ماحول کی خرابی میں ہمارا حصہ کتنا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
گزشتہ دنوں جامعہ کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف انوائرمینٹل اسٹڈیز میں ماحولیات اور صحافت کے موضوع پر ایک سیمینار سے خطاب کا موقع ملا جسے ماہنامہ بساط اور انوائرمینٹل اسٹڈیز انسٹیٹیوٹ نے الخدمت فاونڈیشن پاکستان کے تعاون سے منعقد کیا تھا، وہاں کی گئی گفتگو کا خلاصہ یہاں پیش خدمت ہے۔
ہماری عادت ہے کہ اپنے مسائل کا ذمے دار تلاش کرتے رہتے ہیں اور ہمیں مل بھی جاتا ہے لیکن اللہ نے ہمیں قرآن پاک میں بتا دیا ہے کہ معاملہ ہے کیا؟ ’’خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہوگیا ان برائیوں کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمائیں، تاکہ اللہ انہیں ان کے بعض کاموں کا مزا چکھائے تاکہ وہ باز اجائیں‘‘۔ (آیت: 41 سورہ روم)
اپنے معاملات کی خرابی کا ہم شکوہ کرتے رہتے ہیں ہر زبان پر یہ جملہ ہوتا ہے کہ ماحول خراب ہوگیا ہے، بھئی آب و ہوا راس نہیں آرہی، کوئی کہتا ہے کہ پانی آلودہ آرہا ہے، اور اس پر تو سب متفق ہیں کہ ہر چیز میں ملاوٹ ہے، گھر سے نکلیں تو نظر آتا ہے کہ کوئی سڑک ٹھیک نہیں ہے، ہر طرف دھول مٹی ہے، اور بارش ہوجائے تو کیچڑ، اور گٹر اُبلنا تو معمول ہی ہے۔ ان ساری باتوں کی وجہ سے ہم سب یک زبان ہوکر کہتے ہیں کہ یہ بلدیہ نالائق ہے، یہ حکومت ہی خراب ہے، لیکن یہ تو کوئی انکشاف نہیں ہے۔ ارے حکومت ٹھیک کب ہوتی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ حکومت بناتا کون ہے؟ وہ بھی تو ہم ہی بناتے ہیں یعنی۔ حکومت بھی تو ہم ہی ہیں ویسے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت تو اب عوام نہیں بناتے کوئی اور بناتا ہے، بات سیاست کی طرف چلی جائے گی، اور اگر نام لے لیا تو دماغ کی ساری آلودگی صاف کردی جائے گی اسے سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کرنا کہتے ہیں۔ اس لیے یہیں تک رہنے دیں۔
اسی طرح ماحول بھی ہم ہی اچھا اور خراب کرتے ہیں، ہم بھی دیکھتے ہیں کہ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے سگریٹ اچھالا، ایک ہی ٹوٹا تو تھا، چپس کھائے ریپر باہر لڑھکا دیا، ایک ہی تو تھا، بسکٹ کا ریپر پھینکا ایک ہی تو تھا، اور سوچیں ایک ایک کرکے 25 کروڑ کا ایک فی صد 25 لاکھ لوگ ایک ایک چیز سے اپنا حصہ ڈال رہے ہوں تو نتیجہ کیا ہوگا؟ ہماری صفائی پسندی کا عالم یہ ہے کہ ہم دکان کھولتے ہیں تو سڑک پر کچرا پھینک دیتے ہیں، اور دکان بند کرتے ہوئے بھی سارا کچرا سڑک پر ڈال دیتے ہیں تاکہ نالائق بلدیہ اور حکومت کی نالائقی کا ثبوت مہیا کیا جاسکے۔ اب بتائیں یہ ساری نالائقی حکومت کی ہے یا بڑا حصہ ہمارا ہے۔ اور ایک ایسی چیز بھی ہے جسے ہم سپر پلوشن کہتے ہیں، اور وہ ہے، پان، گٹکا، ماوا، جی ایم، سی ٹی وغیرہ اس کی تفصیل میں نہیں جاتا سوچ کر ہی کوئی اُلٹی نہ کردے، اور اس کی تفصیل دوبارہ بتانے کی ضرورت نہیں، سڑکیں، دیواریں، عمارتوں کی لفٹ، اسکولوں اور مکانوں کی چہار دیواریاں، ان پرکاریوں کے نتیجے میں بننے والے نقش ونگار اس کے گواہ ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہ تجربہ بھی ہوا ہوگا کہ بس یا ویگن سے اچانک ایک دھار نکل کر آپ کی گاڑی، موٹر سائیکل۔ چہرے یا کپڑوں پر پڑتی ہے، اور وہ لال ہوچکے ہوتے ہیں، یا تو پیک تھوکتے والا معذرت کرلیتا ہے یا بھرے ہوئے منہ کی وجہ سے معذرت نہ کرسکا اور اشارے سے سوری کہہ دیا، خدارا اس سے جان چھڑائیں، ورنہ یہ بلا صحت کا بھی بیڑا غرق کرے گی اور گندگی تو پھیلا ہی رہی ہے۔
ہم اسموگ کی بات نہیں کر رہے گلوبل وارمنگ اور کلائمٹ چینج کی بات نہیں کررہے، کہ ان سب چیزوں پر ہمارا اختیار نہیں ہے ہم تو اس کے مکلف ہیں جس پر اختیار ہے۔ یہ جو سورہ روم کی آیت 41 ہے۔ وہ بتارہی ہے کہ قدرتی آفات خود نہیں آجاتیں ہم خود بلاتے ہیں اپنے ہاتھوں سے کماتے ہیں۔ جب ہم پانی کی گزر گاہوں پر بستیاں بناتے ہیں اور سیلاب کی تباہی کا شکار ہوجاتے ہیں، سبزے اور جنگلات کو کاٹ کر شہر بساتے ہیں اور لکڑی بیجتے ہیں پھر بارش کی دعائیں کرتے ہیں قدرتی پھل اور سبزی چھوڑ کر جی ایم او پر منتقل ہوتے ہیں، پیدل نہیں چلتے ورزش نہیں کرتے اور جو کرنا چاہے اس کے لیے جگہ نہیں، پارکس کی چائنا کٹنگ ہوجاتی ہے۔ تو واک کہاں کریں۔ سڑک پر تو ہماری پھینکی ہوئی تھیلی نے گٹر بند کردیا تھا تو اب وہاں گٹر کا پانی ٹہلتا ہے، یہ سب ہمارے ہاتھ کی کمائی ہے، رات دن غیر ضروری طور پر اے سی چلاتے ہیں، پنکھے اور بلب جلا کر بھول جاتے ہیں غیر ضروری طور پر گاڑی کا انجن چلائے رکھتے ہیں، اسی سے کلائمٹ چینج، گلوبل وارمنگ وغیرہ سب آتے ہیں، پھر اس میں ہمارا حصہ کتنا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
ہمارا تعلق میڈیا سے ہے ہمارا تو کام ہی آگاہی پھیلانا ہے اور میڈیا یہ کام کررہا ہے لیکن جس چیز کے پیسے ملتے ہیں اس کو پھیلاتا ہے۔ کیونکہ اب جس چیز میں پیسے ہیں اسی پر مفاد عامہ کے پیغامات جاری ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ یہ بھی بدل جاتے ہیں پہلے کہا جاتا تھا کہ اللہ دیکھ رہا ہے لیکن اب کہا جاتا ہے کہ کیمرا دیکھ رہا ہے جو اللہ سے نہ ڈرے وہ کیمرے سے کیا ڈرے گا۔ تو اب کارپوریٹ میڈیا سے کسی قسم کی امید نہیں، لے دے کر آزاد میڈیا کے چھوٹے چھوٹے ادارے ہیں یا نئی نسل ہے۔ کارپوریٹ میڈیا تو ذہنی آلودگی بھی پھیلاتا ہے۔ اور موسمی آلودگی سے زیادہ نقصان دہ ذہنی آلودگی ہے، اس سے قوم اور نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ حل کیا ہے، اب کوئی یہ نعرہ نہ لگادے کہ ’’حل صرف جماعت اسلامی‘‘، بلکہ اس کا حل تو صرف آگہی ہے۔ لیکن اب بات بہت آگے جاچکی ہے اب کسی ادارے میں سیمینار سے اور انسٹیٹیوٹ آف انوائرمینٹل اسٹڈیز سے آگہی نہیں ملے گی، کیونکہ جو نسل ساری خرابیاں سیکھ اور پختہ کرکے میدان میں پہنچی ہے تو تعلیم اور آگہی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اس کا حل یہ ہے کہ جو نسل اب میٹرک کر چکی اسے جو بننا تھا بن چکی۔ اب نئی نسل کی دو سال کی عمر سے عادتیں بنائی جائیں۔
یہ ہے مشکل کام، کیونکہ پہلے خود ٹھیک ہونا پڑے گا، جو چاہتا ہے مستقبل آلودگی سے پاک ہوجائے اسے محنت کرنی پڑے گی، لیکن اگر ایک نسل پر محنت کرلی تو کئی نسلیں چین سے رہیں گی، یہ سوچیں کہ ہم نسلوں کے لیے دولت کماتے ہیں، یہ بھی ہماری کمائی ہے جو آج بوئیں گے وہی کل کاٹا جائے گا۔ تو سوچیں اگلی نسل کوکیا دے کر جارہے ہیں۔ ان سب چیزوں پر بات کرتے ہوئے ہمارے بڑے امریکا یورپ کی بات کرتے ہیں، توچلیں وہاں کی بات کرتے ہیں مغرب میں اتنے کتے ہیں اتنے کتے ہیں کہ ہم اپنے شہر کے آوارہ کتوں سے بھی موازنہ نہیں کرسکتے، ہر کتا کسی کے ہاتھ میں بندھی رسی سے مالک کو گھسیٹ رہا ہوتا ہے۔ سڑک، بازار، پارک، شاپنگ مال ہر جگہ کتے ہی کتے ہوتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی کتے کا فضلہ پارک یا گھاس، سڑک یا کہیں راستے میں پڑا ہو، سب تھیلیاں اور دستانے ساتھ رکھتے ہیں، اور کہیں غلاظت نہیں ہوتی، تو پھر ہم تو مسلمان ہیں ہمارا تو نصف ایمان ہی صفائی اور پاکیزگی ہے، اور باقی نصف ایمانداری سے معاملات چلانا ہے، لیکن خرابی یہ ہے کہ ہم ذہنی مرعوبیت کی اس سطح تک پہنچ چکے ہیں کہ ذہن آلودہ ہوگئے ہیں، کہیں ترقی یافتہ قوموں کی ذہنی غلامی، کہیں مرعوبیت اس سے ذہنی آلودگی پیدا ہوتی ہے اس ذہنی آلودگی سے نجات بھی بہت ضروری ہے جس دن یہ نجات مل گئی ساری آلودگی ختم ہو جائے گی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ذہنی ا لودگی ہوتے ہیں کرتے ہیں کہتے ہیں یہ ہے کہ نہیں کر کی بات ہیں کہ رہا ہے
پڑھیں:
رحمان بابا،جن کے افکار ہر زمانے کیلئے مشعل راہ ہیں
صدیاں گزرگئیں ہزاروں موسم بیت چکے،کئی سماجی،تہذہبی اور سیاسی انقلابات آئے لیکن شاعر انسانیت حضرت عبدالرحمان بابا کے فکر کا جو سوتا سماجی حقیقت نگاری،تاریخی وتہذیبی شعور،ادراک،جذبات اور احساسات سے پھوٹا تھا وہ آج بھی اسی طرح صاف وشفاف شکل میں بہہ رہا ہے۔
اگر چہ اس طویل عرصے میں ہزارہا تاریخی،معاشرتی،سیاسی،ادبی اور تہذیبی تبدیلیاں رونما ہوئیں زمانے نے کئی کروٹیں بدلیں اور دنیا کیا سے کیا ہوگئی لیکن کوئی انقلاب کوئی بھی تہذیب و سیاست رحمان بابا کے کلام کی اپنی جو خاصیت،انفرادیت،اہمیت اور ضرورت ہے اس میں ذرہ بھر کمی نہیں کرسکی بلکہ یہ مزید بڑھتی جا رہی ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے تو وقت و حالات کے ساتھ رحمان بابا ایک حقیقی اور سچے کلاسیک شاعر کے طور پر نئے نئے رنگ اور نئی نئی شکل میں سامنے مزید نمایاں ہو رہے ہیں۔
ان کے افکار ہمیں محبت،امن،دوستی بھائی چارے،رواداری اور انصاف کی شاہراہوں پر برابر آگے کی طرف بڑھنے کی تلقین کرتے ہیں اور مسلسل جدوجہد کی تحریک دیتے ہیں۔ رحمان بابا کی شاعری میں جو دل موہ لینے والی شاعرانہ کشش اور کیفیت پائی جاتی ہے اس نے آج ایک دنیا کو اپنا اسیر اور گرویدہ بنایا ہوا ہے۔اور یہی ان کے کلام کا سب سے بڑا اعجاز ہے جیسا کہ وہ خود اپنی شاعری کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
چہ منکر پرے اعتراض کولے نہ شی
دا دے شعر رحمانہ کہ اعجاز
مفہوم۔جب کوئی منکر بھی اس پر اعتراض نہیں کرسکتا، اے رحمان! آپ کا شعر ہے یا کہ اعجاز(معجزہ)۔اور یہ معجزہ وہ جو خون جگر سے نمود پاتا ہے جس کا ذکر علامہ اقبال نے بھی کیا ہے کہ’’معجزہ فن کی ہے، خون جگر سے نمود‘‘۔رحمان بابا جنہیں شاعر انسانیت اور پشتو کا حافظ شیرازی کہا جاتا ہ، اپنے مخلصانہ، عارفانہ اور عشقیہ کلام کی بدولت عام و خاص بچوں بوڑھوں اور خواتین میں یکساں مقبول اور پسند کیے جاتے ہیں۔
جو عقیدت و حترام اور ادبی اعتبار کا رشتہ پختونوں کا رحمن بابا سے قائم ہے وہ رشتہ اور اعتماد اپنے کسی دوسرے شاعر سے نہیں رکھتے۔ رحمان بابا کے ساتھ پختونوں کی عقیدت ،دل و دماغ اور جذبات کی وابستگی کا یہ عالم ہے کہ جہاں بھی کوئی سبق آموز اور مقصدیت سے بھرا ہوا شعر انہیں کسی دوسرے نامعلوم شاعر کا ملتا ہے بالعموم اسے بھی رحمان بابا کا سمجھ لیا جاتا ہے کیونکہ ان کے خیال میں رحمان بابا سے بڑھ کر کوئی دوسرا شاعر اتنی سچائی اور حقیقت بیان نہیں کرسکتا جتنی سچائی اور حقیقت نگاری رحمان بابا کی شاعری میں موجود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عورتیں گھروں ،تندوروںکے کنارے کسان کھیتوں کلیانوں،صوفیا و درویش مزاروں اور خانقاہوں میں سیات دان اسٹیج پر مولوی، واعظ مسجد کے منبر سے اور گوئیے موسیقی اور محفل سماع میں رحمان بابا کے اشعار سے خود بھی لطف اندوز ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی لطف پہنچاتے ہیں۔ان کی شاعرانہ عظمت،تخلیقیت،صداقت بیانی اور سبق آموزی کے حوالے سے سوات کے مشہور ولی اللہ اخون کہا کرتے تھے کہ قرآن و حدیث کے بعد پختونوں میں کوئی دوسری کتاب اتنی مقبول و معتبر نہیں جتنی مقبولیت،شہرت،قبولیت اور اعتبار رحمان بابا کے دیوان کو حاصل ہے۔ وہ خود بھی اپنے ایک شعر میں اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ
دا چہ زہ ئے درتہ وایمہ کہ خدائے کڑہ
پہ قرآن او پہ حدیث کے بہ سرگند وی
یعنی میں جو کچھ کہتا ہوں اگر خدا نے چاہا تو قرآن اور حدیث میں بھی یہی باتیں آپ ملیں گی۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی پختونوں کے بیشتر گھرانوں میں رحمان بابا کا دیوان تبرک اور ایک مقدس کتاب کے طور پر رکھا جاتا ہے کوئی بھی ایسا پختون جوان ، بوڑھا یا عورت نہیں ہوگی جو اپنے محبوب شاعر انسانیت کے نام اور کام سے واقفیت نہ رکھتا ہو،یا انہیں رحمان بابا کے کچھ اشعار ازبر نہ ہوں۔بات بات پر رحمان بابا کے اشعار کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ رحمان بابا وائی(رحمان بابا فرماتے ہیں)،رحمان بابا سہ خہ وئیلی دی(رحمان بابا نے کیا خوب کہا ہے)۔ان کے اشعار اس قدر سادہ،برجستہ،برمحل،تکلف اور پیچدگی سے پاک ہیں کہ پختون انہیں اپنی روزمرہ زندگی میں ضرب المثل کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
رحمان بابا کو پشتو کا حافط شیرازی اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ دونوں کے فکر و فن اور پیغام میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔رحمان بابا نے بھی حافظ شیرازی ہی کی طرح زیادہ تر طبع آزمائی صنف غزل میں کی ہے۔ وہ بھی حافظ شیرازی کی طرح ایک باکمال فنکار،مصورانہ مزاج،غنائی انداز اور بلند تخئیل کے مالک ہیں۔ان کے کلام میں بھی ان کا اپنا ایک مخصوص لب ولہجہ(ڈکشن) ایک منفرد جداگانہ اسلوب،سادہ بیانی،لطافت اور شیرینی بدرجہ اتم موجود ہے۔ میر عبدالصمد خان اپنی کتاب’’رحمان بابا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ رحمان بابا اور حافظ میں ایک اور بات بھی مشترک ہے اور وہ یہ کہ دونوں ریاکاری اور منافقت کے سخت خلاف ہیں۔ زاہدان خشک کو دونوں ناپسند کرتے ہیں، حرص و ہوس،بخل ،حسد و بغض وکینہ بے غیرتی بے حیائی اور بے حمیتی کو دونوں ناپسند کرتے اور زندگی کے لیے مہلک گردانتے ہیں۔ زندگی کی اعلیٰ قدریں بھی دونوں نے یکساں لطافت کے ساتھ پیش کی ہیں۔ نکتہ آفرینی کا رنگ ڈھنگ بھی دونوں کا ایک سا ہے۔ خوشحال و اقبال کی طرح تندی وتیزی اور پرشور فعالیت دونوں کے ہاں زیادہ نمایاں نہیں، دونوں عاشق مزاج ہیں۔دونوں کے نزدیک حسن لاینفک اور ناقابل تقسیم ہے۔‘‘
اسی طرح انصار ناصری رحمان بابا کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ’’صدیاں گزرگئیں سینکڑوں انقلاب آئے پشتو کے صاحب دل صوفی رحمان بابا کی لگائی پھلواری آج تک ویسی کی ویسی سرسبز وشاداب اورا س کے بہار پھولوں کی تازگی اور مہک اسی طرح برقرار ہے جیسے اول تھی، بڑے آرٹ کو کبھی فنا نہیں، اس کی سادگی اور سچائی ہی بقاء کی ضامن ہے‘‘۔رحمان بابا کا کلام اس قدر صاف،سیدھا ،ا ٓسان اور ان کا پیام اس قدر سچا پرخلوص اور دل پزیر ہے کہ آرٹ کی تمام تصنع آمیز بلند وبانگ تعریفیں اور اس کے ادلتے بدلتے پُر پیچ معیارات بمشکل اس کا احاطہ کرسکتے ہیں۔ یہی اس کے زندہ جاوید ہونے کا ثبوت ہے۔
رحمان بابا کے کلام کی مقبولیت اور ان کے سچے پیغام کا یہ عالم ہے کہ پشتو کے علاوہ اسے دیگر زبانوں اردو،فارسی اور انگریزی زبان کے ہزاروں لوگ پڑھنا پسند کرتے ہیں،جس کے لیے ان کے مکمل دیوان کے ان زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں ۔ان کی شاعری کا اصل پیغام جملہ انسانیت سے پیار،امن و اشتی،قومی اور مذہبی رواداری اور باہمی اتفاق و یکجہتی پر مبنی ہے۔اس کے علاوہ ناانصافی،غیرمساوی تقسیم اور ظلم و جبر کے سخت ناقد ہیں اور ان قوتوں کے شیدید مخالف ہیں۔لہذا بغیر کسی تردید کے کہا جاسکتا ہے کہ رحمان بابا ہمارے ماضی کا امین اور مستقبل کے ایک سچے رہبر و رہنما ہیں۔ذیل میں ان کے چند اشعار کا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے
۔آدمی سے تمام تر مدعا آدمیت ہے نہ یہ کہ اس کے سر پر طرہ ہو۔آدم زاد معنوی طور پر سب ایک صورت کی مانند ہیں جو دوسرے کو آزار پہنچاتا ہے وہ خود بھی آزار ہوجاتا ہے۔
۔تم جن لوگوں کے برابر زور اور قوت نہیں رکھتے ان کے پہلو میں دلیر ہوکر نہ بیٹھ۔زورآور لوگ آگ اور پانی کی مانند ہوا کرتے ہیں یہ بات سمجھ لیں اور دھیان رکھیں کہ کہیں ڈوب یا جل بھن کر کباب نہ ہو جائیں۔
۔میری قناعت میرے خرقے کے اندر پنہاں اطلس ہے۔ میں باطن میں سارے جہاں کا بادشاہ لیکن بظاہر گدا نظر آرہا ہوں۔
۔وہ دل طوفان اور بادوباران سے محفوط رہے گا جو کشتی کی طرح لوگوں کا بار اٹھائے گا۔اپنا پیٹ رسی سے مضبوط باندھ لے مگر فلک سے روٹی کی امید اور توقع نہ رکھ۔
۔اپنی زندہ جان بیچ کی طرح زمین میں دفن کردے اگر تو عظمت چاہتا ہو تو خاکساری اختیار کر۔
۔ سارے وسوسے اور واہمے اختیاط سے پیدا ہوتے ہیں، میں بہت زیادہ ہوشیاری کے سبب دیوانہ ہوگیا ہوں۔
۔ظالم حاکموں کے سبب شہر پشاور آگ اور گورستان تینوں ایک جیسے ہیں۔
۔جو پرندہ صیاد کے پنجرے میں اسیر ہو اس میں اچھے اچھے کھانے پینے سے خون کب بنتا ہے۔
۔سارا وجود ایک ناخن کے درد سے درمند ہوجاتا ہے۔پورا شہر ایک آدمی کے الزام میں ویران ہوجاتا ہے۔