سیکیورٹی ڈیپازٹ ریٹس! بجلی کے بھاری بلوں سے پریشان صارفین کے لئے بڑی خبر
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)اسلام آباد : بجلی کے بھاری بلوں سے پریشان صارفین کے لئے بڑی خبر آگئی ، سیکیورٹی ڈیپازٹ ریٹس میں اضافہ ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق بجلی صارفین پرایک اور بوجھ ڈالنے کی حکومتی تیاریاں جاری ہے، بجلی کمپنیوں نے صارفین کے سیکیورٹی ڈیپازٹ ریٹس بڑھانے کا فیصلہ کرلیا۔
بجلی کمپنیز نے اضافے کے لئے نیپرا میں درخواستیں دائر کردیں، گھریلو، کمرشل انڈسٹریل زرعی صارفین کیلئے سیکیورٹی ڈیپازٹ میں اضافہ مانگا گیا ہے۔
پیسکو،میپکو، گیپکو اور لیسکو،فیسکو،حیسکو،کیسکو اور ٹیسکو نے درخواستیں دائر کیں ، جس میں موقف اختیار کیا ہے کہ تمام کٹیگریز کے لیے بجلی کے نرخوں میں نمایاں اضافہ ہوچکا ہے اور موجودہ سیکرٹری ڈیپازٹ ڈسکوز کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے ناکافی ہیں۔
بجلی کمپنیوں کا کہنا تھا کہ بجلی کمپنیوں نے ایک ماہ اور ڈھائی سے تین ماہ کی سیکیورٹی ڈیپازٹ میں اضافہ مانگا ہے، گیپکو میں نادہندگان کے ذمہ 2 ارب 39 کروڑ 70 لاکھ روپے کے واجبات ہیں تاہم نیپرا اتھارٹی معاملے پر 11فروری کو سماعت کرے گا۔
مزیدپڑھیں:وفاق کا اہم منصوبہ سندھ حکومت کے سپرد کرنے کی تیاری
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
ملکی تاریخ میں پہلی بار ’’فری انرجی مارکیٹ پالیسی‘‘کے نفاذکااعلان
اسلام آباد: وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے اعلان کیا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ “فری انرجی مارکیٹ پالیسی” آئندہ دو ماہ میں حتمی نفاذ کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی، جس کے بعد حکومت کی جانب سے بجلی کی خریداری کا عمل مستقل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔
یہ بات انہوں نے عالمی بینک کے اعلیٰ سطحی وفد سے ملاقات کے دوران کہی، جس کی قیادت عالمی بینک کے ریجنل نائب صدر برائے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، افغانستان و پاکستان، جناب عثمان ڈیون (Ousmane Dione) کر رہے تھے۔
وزیر توانائی نے بتایا کہ نئے ماڈل CTBCM (Competitive Trading Bilateral Contract Market) کے تحت ملک میں بجلی کی آزادانہ تجارت ممکن ہو سکے گی، جس میں “وِیلنگ چارجز” اور دیگر ضروری میکانزم شامل کیے جا رہے ہیں۔ اس نظام کے تحت حکومت کا کردار صرف ریگولیٹری فریم ورک تک محدود کر دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس منتقلی کا عمل بتدریج اور جامع حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا تاکہ بجلی کے نظام میں استحکام برقرار رکھا جا سکے۔
ملاقات کے دوران سردار اویس لغاری نے عالمی بینک کے وفد کو حکومت کی جاری توانائی اصلاحات، نیٹ میٹرنگ پالیسی، نجکاری اقدامات، ریگولیٹری بہتری اور سرمایہ کاری کے مواقع سے آگاہ کیا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی پالیسی کا جھکاؤ واضح طور پر نجی شعبے کے فروغ اور شفافیت کی جانب ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کار اس تبدیلی میں بھرپور کردار ادا کریں۔
عالمی بینک کے نائب صدر عثمان ڈیون نے پاکستان کے توانائی شعبے میں جاری اصلاحات کو قابلِ تحسین قرار دیا اور کہا کہ توانائی کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کی بنیاد ہے، اسی لیے عالمی بینک اس شعبے میں پاکستان کے ساتھ اپنی شراکت داری جاری رکھے گا۔
انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ عالمی بینک پاکستان کے لیے ایک پائیدار، قابل اعتماد اور سرمایہ کاری کے لیے موزوں توانائی نظام کی تشکیل میں بھرپور تعاون فراہم کرے گا۔
آخر میں وفاقی وزیر نے عالمی بینک کے وفد کو توانائی اصلاحات پر مبنی جامع کتابچہ بھی پیش کیا اور امید ظاہر کی کہ موجودہ شراکت داری مستقبل میں مزید مستحکم ہو گی۔
صارفین کے لیے “فری انرجی مارکیٹ” کے ممکنہ فوائد:
صارفین کو مختلف بجلی فراہم کنندگان میں سے مسابقتی نرخوں پر بجلی خریدنے کی آزادی ہوگی۔
مارکیٹ میں مسابقت بڑھنے سے بجلی کی قیمتوں میں کمی آنے کا امکان ہے۔
نجی کمپنیاں بہتر سروس فراہم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گی، جس سے کسٹمر سروس، بلنگ کا نظام اور شکایات کے ازالے میں بہتری آئے گی۔
صنعتیں اپنی ضروریات اور استعمال کے مطابق سستا اور مستحکم توانائی معاہدہ کر سکیں گی، جو برآمدات اور پیداواری لاگت پر مثبت اثر ڈالے گا۔
صارفین سولر، ونڈ یا دیگر گرین انرجی ذرائع سے بجلی خریدنے کے آپشنز کو ترجیح دے سکیں گے، جس سے ماحول دوست توانائی کو فروغ ملے گا۔
جن گھریلو یا صنعتی صارفین کے پاس سولر پینل نصب ہوں گے، وہ بجلی فروخت بھی کر سکیں گے، جس سے آمدن حاصل کی جا سکتی ہے۔
جب حکومت بجلی خریدنا بند کرے گی، تو اس پر موجود گردشی قرضوں (circular debt) کا دباؤ کم ہوگا، جس کا بالآخر فائدہ صارفین کو مستحکم نظام کی صورت میں ملے گا۔