فراڈ کیس؛ شکیب الحسن کے وارنٹ گرفتاری جاری، مگر کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
بنگلادیش (نیوز ڈیسک)بنگلادیش کے سابق کپتان و آل راؤنڈر شکیب الحسن کے بینک فراڈ کیس میں وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق بینک کے ریلیشن شپ آفیسر، شہیب الرحمان نے بینک کی جانب سے کیس دائر کیا ہے، جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ سابق کرکٹر اور انکے 3 ساتھیوں نے (تقریبا 41.4 ملین ٹکہ) دو الگ الگ چیکس کے ذریعے منتقل کرنے تھے تاہم وہ اس میں ناکام رہے ہیں۔اس کیس میں شکیب کی کمپنی، الحسن ایگرو فارم لمیٹڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر غازی شاہگیر حسین، اور ڈائریکٹرز عماد الحق اور ملائکار بیگم کو نامزد کیا گیا ہے۔
کیس کے بیان کے مطابق، زیر بحث چیک قرضوں کے کچھ حصے کی ادائیگی کے لیے جاری کیے گئے تھے لیکن ناکافی فنڈز کی وجہ سے روک دیے گئے۔ڈھاکہ کی ایک عدالت نے اتوار کو آل راؤنڈر اور سیاستدان شکیب الحسن کے خلاف بینک سے متعلق فراڈ کیس میں وارنٹ گرفتاری جاری کیے، جس میں مزید 3 دیگر افراد بھی نامزد ہیں۔ڈھاکہ کے ایڈیشنل چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ ضیاء الرحمان نے اتوار کو یہ حکم جاری کیا۔15 دسمبر کو شکیب کو چیک فراڈ کیس میں نامزد کیا گیا تھا، اس کے بعد 18 دسمبر کو عدالت نے انہیں ابتدائی سماعت کے بعد 19 جنوری کو عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔واضح رہے کہ بنگلادیشی کرکٹر و عوامی لیگ کے رکن پارلیمنٹ شکیب الحسن 7 جنوری 2024 میں بلا مقابلہ الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے تاہم طلبا احتجاج اور شیخ حسینہ کا تختہ الٹ جانے کے بعد وہ بیرون ملک رہائش پذیر ہیں۔
19 بچوں کی ماں نے پی ایچ ڈی کرکے سب کو حیران کردیا
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: شکیب الحسن فراڈ کیس کیس میں
پڑھیں:
عمرایوب کے اکتوبر 2024 کے احتجاج سے متعلق مقدمے میں وارنٹ گرفتاری جاری
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 جولائی2025ء)اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے گزشتہ سال اکتوبر کے احتجاج سے متعلق مقدمے میں قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے۔4 اکتوبر 2024 کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مظاہرین اور اسلام آباد پولیس کے درمیان اس وقت جھڑپیں ہوئیں، جب سیکڑوں پارٹی کارکنوں نے سیکیورٹی اقدامات اور سڑکوں کی بندش کے باوجود شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس سے چند روز قبل مختلف مقامات پر اکٹھا ہونے کی کوشش کی تھی، اس موقع پر سابق وزیراعظم عمران خان کی دو بہنوں سمیت 100 سے زائد پی ٹی آئی کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔انسداد دہشت گردی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے تھانہ شہزاد ٹاؤن میں درج مقدمے کی سماعت کی۔(جاری ہے)
پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے وکلا سردار مصروف خان، زاہد بشیر ڈار، مرتضیٰ طوری اور مرزا عاصم عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے دوران، جج طاہر عباس سپرا نے عمر ایوب کے خلاف قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے ان تمام ملزمان کی ضمانتیں منسوخ کرنے کا حکم دیا جو آج عدالت میں پیش نہیں ہوئے تاہم، جج نے سینیٹر اعظم سواتی کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کر لی، جو وکیل کے مطابق گزشتہ روز جمع کرائی گئی تھی، بعد ازاں، عدالت نے مزید سماعت 30 جولائی تک ملتوی کر دی۔
گزشتہ روز جاری کردہ ایک ویڈیو بیان میں وکیل مصروف خان نے ان مقدمات کی سماعت کی رفتار پر افسوس کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ بعض ملزمان دور دراز علاقوں جیسے آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا کے مردان سے آئے تھے، جنہیں اسلام آباد میں رات گزارنے کی کوئی جگہ نہیں ملی۔انہوں نے کہا کہ اگر ان مقدمات کو اس طرح بلڈوز کیا جائے گا اور آپ انہیں منصفانہ ٹرائل کا موقع نہیں دیں گے تو انصاف کی فراہمی ممکن نہیں رہے گی، وکیل نے عدالتوں سے اپیل کی کہ صرف ان افراد کو سزا دی جائے جو واقعی قصوروار ہیں، بے گناہوں کو نہ پھنسایا جائے۔یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے، جب حالیہ دنوں میں 2 انسداد دہشت گردی عدالتوں نے 9 مئی 2023 کے پٴْرتشدد ملک گیر فسادات سے متعلق مقدمات میں پی ٹی آئی کے کئی اہم رہنماؤں کو 10، 10 سال قید کی سزائیں سنائی ہیں۔لاہور کی اے ٹی سی نے 8 رہنماؤں کو 10 سال قید بامشقت کی سزا دی، جب کہ 6 کو بری کر دیا، سرگودھا کی اے ٹی سی نے بھی ایم این اے احمد چٹھہ اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر سمیت 32 ملزمان کو سزا سنائی تھی۔مئی میں اسلام آباد پولیس کی پراسیکیوشن نے 4 اکتوبر کے احتجاج پر کورال تھانے میں درج مقدمے میں پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت (جن میں عمر ایوب، چیئرمین گوہر خان، کے پی کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اور بیرسٹر محمد علی سیف) کو بھی نامزد کیا۔اسی مہینے، لاہور کی اے ٹی سی نے پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر اور رانا شہباز احمد کو دو مقدمات میں مفرور قرار دیا، جو مبینہ طور پر پنجاب پولیس پر حملے اور مینارِ پاکستان کی جانب مارچ کے دوران درج کیے گئے تھے۔وفاقی دارالحکومت کے نون اور رمنا تھانوں میں بھی ان جھڑپوں سے متعلق دیگر مقدمات درج کیے گئے تھے۔