گلوکارہ مہناز بیگم کو مداحوں سے بچھڑے 12 سال مکمل
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
لاہور : مشہور گلوکارہ مہناز بیگم کو مداحوں سے جدا ہوئے 12 سال ہو گئے ہیں۔ وہ 1955 میں کراچی میں پیدا ہوئیں اور ان کا اصلی نام کنیز فاطمہ تھا۔ وہ معروف گلوکارہ کجن بیگم کی بیٹی تھیں اور سرسید گرلز کالج سے بی اے کی تعلیم حاصل کی۔ 1972 میں انہوں نے موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا اور جلد ہی اپنی آواز کے جادو سے پہچانی جانے لگیں۔
مہناز بیگم نے غزل، ٹھمری، دادرا، خیال اور دیگر موسیقی کی اصناف میں مہارت حاصل کی تھی۔ پی ٹی وی کے پروگرام ’’نغمہ زار‘‘ میں پرفارم کرنے کے بعد ان کی شہرت فلموں تک پہنچی، جہاں بھی انہوں نے اپنی آواز کا جادو دکھایا۔
انہوں نے اپنے کیریئر میں کئی کامیاب گانے گائے اور ریڈیو، ٹی وی اور فلموں میں کئی مشہور گیتوں کی پہچان بنائیں۔ مہناز بیگم کو 13 بار نگار ایوارڈز سے نوازا گیا اور حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی بھی دیا گیا۔
19 جنوری 2013 کو جب وہ علاج کے لیے امریکا جا رہی تھیں، اچانک طبیعت خراب ہونے پر انہیں بحرین کے ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وہ دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ ان کی آواز آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے اور ان کے گائے ہوئے گانے سن کر مداح انہیں ہمیشہ یاد کرتے ہیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: مہناز بیگم
پڑھیں:
بھارت میں حقوق کیلیے احتجاج کرنا جرم قرار؛ پولیس کا مسلمانوں کیخلاف کریک ڈاؤن
بھارت میں مسلمانوں کا پرامن احتجاج اب جرم بنتا جا رہا ہے، مودی حکومت میں اقلیتوں کی آواز کو دبانے کا سلسلہ جاری ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اتر پردیش میں مسجد کے باہر وقف بل کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو دہشتگردوں کی طرح نشانہ بنایا گیا۔ یوپی پولیس نے متنازع وقف بل پر آواز اٹھانے والے 50 سے زائد مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کر لیے ہیں۔
احتجاج کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو یوپی پولیس نے مظاہرین پر بدترین تشدد کیا جب کہ مظاہرین کو 2 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم بھی دے دیا گیا۔
بل کی مخالفت میں سیاہ پٹیاں باندھنے پر بھی ایک لاکھ روپے کے مچلکے کی دھمکی دی گئی۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت نے اقلیتوں کی آواز دبانا اپنی پالیسی بنا لی ہے۔ احتجاج روکنے کے لیے دھمکیاں، مقدمات اور تشدد جیسے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ رویہ جمہوریت کی نفی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔