بھارت میں مہا کمبھ میلے میں ہار بیچنے والی مونا لیزا نامی ایک نوجوان لڑکی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے، جس کی خوبصورتی اور معصومیت کے چرچے پورے سوشل میڈیا پر پھیل گئے ہیں، چند ہی گھنٹوں میں اس کی ویڈیو کو 10 لاکھ سے زیادہ ’لائکس‘ ملے ہیں۔

بھارت میں مہا کمبھ میلے میں پھولوں کے ہار بیچنے والی مونا لیزا کی سوشل میڈیا پر وائرل تصاویراور ویڈیوزپراپنے تبصروں میں جہاں کچھ لوگ اس کے قدرتی حسن کی تعریف کر رہے ہیں، وہیں کچھ لوگ اس پر مردوں کی توجہ اور تبصروں پر شدید تنقید بھی کر رہے ہیں۔

بھارتی علاقے اندور سے تعلق رکھنے والی نوجوان لڑکی جس نے اپنا نام ’مونا لیزا‘ بتایا کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک جنون پایا جاتا ہے جو اس وقت پریاگ راج میں جاری 2025 کے مہا کمبھ میلے سے زیادہ توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔

مونا لیزا تریوینی سنگم پر رنگ برنگے موتیوں سے بنے ہار بیچتی ہیں، جہاں 144 سال میں ایک بار ہونے والے اس مذہبی تہوار کے دوران روزانہ ہزاروں عقیدت مند گنگا میں ڈبکی لگانے آتے ہیں۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by @monalisa_khumbh

بھارتی سوشل میڈیا کے صارفین کو جہاں سیاہ رنگت اورامبرآنکھوں والی مونا لیزا کی خوبصورتی نے متاثر کیا ہے وہاں ہی اس کے بولنے کا ایک انوکھا انداز بھی ہے اور انسٹاگرام پر پوسٹ کی جانے والی ’ریلز‘ کو دیکھتے ہوئے، لوگ، خاص طور پر مرد ان کے بارے میں بہت زیادہ متجسس نظر آتے ہیں۔

مونا لیزا کا انسٹاگرام پر ایک اکاؤنٹ بھی ہے جس پر چند گھنٹوں میں 10 لاکھ سے زیادہ لائکس کے ساتھ وائرل ہونے والے ’ریلز‘ میں ایک یوٹیوبر اس سے پوچھتا نظرآتا ہے کہ وہ کہاں سے آئی ہیں اور کیا اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیں۔ جیسے ہی وہ ہاں میں جواب دیتی ہیں تو وہ اسے بتاتا ہے کہ اسے تو اس وقت سب سے زیادہ مشہور ہونا چاہیے۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by @monalisa_khumbh

ایک اور ویڈیو میں ایک شخص ‘مونا لیزا’ سے پوچھتا ہے کہ کیا وہ ’شادی شدہ‘ ہیں، تو اس پر وہ کہتی ہیں کہ وہ صرف 16 سال کی ہیں اور شادی کے لیے ان کی عمر بہت چھوٹی ہے۔

مونا لیزا کی معصومیت اس وقت سامنے آتی ہے جب ایک اور شخص اس سے پوچھتا ہے کہ کیا سوشل میڈیا پراس کے بہت سارے فالوورز میں سے وہ کسی ایک کو پسند کرتی ہیں۔ تو وہ جواب دیتی ہے کہ ’میں ان میں سے کسی کو کیوں پسند کروں گی؟ وہ سبھی میرے بھائی ہیں، وہ کسی ایسے شخص سے ہی شادی کریں گی جسے اس کے والدین اس کے لیے منتخب کریں گے۔

مونا لیزا کے سوشل میڈیا پر اچانک وائرل ہونے پر ملا جلا رد عمل سامنے آیا۔ مونا لیزا کے ساتھ سلیفی بنوانے والے مردوں کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے، صارفین ان پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں لوگ عبادت کے لیے آتےہیں۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by Monalisa official (@bollywoodzingur)

ایک صارف نے لکھا کہ ’ایسا لگتا ہے جیسے آپ اسے پریشان کر رہے ہیں‘۔ یہ مہا کمبھ ہے، جو گزشتہ 144 سالوں میں سب سے زیادہ روحانی تقریب ہے، اس جگہ کا احترام کریں۔

اس نے لکھا کہ وہ واقعی خوبصورت ہے! لیکن ان لوگوں کے لیے کتنا شرمناک ہے جو اس کا پیچھا کر رہے ہیں، ’سنجیدہ یار! آپ اور کتنا نیچے گرو گے،؟

سوشل میڈیا پرایک ویڈیو میں یو ٹیوبر مونا لیزا کو 5 ہزار روپے ’تحفے‘ میں دینے کی کوشش کرتا ہے، لیکن وہ یہ رقم لینے سے انکار کر دیتی ہے۔ کافی کوشش کے بعد، وہ اس شرط پر10روپے قبول کرتی ہے کہ وہ اس کے بدلے ان سے ایک ہارخریدیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پر کر رہے ہیں مونا لیزا سے زیادہ کے لیے

پڑھیں:

’’سوشل میڈیا کے شور میں کھویا ہوا انسان‘‘

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251104-03-4

 

سید محمد علی

دنیا ایک ایسی سمت میں جا رہی ہے جہاں آوازیں بہت ہیں مگر سننے والا کوئی نہیں۔ ہر شخص اپنی بات کہنے کے لیے بے چین ہے، مگر دوسروں کی بات سننے کی طاقت کھو چکا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس شور میں انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ؛ اس کا احساس کہیں گم ہو گیا ہے۔ یہ وہ دور ہے جہاں بولنے والے لاکھوں ہیں، مگر سمجھنے والے مفقود۔ ہم ایک ایسی خاموش نسل بن چکے ہیں جو اپنے ہی شور میں دب کر رہ گئی ہے۔ سوشل میڈیا کو ابتدا میں ایک انقلاب سمجھا گیا۔ اسے اظہارِ رائے، آزادی، اور انسانوں کے درمیان فاصلے کم کرنے کا ذریعہ قرار دیا گیا۔ مگر آہستہ آہستہ یہی انقلاب ایک ایسی زنجیر بن گیا جس نے ہمیں اپنی اسکرین کے اندر قید کر دیا۔ اب ہر لفظ بولنے سے پہلے ہم یہ سوچتے ہیں کہ کتنے لوگ دیکھیں گے، لائک کریں گے یا کمنٹ کریں گے۔ ہماری تحریر اور تقریر سچائی کے بجائے تاثر کے تابع ہو گئی ہے۔ ہم اپنی حقیقی زندگی کے احساسات سے زیادہ مجازی دنیا کی واہ واہ میں الجھ گئے ہیں۔ انسان کے لیے کبھی گفتگو دلوں کا رابطہ تھی، مگر اب وہ پوسٹس، ریلز اور اسٹوریز میں بدل گئی ہے۔ ایک وقت تھا جب چہرے پڑھنے، لہجے محسوس کرنے، اور آنکھوں سے بات کرنے کا فن عام تھا۔ اب سب کچھ اسکرین کے فریم میں قید ہو چکا ہے۔ ہم نے احساس کو تصویروں میں، جذبات کو ایموجیز میں، اور رشتوں کو نوٹیفکیشنز میں بدل دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ہزاروں فالورز ہیں مگر ایک سچا سننے والا نہیں۔ سوشل میڈیا نے ہمیں ظاہری طور پر جوڑ دیا، مگر حقیقت میں فاصلہ بڑھا دیا۔ ہم اپنی زندگی کے ہر لمحے کی تصویریں دوسروں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں مگر ان لمحوں کو جیتے نہیں۔ ہم دوسروں کی تصویری خوشیوں کو دیکھ کر اپنی حقیقت سے دور ہو رہے ہیں۔ ہر شخص دوسرے کی زندگی کو اپنے معیار سے بہتر سمجھنے لگا ہے، اور یہ احساسِ کمتری ہمارے اندر ایک خاموش اضطراب پیدا کر رہا ہے۔ یہ وہ اضطراب ہے جو چیختا نہیں، بس اندر ہی اندر انسان کو کھا جاتا ہے۔ لوگ اپنے دکھ، پریشانی یا کمزوریوں کو سوشل میڈیا پر ظاہر نہیں کرتے کیونکہ یہاں کمزور ہونا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ سب کچھ ’’پرفیکٹ‘‘ دکھانا ایک دباؤ بن چکا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم سب مسکراتے چہروں کے پیچھے تھکے ہوئے، خالی دلوں کے ساتھ جی رہے ہیں۔ ہم نے مکالمے کو تبصرے سے بدل دیا ہے۔ اب اختلافِ رائے برداشت نہیں ہوتا، بلکہ ’’کینسل کلچر‘‘ نے سنجیدہ بات چیت کی جگہ لے لی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو سمجھنے کے بجائے رد کرنے لگے ہیں۔ کبھی اختلاف بات کو آگے بڑھاتا تھا، اب وہ تعلق ختم کر دیتا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہمیں رائے دینے کا حوصلہ تو دیا ہے مگر برداشت کا حوصلہ چھین لیا ہے۔ سماجی سطح پر بھی یہ تبدیلی گہری ہو رہی ہے۔ نوجوان نسل اب حقیقی تعلقات میں کم دلچسپی رکھتی ہے۔ دوستیاں، محبتیں، حتیٰ کہ خاندانی گفتگو بھی آن لائن میسجز تک محدود ہو گئی ہیں۔ ایک وقت تھا جب گھروں میں کھانے کی میز گفتگو سے روشن ہوتی تھی، اب ہر ہاتھ میں ایک موبائل ہے اور ہر نگاہ ایک اسکرین پر جمی ہے۔ گھر وہ جگہ تھی جہاں دل آرام پاتے تھے، اب وہ وائی فائی کے سگنلز کے مرکز بن چکے ہیں۔ انسان نے مشینوں کو بنانے کے بعد سوچا تھا کہ یہ اس کی زندگی آسان کریں گی، مگر آہستہ آہستہ انہی مشینوں نے اس کے جذبات کو منجمد کر دیا۔ اب ہمارے احساسات ڈیجیٹل ردعمل کے تابع ہیں۔ کوئی ہمیں لائک نہ کرے تو ہم خود کو کم تر محسوس کرتے ہیں۔ ہماری خود اعتمادی دوسروں کے کلکس پر منحصر ہو گئی ہے۔ یہ وہ غلامی ہے جو زنجیروں سے نہیں، ذہن سے جکڑتی ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ سوشل میڈیا مکمل طور پر نقصان دہ ہے۔ دراصل، یہ ایک آئینہ ہے جو ہمیں دکھاتا ہے کہ ہم کیا بن گئے ہیں۔ سوشل میڈیا کی طاقت اسی وقت مثبت ثابت ہو سکتی ہے جب ہم اسے شعور کے ساتھ استعمال کریں۔ اگر ہم اسے اظہارِ احساس، آگاہی، اور فلاحِ انسانیت کے لیے استعمال کریں تو یہ معاشرتی ترقی کا زبردست ذریعہ بن سکتا ہے۔ مگر جب یہی پلیٹ فارم خودنمائی، حسد اور نفرت کے فروغ کا ذریعہ بن جائے، تو پھر یہ انسانیت کے زوال کا سبب بنتا ہے۔ اصل مسئلہ ٹیکنالوجی نہیں بلکہ وہ انسان ہے جس نے اپنی انسانیت کو اس کے تابع کر دیا۔ ہم نے مشینوں کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے انہیں اپنے احساس پر حاوی کر دیا۔ ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اس شور میں اپنی آواز پہچانیں، اپنی خاموشی سنیں، اور اپنے دل کی زبان سے دوبارہ جڑیں۔ انسان کو دوبارہ ’’انسان‘‘ بننے کے لیے شاید صرف ایک لمحہ درکار ہے، وہ لمحہ جب وہ اپنی اسکرین بند کر کے کسی کے چہرے کو دیکھے، کسی کی بات سنے، یا کسی کی خاموشی کو محسوس کرے۔ یہی وہ لمحہ ہے جو ہمیں احساس کی طرف لوٹا سکتا ہے۔ جب ہم دوسروں کی بات سننا شروع کریں گے، تبھی اپنی اندرونی خاموشی کا علاج ممکن ہو سکے گا۔ سوشل میڈیا کے ہجوم میں اگر کوئی چیز ہمیں دوبارہ انسان بنا سکتی ہے تو وہ احساس، مکالمہ اور سچائی ہے۔ ہمیں اس دنیا میں واپس جانا ہوگا جہاں گفتگو لفظوں سے زیادہ دلوں کے درمیان ہوتی تھی، جہاں مسکراہٹ پیغام سے زیادہ مخلص تھی، اور جہاں ملاقات صرف مجازی نہیں بلکہ حقیقی تھی۔ ہم اس زمانے کے مسافر ہیں جہاں آوازیں بہت ہیں، مگر سننے والا کوئی نہیں۔ جہاں ہر روز لاکھوں پوسٹس اپلوڈ ہوتی ہیں مگر ایک سچا جذبہ کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہی ہماری خاموشی ہے۔ اور یہی ہمارے زوال کی سب سے اونچی چیخ۔ جب تک ہم سننے اور محسوس کرنے کی صلاحیت واپس نہیں لاتے، تب تک یہ شور ہمیں مزید گہری خاموشی میں دھکیلتا رہے گا۔

سید محمد علی

متعلقہ مضامین

  • آج کے وزیر داخلہ کل جب صحافی تھے، محسن نقوی کی پرانی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل
  • ’’سوشل میڈیا کے شور میں کھویا ہوا انسان‘‘
  • کراچی:ٹریفک پولیس اہلکار کا ای چالان سے بچنے کیلئے انوکھا کام، شہری نے ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی۔
  • گاڑی کے شیشوں پر منٹوں میں حیران کن فن پارے، پیٹرول پمپ پر کام کرنے والا نوجوان آرٹسٹ سوشل میڈیا پر وائرل
  • کراچی: ٹریفک پولیس اہلکار کا ’ای چالان‘ سے بچنے کیلئے جوگاڑ سوشل میڈیا پر وائرل
  • سالانہ 500 سے زائد لوگوں کی ہلاکت، افغانستان میں زلزلے کیوں عام ہیں؟
  • انتہا پسند یہودیوں کے ظلم سے جانور بھی غیرمحفوظ
  • جنوبی افریقا کیخلاف میچ کے بعد بابر اعظم کی ٹوئٹ وائرل
  • ٹریفک کیمروں کی نگرانی کے دوران وائرل تصویروں پر ڈی آئی جی ٹریفک کا بیان آگیا
  • کورونا کی شکار خواتین کے نومولود بچوں میں آٹزم ڈس آرڈرکا انکشاف