نوجوان ہی تبدیلی کے محرک اور خوشحال مستقبل کی ضمانت ہیں،وزیراعظم
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ تبدیلی کے محرک اور خوشحال مستقبل کی ضمانت نوجوان ہیں، انہیں پالیسی سازی میں شامل کرنا ہوگا۔کامن ویلتھ ایشیا یوتھ الائنس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے نوجوانوں کو تبدیلی کی نوید قرار دیتے ہوئے کہا کہ قومی ترقی و پالیسی سازی میں نوجوانوں کا کردار بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ تعلیم کو فروغ دے کر نوجوانوں کو بااختیار بنایا جا سکتا ہے، کیوں کہ نوجوان ہی پرامن اور خوشحال مستقبل کی ضمانت ہیں۔وزیراعظم نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دولت مشترکہ رکن ممالک کے درمیان شرکت داری کے لیے یہ ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔ انہوں نے پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کو نوجوانوں کی ترقی و بہبود کا فلیگ شپ پروگرام قرار دیا اور کہا کہ پاکستان دولت مشترکہ کا بانی رکن ہے، جو اس پلیٹ فارم کو شراکت داری اور اتفاق رائے کا اہم ذریعہ سمجھتا ہے۔علاوہ ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے صحت کی سہولیات کے حوالے سے اسلام آباد کو پورے ملک کے لیے ماڈل بنانے اور وفاقی حکومت کے زیر انتظام صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ہدایت کر دی۔وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت وزارت قومی صحت کے امور پر جائزہ اجلاس ہوا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ملک بھر میں صحت کی سہولیات تک رسائی کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کر رہی ہے۔اجلاس میں وزیراعظم نے جناح میڈیکل کمپلیکس و ریسرچ سینٹر کے کام کو تیز رفتار بنانے جبکہ میڈیکل و سرجیکل مشینری و آلات کی خریداری کے حوالے سے پری کوالیفیکیشن کا عمل بروقت شروع کرنے کی ہدایت کی۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: شہباز شریف
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر میں میڈیا کے خلاف مودی حکومت کی کارروائیوں سے نوجوان صحافیوں کا مستقبل دائو پر لگ گیا
ذرائع کے مطابق مقبوضہ علاقے میں صحافت کا منظرنامہ ڈرامائی طور پر تبدیل ہو چکا ہے، نیوز رومز خالی ہو چکے ہیں اور رپورٹرز کے لیے مستقبل کے راستے تقریبا بند ہو گئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں نوجوان صحافیوں کو شدید بحران کا سامنا ہے جو حکومتی دبائو کے باعث بڑھتی ہوئی بیروزگاری کا شکار ہیں اور اس سے علاقے کی ایک وقت کی متحرک پریس بالکل خاموش ہو گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق مقبوضہ علاقے میں صحافت کا منظرنامہ ڈرامائی طور پر تبدیل ہو چکا ہے، نیوز رومز خالی ہو چکے ہیں اور رپورٹرز کے لیے مستقبل کے راستے تقریبا بند ہو گئے ہیں۔ نئے آنے والے نوجوانوں کو بہت سے تلخ حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں قابل عمل اور آزاد روزگار کے پلیٹ فارمز کا فقدان شامل ہے، نگرانی کا ماحول، صحافیوں پر کالے قوانین کو لاگو کرنا اور پریس کی آزادی میں کمی ایک معمول بن چکا ہے۔ بحران اتنا سنگین ہے کہ نئے طلباء اس پیشے سے وابستہ ہونے سے کتراتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کا کہنا ہے کہ صحافت کے شعبہ جات میں اندراج کی شرح خطرناک حد تک کم ہوئی ہے، صرف 25 سے 30 طلباء سالانہ اپنی ڈگریاں مکمل کر پاتے ہیں۔ وہ انتہائی محدود پیشہ ورانہ مواقع، شدید دبائو کے باعث شعبے کے گرتے ہوئے وقار اور فائدے سے زیادہ بڑھتی ہوئی تعلیمی لاگت کو اس کمی کی بنیادی وجوہات قرار دے رہی ہیں۔