Daily Ausaf:
2025-11-03@19:14:27 GMT

آنکھوں سے اوجھل ہونے کی حیران کن ایجاد

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
بہت سے جانوروں میں یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ اپنی شکل و صورت بدل کر ماحول میں گھل مل جاتے ہیں۔ انسانوں کے وضع کئے گئے طریقے اس عمل کی نقل کرنے کے معاملے میں پیچیدہ اور مشکل ہوتے ہیں اور ماحول کی شناخت، اس کی خصوصیات پر عمل اور اس جیسا نظر آنے کے لئے ظاہری شکل کو بدلنے جیسے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
ان سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایسے کیموفلاج سسٹمز میں اکثر برقی آلات استعمال ہوتے ہیں جن سے ساخت کی پیچیدگی، محدود استعمال اور زیادہ لاگت جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ بات گذشتہ ماہ ’’سائنس ایڈوانسز‘‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتائی گئی ہیں۔ تحقیق میں سائنس دانوں نے نئے مواد کے بارے میں بتایا کہ یہ ایک خاص عمل ہے جسے خود کو تبدیل کرنے کی صلاحیت ایس اے پی (سیلف ایڈیپٹیو فوٹوکرومز) کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے اپنے ماحول جیسا ہو جانے کی صلاحیت رکھنا آسان ہے۔ جب ایس اے پی موادوں کو مخصوص طول موج والی روشنی کے سامنے رکھا جاتا ہے تو ان کے مالیکیولز اپنی ترتیب بدل لیتے ہیں، جس سے مواد کا رنگ تبدیل ہو جاتا ہے۔
یہ ایس اے پی مواد نامیاتی رنگوں اور ایسے مالیکیولز سے بنایا جاتا ہے، جنہیں ڈونر ایکسپٹر سٹین ہاس ایڈکٹس کہا جاتا ہے، اور جو روشنی کے اثر سے اپنی ساخت اور کیمیائی خصوصیات تبدیل کر لیتے ہیں۔تحقیق کار وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ایس اے پی مواد اندھیرے میں اپنی ابتدائی سیاہ حالت میں ہوتے ہیں اور پس منظر میں موجود منعکس اور منتقل ہونے والی روشنی کے ذریعے کسی دوسرے رنگ میں خودبخود بدل جاتے ہیں۔‘‘ ان سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ انسانی ساختہ کیموفلاج سسٹمز کے مقابلے میں یہ نئے ایس اے پی مواد زیادہ سادہ، سستے اور استعمال میں آسان ہیں۔
یہ سائنس دان اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں: ’’ہم نے اس کام میں مواد کی اندرونی خصوصیت کے طور پر فعال کیموفلاج کے بارے میں بتایا ہے اور خودبخود گھل مل جانے والے فوٹوکرومز کی بات کی ہے۔‘‘ تحقیق کاروں نے ان موادو کو جانچنے کے لئے دو تجربات کئے۔ایک تجربے میں مختلف رنگوں والا ایس اے پی کا محلول جس میں سرخ، سبز، زرد اور سیاہ رنگ شامل تھے، ایک شفاف کنٹینر اور پلاسٹک کے ڈبوں میں ڈالا۔ سائنس دانوں نے مشاہدہ کیا کہ ایس اے پی محلول نے اپنے اردگرد موجود پلاسٹک کے ڈبوں کے رنگ سے مطابقت پیدا کر لی۔
دوسرے تجربے میں ایس اے پی محلول والے کنٹینر کو ایسے ماحول میں رکھا گیا، جہاں پس منظر میں سرخ، سبز یا زرد رنگ موجود تھے۔ سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ ایس اے پی محلول نیاپنے اردگرد کے ماحول جیسا ہو جانے کے لیے تقریبا ایک منٹ میں رنگ بدل لیا۔ اس تحقیق کے مطابق ایس اے پی مواد میں ’’کیموفلاج سسٹمز، سمارٹ کوٹنگز، ڈسپلے ڈیوائسز‘‘ اور یہاں تک کہ ’’جعلسازی روکنے والی ٹیکنالوجی‘‘ میں استعمال ہونے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔
تحقیق کے سربراہ وانگ ڈونگ شینگ نے چائنا سائنس ڈیلی کو بتایا: ’’بنیادی طور پر اس ٹیکنالوجی کو کپڑوں پر استعمال کرنے سے کسی فرد کو عملاً دکھائی نہ دینے والا بنایا جا سکتا ہے۔‘‘ مزید تحقیق میں سائنسدان ایس اے پی مواد کے رنگوں کی حد کو بڑھانے کی امید رکھتے ہیں تاکہ جامنی اور نیلے جیسے رنگ بھی شامل کئے جا سکیں، جو اس مواد کی موجودہ قسم کو استعمال کرتے ہوئے ممکن نہیں۔
ڈاکٹر وانگ کہتے ہیں کہ’’مزید فوٹوکرومک مالیکیولز شامل کر کے یا اس کی ساخت میں تبدیلیاں لا کر ہم زیادہ باریکی کے ساتھ رنگوں میں تمیز اور تیزی سے رنگ بدلنے کی رفتار حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘ یہ ٹیکنالوجی اتنی ترقی یافتہ ہونے کے قریب ہے کہ آپ لوگوں میں رہتے ہوئے غائب ہو سکتے ہیں۔ یہ انسان کی ’’پیرانارمل ایبیلٹیز‘‘ کے سائنسی ٹیکنالوجی میں بدلنے کی ایک معمولی سی مثال ہے۔ ہم سب نے علامہ اقبال اور ڈاکٹر اسرار احمد کو پڑھ رکھا ہے جو ہمیں ایسی بظاہر ناممکن ایجادات کے بارے تحریک دیتے ہیں۔ بعض دفعہ منزل صرف سوچ اور سمت بدلنے سے بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ ہمارا مذہبی لٹریچر ایسی کہانیوں سے بھرا پڑا ہے، جسے سردست ہم نے ‘دقیانوسیت’ میں ڈال رکھا ہے۔
عجیب و غریب، مشکل، ناممکن یا بظاہر ماورا قسم کی چیزوں اور کاموں پر یقین رکھنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ بعض اوقات اس سے وہ حیران کن مواقع پیدا ہوتے ہیں کہ جن کا کبھی گمان بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ایس اے پی مواد ہوتے ہیں جاتا ہے

پڑھیں:

گوادر کے قریب معدومیت کے خطرے سے دوچار عربی وہیل کا حیران کن نظارہ

تصاویر:سوشل میڈیا

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (WWF) پاکستان کے مطابق معدومیت کے خطرے سے دوچار عربی وہیل (Arabian Humpback Whale) کے ایک بڑے گروہ کو گوادر کے قریب دیکھا گیا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے تکنیکی مشیر معظم خان نے بتایا کہ یہ وہیلز کا گروہ گزشتہ روز ماہی گیروں کے ایک گروپ نے دیکھا، جنہوں نے 6 سے زائد عربی وہیلز کی ویڈیو بھی بنائی۔

معظم خان کے مطابق عربی وہیل دنیا کی واحد وہیل کی نسل ہے جو بحیرہ عرب میں مستقل رہتی ہے اور عام طور پر یمن اور سری لنکا کے درمیان پائی جاتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • روزانہ بھگوئی ہوئی کشمش کھانے سے صرف ایک ماہ میں حیران کن فوائد حاصل کریں
  • افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، ذبیح اللہ مجاہد
  •  امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود استعمال کر کے کابل میں داخل ہو رہے ہیں، افغانستان
  • اکشے کو سیٹ پر 100 انڈے کیوں مارے گئے؟ کوریوگرافر کا حیران کن انکشاف
  • گوادر کے قریب معدومیت کے خطرے سے دوچار عربی وہیل کا حیران کن نظارہ
  • سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی
  • کورونا کی شکار خواتین کے نومولود بچوں میں آٹزم ڈس آرڈرکا انکشاف
  • ماں کے دورانِ حمل کووڈ کا شکار ہونے پر بچوں میں آٹزم کا خطرہ زیادہ پایا گیا، امریکی تحقیق
  • نیو ٹاؤن میں رکشا گینگ نے شہریوں کولوٹنے کانیاطریقہ ایجاد کرلیا
  • حیران کن پیش رفت،امریکا نے بھارت سے10سالہ دفاعی معاہدہ کرلیا