تقررنامہ نہ ملنے کے خلاف آئی بی اے ٹیسٹ پاس امیدواروں کااحتجاج
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
سکھر (نمائندہ جسارت) ٹیچرز کی جاب کیلئے آئی بی اے ٹیسٹ پاس کرنے کے باوجود تقررنامہ نہ دئیے جانے کیخلاف امیدواروں نے سکھر سمیت سندھ بھر میں پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا، ویٹنگ کنڈیڈیٹس کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی سندھ کی کال پر امیدواروں نے سکھر پریس کلب کے سامنے بڑی تعداد پہنچ کر احتجاجی مظاھرہ کیا، انکا کہنا تھا کہ آئی بی اے ٹیسٹ پاس کرنے کے باوجود تین سال سے ویٹنگ میں بیٹھے ہیں اور اوور ایج ہو چکے ہیں، مگر حکومت ل نے پسندیدہ علاقوں کے امیدواروں کو 33 اور 32 نمبرز پر ماسٹری کے آرڈرز دیے ہیں، اور سندھ کے باقی امیدوار جو 40 پلس نمبرز لے کر اس وقت تک ویٹنگ میں ہیں، ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں، کچھ خودکشی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ بھر میں رپورٹ کے مطابق لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور ہزاروں اساتذہ کی کمی ابھی تک موجود ہے، مگر سردار شاہ اور سندھ حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے سندھ کی تعلیم وینٹی لیٹر پر ہے۔ ہم اپیل کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں اور علم کی روشنی سے محروم بچوں کے ساتھ انصاف کیا جائے مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ ٹائم پیریڈ بڑھایا جائے اور سندھ کے تمام میرٹ پاس ویٹنگ امیدواروں کو بھرتی کر کے پھیلتی ہوئی بے چینی کو ختم کیا جائے۔ ورنہ ہم 03 فروری کو کراچی پریس کلب، سی ایم ہاؤس اور بلاول ہاؤس کے سامنے دھرنا دیں گے اور خود کو آگ لگا دیں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
گندم کی قیمت 4700 روپے فی من مقرر کی جائے،سندھ آبادگار بورڈ کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-14
 حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)سندھ آبادگار بورڈ نے مطالبہ کیا ہے کہ گندم کی امدادی قیمت 4700 روپے فی من اور گنے کی قیمت 500 روپے فی من مقرر کی جائے۔ بورڈ نے پیاز کی فصل کی تباہی کی بڑی وجہ زرعی تحقیق کی کمی کو بھی قرار دیا ہے۔اس سلسلے میں سندھ آبادگار بورڈ کا اجلاس صدر محمود نواز شاہ کی زیر صدارت حیدرآباد میں ہوا، جس میں ڈاکٹر محمد بشیر نظامانی، عمران بزدار، محمد اسلم مری، طھ میمن، یار محمد لغاری، ارباب احسن، عبدالجلیل نظامانی، مراد علی شاہ بکیرئی اور دیگر نے شرکت کی۔اجلاس میں کاشتکاروں نے زراعت سے متعلق اہم مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مطلوبہ زرعی تحقیق نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے نئی اور بہتر ٹیکنالوجیز بھی متعارف نہیں ہو رہی اور مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زرعی تحقیق کی کمی کے باعث پیاز کی فصل کی تباہی بھی اس کی واضح مثال ہے۔۔اجلاس کو بتایا گیا کہ اکتوبر اور نومبر میں پیدا ہونے والی پیاز نہ صرف سال بھر کی مقامی طلب پوری کر رہی تھی بلکہ برآمد بھی کی جا رہی تھی۔ لیکن گزشتہ تین سالوں سے اکتوبر اور نومبر میں پیاز کی فصل تباھ ہوتی رہی اور اس مسئلے کے حل کے لیے نہ تو تحقیق کی گئی اور نہ ہی اسے بچانے کے لیے کوئی اور موثر اقدامات کیے گئے، جس کی وجہ سے کسانوں کی اکثریت نے پیاز اگانا بند کر دی۔ نتیجتا پاکستان کو اب پیاز برآمد کرنے کی بجائے مزید درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔سندھ آبادگار بورڈ نے کہا ہے کہ زراعت میں مسلسل تحقیق اور ترقی ضروری ہے، کیونکہ کم پیداوار، فصل سے پہلے اور بعد میں ہونے والے نقصانات اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ مضبوط زرعی تحقیق کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ زراعت کو پائیدار رکھنا بہت ضروری ہے۔سندھ آبادگار بورڈ کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے پیداواری لاگت میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اگر زرعی مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کو پورا نہیں کرتیں تو ان کی کاشت معاشی طور پر ناقابل عمل ہو جائے گی۔ اس لیے زرعی معیشت کو بچانے کے لیے زرعی اجناس کی کم از کم امدادی قیمت کا تعین کرنا بہت ضروری ہے۔ اجلاس میں سندھ آبادگار بورڈ نے مطالبہ کیا کہ گندم کی فی من امدادی قیمت 4700 روپے اور گنے کی قیمت 500 روپے فی من مقرر کی جائے یہ امدادی قیمتیں کاشت کی لاگت اور کسانوں کے معقول منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے طئے کی گئی ہیں۔ جہاں زرعی مصنوعات کی مفت برآمد کی اجازت نہیں ہے وہاں حکومت سپورٹ پرائس مقرر کرے۔سندھ آبادگار بورڈ نے گندم کی کاشت کے لیے چھوٹے کاشتکاروں کو ڈی اے پی اور یوریا کھاد فراہم کرنے کے حوالے سے سندھ حکومت کے اقدام کو بھی سراہا اور کہا کہ اس پروگرام کی کامیابی کا دارومدار کسانوں کے لیے دیگر متعلقہ امور میں سہولت فراہم کرنے پر ہے۔