Nai Baat:
2025-06-09@16:49:22 GMT

ٹرمپ کی وائٹ ہائوس میں واپسی

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

ٹرمپ کی وائٹ ہائوس میں واپسی

اس وقت پوری دنیا میں امریکہ کے 47 ویں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی حلف برداری کے چرچے ہیں۔ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سیاستدان نہ ہونے کے باوجود دو دفعہ امریکہ کے صدر بن چکے ہیں ان کی پوری زندگی تنازعات سے بھرپور ہے۔ انہیں پچھلے دور حکومت میں دو دفعہ مواخذے کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح دو قاتلانہ حملوں میں بال بال بچ گئے اور تیسری اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ عدالت سے سزا یافتہ ہونے کے باوجود صدارت کی کرسی پر تخت نشین ہو چکے ہیں۔
ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں کرگزرتے ہیں امریکا کا اگلا چار سالہ دور غیر روایتی سیاست سے بھرپور رہے گا جس کی پیش گوئی ممکن نہیں کہ نہ جانے ٹرمپ کب کس طرف پلٹ جائیں۔
امریکہ میں صدر کے پاس ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے کا اختیار انہیں بہت زیادہ طاقتور بنا دیتا ہے۔ وہ کانگریس کی منظوری کے بغیر بھی فیصلہ کر سکتے ہیں گویا ان کا حکم قانون کا درجہ رکھتا ہے عدالتوں اور کانگریس کو ان کے ایگزیکٹو آرڈرز روکنے کا اختیار ہے مگر وہ غیر معمولی صورتحال کے لیے ہوتا ہے۔ امریکی عدالتیں ایسی نہیں ہیں کہ سارے کام چھوڑ کر آئینی مقدمہ بازیوں میں اپنا وقت ضائع کریں۔ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ صدر کی ایگزیکٹو آرڈرز جاری کرنے کی روایت کو محدود کرنا چاہتے ہیں جس میں مجرموں کو سزائیں معاف کرنے کا اختیار بھی شامل ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں جنگوں کے مخالف ہیں جس کا وہ برملا اظہار کرتے ہیں کہ امریکہ کو دنیا بھر میں لڑائیاں کرنے کی بجائے اپنے ملک پر توجہ دینی چاہیے ڈونالڈ ٹرمپ کو افغانستان سے انخلا کا کریڈٹ جاتا ہے انہوں نے بڑی عجلت میں انخلا کا فیصلہ کیا تھا جس کی امریکی افواج کو بھاری قیمت چکانا پڑی مگر ٹرمپ نے جو کہا وہ کر دکھایا۔
صدر ٹرمپ کو غزہ میں جنگ بندی کا کریڈٹ دینا چاہیے انہوں نے اسرائیل دوستی کے باوجود نیتن یاہو کو مجبور کیا کہ وہ فلسطینیوں پر حملوں سے باز آجائیں یہ وہ کام تھا جو صدر بائیڈن پچھلے 15 ماہ سے نہیں کر سکے۔ ٹرمپ نے الیکشن جیتتے ہی خبردار کر دیا تھا کہ اگر جنگ بند نہ کی گئی اور قیدی نہ چھوڑے گئے تو "All the hell will pay” اس وقت سمجھا گیا کہ یہ دھمکی حماس یا فلسطینیوں کے لیے ہے مگر حالات نے ثابت کیا کہ انہوں نے اسرائیل کو کہا تھا انہوں نے بعد ازاں یہ بھی کہا کہ اسرائیل ہمارا
دوست ہے تو یہ دوستی کا ہمیں صلہ دے یعنی ہماری امن کی خواہش کا احترام کرے۔ ٹرمپ کے ایک مشیر خاص نے غصے میں نیتن یاہو کو son of a bitch کہہ دیا تھا جو برطانوی اخبار نے لفظ بہ لفظ شائع کر دیا تھا۔ غزہ میں جنگ بند ی کا سارا کریڈٹ ٹرمپ کے ایک اور مشیر Steve witkoff کو جاتا ہے وہ ٹرمپ کے قریبی دوست تھے اور 40 سال تک اکٹھے گولف کھیلتے رہے ہیں وہ تل ابیب جا کر بیٹھ گئے تھے کہ جب تک جنگ بند نہیں ہو گی وہ یہاں سے نہیں جائیں گے کیونکہ ٹرمپ نے چیلنج کیا تھا کہ ان کی حلف برداری سے پہلے پہلے اسرائیل نے جنگ بندی نہ کی تو پھر ان سے برا کوئی نہیں ہوگا۔
آپ دیکھیں گے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کا اگلا ہدف یوکرائن روس جنگ بندی ہے۔ روسی صدر پیوٹن کے خیر سگالی پیغام کے بعد ٹرمپ نے اپنی پہلی تقریر میں پیوٹن سے ملاقات کا اعلان کر دیا ہے۔ اگر صدر ٹرمپ یوکرائن روس جنگ بندی میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو عملاً یہ ان کی جنگ مخالف نظرئیے کی بہت بڑی فتح ہو گی۔ اگر یہ سلسلہ یہاں بند نہ ہوا تو ٹرمپ پاکستان انڈیا کے درمیان مصالحتی کردار ادا کریں گے۔ وہ اپنے پچھلے دور حکومت میں بھی اس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے موقع پر انہوں نے انڈیا پاکستان مذاکرات کے لیے ثالثی کی پیش کش کی تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کے اعلان کے علاوہ مہاجرین کا راستہ روکنے پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اور میکسیکو بارڈر پر سخت بارڈر کنٹرول کے احکامات جاری کیے ہیں ان کا کہنا ہے کہ امریکہ دنیا بھر کے ممالک کے بارڈرز کی حفاظت کرتا ہے مگر ہمارے اپنے بارڈر غیر محفوظ ہیں اور جرائم پیشہ افراد غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہو رہے ہیں۔
ہمارے لیے ان کے بیانات سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ وہ ساو¿تھ ایشیا کے ساتھ کیسا رویہ رکھتے ہیں۔ ایک طرف تو انڈین وزیراعظم کو حلف برداری کی دعوت دی گئی اور نریندر مودی نے اپنی جگہ وزیرخارجہ جے شنکر کو بھیج دیا دوسری طرف پاکستان کو ایسی دعوت نہیں دی گئی اور معمول کے مطابق وہاں پاکستانی سفیر نے ہمارے ملک کی رسمی نمائندگی کی، امتیازی سلوک کی ایک وجہ پاکستان کے چائنا سے تعلقات بھی ہیں اگر چائنا امریکہ تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو پوزیشن میں بہتری آئے گی لیکن اس کے علاوہ ایک اور وجہ بھی ہے۔ ایک خاموش ڈپلومیسی چل رہی ہے کہ صدر ٹرمپ برسراقتدار آکر پاکستانی حکومت کو عمران خان کی رہائی کے لیے مجبور کرے گی یہ محض قیاس آرائی نہیں ہے ٹرمپ کے نامزد کردہ مشیران میں سے رچرڈ گرینل کے علاوہ بھی ایسے لوگ ہیں جو عمران خان کی رہائی چاہتے ہیں اور اس کا تحریری اظہار بھی کرتے ہیں۔
پاکستان کے حکومتی ایوانوں میں ڈونالڈ ٹرمپ کی آمد پر ایک عجیب بے چینی طاری ہے کیونکہ پی ٹی آئی کا اوور سیز ونگ سب سے زیادہ فعال امریکہ میں یہ بڑے طاقتور لوگ ہیں اور ان کی lobbing & leverage امریکہ کی برسراقتدار پارٹی کی اندرونی صفوں میں کافی گہری ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ن لیگی حکومت نے پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں سوشل میڈیا پر خبر آئی کہ وہ ٹرمپ کی حلف برداری میں شریک ہوں گے اس پر امریکہ میں موجود پاکستانیوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ٹرمپ کی لابنگ فرم نے فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے دنیا بھر کے ایلیٹ کلاس کو آپشن دیا ہے کہ حلف برداری کے دعوت نامے 4 ملین ڈالر کا ڈونیشن دے کر حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس میڈیا مہم کے بعد بلاول نے دعوت نامہ حاصل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ البتہ پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی کے بارے میں کلیئر نہیں کہ وہ کس حیثیت میں شرکت کر رہے تھے کیا انہوں نے دعوت نامہ خریدا تھا یا حکومت پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔
ایک اہم بات یہ کہ صدر ٹرمپ نے کیپیٹل ہلز حملہ کیس میں ملوث اپنی پارٹی کے 1500 ورکرز کی سزائیں معاف کر دی ہیں یہ کام انہوں نے ایگزیکٹوآرڈر کے ذریعے کیا ہے۔ اگر پاکستان ہوتا تو یقینا حکومت یہ کام عدالتوں کے ذریعے انجام دیتی۔ یہی فرق ہے امریکہ اور پاکستان کے نظام میں ٹرمپ نے بیورو کریسی میں کرپٹ افراد کے خلاف کریک ڈاو¿ن کا اعلان کیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے 2020 اور 2024ءکے انتخابات میں ٹرمپ کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے ناجائز ہتھکنڈے استعمال کیے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکی Establishment ان کے خلاف ہے۔ ذاتی طور پر مجھے ان کا یہ جملہ بہت متاثر کر رہا ہے کہ Scales of justice will be Rebalanced یعنی انصاف کے ترازو کا توازن درست کر دیں گے۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ ان کے اس جملے کی پاکستان کو امریکہ سے زیادہ ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پاکستان کے امریکہ میں حلف برداری انہوں نے دنیا بھر سے زیادہ یہ ہے کہ ہے کہ وہ ٹرمپ کے ٹرمپ کی کے لیے ہیں کہ کر دیا بات یہ

پڑھیں:

ایران امریکا مذاکرات، حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر 

اسلام ٹائمز: ایران کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں نمایاں پیشرفت پر قابو نہیں پایا جاسکا اور آج اسکی طاقت کا لوہا دنیا مان رہی ہے۔ مذاکرات تو امن کے قیام کیلئے ضروری ہیں۔ مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیئے۔ مگر ایران کبھی امریکی آمرانہ فیصلوں کو قبول نہیں کریگا، کیونکہ اسکے پاس ایک شجاع اور دوراندیش قیادت موجود ہے۔ جوہری افزودگی کو روکنے کے بہانے ایران کی سائنسی پیشرفت کو کنٹرول کرنے کی کوشش نئے مسائل کا سبب بن سکتی ہے، اس لئے امریکہ کو ایران کی سرخ لکیر کو عبور نہیں کرنا چاہیئے۔ تحریر: عادل فراز

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان مسلسل کشیدگی رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ایران میں اسلامی حکومت کا قیام تھا۔ شاہ ایران امریکہ کا حلیف اور اس کا قابل اعتماد آلۂ کار تھا، جس نے ایران میں امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کیا تھا۔ مثال کے طور پر اسرائیل کے قیام کے بعد ایران بھی ان ملکوں میں شامل تھا، جس نے اس کے ناجائز وجود کو تسلیم کیا تھا۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کے موقف میں واضح تبدیلی آئی اور امام خمینیؒ نے اسرائیل کے وجود کو ناجائز قرار دیتے ہوئے فلسطین کے استقلال اور قبلۂ اول کی بازیابی کے لئے آواز بلند کی۔ انہوں نے مسئلۂ فلسطین کو عالمی سطح پر منعکس کیا اور آج پوری دنیا اگر مسئلۂ فلسطین پر متوجہ ہے تو یہ امام خمینیؒ کی سیاسی بصیرت کا نتیجہ ہے۔

خطے میں موجود مزاحتمی محاذ کی تقویت میں بھی ایران کا کلیدی کردار رہا ہے، جس کا اعتراف پوری دنیا کرتی رہی ہے۔ البتہ مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور استعمار نوازی نے مسئلۂ فلسطین کے حل کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ غزہ کی تباہی اور مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کے لئے بھی مسلم حکمرانوں کو سبکدوش نہیں کیا جاسکتا، جو امریکہ نوازی میں انتفاضہ القدس سے بے پرواہ اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لئے کوشاں ہیں۔ اس کا مشاہدہ ٹرمپ کے حالیہ دورۂ مشرق وسطیٰ کے دوران بھی کیا گیا۔ مسلم حکمران ٹرمپ نوازی میں مرے جا رہے تھے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر ہے، اس لئے ان سے مسئلۂ فلسطین یا عالم اسلام کے زندہ موضوعات پر کسی دلیرانہ موقف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

ایران کے ساتھ مذاکرات کا نیا دور عمان کے تعاون سے شروع ہوا تھا۔ البتہ امریکہ کی ظاہری اور باطنی پالیسیوں میں نمایاں فرق موجود ہے۔ ظاہری طور پر ٹرمپ ایران کو دھمکا کر دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ ایران امریکہ سے خوف زدہ ہوکر مذاکرات کی میز پر آیا ہے، جبکہ باطنی طور پر ٹرمپ ایران سے تصادم نہیں چاہتا اور سفارتی طور پر ایران سے نمٹنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ایران کی حکمت عملی ہمیشہ امریکی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لانا رہی ہے۔ مذاکرات سے پہلے اور بعد میں بھی امریکہ کے تئیں ایران کا موقف واضح ہے۔ ایران کے صدر مسعود پزشکیان اور وزیر خارجہ عباس عراقچی نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ایران کو دھمکایا نہیں جاسکتا اور اگر ہم پر حملہ کیا گیا تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، جبکہ ٹرمپ نے زمام اقتدار سنبھالتے ہی ایران کو دھمکانا شروع کر دیا تھا کہ اگر مذاکرات نہیں ہوئے تو ایران کو فوجی کارروائی کے لئے تیار رہنا چاہیئے۔

جبکہ ٹرمپ بھی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ایران پر حملے کے لئے ہزار بار نہیں لاکھوں بار سوچنا پڑے گا، کیونکہ یہ حملہ نئی علاقائی جنگ کا باعث بنے گا، جس کی اجازت علاقائی ممالک بھی نہیں دیں گے۔ ایران پر حملے سے دنیا کو ناقابل بیان اقتصادی نقصان پہنچے گا، کیونکہ پہلی فرصت میں آبنائے ہرمز کو بند کر دیا جائے گا، جہاں سے دنیا کی ضرورت کا بیس فیصد تیل گذرتا ہے۔ گویا کہ ایران کے ساتھ جنگ عالمی سطح پر نئے اقتصادی بحران کا سبب بنے گی، جس کی اجازت امریکی حلیف طاقتیں بھی نہیں دیں گی۔ عالمی معیشت یوں بھی روبہ زوال ہے اور امریکہ نت نئے ٹیرف عائد کرکے اپنی ڈوبتی معیشت کو سنبھالا دینے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے۔ ایسی ناگفتہ بہ صورت حال میں امریکہ کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

ایران کے ساتھ جب بھی مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو استعماری میڈیا کے ذریعے ایران پر نفسیاتی دبائو کے لئے حملے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ سی این این سمیت تمام میڈیا اداروں نے یہ خبر نشر کی کہ اسرائیل عنقریب ایران پر حملہ کرنے والا ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے گا، جس کی تیاری اسرائیل کر رہا ہے۔ دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ جنگ کی یہ دھمکیاں صرف نفسیاتی دبائو کے لئے ہیں، جن کا ایران پر کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے۔ ایران تو ایک مدت سے جنگ کے محاذ پر ہے۔ گو کہ ابھی ایران کے ساتھ براہ راست فوجی جنگ شروع نہیں ہوئی، مگر اقتصادی اور نفسیاتی جنگ تو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد چھیڑ دی گئی تھی۔ لہذا ایران کو استعماری طاقتوں کے خلاف لڑنے کا ایک طویل تجربہ ہے۔ اس پر رہبر انقلاب اسلامی کا امریکہ کے خلاف صریح موقف عالمی استکبار کے لئے پریشان کن ہے۔

امسال انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینیؒ کی برسی کے موقع پر انہوں نے اپنے خطاب میں جوہری توانائی کی افزودگی پر امریکی مطالبے کو یکسر مسترد کر دیا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’امریکہ کے لئے ہمارا پیغام یہ ہے کہ ایرانی قوم کا انتخاب اس کے اختیار میں ہے۔ امریکہ کون ہوتا ہے، جو ہماری خود مختاری اور جوہری افزودگی میں رکاوٹ بن رہا ہے اور کس قانون کے تحت وہ یہ کام کر رہا ہے۔ آخر امریکہ کو دوسرے ملکوں کی جوہری صلاحیت کا تعین کرنے کی ذمہ داری کس نے دی ہے۔؟ اس کے پاس تو دنیا میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں تو اس کی قانونی یا اخلاقی حیثیت کیا ہے کہ وہ دوسروں کے جوہری پروگرام کے بارے میں رائے پیش کرے۔؟ انہوں نے امریکی جنگی جرائم اور عالمی نقض امن پر دوٹوک انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ "امریکہ کس منہ سے امن کی بات کرسکتا ہے، جبکہ بیسویں صدی میں جنگوں اور بغاوتوں کو سب سے بڑا جنم دینے والا وہ خود ہے۔"

آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی چودھراہٹ پر ضرب لگاتے ہوئے کہا کہ "ایران کو امریکہ سے (جوہری پروگرام پر) اجازت کیوں لینی چاہیئے؟ کیا صہیونی حکومت اپنے جوہری ہتھیاروں اور حالیہ جاری نسل کشی کے حوالے سے ہر طرح کی نظارت سے مستثنیٰ ہے۔؟" ان کے بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ ایران نہ تو امریکی چودھراہٹ کو قبول کرتا ہے اور نہ اپنی خود مختاری میں کسی مداخلت کو برداشت کرے گا۔ ان کا یہ کہنا کہ "ایرانی قوم کی خود مختاری ان کے ہاتھ میں ہے" امریکی منصوبوں پر پانی پھیر دیتا ہے، کیونکہ امریکہ ایران کی خود مختاری پر ضرب لگانا چاہتا ہے، جس کو رہبر انقلاب نے مسترد کرتے ہوئے امریکی چودھراہٹ پر ہی سوال اٹھا دیا۔ انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام پر بھی ایران کے موقف کو واضح کر دیا، جس کے بعد اب مذاکرات میں جوہری پروگرام کو ختم یامحدود کرنے پر کوئی بات نہیں کی جائے گی۔

جوہری افزودگی ہر ملک کا بنیادی حق ہے، جس کو امریکہ سلب نہیں کرسکتا، جبکہ امریکہ نے حالیہ مذاکرات میں ایک تجویز پیش کی ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی نگرانی میں ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کی شراکت سے علاقائی کنسورشیم تشکیل دیا جائے۔ اس تجویز میں جو امریکہ کی طرف سے عمان کے ذریعے ایران کو موصول ہوچکی ہے، کے مطابق امریکہ نے ایرانی سرزمین پر جوہری افزودگی کو مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی تجویز، جس کو رہبر انقلاب اسلامی نے مسترد کر دیا ہے، اس کو دو حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ ایک کنسورشیم کی تشکیل سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ جوہری افزودگی کو روکنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جوہری توانائی کو روک کر باہر سے کنسورشیم کے ذریعے یورینیم کو حاصل کرنے کی تجویز ایران کبھی قبول نہیں کرے گا، کیونکہ اس طرح ایران اپنے پاور پلانٹس کو چلانے کے لئے جوہری ایندھن کی فراہمی کے لئے دوسرے ملکوں پر منحصر ہو جائے گا۔

گویا کہ اس تجویز کا مقصد ایران کو خود کفیل بننے سے روکنا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ امریکہ ایران کی ترقی سے خوف زدہ ہے۔ اس کا مقصد جوہری مذاکرات کے ذریعے ایران کے جوہری افزودگی کے منصوبے کو روکنا نہیں بلکہ ایران کی ترقی اور خود کفیل بننے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہے، جس کو ایرانی قیادت بخوبی سمجھ رہی ہے۔ ایران پر مسلسل بڑھتی ہوئی اقتصادی پابندیوں کا راز بھی یہی ہے۔ اس کے باوجود ایران کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں نمایاں پیش رفت پر قابو نہیں پایا جاسکا اور آج اس کی طاقت کا لوہا دنیا مان رہی ہے۔ مذاکرات تو امن کے قیام کے لئے ضروری ہیں۔ مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیئے۔ مگر ایران کبھی امریکی آمرانہ فیصلوں کو قبول نہیں کرے گا، کیونکہ اس کے پاس ایک شجاع اور دوراندیش قیادت موجود ہے۔ جوہری افزودگی کو روکنے کے بہانے ایران کی سائنسی پیش رفت کو کنٹرول کرنے کی کوشش نئے مسائل کا سبب بن سکتی ہے، اس لئے امریکہ کو ایران کی سرخ لکیر کو عبور نہیں کرنا چاہیئے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت غیر جانبدارانہ تحقیقات اور ٹرمپ کی مصالحت سے انکاری ہے، بلاول بھٹو
  • پاکستانی حجاج کی وطن واپسی کب شروع ہوگی؟
  • امریکہ سے تجارتی کشیدگی کے باعث چینی برآمدات متاثر
  • عید کے تیسرے روز شہری آبائی علاقوں سے روانہ،بس اڈوں پر رش
  • امریکہ میں سفارتکاری: بلاول بمقابلہ بینظیر بھٹو،ا یک تجز یہ
  • چین کا عروج مغرب نہیں روک سکتا
  • ایران امریکا مذاکرات، حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر 
  • امریکہ کون ہوتا ہے؟
  • بلاول بھٹو نے دورۂ امریکہ کو "کامیاب امن مشن" قرار دے دیا
  • ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی، امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے: بلاول