300 یونٹ بجلی،500 روپے کاگیس سلنڈرماہانہ راشن مفت دینے کااعلان
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
نئی دہلی(نیوز ڈیسک)دہلی اسمبلی انتخابات کے پیش نظر بھارت کی اپوزیشن پارٹی کانگریس نے اپنے منشور کا اعلان کردیا ۔جس کے تحت عوام کو ماہانہ 500 روپے کا گیس سلنڈر، 300 یونٹ مفت بجلی ، فری راشن دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق کانگرس کا کہنا ہےکہ نئی دہلی انتخابات جیت کر عوام کو 500 روپے میں گیس سلنڈر، 300 یونٹ مفت بجلی اور مفت راشن دیا جائے گا۔ یادرہے قبل ازیں، کانگریس پارٹی خواتین اور نوجوانوں کے لئے بھی اعلان کر چکی ہے۔
اس موقع پر دہلی کانگریس کے صدر دیویندر یادو نے کہا کہ خواتین پر مہنگائی کا شدید اثر ہوا ہے، جس کے پیش نظر ’مہنگائی مکتی یوجنا‘ متعارف کرائی گئی ہے۔ اس اسکیم کے تحت ہر خاندان کو مفت راشن کٹ دی جائے گی جس میں 5 کلو چاول، 2 کلو چینی، ایک لیٹر تیل، 6 کلو دال اور 250 گرام چائے کی پتی شامل ہوگی۔انہوں نے کہا کہ پچھلے دس برسوں میں مہنگائی نے غریب خاندانوں کی زندگی مشکل بنا دی ہے۔ یہ اقدامات خواتین کو گھریلو مسائل سے آزاد کر کے بچوں کی تعلیم اور خاندان کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع فراہم کریں گے۔اس موقع پر تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی بھی موجود تھے۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں وزیر اعلیٰ کیجریوال اور وزیر اعظم مودی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ مودی اور کیجریوال میں کوئی فرق نہیں ہے، صرف نام کا فرق ہے۔ دہلی کو بہتر بنانا ہے تو کانگریس کی حکومت بنانا ضروری ہے۔
آج پاکستان کے مختلف شہروں میں موسم ابرآلود جبکہ ہلکی بارش کی توقع ہے،موسمیات
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مان کر کمیونسٹوں نے غلطی کی تھی، پروفیسر عرفان حبیب
پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ مسلم لیگ فرقہ پرست تھی، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس ایک قومی پارٹی تھی، مسلم لیگ نے تقسیم کی حمایت کی لیکن کانگریس نے نہیں کی تو یہ کس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ایک جیسے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے سابق جنرل سکریٹری سیتارام یچوری کی پہلی برسی کے موقع پر منعقدہ ایک یادگاری خطبے میں نامور تاریخ دان پروفیسر عرفان حبیب نے اپنے سامعین پر زور دیا کہ انہیں ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے چند اہم ترین ابواب کے مارکسی تنقیدوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہیئے۔ خاص طور پر ان ابواب کا، جن کے بارے میں انہیں لگتا ہے کہ وہ ہندوستانی کمیونسٹ تحریک کے کردار کو دھندلا کرتے ہیں۔ پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ شاید اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی خامیوں پر بھی نظر ڈالیں۔ انہوں نے واضح طور پر خود کو بائیں بازو کا دانشور مانا۔ عالمی سطح پر قرون وسطیٰ کے ہندوستان کے ایک انقلابی مؤرخ کے طور پر معروف، لیکن جن کا کام قدیم سے جدید ہندوستان تک کے مختلف ادوار پر محیط ہے، پروفیسر عرفان حبیب اب 90 سال سے زیادہ کے ہوچکے ہیں۔ پروفیسر حبیب نے دہلی میں گزشتہ دہائی کا اپنا پہلا عوامی لیکچر دیا۔
پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ برطانوی استعمار پر کمیونسٹ تنقید، ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک سے پہلے شروع ہو چکی تھی۔ (کارل) مارکس اور (فریڈرک) اینگلز نے 1840ء کی دہائی میں نو آبادیات پر تنقید کی، لیکن نوروجی اور دت نے ہندوستان میں اس تنقید کو فروغ دیا، ہمیں بھی ان کا احترام کرنا چاہیئے۔ عرفان حبیب نے مزید وضاحت کی کہ کمیونسٹ انڈین نیشنل کانگریس کا ایک اہم حصہ تھے اور وہ اکثر سوشلسٹوں کے ساتھ اتحاد کرتے تھے۔ یہ صورتحال آزادی کے بعد بدلی، جب دونوں کے درمیان اختلافات نمایاں ہونے لگے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیونسٹوں نے ایک اسٹریٹجک غلطی کی تھی، جب انہوں نے مسلم لیگ اور کانگریس کو ایک جیسا مان لیا۔ انہوں نے کہا کہ 1930ء کی دہائی سے لے کر 1947ء تک، کانگریس اور مسلم لیگ دو مختلف سمتوں میں آگے بڑھ رہی تھیں۔ کانگریس فوری اور مکمل آزادی چاہتی تھی، اور مسلم لیگ مسلمانوں کے لئے علیحدہ حصہ (ڈیویڈنڈ) کا مطالبہ کر رہی تھی۔ عرفان حبیب نے دلیل دی کہ اگرچہ کمیونسٹوں نے کانگریس کے مطالبے کی حمایت کی، لیکن انہوں نے غلطی سے دونوں سیاسی جماعتوں کو ایک ہی مان لیا۔
پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ مسلم لیگ فرقہ پرست تھی، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس ایک قومی پارٹی تھی، مسلم لیگ نے تقسیم کی حمایت کی، لیکن کانگریس نے نہیں کی، تو یہ کس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ایک جیسے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم دونوں میں فرق کیوں نہیں دیکھ پائے۔ کانگریس کے پاس پہلے ہی سوشلسٹ پروگرام تھا۔ عرفان حبیب نے یاد کیا کہ غیر منقسم کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مانتے ہوئے، ایسی پالیسی اپنائی تھی، جس کے تحت اپنے مسلم کارکنوں کو مسلم لیگ میں بھیجا اور ہندو اراکین کو کانگریس میں، یعنی عملی طور پر کانگریس کو ایک "ہندو پارٹی" مان لیا گیا۔ انہوں نے اسے ایک بڑی غلطی قرار دیا اور یاد کیا کہ کیسے کئی مسلم کمیونسٹوں نے مسلم لیگ کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کیے جانے پر مارکسزم سے خود کو دور کر لیا۔ تاہم انہوں نے یاد دلایا کہ جب کمیونسٹ ایک متنازعہ سیاسی موقف اپنا رہے تھے، اس زمانے کے ایک ممتاز کمیونسٹ ترجمان آر پی دت نے اپنی مشہور کتاب انڈیا ٹوڈے (1940ء) میں ایک الگ باب لکھا تھا جس میں یہ دلیل دی گئی کہ ہندوستان کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ان کی دلیل کو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے اس وقت کے جنرل سکریٹری پی سی جوشی نے نظرانداز کر دیا، جو مسلم لیگ کے تئیں اپیزمنٹ کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔