یوکرین اور برطانیہ میں 100سالہ شراکت داری کا معاہدہ
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
یوکرینی صدر اور برطانوی وزیراعظم شراکت داری معاہدے کی دستاویزات پیش کررہے ہیں
کیف(انٹرنیشنل ڈیسک) یوکرین اور برطانیہ کے درمیان 100 سالہ شراکت داری کے معاہدے پر دستخط ہو گئے۔خبررساں اداروں کے مطابق برطانوی وزیر اعظم اور یوکرینی صدر نے معاہدے پر دستخط کیے، معاہدہ دونوں ممالک کے سیکورٹی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کیا گیا۔ وزیر اعظم کیئر اسٹارمر روس یوکرین جنگ میں اپنی حمایت کا اعادہ کرنے کے لیے کیف پہنچے۔معاہدے میں دفاع، توانائی اور تجارت پر مشتمل 100 سالہ شراکت داری پر اتفاق ہوا۔ دوسری جانب ناٹو نے کہا ہے کہ ناروے کے 2ایف 35 لڑاکا طیاروں نے بڑی تعداد میں روسی طیاروں کی جانب سے پولینڈ کی فضائی حدود میں داخل ہونے کے بعد اڑان بھری ۔ ناٹو ائر کمانڈ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر کی گئی پوسٹ میں بتایا گیا کہ 15 جنوری کو روسی طیاروں کی بڑی تعداد پولینڈ کی فضائی حدود میں داخل ہوئی تھی۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ پہلا موقع تھا کہ ناروے کے لڑاکا طیاروں نے پولینڈ کی فضائی حدود کے دفاع کے لیے اڑان بھری جو ناٹو کے مشرقی حصے کے لیے اتحادیوں کی وابستگی کا مظہر ہے۔ادھر جرمنی کے صدر فرینک والٹر اشٹائن مائر نے بھی یوکرین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ روس کی وجہ سے یورپ کی آزادی خطرے میں پڑ گئی ہے۔صدر پیوٹن جنگ کو یورپ میں واپس لے آئے ہیں۔ انہوں نے صرف ایک ملک پر ہی نہیں پورے یورپ کے امن پر حملہ کیا ہے۔یہ جنگ بین الاقوامی قانون کی خلاف روزی ہے اور اس کے خلاف یورپ کا ردعمل واضح اور حتمی ہونا چاہیے۔ ہم بین الاقوامی قانون کی بالادستی اور امن کے حامی ہیں۔ یوکرین کو یقین ہونا چاہیے کہ یورپی یونین میں منصفانہ امن اور مستقبل کی طرف جانے والے راستے میں یوکرین کی آزادی و خود مختاری کے دفاع کے موضوع پر ہم ہمیشہ ان کا ساتھ دیتے رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ روس یوکرین جنگ کے آغاز سے تا حال ٹرانس اٹلانٹک اتحاد نے مضبوط اور غیر متزلزل اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: شراکت داری کے لیے
پڑھیں:
بھارت کو بین الاقوامی معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے کا کوئی اختیار نہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لندن: وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت پر عالمی سطح پر بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کا مؤقف اجاگر کرنے کے لیے بنائے گئے سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے جو ہمیشہ امن، مذاکرات اور سفارتکاری کو ترجیح دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بارہا دنیا کو باور کروایا ہے کہ تمام مسائل، خاص طور پر پاک بھارت کشیدگی کا حل مسئلہ کشمیر سے جڑا ہوا ہے۔
بلاول بھٹو نے واضح کیا کہ بھارت کی جانب سے پانی روکنے کی کسی بھی کوشش کو پاکستان اعلانِ جنگ تصور کرے گا۔ انہوں نے سندھ طاس معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کو یہ بین الاقوامی معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے یا معطل کرنے کا کوئی اختیار نہیں، کیونکہ پاکستان کے لیے پانی ایک بنیادی اور ناگزیر ضرورت ہے جس پر کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں۔
اپنے بیان میں انہوں نے بھارت پر مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن پھیلانے کا الزام بھی عائد کیا اور کہا کہ بھارت عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے پہلگام واقعے پر غیرجانبدار تحقیقات کی پیشکش کی تھی، مگر بھارت نے یہ پیشکش مسترد کر کے ایک اور موقع ضائع کر دیا۔
بلاول بھٹو نے ایک مرتبہ پھر پاک بھارت جنگ بندی کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کی تعریف کی اور کہا کہ اس نازک موقع پر ٹرمپ کی مداخلت نے صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد دی۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دونوں ایٹمی ممالک کے درمیان تنازعات کے پرامن حل کے لیے کوئی مؤثر مکینزم ہونا چاہیے تاکہ خطے کو غیر یقینی صورتحال سے بچایا جا سکے۔