آنکھوں سے اوجھل ہونے کی حیران کن ایجاد
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
بہت سے جانوروں میں یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ اپنی شکل و صورت بدل کر ماحول میں گھل مل جاتے ہیں۔ انسانوں کے وضع کئے گئے طریقے اس عمل کی نقل کرنے کے معاملے میں پیچیدہ اور مشکل ہوتے ہیں اور ماحول کی شناخت، اس کی خصوصیات پر عمل اور اس جیسا نظر آنے کے لئے ظاہری شکل کو بدلنے جیسے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
ان سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایسے کیموفلاج سسٹمز میں اکثر برقی آلات استعمال ہوتے ہیں جن سے ساخت کی پیچیدگی، محدود استعمال اور زیادہ لاگت جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ بات گذشتہ ماہ ’’سائنس ایڈوانسز‘‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتائی گئی ہیں۔ تحقیق میں سائنس دانوں نے نئے مواد کے بارے میں بتایا کہ یہ ایک خاص عمل ہے جسے خود کو تبدیل کرنے کی صلاحیت ایس اے پی (سیلف ایڈیپٹیو فوٹوکرومز) کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے اپنے ماحول جیسا ہو جانے کی صلاحیت رکھنا آسان ہے۔ جب ایس اے پی موادوں کو مخصوص طول موج والی روشنی کے سامنے رکھا جاتا ہے تو ان کے مالیکیولز اپنی ترتیب بدل لیتے ہیں، جس سے مواد کا رنگ تبدیل ہو جاتا ہے۔
یہ ایس اے پی مواد نامیاتی رنگوں اور ایسے مالیکیولز سے بنایا جاتا ہے، جنہیں ڈونر ایکسپٹر سٹین ہاس ایڈکٹس کہا جاتا ہے، اور جو روشنی کے اثر سے اپنی ساخت اور کیمیائی خصوصیات تبدیل کر لیتے ہیں۔تحقیق کار وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ایس اے پی مواد اندھیرے میں اپنی ابتدائی سیاہ حالت میں ہوتے ہیں اور پس منظر میں موجود منعکس اور منتقل ہونے والی روشنی کے ذریعے کسی دوسرے رنگ میں خودبخود بدل جاتے ہیں۔‘‘ ان سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ انسانی ساختہ کیموفلاج سسٹمز کے مقابلے میں یہ نئے ایس اے پی مواد زیادہ سادہ، سستے اور استعمال میں آسان ہیں۔
یہ سائنس دان اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں: ’’ہم نے اس کام میں مواد کی اندرونی خصوصیت کے طور پر فعال کیموفلاج کے بارے میں بتایا ہے اور خودبخود گھل مل جانے والے فوٹوکرومز کی بات کی ہے۔‘‘ تحقیق کاروں نے ان موادو کو جانچنے کے لئے دو تجربات کئے۔ایک تجربے میں مختلف رنگوں والا ایس اے پی کا محلول جس میں سرخ، سبز، زرد اور سیاہ رنگ شامل تھے، ایک شفاف کنٹینر اور پلاسٹک کے ڈبوں میں ڈالا۔ سائنس دانوں نے مشاہدہ کیا کہ ایس اے پی محلول نے اپنے اردگرد موجود پلاسٹک کے ڈبوں کے رنگ سے مطابقت پیدا کر لی۔
دوسرے تجربے میں ایس اے پی محلول والے کنٹینر کو ایسے ماحول میں رکھا گیا، جہاں پس منظر میں سرخ، سبز یا زرد رنگ موجود تھے۔ سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ ایس اے پی محلول نیاپنے اردگرد کے ماحول جیسا ہو جانے کے لیے تقریبا ایک منٹ میں رنگ بدل لیا۔ اس تحقیق کے مطابق ایس اے پی مواد میں ’’کیموفلاج سسٹمز، سمارٹ کوٹنگز، ڈسپلے ڈیوائسز‘‘ اور یہاں تک کہ ’’جعلسازی روکنے والی ٹیکنالوجی‘‘ میں استعمال ہونے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔
تحقیق کے سربراہ وانگ ڈونگ شینگ نے چائنا سائنس ڈیلی کو بتایا: ’’بنیادی طور پر اس ٹیکنالوجی کو کپڑوں پر استعمال کرنے سے کسی فرد کو عملاً دکھائی نہ دینے والا بنایا جا سکتا ہے۔‘‘ مزید تحقیق میں سائنسدان ایس اے پی مواد کے رنگوں کی حد کو بڑھانے کی امید رکھتے ہیں تاکہ جامنی اور نیلے جیسے رنگ بھی شامل کئے جا سکیں، جو اس مواد کی موجودہ قسم کو استعمال کرتے ہوئے ممکن نہیں۔
ڈاکٹر وانگ کہتے ہیں کہ’’مزید فوٹوکرومک مالیکیولز شامل کر کے یا اس کی ساخت میں تبدیلیاں لا کر ہم زیادہ باریکی کے ساتھ رنگوں میں تمیز اور تیزی سے رنگ بدلنے کی رفتار حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘ یہ ٹیکنالوجی اتنی ترقی یافتہ ہونے کے قریب ہے کہ آپ لوگوں میں رہتے ہوئے غائب ہو سکتے ہیں۔ یہ انسان کی ’’پیرانارمل ایبیلٹیز‘‘ کے سائنسی ٹیکنالوجی میں بدلنے کی ایک معمولی سی مثال ہے۔ ہم سب نے علامہ اقبال اور ڈاکٹر اسرار احمد کو پڑھ رکھا ہے جو ہمیں ایسی بظاہر ناممکن ایجادات کے بارے تحریک دیتے ہیں۔ بعض دفعہ منزل صرف سوچ اور سمت بدلنے سے بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ ہمارا مذہبی لٹریچر ایسی کہانیوں سے بھرا پڑا ہے، جسے سردست ہم نے ‘دقیانوسیت’ میں ڈال رکھا ہے۔
عجیب و غریب، مشکل، ناممکن یا بظاہر ماورا قسم کی چیزوں اور کاموں پر یقین رکھنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ بعض اوقات اس سے وہ حیران کن مواقع پیدا ہوتے ہیں کہ جن کا کبھی گمان بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ایس اے پی مواد ہوتے ہیں جاتا ہے
پڑھیں:
پاکستانی سائنسدانوں نے اے آئی جیو سائنس کے حوالے سے اہم اعزاز حاصل کرلیے
معروف جیو سائنس اور ٹیکنالوجی کمپنی ایل ایم کے آر کو رواں سال کے اینول ٹیکنیکل کانفرنس (ATC) 2024 میں اے آئی جیو سائنس کے حوالے سے اہم اعزاز سے نوازا گیا۔ کانفرنس میں ایل ایم کے آر کی طرف سے تحقیقاتی مقالوں کی قیادت ڈاکٹر عمر منظور نے کی۔
یہ بھی پڑھیں: 18 کروڑ سے زیادہ صارفین کے پاسورڈ اور حساس معلومات چوری، فوری کیا اقدامات کرنے چاہییں؟
کمپنی کی 2 تحقیقاتی رپورٹس کو انقلابی نوعیت کی سائنسی تحقیق پر اعلیٰ اعزازات حاصل ہوئے۔ یہ کامیابیاں اس بات کی مظہر ہیں کہ ایل ایم کے آر کس طرح مصنوعی ذہانت کو جیو سائنس میں ضم کرکے توانائی کے شعبے کے پیچیدہ مسائل کے حل میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔
ان تحقیقی مقالوں کی قیادت ڈاکٹر عمر منظور نے کی جبکہ ان میں کمپنی کے اندرونی ماہرین کی ٹیم نے معاونت فراہم کی جو جیو سائنس اور اے آئی میں مہارت رکھتے ہیں۔ اعزاز یافتہ تحقیقی مقالات میں ہائی ریزولوشن ماڈلنگ برائے غیر یکساں ریزروائرز میں ڈیپ لرننگ کا استعمال، جدید مشین لرننگ تکنیک کے ذریعے CO₂ اسٹوریج کا جدید تجزیہ شامل ہیں ۔
یہ تحقیقاتی مطالعات اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ پائیدار توانائی کی ترقی کے تناظر میں کس طرح ڈیپ لرننگ اور مشین لرننگ جیسے جدید ترین طریقے توانائی کے شعبے میں پیچیدہ مسائل کے سائنسی حل فراہم کر سکتے ہیں۔
یہ تحقیقاتی کام ایک ٹیم ورک کا نتیجہ ہے جس میں مُیسر حسین، محمد خضر افتخار، فاروق ارشد، وجیہہ خان، صہیب ضیاء، اور فرمان اللہ شامل ہیں جنہوں نے ڈاکٹر منظور کی نگرانی میں یہ تحقیقی کام انجام دیا۔
ایل ایم کے آرکے ترجمان نے کہا کہ یہ اعزاز ہماری تکنیکی مہارت اور جیو سائنس میں جدت پسندی سے وابستگی کا ثبوت ہے۔
مزید پڑھیے: دنیا کی پہلی روبوٹ فائٹ: پہلوانوں کے تابڑ توڑ حملوں، ناک آؤٹس نے سب کو حیران کردیا
انہوں نے کہا کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری ٹیمیں مصنوعی ذہانت کے ذریعے توانائی کے شعبے کا مستقبل تشکیل دے رہی ہیں۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ باہمی اشتراک، جدت اور سائنسی تحقیق کی ثقافت کو فروغ دیتی ہے اور ان باصلاحیت دماغوں کی پشت پناہی جاری رکھے گی جنہوں نے اس شاندار کامیابی کو ممکن بنایا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایل ایم کے آر اے آئی جیو سائنس اے ٹی سی 2024 ڈاکٹر عمر منظور