Juraat:
2025-07-26@07:18:34 GMT

سندھ بلڈنگ ناجائز تعمیرات کی روک تھام میں مکمل ناکام

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

سندھ بلڈنگ ناجائز تعمیرات کی روک تھام میں مکمل ناکام

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ناجائز تعمیرات کی روک تھام میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے ۔بدعنوان بلڈنگ انسپکٹر اورنگزیب کی غیر قانونی امور کی سرپرستی سے متعلق عوامی و سماجی شخصیات کی شکایات ردی کی ٹوکری کی نذرکی جانے لگی ہیں۔ صحافیوں کی نشاندہی کو بھی مکمل طور پر نظر انداز کیا جانے لگا ہے ۔تفصیلات کے مطابق غیر قانونی تعمیرات کی روک تھام اور بلڈنگ بائی لاز پر عملدرآمد یقینی بناکر صوبے کا تعمیراتی بنیادی ڈھانچہ تباہی سے بچانے کیلئے قائم کیا گیا۔ ادارہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی بھر میں تعمیراتی کاموں کے دوران بدعنوان افسران کی ملی بھگت سے بلڈنگ قوانین اور اعلیٰ عدلیہ کے احکامات ہوا میں اڑانے کا سلسلہ بلا خوف وخطر جاری ہے ۔ دوسری جانب بلڈنگ بائی لاز کے خلاف قرار دیکر نمائشی طور پر منہدم کی جانے والی عمارتوں کی ازسرنو تعمیرات کی روایت بھی برقرار ہے ۔علاقے میں پانی بجلی گیس سیوریج اور پارکنگ کے بنیادی مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے ۔ اس وقت بھی ناظم آباد نمبر 1بلاک Eکے پلاٹ نمبر 10/2اور 15/2پر بغیر نقشے اور منظوری کے تعمیرات جاری ہیں، جس پر ناظم آباد کے عوام کا مطالبہ ہے کہ وزیر بلدیات سندھ ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی غیر قانونی تعمیرات میں ملوث افسران و نام نہاد بیٹروں کے خلاف سندھ ہائیکورٹ اوراینٹی کرپشن اور دیگر اداروں سے تحقیقات کروائیں اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے اور ان کی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی عمل میں لا کر ملوث افراد کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے ۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: تعمیرات کی سندھ بلڈنگ

پڑھیں:

ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ: دوستوں سے شراکت یا قانونی اصولوں کی خلاف ورزی؟

پاکستان میں ایوی ایشن کے شعبے میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ (IIAP) کی مینجمنٹ متحدہ عرب امارات (UAE) کو گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ (G2G) معاہدے کے تحت آؤٹ سورس کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

اب یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کراچی (جناح انٹرنیشنل) اور لاہور (علامہ اقبال انٹرنیشنل) ایئرپورٹس کو بھی اسی ماڈل پر آؤٹ سورس کیا جا سکتا ہے۔

یہ اقدامات ملکی معاشی بحران، عالمی معیار کی سہولیات کی ضرورت، اور بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کی پالیسی کے تحت کیے جا رہے ہیں، لیکن اس پر شفافیت اور قانونی تقاضوں پر سوالات بھی اٹھ رہے ہیں۔

 ایئرپورٹس کی آمدنی: فیصلہ کیوں اہم ہے؟

پاکستان کے 3 بڑے ایئرپورٹس — اسلام آباد، کراچی، اور لاہور — ملک کی ایوی ایشن آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ نے پچھلے 3 مالی سالوں میں تقریباً 46 ارب روپے ریونیو کمایا۔ لاہور ایئرپورٹ کی آمدنی 44 ارب روپے اور کراچی ایئرپورٹ کی آمدنی 40 ارب روپے رہی۔

مجموعی طور پر تینوں ایئرپورٹس نے 130 ارب روپے کی کمائی کی ([National Assembly Data, 2024]).

مارچ 2025 میں اسلام آباد ایئرپورٹ نے صرف کارگو آپریشنز سے 72 کروڑ روپے کمائے، جو کہ ایک ماہ میں سب سے بڑی وصولی تھی۔ ان اعداد و شمار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آؤٹ سورسنگ کا فیصلہ اربوں روپے کے مالی مفاد سے جڑا ہوا ہے۔

اسلام آباد ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ: کیا ہوا؟

حکومت نے پہلے IFC (International Finance Corporation) کی مشاورت سے اسلام آباد ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ کے لیے ٹینڈر جاری کیا۔ ایک ترک کنسورشیم (TERG) نے 47.25 فیصد ریونیو شیئر کی پیشکش کی، لیکن حکومت کا مطالبہ 56 فیصد تھا۔ ناکامی کے بعد یہ ٹینڈر منسوخ کر دیا گیا۔

اب حکومت براہ راست UAE کے ساتھ G2G معاہدے کی طرف جا رہی ہے۔ رپورٹس کے مطابق وزیراعظم کی موجودگی میں مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہو چکے ہیں، جو ایک اہم سیاسی اور معاشی سگنل ہے۔

کراچی اور لاہور ایئرپورٹس: اگلا مرحلہ؟

اسلام آباد کے بعد حکومت نے واضح کیا ہے کہ کراچی اور لاہور ایئرپورٹس بھی آؤٹ سورسنگ کے عمل میں شامل ہوں گے۔

کراچی ایئرپورٹ، جو کارگو اور بزنس ٹریفک کے لیے سب سے اہم سمجھا جاتا ہے، کا سالانہ ریونیو 13 ارب روپے کے قریب ہے۔

لاہور ایئرپورٹ، جو سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی پروازوں کا بڑا مرکز ہے، اس کی آمدنی بھی اسلام آباد کے قریب قریب ہے۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک مشترکہ آپریشنل ماڈل بنایا جا رہا ہے، جس کے تحت تینوں بڑے ایئرپورٹس کو ایک ہی غیر ملکی ادارے کو 15 سالہ آؤٹ سورسنگ کنٹریکٹ پر دیا جا سکتا ہے۔ اس معاہدے میں ریونیو شیئرنگ، کارگو آپریشنز، ڈیوٹی فری زونز، اور پارکنگ سروسز شامل ہوں گی، جبکہ ایئر ٹریفک کنٹرول اور رن وے آپریشنز CAA کے پاس رہیں گے۔

ممکنہ فوائد (Merits) 1. عالمی معیار کی سروسز

دبئی اور ابو ظہبی جیسے ایئرپورٹس کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے، UAE کا انتظام جدید سہولیات، جدید ٹیکنالوجی اور کسٹمر کیئر کے معیار کو بلند کرے گا۔

2. سرمایہ کاری میں اضافہ

آؤٹ سورسنگ معاہدوں سے حکومت کو فوری ایڈوانس فیس اور ریونیو شیئرنگ کی صورت میں سالانہ اربوں روپے کی آمدنی متوقع ہے۔

3. کمرشل ترقی

ریٹیل، ہوٹل، ڈیوٹی فری زونز اور پارکنگ سہولیات کو جدید خطوط پر استوار کیا جا سکتا ہے، جس سے ایئرپورٹ کی مجموعی کمائی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔

4. بوجھ میں کمی

CAA کے لیے روزمرہ آپریشنز کی بجائے ریگولیٹری اور سیکیورٹی کردار پر توجہ دینا آسان ہو جائے گا۔

 ممکنہ نقصانات (Demerits) 1. قانونی شفافیت کے خدشات

اگر PPRA قوانین کو نظر انداز کیا گیا تو یہ اقدام متنازع ہو سکتا ہے اور شفافیت پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔

2. قومی خودمختاری پر اثر

ایئرپورٹس اہم اسٹریٹجک تنصیبات ہیں؛ ان کی مینجمنٹ کسی غیر ملکی حکومت کو دینا طویل مدتی خطرات رکھتا ہے۔یاد رھے کہ UAE کے تقریبا تمام ائر پورٹ برطانیہ امریکہ اور دوسرے ممالک کے لوگ چلا رھے ھین

3. ریونیو شیئرنگ کے مسائل

اگر معاہدے کی شرائط غیر واضح یا غیر متوازن ہوئیں تو طویل مدت میں قومی خزانے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

4. ملازمین کا مستقبل

اگرچہ حکومت کا کہنا ہے کہ کسی ملازم کو نہیں نکالا جائے گا، لیکن نجی یا غیر ملکی انتظامات سخت پرفارمنس پالیسیز نافذ کرتے ہیں۔

5. سیکیورٹی خطرات

حساس اداروں کی نگرانی اور انفارمیشن سیکیورٹی پر غیر ملکی اثرات ایک نازک معاملہ ہیں۔

 بین الاقوامی مثالیں

قطر نے Hamad International Airport کو اپنی سرکاری کمپنی QACC کے ذریعے جدید بنایا، لیکن تمام فیصلے پارلیمانی منظوری کے بعد کیے۔

سعودی عرب نے ریاض اور جدہ کے ایئرپورٹس کے لیے بین الاقوامی کنسورشیمز کو شامل کیا، لیکن معاہدے شفاف ٹینڈرنگ کے ذریعے طے پائے۔

ترکی میں Istanbul Airport کی آؤٹ سورسنگ ایک بڑے عالمی آپریٹر کو دی گئی، لیکن مکمل مسابقتی بولی کے بعد۔

امریکہ میں DP World کا بندرگاہ معاہدہ سیاسی دباؤ کی وجہ سے منسوخ کرنا پڑا — یہ ایک سبق ہے کہ عوامی اعتماد کے بغیر G2G معاہدے کامیاب نہیں ہوتے۔

 کیا یہ قدم درست ہے؟

اسلام آباد، لاہور اور کراچی ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ کا فیصلہ بظاہر ایک اسٹریٹجک مالی اقدام ہے۔ دوست ملک UAE کے ساتھ شراکت عالمی معیار، سرمایہ کاری، اور بہتر مینجمنٹ کی جانب ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔

تاہم، حکومت کو چاہیے کہ:

معاہدے کی شفاف تفصیلات پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے رکھے۔

ریونیو شیئرنگ کے واضح اور متوازن اصول بنائے۔

ملازمین کے حقوق اور قومی سیکیورٹی کے تقاضے قانونی دستاویزات میں محفوظ کرے۔

کراچی اور لاہور ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ سے پہلے اسلام آباد کے ماڈل کے نتائج کا جائزہ لے۔

نتیجہ

یہ فیصلہ پاکستان کے ایوی ایشن سیکٹر کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے، مگر اس کی کامیابی مکمل طور پر شفافیت، قانونی فریم ورک، اور عوامی اعتماد پر منحصر ہے۔ اگر حکومت نے صحیح حکمت عملی اختیار کی تو یہ ماڈل نہ صرف اسلام آباد بلکہ کراچی اور لاہور ایئرپورٹس کو بھی عالمی معیار تک لے جا سکتا ہے۔ تاھم قومی ماہرین نے یہ  خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ ہم اتنے کمزور ہیں کہ ہم اپنے بندرگاہوں کے ہوائی اڈے اور دیگر ادارے نہیں چلا سکتے اور بیرونی دنیا سے ان قیمتی اشیاء منافع بخش تنظیموں کو چلانے کے لیے کہتے ہیں جو کہ ایک سنگین سوالیہ نشان ہے۔آنے والے وقتوں میں شاید  ارباب اختیار کو  جواب دینا پڑے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبید الرحمان عباسی

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

آؤٹ سورسنگ ایئرپورٹس سول ایوی ایشن

متعلقہ مضامین

  • (سندھ بلڈنگ ) ڈی جی شاہ میر بھٹو کی کھوڑ و سسٹم پر مہربانیاں
  • سیلاب کی روک تھام، حکمت عملی کیا ہے؟
  • وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی کا بنوں میں دہشت گردوں کا حملہ ناکام بنانے پرپولیس جوانوں کی تحسین
  • پولیس کی ترجیح منشیات کے بڑے ڈیلرز اور سپلائرز کو ٹارگٹ کر کے سپلائی چین توڑنا ہے: آئی جی سندھ
  • ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ: دوستوں سے شراکت یا قانونی اصولوں کی خلاف ورزی؟
  • کراچی: شہریوں کی غیر قانونی پارکنگ فیس سے جان چھوٹ گئی، نوٹیفکیشن جاری
  • سندھ ہائیکورٹ کی نیپرا کو کےالیکٹرک کے مکمل سروے کی ہدایت
  • (سندھ بلڈنگ) ڈائریکٹر سمیع جلبانی کی پیداگری سے انسانی جانوں کو خطرہ
  • (سندھ بلڈنگ ) ڈائریکٹر جنرل شاہ میر بھٹو ،کھوڑو سسٹم کا مہر ہ ثابت
  • سندھ حکومت بارشوں کے بڑے اسپیل سے نمٹنے کیلئے تیار(غیر قانونی تعمیرات کیخلاف کارروائی جاری)