خام مال کی بڑھتی قیمتوں اور زائد پیداواری لاگت کے باوجود ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
کراچی:
پاکستان کی بڑی صنعتوں میں 60 فیصد حصے کی حامل ٹیکسٹائل سیکٹر کی کارکردگی بڑھتی ہوئی خام مال قیمتوں اور زائد پیداواری لاگت کے باوجود بہتر ہونے لگی ہے اور مسلسل پانچ ماہ سے ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات بہتری کی راہ پر گامزن ہے۔
وفاقی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق ٹیکسٹائل ایکسپورٹس ایک سال میں 6فیصد بڑھ کر دسمبر 2024 میں 1ارب 50 کروڑ ڈالر رہی۔
رپورٹ کے مطابق زیر تبصرہ مدت میں ریڈی میڈ گارمنٹس سالانہ 20فیصد اور ماہانہ 9فیصد اضافے سے 35کروڑ 70لاکھ ڈالر رہی، اسی طرح نٹ ویئر گارمنٹس کی برآمدات 7فیصد بڑھ کر 39کروڑ 10لاکھ ڈالر رہی۔
ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق بیڈ وئیر گارمنٹس کی برآمدات 13فیصد بڑھ کر 25 کروڑ 60 لاکھ ڈالر رہی، تولیہ مصنوعات کی برآمدات 1فیصد اضافے سے 8کروڑ 80لاکھ ڈالر رہی۔
مالی سال 2025 کی پہلی ششماہی میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 10فیصد بڑھ کر 9ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ مالی سال 2024 میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ گھٹ کر 16ارب 70کروڑ ڈالر تھی۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن اپٹما کے مطابق مالی سال 2025 میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 19ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی برآمدات کے مطابق ڈالر رہی بڑھ کر
پڑھیں:
چلاس: سیلاب کے باوجود مقامی افراد سیاحوں کی مدد کیلئے پیش پیش رہے
بابوسر شاہراہ کے سیلابی ریلے نے بدترین تباہی پھیلائی، سیلاب میں مقامی افراد کے بھی کئی گھر تباہ ہوئے، اس کے باوجود وہ سیاحوں کی مدد کیلئے پیش پیش رہے۔
پیر کو آنے والے اس سیلاب میں چار سیاحوں کے علاوہ ایک مقامی شخص بھی جاں بحق ہوا۔
والد نے چچی اور 3 سالہ کزن کو بچانے کیلئے سیلابی ریلے میں چھلانگ لگائی، بیٹا فہد اسلاملینڈ سلائیڈنگ سے چار سیاحوں سمیت پانچ اموات کی تصدیق ہوگئی، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے باعث شاہراہ قراقرم بند ہونے سے ہزاروں مسافر پھنس گئے
چلاس سیلاب نے سیاحوں کے ساتھ ساتھ مقامی افراد کو بھی آزمائش میں ڈال دیا ہے، بابو سر تھک نالے کے پہاڑی علاقوں میں آباد غریب مکین کچے گھروں، موٹر سائیکلوں سمیت دیگر تعمیرات کی تباہی پر پریشان ہیں لیکن پھر بھی آزمائش کی گھڑی میں وہ مہمانوں کی مدد کیلئے پیش پیش رہے۔
پولیس، ضلعی انتظامیہ اور مقامی افراد پتھروں اور ملبے میں پھنسے سیاحوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرتے رہے، کھانے پینے کا بندوبست کیا اور کئی سیاحوں کو اپنے گھروں پر بھی قیام کروایا۔
ریسکیو کیے گئے سیاح ان مہمان نوازوں کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔