Jasarat News:
2025-08-04@17:02:42 GMT

ماحول کی خرابی میں ہمارا حصہ کتنا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

ماحول کی خرابی میں ہمارا حصہ کتنا ہے؟

گزشتہ دنوں جامعہ کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف انوائرمینٹل اسٹڈیز میں ماحولیات اور صحافت کے موضوع پر ایک سیمینار سے خطاب کا موقع ملا جسے ماہنامہ بساط اور انوائرمینٹل اسٹڈیز انسٹیٹیوٹ نے الخدمت فاونڈیشن پاکستان کے تعاون سے منعقد کیا تھا، وہاں کی گئی گفتگو کا خلاصہ یہاں پیش خدمت ہے۔

ہماری عادت ہے کہ اپنے مسائل کا ذمے دار تلاش کرتے رہتے ہیں اور ہمیں مل بھی جاتا ہے لیکن اللہ نے ہمیں قرآن پاک میں بتا دیا ہے کہ معاملہ ہے کیا؟ ’’خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہوگیا ان برائیوں کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمائیں، تاکہ اللہ انہیں ان کے بعض کاموں کا مزا چکھائے تاکہ وہ باز اجائیں‘‘۔ (آیت: 41 سورہ روم)

اپنے معاملات کی خرابی کا ہم شکوہ کرتے رہتے ہیں ہر زبان پر یہ جملہ ہوتا ہے کہ ماحول خراب ہوگیا ہے، بھئی آب و ہوا راس نہیں آرہی، کوئی کہتا ہے کہ پانی آلودہ آرہا ہے، اور اس پر تو سب متفق ہیں کہ ہر چیز میں ملاوٹ ہے، گھر سے نکلیں تو نظر آتا ہے کہ کوئی سڑک ٹھیک نہیں ہے، ہر طرف دھول مٹی ہے، اور بارش ہوجائے تو کیچڑ، اور گٹر اُبلنا تو معمول ہی ہے۔ ان ساری باتوں کی وجہ سے ہم سب یک زبان ہوکر کہتے ہیں کہ یہ بلدیہ نالائق ہے، یہ حکومت ہی خراب ہے، لیکن یہ تو کوئی انکشاف نہیں ہے۔ ارے حکومت ٹھیک کب ہوتی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ حکومت بناتا کون ہے؟ وہ بھی تو ہم ہی بناتے ہیں یعنی۔ حکومت بھی تو ہم ہی ہیں ویسے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت تو اب عوام نہیں بناتے کوئی اور بناتا ہے، بات سیاست کی طرف چلی جائے گی، اور اگر نام لے لیا تو دماغ کی ساری آلودگی صاف کردی جائے گی اسے سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کرنا کہتے ہیں۔ اس لیے یہیں تک رہنے دیں۔

اسی طرح ماحول بھی ہم ہی اچھا اور خراب کرتے ہیں، ہم بھی دیکھتے ہیں کہ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے سگریٹ اچھالا، ایک ہی ٹوٹا تو تھا، چپس کھائے ریپر باہر لڑھکا دیا، ایک ہی تو تھا، بسکٹ کا ریپر پھینکا ایک ہی تو تھا، اور سوچیں ایک ایک کرکے 25 کروڑ کا ایک فی صد 25 لاکھ لوگ ایک ایک چیز سے اپنا حصہ ڈال رہے ہوں تو نتیجہ کیا ہوگا؟ ہماری صفائی پسندی کا عالم یہ ہے کہ ہم دکان کھولتے ہیں تو سڑک پر کچرا پھینک دیتے ہیں، اور دکان بند کرتے ہوئے بھی سارا کچرا سڑک پر ڈال دیتے ہیں تاکہ نالائق بلدیہ اور حکومت کی نالائقی کا ثبوت مہیا کیا جاسکے۔ اب بتائیں یہ ساری نالائقی حکومت کی ہے یا بڑا حصہ ہمارا ہے۔ اور ایک ایسی چیز بھی ہے جسے ہم سپر پلوشن کہتے ہیں، اور وہ ہے، پان، گٹکا، ماوا، جی ایم، سی ٹی وغیرہ اس کی تفصیل میں نہیں جاتا سوچ کر ہی کوئی اُلٹی نہ کردے، اور اس کی تفصیل دوبارہ بتانے کی ضرورت نہیں، سڑکیں، دیواریں، عمارتوں کی لفٹ، اسکولوں اور مکانوں کی چہار دیواریاں، ان پرکاریوں کے نتیجے میں بننے والے نقش ونگار اس کے گواہ ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہ تجربہ بھی ہوا ہوگا کہ بس یا ویگن سے اچانک ایک دھار نکل کر آپ کی گاڑی، موٹر سائیکل۔ چہرے یا کپڑوں پر پڑتی ہے، اور وہ لال ہوچکے ہوتے ہیں، یا تو پیک تھوکتے والا معذرت کرلیتا ہے یا بھرے ہوئے منہ کی وجہ سے معذرت نہ کرسکا اور اشارے سے سوری کہہ دیا، خدارا اس سے جان چھڑائیں، ورنہ یہ بلا صحت کا بھی بیڑا غرق کرے گی اور گندگی تو پھیلا ہی رہی ہے۔

ہم اسموگ کی بات نہیں کر رہے گلوبل وارمنگ اور کلائمٹ چینج کی بات نہیں کررہے، کہ ان سب چیزوں پر ہمارا اختیار نہیں ہے ہم تو اس کے مکلف ہیں جس پر اختیار ہے۔ یہ جو سورہ روم کی آیت 41 ہے۔ وہ بتارہی ہے کہ قدرتی آفات خود نہیں آجاتیں ہم خود بلاتے ہیں اپنے ہاتھوں سے کماتے ہیں۔ جب ہم پانی کی گزر گاہوں پر بستیاں بناتے ہیں اور سیلاب کی تباہی کا شکار ہوجاتے ہیں، سبزے اور جنگلات کو کاٹ کر شہر بساتے ہیں اور لکڑی بیجتے ہیں پھر بارش کی دعائیں کرتے ہیں قدرتی پھل اور سبزی چھوڑ کر جی ایم او پر منتقل ہوتے ہیں، پیدل نہیں چلتے ورزش نہیں کرتے اور جو کرنا چاہے اس کے لیے جگہ نہیں، پارکس کی چائنا کٹنگ ہوجاتی ہے۔ تو واک کہاں کریں۔ سڑک پر تو ہماری پھینکی ہوئی تھیلی نے گٹر بند کردیا تھا تو اب وہاں گٹر کا پانی ٹہلتا ہے، یہ سب ہمارے ہاتھ کی کمائی ہے، رات دن غیر ضروری طور پر اے سی چلاتے ہیں، پنکھے اور بلب جلا کر بھول جاتے ہیں غیر ضروری طور پر گاڑی کا انجن چلائے رکھتے ہیں، اسی سے کلائمٹ چینج، گلوبل وارمنگ وغیرہ سب آتے ہیں، پھر اس میں ہمارا حصہ کتنا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔

ہمارا تعلق میڈیا سے ہے ہمارا تو کام ہی آگاہی پھیلانا ہے اور میڈیا یہ کام کررہا ہے لیکن جس چیز کے پیسے ملتے ہیں اس کو پھیلاتا ہے۔ کیونکہ اب جس چیز میں پیسے ہیں اسی پر مفاد عامہ کے پیغامات جاری ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ یہ بھی بدل جاتے ہیں پہلے کہا جاتا تھا کہ اللہ دیکھ رہا ہے لیکن اب کہا جاتا ہے کہ کیمرا دیکھ رہا ہے جو اللہ سے نہ ڈرے وہ کیمرے سے کیا ڈرے گا۔ تو اب کارپوریٹ میڈیا سے کسی قسم کی امید نہیں، لے دے کر آزاد میڈیا کے چھوٹے چھوٹے ادارے ہیں یا نئی نسل ہے۔ کارپوریٹ میڈیا تو ذہنی آلودگی بھی پھیلاتا ہے۔ اور موسمی آلودگی سے زیادہ نقصان دہ ذہنی آلودگی ہے، اس سے قوم اور نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ حل کیا ہے، اب کوئی یہ نعرہ نہ لگادے کہ ’’حل صرف جماعت اسلامی‘‘، بلکہ اس کا حل تو صرف آگہی ہے۔ لیکن اب بات بہت آگے جاچکی ہے اب کسی ادارے میں سیمینار سے اور انسٹیٹیوٹ آف انوائرمینٹل اسٹڈیز سے آگہی نہیں ملے گی، کیونکہ جو نسل ساری خرابیاں سیکھ اور پختہ کرکے میدان میں پہنچی ہے تو تعلیم اور آگہی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اس کا حل یہ ہے کہ جو نسل اب میٹرک کر چکی اسے جو بننا تھا بن چکی۔ اب نئی نسل کی دو سال کی عمر سے عادتیں بنائی جائیں۔

یہ ہے مشکل کام، کیونکہ پہلے خود ٹھیک ہونا پڑے گا، جو چاہتا ہے مستقبل آلودگی سے پاک ہوجائے اسے محنت کرنی پڑے گی، لیکن اگر ایک نسل پر محنت کرلی تو کئی نسلیں چین سے رہیں گی، یہ سوچیں کہ ہم نسلوں کے لیے دولت کماتے ہیں، یہ بھی ہماری کمائی ہے جو آج بوئیں گے وہی کل کاٹا جائے گا۔ تو سوچیں اگلی نسل کوکیا دے کر جارہے ہیں۔ ان سب چیزوں پر بات کرتے ہوئے ہمارے بڑے امریکا یورپ کی بات کرتے ہیں، توچلیں وہاں کی بات کرتے ہیں مغرب میں اتنے کتے ہیں اتنے کتے ہیں کہ ہم اپنے شہر کے آوارہ کتوں سے بھی موازنہ نہیں کرسکتے، ہر کتا کسی کے ہاتھ میں بندھی رسی سے مالک کو گھسیٹ رہا ہوتا ہے۔ سڑک، بازار، پارک، شاپنگ مال ہر جگہ کتے ہی کتے ہوتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی کتے کا فضلہ پارک یا گھاس، سڑک یا کہیں راستے میں پڑا ہو، سب تھیلیاں اور دستانے ساتھ رکھتے ہیں، اور کہیں غلاظت نہیں ہوتی، تو پھر ہم تو مسلمان ہیں ہمارا تو نصف ایمان ہی صفائی اور پاکیزگی ہے، اور باقی نصف ایمانداری سے معاملات چلانا ہے، لیکن خرابی یہ ہے کہ ہم ذہنی مرعوبیت کی اس سطح تک پہنچ چکے ہیں کہ ذہن آلودہ ہوگئے ہیں، کہیں ترقی یافتہ قوموں کی ذہنی غلامی، کہیں مرعوبیت اس سے ذہنی آلودگی پیدا ہوتی ہے اس ذہنی آلودگی سے نجات بھی بہت ضروری ہے جس دن یہ نجات مل گئی ساری آلودگی ختم ہو جائے گی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ذہنی ا لودگی ہوتے ہیں کرتے ہیں کہتے ہیں یہ ہے کہ نہیں کر کی بات ہیں کہ رہا ہے

پڑھیں:

راولپنڈی کی تباہی میں اسلام آباد کتنا ذمہ دار؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اگست 2025ء) راولپنڈی میں حالیہ برساتی تباہی اور سیلابی صورتحال کے جائزے کے لیے ڈی ڈبلیو نے مقامی حکام سے رابطہ کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ گو کہ راولپنڈی کے مقامی سقم تو اپنی جگہ وفاقی دارلحکومت میں سیورج کا تباہ حال نظام بھی راولپنڈی کی تباہی میں ایک بڑا حصہ ڈال رہا ہے۔

شہری انتظام کے ماہرین کے مطابق، حالیہ بارشوں کے دوران راولپنڈی کے نالہ لئی کا پانی 18 فٹ کی سطح تک پہنچ گیا جس سے قریبی آبادیوں کو نقصان پہنچا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اسلام آباد کی جانب سے راولپنڈی میں شہری سیلاب میں بڑا حصہ نہ ڈالا جاتا تو نالہ لئی کی سطح شاید 10 فٹ تک بھی نہ پہنچتی۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر سندھو، جو سی ڈی اے میں ڈائریکٹر جنرل سول انتظامیہ کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ راولپنڈی کی انتظامیہ نالہ لئی کے پانی کے گزرنے کا راستہ محفوظ بنانے میں ناکام رہی ہے، کیونکہ نالہ لئی کے کئی مقامات پر پانی کے اخراج کے راستے غیر قانونی تعمیرات اور کوڑا کرکٹ پھینکنے کی وجہ سے تنگ ہو گئے ہیں۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام آباد بھی راولپنڈی میں شہری سیلاب کی صورتحال کو بڑھا رہا ہے، کیونکہ اسلام آباد سے بغیر صاف کیے گئے سیوریج کا پانی نالہ لئی میں چھوڑا جاتا ہے، جو جڑواں شہروں سے پانی کے نکاسی کا واحد ذریعہ ہے۔ اسلام آباد شہر کے نکاسی آب کا کیا بندوبست ہے؟

یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اسلام آباد میں پانچ بڑے قدرتی نالے موجود ہیں جن کے نام سیدپور، بیداں، تانواں، نکی لئی اور کنات نالہ ہیں اور یہ تمام نالے آخرکار نالہ لئی سے آ کر ملتے ہیں جو راولپنڈی کے گنجان آباد علاقوں سے گزرتا ہے۔

اسلام آباد کے تمام قدرتی نالے کبھی صرف بارش کے پانی اور آس پاس کی پہاڑیوں سے آنے والے پانی کے نکاس کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ اسلام آباد نے آئی نائن کے علاقے میں ایک سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ تعمیر کیا تھا، جو راولپنڈی اور نالہ لئی کے قریب واقع ہے۔ اسلام آباد شہر کا تمام گندا پانی اس پلانٹ تک پہنچایا جاتا تھا اور صفائی کے بعد اس صاف شدہ پانی کو نالہ لئی میں چھوڑا جاتا تھا۔

سرور سندھو کا کہنا ہے کہ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ تاحال فعال ہے، تاہم وقت کے ساتھ انتظامیہ نے جہاں کہیں سیوریج لائن میں رکاوٹ آئی، وہاں لائن کو توڑ کر گندا پانی براہ راست اسلام آباد کے قدرتی نالوں میں ڈال دیا۔ اس کے نتیجے میں یہ نالے آلودہ ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ اب اسلام آباد کا تقریباً چالیس فیصد سیوریج بغیر کسی ٹریٹمنٹ کےبراہِ راست قدرتی نالوں میںڈالا جا رہا ہے، جو اسلام آباد اور راولپنڈی دونوں کے نالوں میں پانی کی سطح بلند ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

لیکن سرور سندھو کا کہنا تھا، ''راولپنڈی کی انتظامیہ کو بھی اپنی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے کہ وہ اپنے فرائض میں کوتاہی برت رہی ہے۔ اگر دونوں شہروں میں چند سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس لگا دیے جائیں تو یہ نالے صاف پانی سے بہہ سکتے ہیں۔

اگرچہ وہ پینے کے قابل نہیں ہوں گے، لیکن کم از کم آلودہ بھی نہیں ہوں گے جیسا کہ اب ہیں۔"

کیا راولپنڈی اور اسلام آباد شہر کو قدرتی آفات کا سامنا ہے؟

کچھ عرصے سے یہ رجحان بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ جب بھی شہر کے کسی حصے میں سیلاب آتا ہے تو انتظامیہ اسے ''کلاؤڈ برسٹ‘‘ قرار دے دیتی ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں کافی عرصے سے کوئی کلاؤڈ برسٹ نہیں ہوا، اور انتظامیہ محض اپنی نااہلی کا ملبہ قدرتی آفات پر ڈالنے کی کوشش کرتی ہے۔

واٹر مینجمنٹ کے ایک ماہر نصیر میمن کہتے ہیں، ''پاکستان میں ہم قدرتی آفت نہیں بلکہ انتظامی آفت کا سامنا کر رہے ہیں۔ حالیہ عرصے میں پورے ملک میں یا راولپنڈی اور اسلام آباد شہر میں ایسی کوئی قدرتی آفت نہیں آئی جس سے بچا نہ جا سکتا ہو، یہ سب انتظامی ناکامیاں ہیں۔

‘‘

نصیر میمن کا کہنا تھا کہ انتظامیہ میں اصلاح کی نیت کی کمی صرف راولپنڈی ہی کے لیے مسئلہ نہیں، کچھ عرصے سے اسلام آباد بھی متاثر ہو رہا ہے اور وقتاً فوقتاً بعض علاقوں میں سیلابی صورتحال کے باعث تباہی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ حالیہ بارشوں کے دوران سیدپور گاؤں بھی قدرتی نکاسیٔ آب کے نالوں میں پانی کے بہاؤ بڑھنے سے متاثر ہوا۔

متعلقہ مضامین

  • پولیس کے شہداء ہمارا فخر، قربانیوں کو فراموش نہیں کریں گے‘ صدر، وزیراعظم
  • پولیس کے شہداء ہمارا فخر، قربانیوں کو فراموش نہیں کریں گے: صدر، وزیراعظم
  • بانی پی ٹی آئی کی رہائی گھنٹے میں ہوسکتی ہے لیکن ڈیل نہیں کرینگے: اسد قیصر
  • گورنر صاحب کی باتیں کروڑوں کی، لیکن دکان پکوڑوں کی بھی نہیں: سعدیہ جاوید
  • عمران خان کی رہائی ایک گھنٹے میں ہوسکتی ہے لیکن وہ ڈیل نہیں کریں گے: اسد قیصر
  • راولپنڈی کی تباہی میں اسلام آباد کتنا ذمہ دار؟
  • پاک فوج بدلتے جنگی ماحول میں فیصلہ کن برتری برقراررکھے گی : فلڈ مارشل 
  • پاک فوج بدلتے ہوئے جنگی ماحول میں فیصلہ کن برتری برقرار رکھے گی، فیلڈ مارشل
  • تحریک تحفظ آئین کی اے پی سی کے اعلامیے پر بی ایل اے کی چھاپ شرمناک ہے، عرفان صدیقی
  • قاتل مسیحائوں کی قتل گاہ