ہمارے بہادر جوان ان لوگوں سے لڑ رہے، جنہوں نے سپر پاور کو شکست دی،علی امین گنڈا پور
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
ڈیرہ اسماعیل خان: وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ ہمارے بہادر جوان ان لوگوں سے لڑ رہے، جنہوں نے سپر پاور کو شکست دی، کچے کے ڈاکوئوں اور جن سے ہمارا مقابلہ ہے، ان میں بہت بڑا فرق ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ کئی دہائیوں سے جاری جنگ میں پولیس اہلکاروں اور سیکیورٹی فورسز کے جوانوں نے قوم کے بچوں کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے صوبے کے پولیس کا موازنہ دوسرے صوبے کے پولیس سے کیا جارہا ہے، صوبے پر پوری دنیا کا فوکس ہیں، ہمارے بارڈر ایسے خطے کے ساتھ ہیں کہ جہاں پر کئی دہائیوں سے جنگ ہو رہی ہے۔
ان کاکہناتھاکہ کئی سپر پاور یہاں آئیں اور انہیں شکست ہوئی ایسی صورت حال میں اپنے لوگوں کو محفوظ رکھنا مشکل عمل تھا، ہمیں فخر ہے ہمارے جوان ان سے مقابلہ کر رہے ہیں جنہوں نے سپر پاور کو شکست دی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے جوان دہشت گردی کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں، رواں ماہ 30 پولیس موبائل بلٹ پروف کی جارہی ہیں، جبکہ جلد مزید 130 پولیس موبائلز کو بلٹ پروف کر دیا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا کہ پولیس کے پاس جذبہ ہے لیکن سہولیات کی کمی ہے، ہم بھی اچھے جذبے کے ساتھ پولیس کو جدید سہولیات سے آراستہ کریں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
نیدرلینڈ پارلیمانی انتخابات، اسلام مخالف جماعت کو شکست، روب جیٹن ممکنہ وزیر اعظم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایمسٹرڈم:۔ نیدرلینڈز (ہالینڈ) کے انتخابات میں قومی سیاسی دھارے کے حامی سیاستدان 38 سالہ روب ییٹن کی قیادت میں سینٹرل پارٹی D66 نے ایک انتہائی سخت اور اعصاب شکن مقابلے کے بعد انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان گیرٹ وائلڈرز کی قوم پرست جماعت پارٹی فار فریڈم PVVکو شکست دے دی۔
جرمن ٹی وی کے مطابق مقامی خبر رساں ادارے ANP کے مطابق D66نے محض پندرہ ہزار ووٹوں کی معمولی برتری کے باوجود واضح پوزیشن حاصل کی اور وائلڈرز کی PVV اب یہ فرق ختم نہیں کرسکتی۔ اس فتح کے بعد روب جیٹن ممکنہ طور پر نیدرلینڈز کے سب سے کم عمر وزیر اعظم بنیں گے۔
یہ نتائج D66 کے لیے ایک شاندار عروج کا نشان ہیں، جو یورپی اور سماجی لحاظ سے ایک لبرل پارٹی ہے اور اس نے انتخابی مہم میں ماحولیاتی پالیسی، سستی رہائش، اور اداروں پر عوام کا اعتماد بحال کرنے پر زور دیا۔ تقریباً 18 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے بعد یہ پارٹی ملکی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری مگر حکومت بنانے کے لیے اسے کم از کم تین دیگر شراکت داروں کی ضرورت ہوگی۔
ییٹن اب ممکنہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ مخلوط حکومتی مذاکرات کی قیادت کریں گے، جو نیدرلینڈز کے متنوع سیاسی منظرنامے میں کئی ماہ تک جاری رہ سکتے ہیں۔ انتخابات میں D66نے ایک متحرک انتخابی اور تشہیری مہم کی بدولت اپنی نشستوں کی تعداد تقریباً تین گنا بڑھا لی۔
مرکزی سیاسی دھارے کی تمام بڑی جماعتیں اور بائیں بازو کے سیاسی دھڑے وِلڈرز کے امیگریشن مخالف سخت موقف اور قرآن پر پابندی کے سابقہ مطالبات کی وجہ سے ان کے ساتھ مخلوط حکومت سازی سے انکار کر چکے ہیں۔ وِلڈرز نے کہا کہ اگر ان کی پارٹی کو سب سے زیادہ ووٹ ملتے تو وہ پھر بھی حکومت بنانے کا پہلا حق طلب کرتے۔ انتخابی نتائج کی حتمی تصدیق پیر کو متوقع ہے، جب بیرون ملک مقیم ڈچ شہریوں کے ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی مکمل ہو گی۔