Nai Baat:
2025-11-03@18:14:47 GMT

اور جرم جاری ہے

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

اور جرم جاری ہے

شاید جرم کبھی نہیں رکتا ، کسی نہ کسی طرح خود کو زندہ رکھتا ہی ہے کیونکہ اس کی پرورش اور اسے نشوونما فراہم کر نے والے عوامل کی شدت میں کمی نہیں آتی خاص طور پر ترقی پذیر ممالک اور سماج میں۔ جہاں عام شہریوں کی جان و مال کی حفاظت ریاست کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتی۔ یا ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ریاست اس حوالے سے اپنی مکمل رٹ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی کہ وہ اپنی کمزور اور ناتواں آبادی کو جبر کے خلاف تحفظ فراہم کر سکے۔ یا ہمارے ہاں دو ٹانگوں والے درندوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور چہرے پر نقاب چڑھائے یہ سماج میں رہ کر سماج کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ میرے بنیادی موضوعات سماجی مسائل ، برائیاں اور اس حوالے سے ریاست ، قانون ، آئین اور سماج کے کردار پر بحث شامل رہی ہے۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ مسلسل آگہی دینے کی ہماری جد و جہد تو تھکاوٹ کا شکار ہو گئی لیکن نہیں رک سکے تو محروم و مظلوم اور کمزور کے خلاف جرائم۔
جیسے پاکستان میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم میں اب بہت زیادہ شدت آ گئی ہے جبکہ پاکستان پینل کوڈ کے مطابق بچوں کے خلاف جنسی جرائم سیکشن 377 (غیر فطری جرائم) اور سیکشن 376 (ریپ) سمیت مختلف دفعات کے تحت قابل سزا ہیں۔پاکستان میں بچوں کے خلاف تشدد کی کئی اقسام (جسمانی، نفسیاتی، جنسی) ہیں جبکہ اور بھی کئی حوالوں سے وہ استحصال کا شکار ہیں، بشمول معاشی استحصال اور سمگلنگ۔ اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے کچھ اقدامات اٹھائے تھے جن میں زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری ایکٹ 2020 کا نفاذ، جس کا مقصد بچوں کے اغوا اور جنسی زیادتی کے کیسز پر فوری اور موثر کاروائی کرنا ہے۔نیشنل چائلڈ پروٹیکشن سنٹر کا قیام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا جو غیر انسانی سلوک کے شکار بچوں کو پناہ، مشاورت اور بحالی کی خدمات فراہم کرتا ہے۔ تاہم بچوں کے خلاف جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں عوامی بیداری میں اضافہ، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی تربیت اور اس بات کو یقینی بنانا کہ مجرموں کا احتساب کیا جائے گا ، اہم ہیں۔

اس کے علاؤہ حکومت نے غیر اخلاقی جرائم میں ملوث مجرموں کی ایک قومی رجسٹری بھی قائم کی ہے تاکہ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے اور حکومت نے لوگوں کو اس مسئلے کے بارے میں آگاہ کرنے اور بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات کی رپورٹ کرنے کی ترغیب دینے کے لیے عوامی بیداری کی مہم بھی شروع کی ہے۔ جبکہ مختلف این جی اوز اور تنظیمیں بھی بچوں کے کرائم کے بارے میں بیداری پیدا کرنے ،متاثرین اور ان کے خاندانوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جانب سے بچوں کے حقوق کے کنونشن (CRC) کی توثیق کے تقریباً 30 سال بعد، کوئی عوامی مربوط چائلڈ پروٹیکشن کیس مینجمنٹ اور ریفرل سسٹم، جیسا کہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق، قائم نہیں کیا گیا ہے۔ تقریباً 3.

3 ملین پاکستانی بچے چائلڈ لیبر میں پھنسے ہوئے ہیں، جو انہیں ان کے بچپن، صحت اور تعلیم سے دور کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 20-49 سال کی عمر کی تقریباً ایک چوتھائی خواتین کی شادی 15 سال کی عمر سے پہلے اور 31 فیصد کی اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے ہو چکی تھی۔ پانچ سال سے کم عمر کے صرف 34% بچے پیدائش کے وقت قومی سطح پر رجسٹرڈ ہیں۔ (PDHS) 2012-2013 پیدائش کا اندراج تمام بچوں کا بنیادی حق ہے جو بچے کے وجود اور شناخت کے قانونی ثبوت ہیں۔ جو عمر کے درست ریکارڈ ،چائلڈ لیبر اور بچوں کی شادی کو روکنے میں مدد کر سکتا ہے، اور بچوں کو انصاف کے ایک مضبوط اور مربوط نظام کے ذریعے بدترین سلوک سے بچا سکتا ہے۔
پاکستان میں 2024 کے دوران بچوں کے خلاف ہونے والے جنسی جرائم کے بارے میں غیر سرکاری تنظیم ساحل نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ 2024 کے پہلے چھ ماہ کے دوران پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کل 1,456 واقعات رپورٹ ہوئے۔ متاثرین کی اکثریت (53%) لڑکیاں جبکہ 47% لڑکے تھے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ زیادہ تر غریب خاندانوں کے بچے بدسلوکی اور استحصال کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ بچوں کے حقوق اور تحفظ کے بارے میں محدود آگاہی کا ہونا اور گھر والوں کی جانب سے بدسلوکی اور نظر انداز کرنا بھی شامل ہے ، جو جرم کی شدت کو بڑھا دیتا ہے۔ اول تو بچہ ڈر اور خوف کے مارے بتاتا نہیں اور اگر بتا دے تو زیادہ تر گھر والے بچے کی شکایت کو نظر انداز کر کے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں، یہ سماجی خوف بچوں کے خلاف تشدد کو ختم نہیں ہونے دے رہے۔

ماہرین کے مطابق غیر سماجی شخصیت کے حامل افراد پرتشدد رویے کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں بشمول بچوں کے خلاف جرائم کے بھی۔ایسے بالغ افراد جنہوں نے اپنے بچپن میں اس قسم کی بدسلوکی کا سامنا کیا ہو، وہ پیڈوفلیا میں مبتلا ہو کر بچوں کے خلاف اسی طرح کے جرائم کرتے ہیں حالانکہ انہیں ان کا محافظ ہونا چاہیے تاکہ وہ کسی دوسرے کو بچا سکیں لیکن زیادہ تر کیسز میں ایسے افراد ہی ان جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں اور وہ یہ کام بڑی پلاننگ سے کرتے ہیں۔نفسیاتی ماہرین نے چند مزید وجوہات پر بھی روشنی ڈالی ہے جیسے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی تک آسان رسائی، جیسے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا، آن لائن پر تشدد غیر اخلاقی مواد نے بھی خطرے کو بڑھا دیا ہے۔ اس کے علاوہ شہری علاقوں کے بچے یا وہ لوگ جنہوں نے نقل مکانی کی ہے، سپورٹ نیٹ ورکس کی کمی کی وجہ سے استحصال اور بدسلوکی کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں۔ مزید برآں قدرتی آفات یا تنازعات سے متاثرہ بچے بھی بدسلوکی اور استحصال کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں۔ یعنی کہ پْراثر اور ناکافی قوانین اور پالیسیاں، غیر فعال آگاہی مہم، والدین اور سماجی لاپرواہی بچوں کو مناسب تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں جس سے جرائم کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کا زیادہ شکار ہو بچوں کے خلاف پاکستان میں کے بارے میں فراہم کر سکتے ہیں کے مطابق نہیں ا اور اس کے لیے

پڑھیں:

جماعت اسلامی ہند کا بھارت میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم پر اظہار تشویش

ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے نئی دلی میں پارٹی کے مرکزی دفتر میں ماہانہ پریس کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند نے بھارت بھر میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے نئی دلی میں پارٹی کے مرکزی دفتر میں ماہانہ پریس کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے تین حالیہ واقعات کا ذکر کیا، مہاراشٹر میں ایک خاتوں ڈاکٹر کی خودکشی جس نے ایک پولیس افسر پر زیادتی کا الزام لگایا تھا، دلی میں ایک ہسپتال کی ملازمہ جسے ایک جعلی فوجی افسر نے پھنسایا تھا اور ایک ایم بی بی ایس طالبہ جسے نشہ دیکر بلیک میل کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ یہ تمام واقعات بھارتی معاشرے میں بڑے پیمانے پر اخلاقی گراوٹ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ انہوں نے بہار اسمبلی انتخابات میں نفرت انگیز مہم، اشتعال انگیزی اور طاقت کے بیجا استعمال پر بھی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات کا موضوع ریاست کی ترقی، صحت، امن و قانون اور تعلیم ہونا چاہے، الیکشن کمیشن کو اس ضمن میں اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔

پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ ووٹ دینا صرف ایک حق نہیں بلکہ ایک ذمہ داری بھی ہے، یہ جمہوریت کی مضبوطی اور منصفانہ معاشرے کے قیام کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں کو چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کا انتخاب ان کی کارکردگی، دیانت داری اور عوام مسائل جیسے غربت، بے روزگاری، تعلیم، صحت اور انصاف کی بنیاد پر کریں نہ کہ جذباتی، تفرقہ انگیز یا فرقہ وارانہ اپیلوں کی بنیاد پر۔ نائب امیر جماعت اسلامی نے بھارتی الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ انتخابات کو آزادانہ اور منصفانہ بنانے کیلئے ضابطہ اخلاق پر سختی سے عملدرآمد کرائے۔ بہار میں اسمبلی انتخابات 6 اور 11نومبر کو ہو رہے ہیں۔

پریس کانفرنس سے ایسوسی ایشن آف پروٹیکشن آف سوال رائٹس (اے پی سی آر) کے سیکرٹری ندیم خان نے خطاب میں کہا کہ دلی مسلم کشن فسادات کے سلسلے میں عمر خالد، شرجیل امام اور دیگر بے گناہ طلباء کو پانچ برس سے زائد عرصے سے قید کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دراصل عدالتی عمل کے ذریعے سزا دینے کے مترادف ہے۔ ندیم خان نے کہا کہ وٹس ایپ چیٹس، احتجاجی تقریروں اور اختلاف رائے کو دہشت گردی قرار دینا آئین کے بنیادی ڈھانچے کیلئے سنگین خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کالے قانون ”یو اے پی اے“ کے غلط استعمال سے ایک جمہوری احتجاج کو مجرمانہ فعل بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اختلاف رائے کی آزادی جمہوریت کی روح ہے، اس کا گلا گھونٹنا ہمارے جمہوری ڈھانچے کیلئے تباہ کن ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جماعت اسلامی ہند کا بھارت میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم پر اظہار تشویش
  • سندھ بلڈنگ ،پی ای سی ایچ ایس میں خلاف ضابطہ تعمیرات جاری
  • تہران کاایٹمی تنصیبات زیادہ قوت کیساتھ دوبارہ تعمیر کرنےکا اعلان
  • وزیراعظم آزادیِ صحافت کے تحفظ، صحافیوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کیلئے پُرعزم
  • صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر وزیراعظم کا پیغام
  • صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر  وزیراعظم کا پیغام
  • وزیر اعلیٰ پنجاب کا صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن پر اہم پیغام
  • حزب الله کو غیرمسلح کرنے کیلئے لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں، امریکی ایلچی
  • کورونا کی شکار خواتین کے نومولود بچوں میں آٹزم ڈس آرڈرکا انکشاف
  • ماں کے دورانِ حمل کووڈ کا شکار ہونے پر بچوں میں آٹزم کا خطرہ زیادہ پایا گیا، امریکی تحقیق