ۔ اس نام کا پروجیکٹ امریکا نے حد درجہ خفیہ طریقے سے ایٹم بم بنانے کے لیے استعمال کیا تھا۔چین کے حالیہ اعلان کردہ منصوبے کی جزئیات پیش کرتا ہوں ۔ جس سے آپ کو یہ اندازہ ہو گا کہ ترقی یافتہ ملک کس جانب روانہ ہیں اور ان کی ترجیحات کیا ہیں ۔

زمین سے 36ہزار کلومیٹر اوپر خلا میں ایک سولراسٹیشن قائم کیا جا رہا ہے جس کی لمبائی ایک کلومیٹر ہو گی ۔ یہ سورج کی توانائی کو اپنے اندر محفوظ کرے گا۔ اس کے بعد اسے چین کے ایک ٹرانس میٹر سے منسلک کر دے گا ۔ اس سولر اسٹیشن کی خوبی یہ بھی ہے کہ یہ 24گھنٹے کام کرے گا ۔

دن اور رات میں اس کی کارکردگی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ اسٹیشن صرف چین کو اتنی توانائی مہیا کرے گا جو پوری دنیا میں پٹرول اور ڈیزل کے ذریعے ایک سال میں پیدا کی جاتی ہے۔ ذرا سوچیئے کہ اگر توانائی کا اتنا بھرپور ذریعہ موجود ہو تو پھر آبی ڈیم اور بجلی پیدا کرنے کے دوسرے ذرایع کس قدر غیر اہم ہو جائیں گے۔ جو بجلی ‘ سپیس اسٹیشن میں موجود ہو گی اسے مائکروویوز میں تبدیل کیا جائے گا اور پھر اسے زمین پر منتقل کرنا حد درجہ آسان ہو جائے گا۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ اسٹیشن ایک سو بلین کے وی ایچ پیدا کرے گا ۔

چین کے سائنسدانوں نے اس سولر اسٹیشن کو خلا کا Three Gorges Dam قرار دیا ہے ۔ یہ آبی ڈیم چین نے 2008میں بنایا تھا ۔ اس کی لاگت 35بلین ڈالر آئی تھی اور یہ Yangtze دریا پر واقع ہے۔ اس آبی ڈیم کی بجلی پیدا کرنے کی قوت 95 Twhسالانہ ہے ۔اور یہ دنیا کا سب سے بڑا ڈیم شمار کیا جاتا ہے ۔ ذرا اندازہ فرمائیے کہ خلائی اسٹیشن اس عظیم آبی ڈیم سے بھی بڑھ کر بجلی پیدا کرے گا ۔ چینی سائنسدانوں نے اس عظیم کارنامے کو خود سرانجام دیا ہے ۔ خلائی اسٹیشن کے تمام پرزے چین میں تیار کیے گئے ہیں ۔ انھیں راکٹس کی مدد سے خلا میں بھیجا جائے گا ۔

جہاں سائنسدان اور خلائی ہوا باز اس کو ایک اسٹیشن میں تبدیل کر دیں گے۔ انسانی تاریخ میں یہ ایک سنگ میل ہو گا کیونکہ اتنا اچھوتا کارنامہ کسی بھی ملک نے اب تک سرانجام نہیں دیا ۔ چینی قیادت اور سائنسدانوں کا کمال دیکھیے کہ انھوں نے تمام جزئیات ترتیب دینے کے بعد اس کا اعلان کیا ہے۔ اس منصوبے سے پوری دنیا میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ امریکا ‘جسے ناز ہے کہ وہ ایک سپر پاور ہے سائنس اور تحقیق کی دنیا میں کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ اس کی انتظامیہ اور خلائی سائنسدانوں نے انگلیاں چبا لی ہیں کیونکہ وہ یہ کام کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ میں تو یہ بھی عرض کروں گا کہ چین اس خلائی اسٹیشن کے بعد دنیا میںترقی کی دوڑ میں سب سے آگے موجود ہو گا۔ چینی حکام وہ کام کر رہے ہیں جو انسانی سوچ سے بھی باہر ہے۔

ہمارے ملک میں کسی نے بھی ایک کلومیٹر لمبے اس خلائی سولر اسٹیشن کی طرف غور نہیں کیا ۔ اتنے بڑے کارنامے پر کسی چینل نے کوئی پروگرام نشر نہیں فرمایا۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ وہ محیر العقول کارنامہ جو ہمارے چینی دوستوں کے سر کا تاج بن جائے گا ۔ اس پر ہمارے حکمران طبقے اور اداروں نے معمولی توجہ تک نہیں دی۔ دراصل ہماری ترجیحات ‘ ترقی یافتہ ممالک سے بالکل برعکس ہیں ۔ ہمارا حکمران طبقہ حد درجے عیاری سے ملک چلاتا رہا ہے اور پاکستان کو ترقی دینا یا اسے آگے بڑھانا ان کی ذہنی سوچ سے متضاد ہے ۔

غور فرمائیے کہ ہم اپنے حد درجہ زٹیل میڈیا پر کیا دیکھتے ہیں یا ہمیں کیا دکھایا جاتا ہے یا ہمیں کس طرح کی عمومی سوچ کا مالک بنا دیا گیا ہے؟ حضور ہمارا میڈیا خبریں نہیں چھاپتا یا بتاتا بلکہ ایک بدمست دیو کی طرح بدنظمی سے چنگھاڑتا ہے ۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا ایک ہی حال ہے ۔ گزشتہ دس سال کی اہم ترین خبریں نکالیے جو بدقسمت عوام کو دیکھنی پڑی ہیں۔ کبھی وزیراعظم کو خط نا لکھنے کی پاداش میں سزا سنائی جاتی ہے ۔

اس کے سیاسی مخالف بغلیں بجاتے ہوئے خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں ۔ کبھی عدلیہ کے قلم سے پاناما لیکس کی ایسی سزا سنائی جاتی ہے جو مکمل طور پر بے جواز نظر آتی ہے ۔ بدقسمتی سے میں نے وزیراعظم کو پاناما لیکس میں برطرف ہونے کی خبر ٹی وی پر خود سنی تھی ۔ چند مخصوص رپورٹر ‘ دیوانوں کی طرح گلا پھاڑ پھاڑ کر اعلان کر رہے تھے کہ وزیراعظم کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ جذباتیت اور غیر متوازن رویہ ہمیں برباد کر چکا ہے ۔ ہمارے کچلے ہوئے معاشرے میں دلیل پر بات کرنی مکمل طور پر حماقت ہے۔ آج بھی یہی حال ہے ۔

کچھ عرصہ پہلے سنگاپور سے میرے ایک دوست لاہور آئے ۔ اخبار پڑھا اور کمرے سے باہر نکلنے سے انکار کر دیا۔ مقررہ وقت پر ملنے کے لیے گیا تو واپسی کا ٹکٹ کروانے میں مصروف تھے۔ حیران رہ گیا کیونکہ وہ تو صرف ایک دن پہلے لاہور آئے تھے ۔ اگلے ایک ہفتہ ان کی انتہائی کاروباری مصروفیات تھیں۔ وجہ پوچھی تو انھوں نے ایک انگریزی اخبار میرے سامنے رکھ دیا ۔ اس کی شاہ سرخیاں کچھ اس طرح کی تھیں۔ آج احتساب کے ادارے نے حد درجہ اہم لوگوں کو گرفتار کر لیا ۔ ساتھ ہی یہ کہ آج دہشت گردوں نے پچیس سے تیس لوگوں کو بس سے اتار کر قتل کر دیا ۔

ان کے شناختی کارڈ پہلے چیک کیئے ۔ جب ان کا تعلق ایک مخصوص صوبے سے نکلا تو سڑک کے کنارے بے دردی سے انھیں ذبح کر دیا گیا ۔ اسی اخبار کے بیک پیج پر درج تھا کہ ایک بیٹے نے جائیداد کے لالچ میں اپنے ماں باپ کو گولیوں سے بھون دیا ۔ صرف ایک دن کا اخبار پڑھ کر ‘ میرا سنگا پور کا دوست اعصابی طور پر شل ہو کر رہ گیا ۔ اس نے وہیں فیصلہ کیا کہ اس ملک میں کسی صورت ہوٹل سے باہر نہیں نکلے گااور اگلے ہی دن واپس روانہ ہو جائے گا۔

لاکھ کوشش کی اپنے اس کاروباری دوست کو بتا سکوں کہ یہ تو معمول کی خبریں ہیں ۔ ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جن کی زندگیوں میں بھیانک خبریں معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔ترقی اور خوشی کی خبریں ملنا تقریباً معدوم ہیں۔ دوست نے سوال کیا کہ آپ اس ملک میں اور اتنے خطرناک ماحول میں سانس کیسے لے رہے ہیں ۔

جواب تھا کہ اس پر خطر ماحول کا عادی ہو چکا ہوں اور مجھے اب کسی قسم کی‘ کسی طرف سے خطرے کی بو تک محسوس نہیں ہوتی ۔ سنگا پور سے آیا ہوا رفیق ششدر رہ گیا ۔ کہنے لگا کہ یا تو پاکستان کے تمام لوگ اعصابی طور پر ختم ہو چکے ہیں یا انھوں نے کبھی ترقی یافتہ ملک دیکھا ہی نہیں ہے۔ انھیں ادراک ہی نہیں ہے کہ امن اور ترقی یافتہ خطے کیسے ہوتے ہیں ۔ لاکھ روکنے کی کوشش کی مگر وہ تمام میٹنگز ختم کر کے اگلے ہی دن واپس چلا گیا ۔

 اردگرد کے ماحول پر غور کیجیے ۔ جواب دیجیے کہ کیا ہم واقعی انسانی سطح پر زندہ ہیں یا حیوانوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں ۔ آپ کو جواب خود بخود مل جائے گا۔ چند دن اسلام آباد میں گزار کر آیا ہوں ۔ اسی نوعیت کی افواہیں جو آ ج سے تیس چالیس سال پہلے اس سازشی شہر میں گردش کر رہی تھیں وہی نام بدل کر بالکل اسی طرح بیان کی جا رہی تھیں جیسے وقت رک چکا ہے ۔ حکومت بس جانے والی ہے ؟ نئے وزیراعظم کا انتخاب بس ہو ہی چکا ہے ؟ نئے وزراء کے نام بھی تقریباً فائنل ہو چکے ہیں؟ ہاں فلاں مشیر کے بھائی نے ‘ ایک ٹھیکے میں اتنے کروڑ روپے وصول کیے ہیں ؟ اس طرح کی بدنما افواہیں یا خبریں تواتر سے اسلام آباد کی فضا میں ارتعاش پھیلا رہی تھیں۔اس سے آگے کیا بات کروں ۔ جن لوگوں کو میں کردار کی بلند مسند پر فائز کرتا تھا وہ بھی کسی نہ کسی ادارے یا بڑی کاروباری شخصیت کے طفیلی نظر آتے ہیں۔

موجودہ حکومت صرف اشتہارات کی بنیاد پر اسی طرح کے کارنامے سرانجام دے رہی ہے۔ جو ان کا سابقہ وطیرہ ہے۔اڑان نامی پروگرام میں اعلان کیا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت چند برس بعد ایک ٹریلین ڈالر کی ہو جائے گی۔ حضور عرض ہے ہندوستان کی صرف ایک ریاست مہاراشٹرا ‘ پانچ سو بلین ڈالر کی معیشت رکھتی ہے اور صرف دو تین سال میں صرف ایک صوبہ ایک ٹریلین ڈالر سے اوپر نکل جائے گا۔ پر کیا بات کرنی ۔ بادشاہ جو کہتا ہے وہ سچ ہے۔ چینی حکام تو بے وقوف ہیں کہ خلا کو مسخر کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں ۔ انھیں صرف اشتہارات دے کر اپنی ترقی کا اعلان کرنا چاہیے۔ یہ فن انھیں ہمارے حکمرانوں سے ٹیوشن کے ذریعے ضرور سیکھنا چاہیے!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سولر اسٹیشن ترقی یافتہ دنیا میں صرف ایک جائے گا رہے ہیں آبی ڈیم کرے گا کر دیا

پڑھیں:

سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز

جنگل کی طرح ’سماجی غول‘ بنانا

رضوان طاہر مبین

ایک ’غول‘ ضروری ہے، جی ہاں بہت ضروری ہے صاحب۔۔۔!

ہمارے آج کے سماج کی ایک تلخ حقیقت ایسی ہے کہ آپ کے ساتھ آپ کے کچھ نہ کچھ ’ہم نوا‘ ہونا بہت ضروری ہیں، ورنہ آپ بُری طرح تنہا کردیے جاتے ہیں، جیسے کسی جنگل میں اکیلے جانور کو درندے بھنبھوڑ دیتے ہیں، اس لیے وہ گروہ کی شکل میں رہتے ہیں، بالکل ایسے ہی گروہ کے بغیر اس سماج کے ’طاقت وَر‘ آپ کو بھی بھنبھوڑ ڈالیں گے اور کچھ نہیں تو کسی موضوع پر اختلاف رائے یا اپنی آزادانہ رائے رکھنے کی پاداش میں یہی نام نہاد پڑھے لکھے اور ’’دانش وَر‘‘ آپ کو کچا نہ بھی چبا ڈالیں، تو پکا پکا کر ضرور نگل جائیں گے!

اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ ’غول‘ کیسا ہو۔۔۔؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ چوں کہ آپ اشرف المخلوقات کہلاتے ہیں یا یوں کہیے کہ سمجھے جاتے ہیں، اس لیے اِسے آپ پیار سے یا مصلحت سے ’غول‘ کبھی نہیں کہیں گے، بلکہ ’ہم خیال‘ کہیں گے، ہم پیالہ بتائیں گے یا پھر کوئی ’لابی‘ کہلائیں گے۔

اب یہ ’لابی‘ کام کیا کرتی ہے۔۔۔؟

یہ بڑا دل چسپ سوال ہے، جناب، یہی تو پھر سارے کام کرتی ہے، اور بعضے وقت جب یہ کام کرتی ہے، تو کبھی کبھی تو آپ کو کچھ کرنے کی ہی ضرورت نہیں رہتی، سمجھ رہے ہیں ناں۔۔۔

اور اگر ایسا نہ بھی ہو تب بھی کوئی آپ پر ٹیڑھی نگاہ سے دیکھے، کسی بھی جگہ کوئی کٹھنائی ہو، زندگی میں خدانخواستہ کوئی اچھا یا برا، صحیح یا غلط، آڑھا یا ترچھا کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو، آپ کا یہ ’غول‘ اس نظریے کے تحت آپ کے ’دفاع‘ کے لیے سینہ سپر ہو جائے گا کہ ’’صحیح ہے یا غلط ہے، یہ اہم نہیں، آدمی ہمارا ہے بس یہی اہم ہے۔۔۔!!‘‘

اپنی ’لابی‘ بنانے کے لیے آپ کو کرنا کیا ہوگا۔۔۔؟

’غول‘ بنانے کے لیے سب سے پہلے ’اتحاد‘ بہت ضروری ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اتحاد میں کتنی ’’برکت‘‘ ہوتی ہے، یہی برکت آپ کو یہاں اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی۔ آپ کو اس ’اتحاد‘ کے واسطے اپنی ’لابی‘ کی ہاں میں ہاں اور نہ میں نہ ملانا ہوگا۔ چاہے سورج آپ کے سر پر آگ برسا رہا ہو، لیکن اگر آپ کے ’جَتھے‘ نے یہ طے کیا ہے کہ اس وقت تاریک آسمان پر چاند چمک رہا ہے اور جھینگر جھنگار رہا ہے، تو آپ کو بہر صورت یہی راگ الاپنا ہوگا کہ چاند کتنا روشن ہے اور اس وقت جھینگر کی آوازوں کے کیا زیر و بم ہیں۔

اس کے ساتھ ہی حسب ضرورت ’واہ واہ‘ کے ڈونگرے اور مخالفانہ دلائل پر منطقی و غیر منطقی ہر دو طرح کے بھرپور تمسخرانہ انداز سے بھی گریز نہیں کرنا ہوگا، الغرض یہ جان لیجیے کہ آپ کے گروہ کے ’مائی باپوں‘ نے جو کہہ دیا وہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا، یہ بات کبھی فراموش نہیں کیجیے گا۔۔۔! اور آپ کی اپنی رائے/ نقطہ نظر/ اختلاف اور آپ کے اپنے ذاتی یا آزادانہ موقف ٹائپ کی کسی چیز کی اب کوئی گنجائش نہیں ہوگی، سچ صرف اور صرف وہی ہوگا جو آپ کے اِس ’’غول‘‘ نے کہہ دیا ہے، بات وہی اونچی ہوگی جو آپ کے ’’لَمڈوں‘‘ نے نعرۂ مستانہ بنا کر بلند کردی ہے۔۔۔ کوئی سچ کی تلاش نہیں ہوگی، عقل وغیرہ جیسی کسی چیز کا کوئی استعمال نہیں ہوگا۔

بعد میں یہ ساری ’خرمستی‘ آپ کو بھی یہ ’سہولت‘ فراہم کرے گی کہ آپ رات بے رات اور وقت بے وقت کچھ فرمائش بھی کر سکتے ہیں۔۔۔ آپ کی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے سے لے کر آپ کی روزی روٹی، دکھ بیماری، کاروبار ملازمت، ترقی اور ہمہ قسم کے مفادات سے لے کر سماج کے بدمعاشوں اور ’غیر بدمعاشوں‘ کے سارے کے سارے مسائل اور وسائل اب آپ کی فکر بالکل بھی نہیں ہوگی، بلکہ جیسے آپ نے ہر بار ان کی ’ہاہاکار‘ میں حصہ ڈالا ہوگا، ایسے ہی صحیح یا غلط سے قطعی طور پر بے پروا ہو کر یہ بھی آپ کے وقت پڑنے پر جائز وناجائز ہر ’پھڈے‘ میں آپ کی پشت پر بلکہ آپ سے بھی آگے صف اول میں کھڑے ہوں گے اور آپ کو غول پسند معاشرے میں وہ سکون فراہم کریں گے کہ بس آپ سوچ ہی سکتے ہیں!

اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ گروہ یا ’لابی‘ کیسی ہو۔۔۔؟ یا یہ غول بنائے کیوں کر بنائے جا سکتے ہیں۔۔۔؟

اس کے لیے بے آپ اپنی ذاتی وخاندانی مماثلتیں ’کام میں‘ لے سکتے ہیں، جیسے:

آپ کون سی زبان بولتے ہیں۔۔۔؟

کس قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟

ملک کے کس صوبے کے رکھوالے اور کس علاقے کے نام لیوا ہیں۔۔۔؟

آپ کس نسل، ذات اور برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟

اتفاق سے آپ کے شجرے میں کوئی خاص عنصر یا شخصیت موجود ہے؟ تو آپ (موقعے کے لحاظ سے) اس کا عَلم بھی بلند کر سکتے ہیں۔

یہی نہیں آپ کا مذہب اور آپ کے مسلک اور عقیدے کے ساتھ ساتھ ’غول‘ بننے کی یہ سہولت بہت سی سیاسی، مذہبی اور تفرقہ باز جماعتیں بھی بہت خوبی سے فراہم کرتی ہیں، اب تو اس کے ساتھ ساتھ ڈھیر ساری ’غیر سرکاری تنظیمیں‘ بھی دل وجان سے آپ کے لیے ’حاضر‘ ہیں، اور اس کام کے باقاعدہ ’معاوضے‘ سالانہ انعامات اور بین الاقوامی اکرامات کی صورت میں آپ کو ہاتھ کے ہاتھ مطمئن بھی کرتی رہتی ہیں۔ اب یہ صرف آپ پر منحصر ہے کہ آپ ’قدرت‘ کی دی گئی ان مماثلتوں اور صلاحیتوں سے کس قدر فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔۔۔!

کیوں کہ فی زمانہ یہ ساری خاصیتیں بڑی کارآمد اور کارگر ہیں، یہی نہیں ’غول‘ بنانے کے لیے آپ کے پیشے کا بھی کافی اہم کردار ہوتا ہے، آپ کیا کام کرتے ہیں۔۔۔؟ اور کام میں بھی کیسا اور ’’کس طرح‘‘ کے کام زیادہ فرماتے ہیں۔۔۔؟ اس مناسبت سے بھی آپ کسی نہ کسی سے گٹھ جوڑ کر سکتے ہیں۔ اب ہم آپ کو کیا کیا کھل کر بتائیں کہ اگر آپ تاجر، شاعر، ادیب، صحافی، مصنف، ڈاکٹر، نرس، وکیل، استاد، بیوروکریٹ، بِلڈر، پراپرٹی ڈیلر ہیں، تو آپ بھی بہ آسانی اس سماج کے ’نائیوں‘، ’موچیوں‘ سے لے کر ’نان بائیوں‘ کی طرح ’’مشترکہ مفادات‘‘ کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ انجمن تشکیل دے سکتے ہیں، اور انجمن سے ہمیں یاد آیا کہ اگر آپ ان میں کچھ بھی نہیں ہیں، تب بھی ایک ’’انجمن ستائش باہمی‘‘ کی سہولت تو ہر ایک کے لیے ہر وقت موجود رہتی ہے، جہاں دو، چار فارغ، (بلکہ طبیعت سے فارغ) مگر چالاک دماغ اور آگ آج کل کی زبان میں کہیے تو ’’سمجھ دار‘‘ احباب جمع ہوئے، لیجیے وہیں آپ کا ایک بھرپور کام یاب اور بھرپور فعال غول تیار ہوگیا ہے، اب آپ ایک دوسرے کے لیے ساری خدمات انجام دے سکتے ہیں، جیسے فارسی میں کہا گیا ہے کہ ’’میں تمھیں حاجی کہوں، تم مجھے مُلا کہو!‘‘

 بھارت کا سفارتی رافیل

ابنِ امین

ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شاید جنگ تھم چکی ہے، اور اب ہم ایک ذمے دار اور باشعور پڑوسی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہنے کی کوئی صورت نکال لیں گے۔ لیکن ہمارا پڑوسی، جو کہ ہم سے کئی گنا بڑا ہے، اس جنگ کو ایک ایسے مقام تک لے جانا چاہتا ہے جس کے نتائج کے بارے میں نہ یقین سے کچھ کہا جا سکتا ہے، نہ کوئی گارنٹی دی جا سکتی ہے۔
2019 کے پلوامہ حملے اور اس کے بعد بالاکوٹ فضائی حملے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں ایک نئی سطح کی جارحیت دیکھی گئی ہے۔ تاہم، حالیہ پہلگام حملے (اپریل 2025) اور اس کے بعد بھارت کے 'آپریشن سندور' (مئی 2025) کے تناظر میں، بھارت نے ایک جارحانہ سفارتی مہم کا آغاز کیا ہے۔

اس مہم کے تحت سات وفود دنیا کے مختلف خطوں میں روانہ کیے گئے جن میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان پارلیمان، بشمول مسلم اراکین پارلیمنٹ، اور ریٹائرڈ سفارت کاروں کو شامل کر کے یہ تاثر دیا گیا کہ بھارت کی پوری سیاسی قیادت پاکستان سے درپیش خطرات پر یک زبان ہے۔ ان کا مقصد عالمی برادری کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی دہشت گردی کا معاون ہے۔ یہ کوششیں بظاہر پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی ایک منصوبہ بند مہم کا حصہ ہیں۔

اس سفارتی یلغار کے ساتھ ساتھ، بھارت نے دیگر جوابی اقدامات بھی کیے جن میں اہم سرحدی گزرگاہوں کی بندش، سندھ طاس معاہدے (IWT) کی معطلی، پاکستانی سفارت کاروں کی بے دخلی، اور پاکستانی شہریوں کے لیے زیادہ تر ویزوں پر پابندی شامل تھی۔ خاص طور پر، سندھ طاس معاہدے کی معطلی ایک اہم اور ممکنہ طور پر تباہ کن اقدام تھا، جسے بھارت نے ’’مسلسل سرحد پار دہشت گردی‘‘ سے جوڑا۔ یہ اقدام بین الاقوامی اصولوں کی واضح خلاف ورزی ہے کیوںکہ معاہدہ یک طرفہ کارروائی کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ صورت حال پانی کی سلامتی کو ایک اہم فلیش پوائنٹ میں بدل دیتی ہے، جو ممکنہ طور پر روایتی فوجی ذرائع سے بھی آگے تنازعات کو بڑھا سکتی ہے۔

اس تمام صورت حال میں، بھارتی سیاست داں اور سابق سفارت کار ششی تھرور کی نیویارک میں حالیہ ملاقاتیں اور موجودگی بھی اسی مہم کا حصہ ہے، جس کا مقصد عالمی سطح پر بھارت کے بیانیے کو مزید تقویت دینا ہے۔

تاہم، تجزیاتی نقطۂ نظر سے، یہی مہم پاکستان کے لیے ایک غیرمتوقع مگر غیرمعمولی سفارتی موقع کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ جب بھارت کی طرف سے پاکستان پر ایسے سنگین الزامات عائد کیے جاتے ہیں، اور ان کی تائید کے لیے دنیا بھر میں وفود بھیجے جاتے ہیں، تو لامحالہ بین الاقوامی میڈیا، تھنک ٹینکس اور پالیسی ادارے بھی اس بیانیے کی صداقت کو پرکھنے کے لیے پاکستان کے مؤقف کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، بھارت جس پلیٹ فارم کو صرف اپنا بیانیہ آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے، وہی پلیٹ فارم پاکستان کے لیے اپنے مؤقف کو سامنے لانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس منظرنامے میں پاکستان کو محض دفاعی انداز اپنانے کی بجائے ایک فعال، شواہد پر مبنی اور بیانیہ ساز حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔

پاکستان نے سفارتی سطح پر ابتدائی ردعمل میں عالمی سفیروں کو اعتماد میں لیا، حملے کی غیرجانب دار تحقیقات کی پیشکش کی، اور ساتھ ہی بھارت کی طرف سے انڈس واٹر ٹریٹی جیسے حساس معاہدے کی معطلی کو ایک ممکنہ اشتعال انگیز اقدام کے طور پر عالمی برادری کے سامنے رکھا۔ پاکستان نے چین، سعودی عرب، ترکی، قطر اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ فوری روابط قائم کیے تاکہ بھارت کے یک طرفہ بیانیے کو توازن دیا جا سکے۔ 

یہ تمام اقدامات ایک فعال اور اسٹریٹجک سفارت کاری کی غمازی کرتے ہیں، اور 2025 کے بحران کے بعد پاکستان کی میڈیا حکمت عملی میں ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے جو ماضی کے ’’ٹکڑے ٹکڑے، دفاعی اور ردعمل پر مبنی‘‘ نقطۂ نظر کے برعکس ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت کی سفارتی یلغار نے پاکستان کو بین الاقوامی مکالمے کا مرکزی موضوع بنا دیا ہے۔

 ایک ایسے وقت میں جب پاکستان داخلی سیاسی بحران، اقتصادی غیریقینی صورت حال، اور سفارتی خاموشی کا شکار تھا، بھارت کی یہ مہم ایک اتفاقیہ موقع بن گئی ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر نہ صرف خود کو ایک پرامن، قانون پر کاربند اور تعمیری ریاست کے طور پر متعارف کرائے بلکہ اپنے حقیقی چیلینجز، قربانیوں اور امن پسندی کو عالمی بیانیے کا حصہ بھی بنائے۔ بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کے بارے میں ’’غیرجانب دارانہ سے مثبت تاثر میں واضح اضافہ‘‘ دیکھا گیا ہے۔

پاکستان کے لیے اب ناگزیر ہے کہ وہ محض رسمی سفارتی بیانات سے آگے بڑھے اور ایک منظم، سائنسی، اور ادارہ جاتی حکمت عملی کے تحت عالمی میڈیا (جیسے CNN، BBC، Sky News)، یونیورسٹیز، تھنک ٹینکس اور ڈاسپورا نیٹ ورکس کو متحرک کرے۔ ڈاسپورا نیٹ ورکس سے مراد وہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کمیونٹیز ہیں جو اپنے میزبان ملکوں میں پالیسی، میڈیا، اور رائے سازی پر اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ نیٹ ورکس پاکستان کی سفارتی soft power کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔

بھارت نے اپنے وفود میں صرف سیاست داں نہیں بلکہ سابق سفیروں، سفارتی ماہرین اور ابلاغی شخصیات کو شامل کر کے بیانیہ سازی کا ایک بھرپور ماڈل پیش کیا ہے۔

پاکستان کے لیے اس وقت چیلینج صرف ردعمل دینا نہیں بلکہ ایک متبادل بیانیہ ترتیب دینا ہے جو مستقل بنیادوں پر پاکستان کے مؤقف کو مضبوط کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو بین الاقوامی برادری کو بھارت کی ’’گرے زون‘‘ حکمت عملیوں کے خطرات سے بھی آگاہ کرنا چاہیے، جہاں وہ جوہری حد سے نیچے محدود حملوں کے ذریعے اخراجات عائد کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس سے ’’جوہری تباہی کی طرف ایک غلط قدم کے خطرے‘‘ میں اضافہ ہوتا ہے۔

اس وقت دنیا کی نظریں خطے پر مرکوز ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ، پالیسی ادارے، اور تجزیہ کار جنوبی ایشیا کی صورتحال کو باریکی سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے ایک غیرمعمولی موقع ہے کہ وہ خود کو نہ صرف ایک اہم اسٹریٹجک کھلاڑی کے طور پر پیش کرے بلکہ اپنی دانش، امن پسندی اور سفارتی بلوغت سے ایک نئے عالمی امیج کی بنیاد رکھے۔ بھارت کی الزاماتی سفارت کاری پاکستان کے لیے ایک ایسے کوریڈور کی شکل اختیار کر چکی ہے جو اگر حکمت سے استعمال کیا جائے تو سفارتی تنہائی کو سفارتی مرکزیت میں بدل سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ✨ قربانی: رسم، روایت یا روح؟
  • ن لیگ عوام کو نہیں خود کو بیوقوف بنا رہی ہے: پرویز الہیٰ
  • زباں فہمی251  ؛  بقرہ عید، بقر عید۔یا۔ بکرا عید
  • سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز
  • ٹرمپ اور ایلون مسک آمنے سامنے: سیاست، معیشت اور خلائی پروگرام پر لرزہ طاری
  • فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام
  • نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر صائم بھی بول اُٹھے
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟
  • انکار کیوں کیا؟