UrduPoint:
2025-06-06@11:47:41 GMT

جانیے کہ عالمی ادارہ صحت کیا ہے اور یہ کیوں اہم ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT

جانیے کہ عالمی ادارہ صحت کیا ہے اور یہ کیوں اہم ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 24 جنوری 2025ء) 19 ویں صدی کے وسط میں جب طاعون، ہیضے اور زرد بخار نے نوصنعتی و باہم مربوط ہوتی دنیا کو لپیٹ میں لیا تو صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی طریقہ کار کی لازمی ضرورت بالآخر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے قیام پر منتج ہوئی۔

1851 میں معالجین، سائنس دان، ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم فرانس کے دارالحکومت میں منعقدہ 'حفظان صحت' کی بین الاقوامی کانفرنس میں جمع ہوئے جو اس ادارے کے قیام کا نقطہ آغاز تھی۔

صحت کے لیے اقوام متحدہ کے اس عالمی ادارے نے 1948 میں اپنے قیام کے بعد دنیا بھرکے لوگوں کی بہبود کے لیے کام کیا ہے جو طبی سائنس کی تجربہ گاہوں سے لے کر میدان ہائے جنگ تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ادارہ سائنس سے رہنمائی اور 194 رکن ممالک سے مالی مدد اور تعاون لیتا ہے جن میں امریکہ بھی شامل ہے جس نے گزشتہ سوموار کو اس کی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔

(جاری ہے)

'ڈبلیو ایچ او' نے دنیا کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟ اس سوال کا مختصر جواب 'بہت کچھ' ہو گا۔ ادارہ اس وقت اپنے ارکان کے ساتھ 150 سے زیادہ جگہوں پر طبی خدمات مہیا کر رہا ہے اور اس نے صحت عامہ کے حوالے سے کئی سنگ ہائے میل عبور کیے ہیں۔

دنیا میں صحت کے اس سب سے بڑے ادارے کے بارے میں درج ذیل معلومات بہت اہم ہیں:

ہنگامی حالات میں امدادی اقدامات

بحرانوں، مسلح تنازعات، بیماریاں پھیلنے کے خطرات اور موسمیاتی تبدیلی تک بہت سے مسائل کی موجودگی میں 'ڈبلیو ایچ او' نے غزہ سے سے لے کر سوڈان اور یوکرین تک جاری جنگوں سے متاثرہ لوگوں کو امراض سے بچاؤ کی ویکسین اور دوردراز یا خطرناک علاقوں میں طبی سازوسامان پہنچایا ہے۔

اس وقت طبی نظام کو غیرمعمولی خطرات کا سامنا ہے۔ 'ڈبلیو ایچ او' کے مطابق، 2023 کے دوران 19 ممالک اور علاقوں میں طبی کارکنوں، مریضوں، ہسپتالوں، صحت کے مراکز اور ایمبولینس گاڑیوں پر 1,200 حملے ہوئے جن کے نتیجے میں 700 ہلاکتیں ہوئیں اور تقریباً 1,200 افراد زخمی ہو گئے تھے۔

درحقیقت 'ڈبلیو ایچ او' کی طبی ٹیمیں وہاں بھی مدد پہنچاتی ہیں جہاں کوئی اور نہیں پہنچ سکتا۔

وہ زخمی مریضوں کو جنگ زدہ علاقوں سے نکالتی اور طبی مراکز میں ضروری سازوسامان اور خدمات فراہم کرتی ہیں۔

ستمبر 2024 میں بنائی گئی زیرنظر ویڈیو میں 'ڈبلیو ایچ او' کی ٹیمیں جنگ زدہ اور زیرمحاصرہ غزہ میں بچوں کو پولیو ویکسین پلاتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ اقدام علاقے میں 25 سال کے بعد پولیو وائرس سامنے آنے کے بعد اٹھایا گیا۔

© WHO/Isaac Rudakubana ڈبلیو ایچ او روانڈا میں ہر کسی تک صحت کی سہولتیں پہنچانے میں معاونت کر رہا ہے۔

طبی بحرانوں پر قابو پانے کی کوششیں

ہر دن اور رات 'ڈبلیو ایچ او' کے ماہرین کی ٹیمیں سائنسی تحقیق سمیت ہزاروں معلومات اور بیماریوں کی نگرانی سے متعلق رپورٹوں کا تجزیہ کرتی اور ایوین فلو سے لے کر کووڈ۔19 تک صحت عامہ کو لاحق بہت سے خطرات اور بیماریوں کے پھیلاؤ کی علامات کو جانچتی ہیں۔

'ڈبلیو ایچ او' متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے، ان کی نشاندہی اور ان کا قلع قمع کرنے اور ضروری طبی خدمات تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے متحرک رہتا ہے۔

اس میں ہسپتالوں کی صلاحیتوں میں اضافے کے اقدامات بھی شامل ہیں جہاں بچوں کی پیدائش سے لے کر جنگ میں زخمی ہونے والوں کے علاج اور طبی کارکنوں کی تربیت تک بہت سے کام کیے جاتے ہیں۔بیماریوں کا خاتمہ

صحت عامہ سے متعلق درست پالیسیوں کی موجودگی میں بہت سی بیماریوں کا خاتمہ ہونے کو ہے جن میں نظر انداز شدہ وبائی امراض اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں، جنسی طور پر منتقل ہونے والے امراض اور ماؤں سے بچوں کو منتقل ہونے والے عوارض شامل ہیں جن کی ویکسین کے ذریعے روک تھام ممکن ہے۔

'ڈبلیو ایچ او' ضروری ادویات اور طبی سازوسامان کی فراہمی کے علاوہ جہاں ممکن ہو وہاں بیماریوں کی تشخیص کی سہولیات کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔

2024 میں 'ڈبلیو ایچ او' کے ارکان نے عالمگیر صحت عامہ کو لاحق ان بڑے مسائل پر قابو پانے کے ضمن میں متعدد سنگ ہائے میل عبور کیے۔ سات ممالک (برازیل، چاڈ، انڈیا، اردن، پاکستان، ٹیمور لیستے اور ویت نام) نے اپنے ہاں جزام اور آنکھ کی بیماری تراقوما سمیت گرم علاقوں میں پھیلنے والے متعدد امراض کا خاتمہ کیا۔

برازیل، جمیکا اور سینیٹ ونسینٹ اینڈ گرینیڈینز میں ماؤں سے بچوں کو ایچ آئی وی اور آتشک کی منتقلی پر قابو پا لیا گیا ہے جبکہ نمیبیا نے ماؤں سے بچوں کو ایچ آئی وی اور ہیپاٹائٹس کی منتقلی کے خاتمے کا سنگ میل عبور کر لیا ہے۔

'ڈبلیو ایچ او' نے گزشتہ سات دہائیوں میں پولیو کے تقریباً خاتمے کا سنگ میل بھی عبور کر لیا ہے جبکہ اس کی کاوشوں سے دنیا نے 1980 میں خسرے پر قابو پا لیا تھا۔

Asim Khan پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے جہاں پولیو اب بھی پایا جاتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او ملک میں پولیو کے خاتمہ میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل صحت

'ڈبلیو ایچ او' مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور ڈیجیٹل صحت کے میدان میں بھی کام کر رہا ہے اور اس ٹیکنالوجی کو صحت کے لیے محفوظ و موثر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

ادارے نے گزشتہ سال ایک نئی رہنمائی شائع کی تھی جس میں سرطان یا تپ دق جیسی بیماریوں کی تشخیص و علاج کے معاملے میں ضروری انضباطی ہدایات دی گئی ہیں۔

اس ضمن میں غیر اخلاقی طور پر مریضوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے عمل اور آن لائن طبی تحفظ کو لاحق خطرات روکنے اور تعصب یا غلط اطلاعات پر قابو پانے کے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔موسمیاتی و طبی بحرانوں سے تحفظ

موسمیاتی مسائل سے منسلک طبی بحران دنیا میں 3.

5 ارب لوگوں یا تقریباً نصف انسانی آبادی کو متاثر کر رہے ہیں۔

2023 میں شدید گرمی، موسمی شدت کے واقعات یا فضائی آلودگی سے ریکارڈ تعداد میں اموات ہوئیں جس سے طبی نظام اور کام کرنے والی آبادی پر شدید دباؤ آیا۔

ان کے نتیجے میں امریکہ کے مغربی ساحل پر جنگلوں کی آگ سے لے کر انڈونیشیا میں شدید بارشوں سے آنے والے سیلاب تک کئی حوادث دیکھنے کو ملے۔

'ڈبلیو ایچ او' صحت عامہ کو موسمیاتی تبدیلی کے وسیع تر اثرات سے صحت کو تحفظ دینے کے اقدامات کرتا چلا آیا ہے جن میں عدم تحفظ اور ترقیاتی منصوبوں کا تخمینہ لگانا بھی شامل ہے۔

ادارے نے شدید گرمی اور وبائی بیماریوں جیسے بڑے خطرات پر قابو پانے کے نظام بروئے کار لانے کے لیے کام کیا ہے پانی و خوراک جیسے اہم شعبوں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت پیدا کرنے کی کوششوں میں مدد فراہم کی ہے۔

© WHO ایک خاتون کا کووڈ۔

19 کے لیے طبی معائنہ کیا جا رہا ہے۔ تین ارب اہداف

'ڈبلیو ایچ او' وباؤں کی روک تھام، ان سے نمٹنے کی تیاری اور ان کا خاتمہ کرنے کے اقدامات کو بہتر بنانے کے لیے ایک عالمی معاہدے کے لیے کوشاں ہے جو 1851 میں حفظان صحت کی بین الاقوامی کانفرنس کے عزائم سے ہم آہنگ ہو گا۔

ادارہ اپنے 'تین ارب اہداف' کو حاصل کرنے کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔

2019 میں طے کردہ ان اہداف کی رو سے 2025 تک مزید ایک ارب لوگوں کو صحت کی سہولیات تک رسائی دینا، مزید ایک ارب لوگوں کو ہنگامی طبی حالات میں بہتر تحفظ مہیا کرنا اور مزید ایک ارب لوگوں کو بہتر صحت اور بہبود کی فراہمی یقینی بنانا شامل ہے۔ادارے کی قیادت

'ڈبلیو ایچ او' کا دفتر سوئزرلینڈ کے شہر جنیوا میں واقع ہے اور ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس اس کے سربراہ (ڈائریکٹر جنرل) ہیں۔

25۔2024 میں ادارے کا منظور کردہ (دو سالہ) بجٹ 6.83 ارب ڈالر ہے۔ یہ وسائل اس کے ارکان اور عطیہ دہندگان مہیا کرتے ہیں۔

ادارے کا فیصلہ ساز شعبہ 'عالمی طبی اسمبلی' اس کے رکن ممالک پر مشتمل ہے جو 'ڈبلیو ایچ او' کی ترجیحات اور پالیسیاں طے کرنے کے لیے ہر سال اجلاس کرتے ہیں۔ ادارے کے ارکان طبی اہداف اور حکمت عملی کے بارے میں ایسے فیصلے لیتے ہیں جن کی بدولت انہیں اپنے ہاں صحت کے شعبے میں رہنمائی ملتی ہے اور ادارے کا سیکرٹریٹ دنیا بھر کے لوگوں کی بہتر صحت و بہبود کے لیے کام کرتا ہے۔ ان میں بہتری کے مقصد سے کی جانے والی اصلاحات بھی شامل ہوتی ہیں۔

'ڈبلیو ایچ او 'کے بارے میں یہاں مزید جانیے اور ذیل میں ہماری ویڈیو دیکھیے۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پر قابو پانے ڈبلیو ایچ او کے بارے میں کے اقدامات ارب لوگوں کر رہا ہے کا خاتمہ لوگوں کو سے لے کر کرنے کے کو بہتر بچوں کو کے لیے کیا ہے کام کر صحت کے صحت کی ہے اور

پڑھیں:

شملہ معاہدہ ختم ہونے کی بات کیوں کی؟ خواجہ آصف نے بتادیا

وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ انہوں نے شملہ معاہدے کے حوالے سے بیان بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے اعلان کے تناظر میں دیا ہے۔

نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا کہ میں نے انڈس واٹر ٹریٹی کے کنٹیکس میں یہ بات کہی کہ چونکہ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا ہے تو اس صورت میں شملہ معاہدے کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہی، اب لائن آف کنٹرول سیز فائر لائن ہونی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: شملہ معاہدہ منسوخ نہیں کیا گیا، وزارت خارجہ کی خواجہ آصف کے بیان کی تردید

خواجہ آصف نے کہا کہ کشمیر پر 1948 میں ایک تصادم ہوا تھا، اس کے بعد مسئلہ اقوام متحدہ میں گیا تھا،  جس بعد سیز فائر ہوئی جو شملہ معاہدے میں کنٹرول لائن ہوگئی، بھارتی کی جانب سے اس معاہدے کے ذریعے سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن کا نام دے کرتاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔

خواجہ آصف نے کہا کہ 1971کی جنگ میں ملک ٹوٹ گیا ہوا تھا، ملک کے اور بھی بہت مسائل تھے، بھارت نے کہا کہ یہ مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی نہیں کہا جائے گا بلکہ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کا معاملہ ہوگا، شملہ معاہدے میں 1948 کی کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی اہمیت کم کی گئی، بھارت نے اس معاہدے کے ذریعے یہ تاثر دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا پابند نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: شملہ معاہدہ فارغ ہوگیا، اب لائن آف کنٹرول کو سیز فائر لائن سمجھا جائے، وزیر دفاع خواجہ آصف

انہوں نے کہا کہ بھارت نے شملہ معاہدے میں پاکستان کے آپشنز معدود کرنے کی کوشش کی، اگر بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل کرسکتا ہے تو پاکستان بھی شملہ معاہدہ ختم کرکے 1948 کی پوزیشن پر واپس جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے اقدامات کی وجہ سے شملہ معاہدے کی حیثیت اب ختم ہوگئی، حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد جو ہوا تو شملہ معاہدے کی وقعت کچھ نہیں رہی۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ طاس معاہدہ: بھارت کی متواتر خلاف ورزیاں، تیر کمان سے نکلنے سے پہلے دنیا کارروائی کرلے

یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیر دفاع خواجہ آصف نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے کہا تھا کہ بھارت کے ساتھ شملہ معاہدہ فارغ ہوگیا اور ہم 1948 والی پوزیشن پر واپس آگئے ہیں۔ اب لائن آف کنٹرول لائن کو سیز فائر لائن سمجھا جائے۔

دوسری جانب دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ  پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معاہدہ تاحال موجود ہے، یہ معاہدہ منسوخ نہیں کیا گیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news بھارت پاکستان خواجہ آصف سندھ طاس معاہدہ شملہ معاہدہ مسئلہ کشمیر وزیردفاع

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان کی ابتر صورتحال سے شہری اذیت میں مبتلا ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
  • شملہ معاہدہ ختم ہونے کی بات کیوں کی؟ خواجہ آصف نے بتادیا
  • شاہین نے گراؤنڈ ڈرلز میں حصہ کیوں نہیں لیا؟
  • (قومی ادارہ امراض قلب)سنگین انتظامی بے ضابطگیاں، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پر الزام عائد
  • بلوچستان اسمبلی: بل منظور، ادارے ملزم کو  3 ماہ تک زیرحراست رکھ سکیں گے: سرفراز بگٹی
  • علامہ راجہ ناصر عباس کا ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیٹ اپس کے قیام کا اعلان
  • غزہ: لوگ بھوک سے یا خوراک کے حصول میں ہلاک ہونے پر مجبور، وولکر ترک
  • ریلوے نے لاہور میں اپنے ذیلی ادارے کے دفاتر کو تالے لگا دیئے
  • چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا سے اردن کے سفیر کی ملاقات،شہر اقتدار کی ترقی، خوشحالی اور خوبصورتی کو مزید بہتر بنانے کیلئے ادارے کی شاندار کارکردگی کو سراہا
  • ثناء یوسف کو کیوں قتل کیا گیا، ملزم کون ہے اور کیسے پکڑا گیا؟