ویسٹ انڈیز: کالی آندھی سے کالی دھند تک
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
پاکستانی کرکٹ کا حال گذشتہ 2 دہائیوں سے وہی ہے جو ہماری سیاست اور نظامِ حکومت سمیت دیگر شعبوں کا ہے۔ اِکا دُکا اچھی خبروں کے علاوہ مجموعی طور پر دیکھیں تو ہر طرف مایوسی کے بادل منڈلاتے نظر آتے ہیں۔
کرکٹ میں چند ماہ قبل چند اچھی خبریں ملنا شروع ہوئیں، وہ جو کہا جاتا ہے کہ مکمل تباہی کے بعد ہی بہتری کا سفر شروع ہوتا ہے، تو کرکٹ ٹیم کے کرتا دھرتا شاید اسی خرابی کا انتظار کر رہے تھے اور جب ہم خرابی کے پاتال تک پہنچ گئے تو انھیں خیال آیا کہ معاملات ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں۔
اس وقت چند کھلاڑیوں نے ٹیم کو ذاتی جاگیر سمجھ رکھا تھا، اقربا پروری اور دوست نوازی عروج پر تھی، جس کا دوہرا نقصان ہو رہا تھا۔
ایک تو شاداب اور حسن جیسے کھلاڑی مستقل ٹیم پر بوجھ بنے ہوئے تھے جب کہ دوسری طرف کئی انتہائی باصلاحیت کھلاڑی مایوسی کے اندھیروں میں جا رہے تھے۔
ایسے میں کچھ بہت اہم فیصلے کیے گئے۔ ایک تو ٹیم میں چند کھلاڑیوں کی برتری کو چیلنج کیا گیا اور بڑے کھلاڑی جو بزعم خود ناگزیر بنے ہوئے تھے، انھیں باہر بٹھایا گیا۔ اس سے نئے لڑکوں کو موقع ملا اورہم نے دیکھا کہ دو تین سیریز کی بات تھی، پاکستان کی ٹیم ایک بہترین ٹیم نظر آنے لگی۔
لیکن پھر ویسٹ انڈیز کی ایک نسبتاً کمزور ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ ہم نے پہلا ٹیسٹ بھاری مارجن سے جیتا اور یوں لگا ویسٹ انڈیز تو اگلے ٹیسٹ میں ان کے سامنے بالکل نہیں ٹک پائے گا۔ لیکن ملتان کا دوسرا ٹیسٹ آج تیسرے دن کے آغاز میں ہی ختم ہو گیا۔
یہ پاکستان کے لیے شرمندگی کا باعث ہے کہ یہ ٹیسٹ سوا دو دن میں ختم ہوا۔ ویسٹ انڈیزاس سے قبل پاکستان میں اب تک صرف چار ٹیسٹ میچ ہی جیت سکا تھا، یہ ان کی پانچویں فتح ہے۔
ہم اپنے سپنرز پر ناز کرتے تھے اور انہوں نے محنت بھی بہت کی، لیکن ویسٹ انڈیز کے سپنرز 2 ہاتھ آگے دکھائی دیے، انہوں نے وہ کام کر دکھایا کہ ہمارے اسپنرز کی کارکردگی بے معنی ہوگئی، کیونکہ ہمارے بیٹرز نے ان کا ساتھ ہی نہ دیا۔
ہمارے بیٹرز جو کسی زمانے میں ویسٹ انڈیز کے فاسٹ بالروں کی کالی آندھی کے سامنے ڈٹ جاتے تھے، سپنرز کی کالی دھند کے سامنے بے بس دکھائی دیے۔ ہم نے سپنرز پر انحصار کیا اور مشکل پچیں بنائیں، لیکن ہمیشہ کی طرح،’’لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا‘‘ والا معاملہ ہوا، اور ویسٹ انڈیز کے سپنر ویری کن نے ہمیں کان پکڑوا دیے۔
ہمارے کھلاڑیوں نے انہیں شاید آسان بھی لیا اور پہلے ٹیسٹ میں کامیابی کے بعد کچھ زیادہ ہی خود اعتمادی کا شکار ہو گئے، پہلی اننگز میں بھی 54 پر 8 آوٹ کرنے کے بعد ویسٹ انڈیز کی ٹیم کو جب 100 رنز تک محدود کر سکتے تھے، ان کی ٹیل کو وقت دیا اور انھوں نے 163 رنز کر لیے۔
پھر ہم نے بیٹنگ بھی اتنی غیر ذمہ داری سے کی کہ جس کی مثال کم کم ملتی ہے۔ ایسے میں ایک ہی خبراچھی ہے کہ ویسٹ انڈیز کو صورت حال کا تاخیر سے اندازہ ہوا جس کی وجہ سے ہم پہلا ٹیسٹ جیت گئے تھے، سو یہ سیریز برابر ہو گئی۔
اب پاکستان کا ون ڈے کرکٹ کا سیزن شروع ہو رہا ہے، جس میں نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے ساتھ ایک تین ملکی سیریز ہے اور اس کے بعد چمپئنز ٹرافی منعقد ہونی ہے۔
پاکستان کوکچھ نئی تبدیلیاں کرنا پڑیں گی، ایک تو فخر زمان کو واپس لانا چاہیے اور اگر صائم ایوب فٹ ہو جاتے ہیں تو ہمیں زمان کے ساتھ ایک شاندار لیفٹ ہینڈرز کی جوڑی دستیاب ہو سکتی ہے۔
صائم کے پاس کئی طرح کے کرکٹ شاٹس ہیں اور وہ ہر سچویشن میں کھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ بابر اعظم کے برعکس بڑی شاٹس بھی کھیل سکتا ہے۔ اس نے ایشین بیٹسمینوں کے لیے مشکل سمجھی جانے والی پچوں پرشاندار کارکردگی دکھائی اور ٹیم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پھر یہ کہ وہ وقت کے ساتھ اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی بھی پوری کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اگر وہ فٹ نہ ہوا تو پھر ون ڈے میں فی الحال کسی نمایاں کارکردگی کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
کراچی؛ اسکیم 33 کے مکینوں کا رہائشی علاقوں سے کچرا کنڈی کو دوسری جگہ منتقل کرنے کا مطالبہ
کراچی:کراچی کے علاقے اسکیم 33 کے مکینوں نے سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ اور میئر کراچی مرتضی وہاب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ رہائشی علاقے کے بیچوں بیچ قائم کچرا کنڈی کو کسی دوسری جگہ منتقل کرائیں کچرا کنڈی کے قیام سے رہائشی علاقے کے مکین بدبو، تعفن ، صحت کے مسائل اور دیگر مشکلات کا شکار ہیں اور علاقے میں شہریوں کا گزر بسر ناممکن ہوگیا ہے۔
رہائشیوں کا کہنا ہے کہ شہری حکام کی جانب سے اسکیم 33 کی سالڈ ویسٹ سائیٹ (کچرا کنڈی) رہائشی آبادی کے بالکل سامنے قائم کردی گئی ہے، یہ کچرا کنڈی جمالی پل کے نزدیک رہائشی علاقے کے بالکل سامنے بنائی گئی ہے جس سے اطراف کی آبادی میں مقیم افراد شدید ذہنی اذیت سے دوچار ہیں اور کچرے کی بدبو سے علاقے میں صحت کے سنگین مسائل پیدا ہورہے اطراف کی آبادیوں میں مکھیوں کی بہتات ہوگئی ہے ،ہوا کے ساتھ جراثیم کی منتقلی سے بچے بیمار ہورہے ہیں اور نشئی افراد نے کچرا کنڈی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں بیٹھنا شروع کردیا ہے۔
ادھر حال ہی میں عید الضحیٰ کے موقع پر نامعلوم افراد کی جانب سے کچرا کنڈی اور اس کے اطراف کے خالی جگہوں پر جانوروں کی آلائشیں پھینکنے کا سلسلہ بھی جاری ہے جس سے اطراف کی آبادیوں گلستان سوسائٹی، ٹیچر سوسائٹی اور کوئٹہ ٹائون سمیت دیگر رہائشی سوسائٹیز اور فلیٹ کے مکینوں کا گھروں میں رہنا محال ہوگیا ہے۔
متعلقہ رہائشی سوسائیڑ کے مکین یا تو گھروں کے دروازے بند کرکے اپنے گھروں میں مقید ہوگئے ہیں یا بعض افراد علاقہ چھوڑ کر اپنے رشتے داروں و احباب کے گھروں میں منتقل ہوگئے ہیں۔
واضح رہے کہ جہاں یہ کچرا کنڈی بنائی گئی ہے اس سے کچھ ہی فرلانگ پر فاطمہ کلینک کے نام سے ایک اسپتال بھی قائم ہے جس میں او پی ڈی کے لیے مریضوں کا آنا ناممکن ہوگیا ہے اور اسپتال میں زیر علاج مریض بھی بدبو و تعفن کی شکایت کررہے ہیں جبکہ اطراف میں دیگر ڈسپنسریز بھی قائم ہیں۔
جب اطراف کی آبادیوں کے مکینوں کی جانب سے متعلقہ یو سی کو اس حوالے سے درخواست دی گئی تو یو سی کی جانب سے انھیں بتایا گیا کہ یہ کچرا کنڈی سالڈ ویسٹ منیجمنٹ کی انتظامیہ کی جانب سے یہاں منتقل کی گئی ہے اور وہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کرسکتے۔
"ایکسپریس" نے اس حوالے سے سندھ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر طارق نظامانی سے اس سلسلے میں رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا وہ ان شکایات کا جائزہ لیں گے شہریوں کی صحت اور اطمینان ان کے لیے انتہائی اہم ہے، لہٰذا شکایات کے جائزے کے بعد اس سالڈ ویسٹ سائیٹ کو کسی دوسری جگہ منتقل بھی کیا جاسکتا ہے ۔