پاکستان میں موٹر سائیکلیں کتنے کھرب کا پیٹرول استعمال کرتی ہیں؟ اہم انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
وفاقی وزیر سردار اویس لغاری نے پاکستان میں زیر استعمال موٹر سائیکلوں اور ان کے پیٹرول استعمال سے متعلق دلچسپ انکشاف کردیا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر نے شرکت کی اور بتایا کہ پاکستان میں 30 ملین یعنی 3 کروڑ موٹر سائیکلیں زیر استعمال ہیں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ ان 3 کروڑ موٹر سائیکلوں میں سالانہ 6 ارب ڈالرز یعنی 16 کھرب 71 ارب سے زائد کا پیٹرول استعمال ہوتا ہے۔
اویس لغاری نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ موٹر سائیکل اور رکشے ملک کی کل پیٹرول کا 40 فیصد استعمال کرتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ 200 میگاواٹ کے فرنس آئل کے پاور پلانٹس کو وقت سے پہلے ریٹائر کر رہے ہیں، اس وقت ملک میں 55 فیصد بجلی ماحول دوست ذرائع سے پیدا ہو رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ 2030 تک مجموعی بجلی پیداوار کا 60 فیصد قابل تجدید اور ماحول دوست ذرائع سے ہوگا۔ ویلنگ پالیسی متعارف کروا رہے ہیں، گرین انرجی کے پیداوار اور خرید و فروخت میں اضافہ ہوگا۔
اویس لغاری نے یہ بھی کہا کہ ملک میں غیر میعاری پنکھوں کی تبدیلی کا پروگرام متعارف کرا رہے ہیں، ان تمام پالیسوں پر عمل درآمد کےلیے 100 ارب ڈالر سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ 50 ارب ڈالر 2030 تک 60 فیصد قابل تجدید توانائی کےلیے درکار ہوں گے، اب مسابقتی عمل کے ذریعے ہی پاور پلانٹس لگائے جائیں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ 2500 میگاوٹ کے تھر مل پلانٹس پہلے ہی ریٹائر کر چکے ہیں، اس وقت سولر نیٹ میٹرنگ سے باقی صارفین پر 103 ارب سے بوجھ پڑا ہے، ہم نیٹ میٹر والوں کو بھی کیپسٹی پیمنٹ ادا کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: وفاقی وزیر رہے ہیں کہا کہ
پڑھیں:
استعمال شدہ اور سیکنڈ ہینڈ آٹو پارٹس کی غیر قانونی کلیئرنس کا انکشاف
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا کنوینر شاہدہ اختر علی کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں استعمال شدہ اور سیکنڈ ہینڈ آٹو پارٹس کی غیر قانونی کلیئرنس کا انکشاف ہوا۔
اجلاس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے متعلق سال 2010-11 اور 2013-14 کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔
کنوینر کمیٹی نے کہا کہ ہردوسرا کیس کورٹ کیس ہے، جتنے بھی آڈٹ پیراز ہیں سارے کورٹ کیسز ہیں، عدالت میں زیر التوا معاملات ہم سیٹل نہیں کرسکتے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ وکیلوں کی فیس اب بڑھ گئی ہے، وکیل کو تیس لاکھ تک بھی دیا ہے۔
کنوینر کمیٹی نے کہا کہ ریفارمز کی طرف جانا چاہئے، زیادہ تر آڈٹ پیراز آپ لوگوں کے ہیں،
اسلام آباد: ریفارمز کی کوشش جاری رکھیں۔
ایف بی آر کی جانب سے درآمدی پالیسی آرڈر 2009 کی خلاف ورزی کا آڈٹ اعتراض کیا گیا، استعمال شدہ اور سیکنڈ ہینڈ آٹو پارٹس کی غیر قانونی کلیئرنس کا انکشاف ہوا۔
آڈٹ میں کہا گیا کہ درآمدی پالیسی آرڈر 2009 کے تحت استعمال شدہ آٹو پارٹس کی درآمد پر پابندی تھی، اسلام آباد اور ملتان کسٹمز نے سیکنڈ ہینڈ آٹو پارٹس کی کلیئرنس ریڈمپشن فائن کے ذریعے کی۔
آڈٹ حکام نے بریفنگ دی کہ آٹو پارٹس کی یہ کلیئرنس درآمدی پالیسی کی خلاف ورزی تھی، ڈی اے سی نے وزارتِ تجارت سے وضاحت طلب کرنے کی ہدایت دی، وزارتِ تجارت کی پالیسی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔
بلال احمد خان نے کہا کہ کیا آڈٹ نے اس حوالے سے وزارت قانون کو یہ وضاحت لکھی تھی،
آڈٹ حکام نے بریفنگ میں کہا کہ آڈٹ کا کام وضاحت دینا نہیں چیزوں کی نشاندہی کرنا ہوتی ہے،
ہماری نظر میں دونوں آٹو پارٹس کی کلیئرنس میں تضاد ہے۔
پی اے سی ذیلی کمیٹی نے ایف بی آر سے چار ہفتوں میں تفصیلی رپورٹ مانگ لی۔
پرال میں غیر مجاز پی سی ٹی ہیڈنگز اور کسٹم ڈیوٹی ریٹس شامل کرنے سے 2 کروڑ 13 لاکھ روپے کا نقصان ہوا، آڈٹ کے مطابق پاک چین کے 2006 کے معاہدے کے تحت 5,909 چینی اشیاء پر کسٹم ڈیوٹی میں رعایت دی گئی، ایم سی سی اسلام آباد نے درآمدی سامان کو غلط پی سی ٹی ہیڈنگز میں درج کیا۔
آڈٹ حکام نے بریفنگ دی کہ کسٹم اور پرال حکام نے غلط اندراج پر کوئی کارروائی نہیں کی،
کم کسٹم ڈیوٹی ریٹس کے اطلاق سے قومی خزانے کو 2 کروڑ 13 لاکھ روپے کا نقصان ہوا،
کسٹم حکام اور پرال حکام دونوں غلط اندراج کے ذمہ دار ہیں۔
ممبر پی اے سی بلال احمد نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پرال میں غلط اندراج کیا جائے،
اس سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ آپ کے لوگ بھی ملے ہوئے تھے، ایف بی آر حکام نے کہا کہ
پرال سے آدھے لوگوں کو فارغ کر دیا گیا ہے، اس کو مکمل ریویمپ کیا جا رہا ہے، پرال کا الگ سے بورڈ بنایا ہے اور اس کو مکمل ایک آزاد باڈی بنا رہے ہیں، پرال کو ایف بی آر کے انفلوئنس سے بھی نکال رہے ہیں۔
ممبر ایف بی آر سید شکیل نے کہا کہ پرال میں جن لوگوں کی غفلت پائی گئی وہ گرفتار بھی ہوئے ہیں، یہ رقم تو بہت چھوٹی ہے لیکن غلطی بہت بڑی ہے۔
ممبر ایف بی آر نے کہا کہ چین کے ساتھ 17 ارب کی تجارت ہوتی ہے اس بڑے حجم کو بھی دیکھا جائے،
پی اے سی ذیلی کمیٹی نے 4 ہفتوں میں ایف بی آر سے رپورٹ طلب کر لی