حزب اللہ نے جاسوسی کرنے والے غیر ملکی جوڑے کو گرفتار کر لیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
اخبار نے مزید کہا کہ الاخبار کو معلوم ہوا کہ ایک الجزائری شخص اور اس کی اطالوی بیوی کو حزب اللہ فورسز نے جمعرات کی سہ پہر کو اس وقت گرفتار کیا جب وہ الرویس محلے میں سید الشہدا کمپاؤنڈ کے قریب جاسوسی کی کارروائی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ نے ایک خصوصی آپریشن میں جاسوسی کرنے والے غیر ملکی جوڑے کو گرفتار کر لیا ہے۔ لبنانی اخبار "الاخبار" نے بیروت میں دحیہ کے الرویس محلے میں سید الشہداء (ع) کمپاونڈ کے احاطے کے قریب ایک الجزائری شخص اور اس کی اطالوی بیوی کی حزب اللہ فورسز کے ہاتھوں گرفتاری کی اطلاع دی ہے۔ لبنانی اخبار الاخبار نے رپورٹ کیا ہے کہ حزب اللہ کے سیکورٹی یونٹ بیروت میں جاسوسی کی کارروائیوں کو ناکام بنانے اور مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اخبار نے مزید کہا کہ الاخبار کو معلوم ہوا کہ ایک الجزائری شخص اور اس کی اطالوی بیوی کو حزب اللہ فورسز نے جمعرات کی سہ پہر کو اس وقت گرفتار کیا جب وہ الرویس محلے میں سید الشہدا کمپاؤنڈ کے قریب جاسوسی کی کارروائی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
سیکیورٹی ذرائع نے الاخبار کو بتایا کہ حراست میں لیے گئے افراد میں 1993ء میں لگوات شہر میں پیدا ہونے والے "بالقاسم بن عروس" اور 1989ء میں روم میں پیدا ہونے والی "ایسٹر ارگوٹو" ہیں، جنہیں ایک ٹیکسی کے اندر سے خفیہ طور پر فلم بنانے کے بعد موقع سے گرفتار کیا گیا۔ حکام نے مزید کہا کہ جی پی ایس سسٹم سے لیس ایک گوپرو کیمرہ جو بلوٹوتھ اور انٹرنیٹ کے ذریعے ڈیوائسز اور سمارٹ فونز سے منسلک ہو سکتا ہے، ان کے قبضے سے برآمد کر لیا گیا۔ اسی ذرائع کے مطابق اس کیمرے کو ایک ایپ کے ذریعے ریموٹ سے بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ حراست میں لیے گئے افراد کو تفتیش مکمل کرنے اور ان کی دستاویزات کا جائزہ لینے کے لیے جنرل سیکیورٹی اپریٹس کے حوالے کر دیا گیا۔ الاخبار کے مطابق لبنانی حزب اللہ نے گزشتہ پیر کی شب دو فرانسیسی باشندوں کو بھی جاسوسی کے شبہ میں گرفتار کیا گیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: گرفتار کیا حزب اللہ
پڑھیں:
✨ قربانی: رسم، روایت یا روح؟
عیدالاضحیٰ کا تہوار مسلمانوں کے لیے خوشی، ایثار اور قربانی کا مظہر ہے۔ ہر سال لاکھوں جانور اللہ کی راہ میں قربان کیے جاتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس عظیم عبادت کی اصل روح کو سمجھ پائے ہیں؟ یا ہم نے اسے صرف ایک "رسم" اور "سماجی مقابلے بازی" کا میدان بنا دیا ہے؟
آج کل ایک رواج عام ہو چکا ہے کہ جس کے گھر سے قربانی کا گوشت آتا ہے، اُسی کے گھر گوشت بھیجا جاتا ہے۔ کیا یہ کوئی معقول بات ہے؟ گوشت کی یہ "ادلا بدلی" اب خلوص کے بجائے ایک طرح کی لین دین یا حساب کتاب بن چکی ہے: اُس نے ہمیں بھیجا تو ہم بھیجیں گے، اُس نے نہیں بھیجا تو ہم بھی نہیں بھیجیں گے۔
لیکن یہ صرف تقسیمِ گوشت کا معاملہ نہیں، بلکہ عبادت کی نیت، اس کی روح اور اس کے نتائج کا معاملہ ہے۔ جب یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کم خوبصورت، ہڈیوں والا یا غیر معیاری گوشت غرباء کو دے دیا جائے اور صاف ستھرا، چربی سے پاک عمدہ گوشت فریزر میں محفوظ کر لیا جائے، تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم قربانی کر کس کے لیے رہے ہیں؟ اللہ کے لیے؟ یا اپنے پیٹ اور فریزر کے لیے؟
میرے گھر میں، میں نے یہ اصول سختی سے نافذ کیا ہوا ہے کہ جس کے گھر قربانی ہو رہی ہے، اُسے ہم گوشت نہیں بھیجیں گے۔ خواہ وہ میری سگی بہن ہو، سگا ماموں ہو، میرے سسرال والے ہوں، دوست احباب یا قریبی پڑوسی۔ میری واضح ہدایت ہے کہ قربانی کا گوشت صرف ان لوگوں کو بھیجا جائے جن کے گھروں میں قربانی نہیں ہو رہی۔ کیونکہ وہی لوگ اس کے اصل مستحق ہیں۔ جو لوگ قربانی کر رہے ہیں، ان کے فریزر پہلے ہی بھرے ہوتے ہیں، انہیں گوشت کی نہیں، شاید خلوص کی ضرورت ہو۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا جو تصور ہے — ایک حصہ اپنا، ایک رشتہ داروں کا اور ایک غریبوں کا — اُس پر آج کتنے لوگ عمل کرتے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اکثر گھروں میں پورا گوشت اپنے فریزر میں رکھ لیا جاتا ہے، اور تین مہینے تک وہی گوشت چلتا رہتا ہے۔ تو یہ کیسا "ایثار" ہے جس میں صرف اپنا فائدہ پیشِ نظر رکھا گیا ہو؟ قربانی کے گوشت کو جمع کرنا عبادت نہیں بناتا، بلکہ تقسیم کرنا ہی اس کی اصل روح ہے۔
اور آخر میں، ایک سادہ سی مگر پُر اثر گزارش:
آپ لاکھوں روپے کا جانور خرید لیتے ہیں، خدارا اس بار ایک لاکھ کی نیت بھی خالص خرید لیں۔
قربانی صرف مستحقین تک پہنچائیں — شاید اسی میں آپ کی قربانی پوری، مکمل اور اللہ کے نزدیک قابلِ قبول ہو جائے۔
قربانی اگر اللہ کے لیے ہے تو اس میں دکھاوا نہیں ہونا چاہیے۔ اور اگر اللہ کے بندوں کے لیے ہے تو پھر اس میں خودغرضی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔
چند لمحے رک کر سوچیں:
قربانی آپ کی عبادت ہے، یا ایک سماجی رسم؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔