نئی صبح طلوع ہونے کے قریب !
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
سمجھ نہیں آرہی کہ ملک کا نظم ونسق کیسے چل رہا ہے کیونکہ سویلین ادارے (سارے نہیں ) اپنے فرائض ادا کرنے میں پر جوش نظر نہیں آتے ان میں جوش اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انہیں اپنی جیب بھاری ہونے کا یقین ہو لہذا عوام کی خوب درگت بن رہی ہے۔
آپ نے کوئی بھی کام کروانا ہو جب تک رشوت نہیں دیں گے وہ کام نہیں ہو گا۔ سویلین محکموں میں بیٹھے ملازمین چٹے دن اپنی مرضی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔شاید ان کی اوپر تک رسائی ہوتی ہے کیونکہ ان کے خلاف شکایت بھی کی جائے تو وہ کھوہ کھاتے میں چلی جاتی ہے۔
ہم دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ حکومتیں سیاسی معاملات کو تو بڑی گہری نظر سے دیکھتی ہیں اپنے راستے میں کوئی رکاوٹ ہو تو اسے دور بھی کرلیتی ہیں مگر مجال ہے لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کی جانب سنجیدگی سے آئیں۔ اس وقت عوام کی بہتری سے متعلق جتنے بھی محکمے ہیں وہ بغیر کسی لالچ کے دوسرے لفظوں میں ’’ غیرسرکاری فیس‘‘ کے اپنے قلم کو جنبش نہیں دے رہے۔ آپ محکمہ پولیس کو دیکھ لیں وہ ڈنکے کی چوٹ پر اپنا خزانہ بھرنے میں مصروف نظر آتا ہے۔ ان سے جائز طریقے سے میٹر لگانا خاصا مشکل ہے مگر جب مٹھی گرم کر دی جائے تو مشکل آسان ہو جا تی ہے۔ اسی طرح پٹوار خانہ ہے اس میں بھی اندھیر مچا ہوا ہے دھڑلے سے ’’فیس‘‘ وصول کی جاتی ہے وگرنہ بندہ ساری عمر رْلتا ہے۔ مزکورہ محکموں کے علاوہ جو دیگر سویلین محکمے ہیں انہوں نے بھی لوگوں کا برا حال کر رکھا ہے۔ ویسے عوام بھی ان کے طرز عمل کے عادی ہو چکے ہیں وہ شور تو مچاتے ہیں مگر قانون کا سہارا نہیں لیتے ہو گا کہ انہیں ضروری سہولتیں دینا ہوں گی تنخواہوں میں اضافہ کرنا ہو گا۔ غریب لوگ تو پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں کھا سکتے ان میں سے تو ایسے بھی ہیں کہ انہیں روزانہ کی بنیاد پر محنت مشقت کرنا پڑتی ہے جو اگر انہیں میسر ہو‘ ضروری نہیں کیونکہ صنعتیں بند ہوتی جا رہی ہیں ملک کے بڑے بڑے سرمایہ کار دوسرے ملکوں میں جا رہے ہیں جس سے ذرائع پیداوار کم پڑ گئے ہیں اور غربت کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں مستقبل قریب میں بھی صنعت کاری کا کوئی امکان نہیں لہذا آنے والے دنوں میں جو ہونے والاہے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ ملک چھوڑنے کو ترجیح دے رہا ہے کیونکہ اسے موجودہ نظام سے شکوہ ہے ۔
بات ہو رہی تھی سرکاری محکموں کی کہ وہ عوام کو آسانیاں فراہم کرنے کے بجائے تکالیف پہنچانے میں مصروف ہیں اور اپنی خواہشات پوری کر رہے ہیں ان کے نزدیک جب اقتداری لوگ بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں تو اور بار بار دھو رہے ہیں تو پھر وہ کیوں پیچھے رہیں‘ انہیں بھی پیٹ لگا ہوا ہے۔کبھی کبھی حکومت ان کے گرد گھیرا بھی تنگ کرتی ہے تاکہ اْس کی اِس ’’ادا‘‘کو پزیرائی مل سکے۔ بس یہی چکر ہے جو ستتر برس سے جاری ہے اور خوشحالی آنے میں نہیں آرہی۔
حکمران لوگوں کے مسائل ختم نہیں کر سکے۔اب تو چاروں طرف سے ان پر (عوام) الم ومصائب کا سایہ گہرا ہو چکا ہے کیونکہ انہیں جہاں مسائل کا سامنا ہے وہاں وہ ایک جانے انجانے خوف میں بھی مبتلا ہیں کہ انہیں شکوہ و شکایت کی اجازت بھی نہیں حیرانی یہ ہے کہ حکومت با آواز بلند سب اچھا کی گردان الاپے جا رہی ہے اور یہ تاثر دے رہی ہے کہ اگر وہ نہ ہوئی تو ملک کنگال ہو جائے گا ترقی رک جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ یعنی اگر عمران خان آگیا تو ان کی یہ حالت بھی ایسی نہیں رہے گی لہذا اس کا ساتھ دیا جائے مگر عوام ہیں کہ اس کی کسی بات کسی دلیل اور کسی منطق کا اثر نہیں لے رہے۔ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان کے دن خان کے آنے ہی سے پھریں گے انہیں حقیقی آزادی کا احساس تب ہی ہو گا معیشت ان کے اقتدار میں آنے ہی سے اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گی۔
لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ’’پرندہ‘‘ کھلی فضا میں سانس لے سکے گا ( اگرچہ اسے سزا ہو چکی ہے مگر یہاں دیکھتے ہی دیکھتے منظر بدل جاتے ہیں) کیونکہ یہ بات ہر کسی کو معلوم ہے کہ غالب اکثریت والی سیاسی جماعت ہی ملک کو سیاسی و معاشی استحکام دے سکتی ہے مشکل فیصلے بھی وہی کر سکتی ہے۔
بہر کیف ڈونلڈ ٹرمپ خان کو اپنا ’’بیلی‘‘ سمجھتے ہیں لہٰذا وہ اسے اقتدار میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں مگر ان کے سیاسی مخالفین انہیں پسند نہیں کرتے کہ وہ ’’سٹیٹس کو‘‘ کو قائم رکھنا چاہتے ہیں لہٰذا وہ سر توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ یہ چمن یونہی رہے مگر انہیں علم ہونا چاہیے کہ غریب عوام کی بس ہو چکی ہے وہ موجودہ نظام کو بدلنا چاہتے ہیں لہٰذا نئی صبح طلوع ہونے کے قریب ہے !
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کہ انہیں میں بھی رہے ہیں نہیں ا ہیں کہ
پڑھیں:
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی !
آواز
ایم سرور صدیقی
وفاقی حکومت نے جناتی اندازکا نیا بجلی کا سلیب سسٹم جاری کردیاہے جوطلسم ِ ہوشربا سے کم نہیں ہے۔ سمجھ نہیں آتی اشرافیہ عوام کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہی ہے؟ شاید عوام کو چکر پہ چکر دینامقصودہے کہ عام آدمی سکھ کا سانس بھی نہ لے پائے ۔کہا یہ جارہاہے کہ بجلی ٹیرف کا پہلے جو 200 یونٹ والا رعایتی نظام تھا وہ ختم کر دیا گیا ہے۔ اب اسے بڑھا کر 300 یونٹ کر دیا گیا ہے لیکن اس میں اصل چالاکی چھپی ہے یعنی مرے کو مارے شاہ مدار۔بجلی ٹیرف کے پرانے نظام میںپہلے 100 یونٹس پر ریٹ 9 روپے فی یونٹ تھا ۔اس کے بعد کے یونٹس (100) پر ریٹ ہوتا تھا 13 روپے فی یونٹ اور اگر آپ کا بل 200 یونٹ سے اوپر چلا جاتا تو صارفین کو 34 روپے فی یونٹ کا اضافی ادا کرناپڑتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی شرط عائد تھی کہ اگر آپ 6 مہینے تک دوبارہ 200 یونٹ سے کم پر آ جائیں تو صارفین کے بجلی کاریٹ واپس 9 روپے فی یونٹ کے ریٹ پر آ جاتا تھا۔ مطلب اگر کوئی صارف کچھ مہینے زیادہ بجلی خرچ کر گیا تو اسے دوبارہ سستے ریٹ پر آنے کا موقع ملتا تھا۔ اب جناتی اندازکے نئے بجلی کے سلیب سسٹم میں 1 یونٹ سے لے کر 300 یونٹس تک کا ریٹ سیدھا 33 روپے فی یونٹ کر دیا گیا ہے(ہور چوپو)صاف صاف ظاہرہے اب کوئی سلیب سسٹم نہیں بچا کوئی 6 مہینے کی رعایت یا واپسی کا راستہ نہیں بچا ۔جو صارف پہلے تھوڑا احتیاط کر کے 200 یونٹ سے نیچے رہ کر بچ جاتا تھا۔ اب اس کو بھی وہی مہنگا ریٹ بھرنا پڑے گا ۔اس کا نتیجہ ہے کہ 300 یونٹ کے نام پر عوام کو ایک طرف سے ریلیف کا دھوکا دیا گیا ہے کہ 300 یونٹ تک رعایت ہے لیکن حقیقتاً اب سب صارفین کو یکساں مہنگی بجلی خریدنی پڑے گی پہلے تھوڑی بہت امید بچ جاتی تھی 6 مہینے بعد سستے ریٹ کی اب وہ امید بھی حکومت نے چھین لی ہے یہ تو سراسر عوام کے ساتھ زیادتی ہے، سنگین مذاق ہے، اور معاشی قتل کے مترادف ہے اس لئے حکمرانوںکا مطمح نظرہے کہ بھاری بل آنے والے پرجو کم وسائل، غریب اور مستحقین ہے وہ خودکشی کرتے ہیں تو کرتے پھریں ہمیں کوئی پرواہ نہیں ۔صارفین کو اب احتیاط بچت یا کم خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔واپڈا کے ” سیانوں” نے عوام کو ہر حال میں لوٹنے کا سسٹم بنا دیا گیا ہے ۔یہ پہلے سے بھی بڑا ظلم ہے ۔اس پر کون آواز اٹھائے گا کوئی نہیں جانتا ۔دوسری طرف بجلی بلوں کی تقسیم کا نیا نظام رائج کرتے ہوئے حکومت نے خسارے میں چلنے والے محکمہ پاکستان پوسٹ کو اہم ذمے داری سونپ دی گئی ملک بھر میں بجلی بلوں کی پرنٹنگ اور تقسیم کے حوالے سے اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، جس کے تحت تمام بجلی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کے بل اب پاکستان پوسٹ کے ذریعے تقسیم کیے جائیں گے۔ابتدائی مرحلے میں یہ نظام آزمائشی بنیادوں پر شروع کیا جائے گا۔ ہر ڈسکوز کے ایک سب ڈویژن میں پاکستان پوسٹ کا عملہ بجلی بل تقسیم کرے گا۔ پائلٹ پراجیکٹ کی کامیابی کی صورت میں اسے مرحلہ وار پورے ملک تک توسیع دی جائے گی۔ آئندہ چھ ماہ میں بلوں کی مکمل تقسیم کا نظام پاکستان پوسٹ کے حوالے کر دیا جائے گا، جبکہ حتمی مرحلے میں بجلی بلوں کی چھپائی کا عمل بھی پاکستان پوسٹ انجام دے گا۔ اس نئے نظام کے نفاذ کے سلسلے میں تمام ریجنل پوسٹ ماسٹر جنرلز کو ضروری ہدایات جاری کر دی گئی ہیں، تاکہ عملہ پیشگی تیاری کر سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں کے الیکٹرک کے ساتھ بھی بجلی بلوں کی تقسیم کے حوالے سے بات چیت جاری ہے۔یہ اقدام بلوں کی بروقت ترسیل، شفافیت اور لاگت میں کمی کے لئے حکومت کی ایک بڑی اصلاحاتی کوشش قرار دی جا رہی ہے۔بہرحال یہ تو انتظامی ترجیحات ہیں لیکن بجلی کے بلوںکے حوالے سے عوام کے ساتھ جو کچھ ہورہاہے پوری دنیا میں ایسا ناروا سلوک کوئی حکومت اپنے ہم وطنوں کے ساتھ نہیں کررہی شاید اسی بناء پرایک مہینے کے دوران نیا ریکارڈ قائم ہواہے۔ صرف مئی میں تقریباً 60 ہزار پاکستانی ملک چھوڑ گئے، بیرون ملک جانے والوں کی تعداد میں اپریل کے مقابلے میں 12.7 فیصد اضافہ، سال کے پہلے 5 مہینوں میں ملک چھوڑنے والوں کی تعداد 2 لاکھ 85 ہزار سے تجاوز کر گئی۔ لاکھوںپاکستانی اپنا وطن چھوڑنے پرمجبور اس لئے ہورہے ہیں کہ بجلی کے بلوںمیں ایک درجن ٹیکسز دینے کے باوجودملک میں ان کا تحفظ، سیکیورٹی نہ ہونے کے برابرہے۔ صفائی کی صورت ِ حال ناگفتہ بہ ہے۔ گلی کوچوںمیں گندگی، اُبلتے گٹر وں نے الگ جینا عذاب بنارکھاہے ۔عام آدمی کے ساتھ ائیرپورٹ تھانوں اورکچہریوں میں جو سلوک ہوتاہے ،وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ یہی عام آدمی سرکاری دفاتر میں روز ذلیل ہوتاہے۔ سڑکوں پر ٹریفک وارڈن اتنی عزت ِ نفس مجروح کرتے ہیں کہ انسان سوچتاہے اتنا بے عزت ہونے کی بجائے خودکشی کرلے تو بہترہے ۔ یہی عوام (1) انکم ٹیکس (2) جنرل سیلز ٹیکس (3) کیپیٹل ویلیو ٹیکس (4) ویلیو ایڈڈ ٹیکس (5) سینٹرل سیلز ٹیکس (6) سروس ٹیکس (7) فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز (8) پیٹرول لیوی (9) ایکسائز ڈیوٹی (10) کسٹمز ڈیوٹی (11) اوکٹرائے ٹیکس (میونسپل ایریا میں سامان کے داخلے پر عائد ٹیکس) (12) ٹی ڈی ایس ٹیکس (ٹیکس ڈیڈکشن ایٹ سورس) (13) ایمپلائمنٹ اسٹیٹس انڈیکیٹر ٹیکس (ESI ٹیکس) (14) پراپرٹی ٹیکس (15) گورنمنٹ اسٹیمپ ڈیوٹی (16) آبیانہ (زرعی زمین کے پانی پر ٹیکس) (17) عشر (18) زکوٰة (بینکوں میں موجود رقم سے کٹوتی) (19) ڈھال ٹیکس (20) لوکل سیس (21) ہرقسم لائسنس کی فیس (22) دفاتر،ہسپتالوں اور کئی قسمکی پارکنگ فیس (23) کیپیٹل گینز ٹیکس (CGT) (24) واٹر ٹیکس (25) فلڈ ٹیکس (یا اللہ! معاف فرما) (26) پروفیشنل ٹیکس (27) روڈ ٹیکس (28) ٹول گیٹ فیس (29) سیکیورٹیز ٹرانزیکشن ٹیکس (STT) (30) ایجوکیشن سیس (31) ویلتھ ٹیکس (32) ٹرانزیئنٹ اوکیوپینسی ٹیکس (TOT) (33) کنجیشن لیوی لازمی کٹوتی (34) سپر ٹیکس (3 سے 4%) (35) ودہولڈنگ ٹیکسز (36) ایجوکیشن فیس (5%) کے علاوہ (a) بھاری تعلیمی فیسیں (b) اسکولوں میں عطیات (c) ہر چوراہے پر بھکاریوں کی جذباتی بلیک میلنگ کے عوض کیا ملتاہے بے عزتی، رسوائی اورہوکے اور کچیچیاں ۔لگتاہے عوام اشرافیہ کو ٹیکسز دینے کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں شاید اقبال تو اس لئے کہا تھا
نہ کہیںجہاںمیں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی؟