بلاول بھٹوکی صدارت میں پیپلز پارٹی کی سی ای سی کا اجلاس آج ،اہم فیصلے متوقع
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی ) بلاول بھٹو زرداری کے صدارت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا ایک اہم اجلاس اج منعقد ہوگا جس میں مختلف ایشوز پر اہم فیصلے متوقع ہیں،ذرائع نے بتایا ہے کہ بلاول بھٹو نے گزشتہ چند روز میں اپنی پارٹی کے تمام اہم رہنماؤں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں،اور ان سے مختلف ایشوز کے بارے میںرائے کو حاصل کیا،ذرائع کہہ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے حکومت کیساتھ بعض امور پر تحفظات موجود ہیں جن میں نئی نہروں کی تعمیر کا ایشو سر فہرست ہے اسی طرح پنجاب میں پیپلز پارٹی کو اکموڈیٹ کرنے کے معاملات کے ایشوز بھی حل طلب ہیں،حکومت کے ساتھ مختلف سطحوں پر پیپلز پارٹی کی قیادت کی ملاقاتیں جاری رہی ہیں ان میں ایشوز پر بات چیت بھی ہوتی رہی ہے اجلاس میں بات چیت کے نتائج کے اوپر غور کیا جائے گا اور ایک حتمی پالیسی سامنے آئے گی پیپلز پارٹی کی طرف سے قانون سازی میں مشاورت نہ کرنے کا بھی شکوہ موجود ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ اس پارٹی سی ای سی کے اجلاس کے بعد کچھ ایشوزاپنے موقف مزید سختی لائے گی تاہم حکومت کی حمایت کو جاری رکھا جائے گا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی کی
پڑھیں:
پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں ڈیڈ لاک برقرار، آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آزاد جموں و کشمیر کی سیاست ایک مرتبہ پھر غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہے، جہاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان مفادات کی کشمکش کے باعث اِن ہاؤس تبدیلی کا عمل تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت نے تاحال متبادل قائدِ ایوان کی نامزدگی کا فیصلہ نہیں کیا، جس کے باعث تحریکِ عدم اعتماد جمع کرانے کا عمل رُکا ہوا ہے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی وطن واپسی کے بعد ہی حتمی فیصلہ متوقع ہے۔
پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اسے آزاد کشمیر اسمبلی میں عددی برتری حاصل ہے، تاہم ڈیڑھ ہفتہ گزرنے کے باوجود وہ اپنی پوزیشن واضح نہیں کر سکی۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن مبینہ طور پر قبل از وقت انتخابات کے انعقاد پر زور دے رہی ہے، جس کے باعث پیپلز پارٹی محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ اگر انتخابات قبل از وقت منعقد ہوتے ہیں تو پیپلز پارٹی کو اِن ہاؤس تبدیلی سے حاصل ہونے والے سیاسی فوائد محدود ہو سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پارٹی قیادت اسمبلی کی مدت مکمل کرنے پر مُصر ہے۔
ذرائع کے مطابق آزاد حکومت کا تقریباً 80 فیصد ترقیاتی بجٹ ابھی خرچ ہونا باقی ہے۔ اس کے علاوہ دو ہزار کے قریب سرکاری بھرتیاں، صحت کارڈ پروگرام اور دیگر عوامی فلاحی اقدامات نئی حکومت کے لیے اہم سیاسی مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔ ایسے میں پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر ان منصوبوں سے سیاسی فائدہ اٹھا سکے، مگر وقت تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن کا موقف ہے کہ اسمبلی کی مدت جولائی میں ختم ہو رہی ہے، اس لیے مارچ میں انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔ قانون کے مطابق انتخابات سے دو ماہ قبل ترقیاتی کام روک دیے جاتے ہیں اور تبادلوں یا نئی بھرتیوں پر پابندی عائد ہو جاتی ہے۔
مبصرین کے مطابق اگر یہی صورت برقرار رہی تو پیپلز پارٹی کو صرف دو ماہ یعنی دسمبر اور جنوری کا مختصر عرصہ ملے گا، جو اس کے سیاسی ایجنڈے کے لیے ناکافی سمجھا جا رہا ہے۔