بھارتی ہندو انتہا پسندی عالمی سطح پر بے نقاب، برطانیہ کی اہم رپورٹ منظر عام پر آگئی
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
مودی کے ہندوتوا نطریات اور اسکے اثرات بین الاقوامی سطح پر بھی بے نقاب ہو چکے ہیں جب کہ اب اس حوالے سے برطانیہ کے ہوم آفس کی جانب سے اہم رپورٹ منظر عام پرآگئی ہے۔
مڈل ایسٹ آئی کے مطابق برطانوی حکومت کی رپورٹ میں کہا گیا کہ انتہا پسند ہندوؤں نے 2022 کے لیسسٹر فسادات میں مرکزی کردار ادا کیا تھا، یہ فسادات اس وقت شروع ہوئے جب 200 ہندو، چہرے ڈھانپے ہوئے، “جے شری رام” کے نعرے لگاتے ہوئے ہائی فیلڈ کے علاقے میں مارچ کرتے دکھائی دیے، برطانوی سرکاری رپورٹ میں لیسسٹر فسادات میں ہندوتوا انتہاپسندی کو اہم وجہ قرار دیا گیا ہے۔
ڈیلی میل کی مئی 2023 کی رپورٹ کے مطابق لیسٹر فسادات کو بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے کارکنان نے ہوا دی تھی۔
مڈل ایسٹ آئی کے مطابق فسادات کے فوراً بعد لیسسٹر کے میئر، سر پیٹر سولزبی نے کہا تھا کہ؛"ہندوتوا نظریہ ان واقعات میں ایک اہم عنصر ہے، لیک رپورٹ ثابت کرتی ہے کہ کسی بڑی پالیسی دستاویز میں ہندوتوا پر تفصیل سے بات کی گئی ہے، یہ پہلا موقع ہے جب ہندوتوا انتہاپسندی کو کسی بڑے حکومتی دستاویز میں تفصیل سے زیرِ بحث لایا گیا ہے۔
دی گارڈین میں شائع ہونے والی یویٹ کوپر کی رپورٹ کے مطابق ہندو قوم پرستی کو انتہا پسندی کے فروغ کی اہم وجہ قرار دیا گیا۔
ہندو فار ہیومن رائٹس یوکے کے ڈائریکٹر راجیو سنہا نے مڈل ایسٹ آئی کو بتایا کہ ہندو انتہا پسندی برطانیہ کیلئے بڑا خطرہ ہے، ہمیں امید ہے کہ افشا رپورٹ ہندو قوم پرستی سے نمٹنے کے لیے مزید بنیادیں فراہم کرے گی۔
مڈل ایسٹ آئی کے مطابق انتہا پسند جماعت آر ایس ایس بھارتی وزیر اعظم مودی کے ساتھ قریبی تعلق رکھتی ہے اور اس کی طاقت میں اضافے کا سبب بھی ہے، برطانوی ہوم آفس کی رپورٹ میں انسدادِ انتہا پسندی کے کام کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کی سفارش کی گئی ہے تاکہ ہندوتوا انتہا پسندی کے بڑھتے رجحان کی روک تھام کی جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مڈل ایسٹ آئی انتہا پسندی کے مطابق کی رپورٹ
پڑھیں:
رفح میں حماس مجاہدین کی مزاحمت اور کارکردگی پر صہیونی رژیم حیرت زدہ
رپورٹ کے مطابق ان تینوں فوجیوں کو ہلاک کیے جانے کا طریقہ ایک جیسا تھا، حماس کے جنگجو سرنگوں سے اچانک باہر نکلے، حملہ کیا، اور دوبارہ زیرِ زمین چلے گئے۔ اسلام ٹائمز۔ صہیونی ذرائع ابلاغ نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی فوج اس بات پر حیران اور پریشان ہے کہ حماس کے مجاہدین ایک سال سے زیادہ عرصے کی مکمل محاصرے کے باوجود اب بھی زندہ، منظم اور فعال ہیں۔ تسنیم نیوز کے عبری شعبے کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی چینل 12 نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اسرائیلی حکام اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ حماس کے یہ جنگجو رفح سے نکل کر اُن علاقوں تک کیسے پہنچتے ہیں جو اسرائیلی فوج کے کنٹرول میں نہیں، اور وہ کن وسائل سے اپنی مزاحمتی سرگرمیوں کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حماس کے سرنگی نظام کا مرکز رفح کے الجنینه محلے میں واقع ہے، اگرچہ یہ علاقہ مکمل محاصرے میں ہے، لیکن یہ سوال اب بھی باقی ہے کہ یہ افراد ایک سال سے زیادہ عرصے سے اس محاصرے میں کیسے زندہ رہنے اور لڑنے کے قابل ہیں؟۔ اسرائیلی فوج گزشتہ سال مئی سے اس علاقے پر مکمل کنٹرول کا دعویٰ کر رہی ہے۔ رفح کو فوجی لحاظ سے بند کر دیا گیا تھا اور بیرونی دنیا سے تمام رابطے منقطع کر دیے گئے تھے۔
اس کے باوجود جنگ بندی کے اعلان اور قیدیوں کے تبادلے کے آغاز کے بعد، تین اسرائیلی فوجی اسی علاقے میں مارے گئے۔ رپورٹ کے مطابق ان تینوں فوجیوں کو ہلاک کیے جانے کا طریقہ ایک جیسا تھا، حماس کے جنگجو سرنگوں سے اچانک باہر نکلے، حملہ کیا، اور دوبارہ زیرِ زمین چلے گئے۔ اسرائیلی انٹیلی جنس کے مطابق تمام حملہ آور اسی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ مزاحمتی قوت کسی بھی صورت میں ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں۔ اسی منظم مزاحمت اور بقاء کا راز اسرائیل کو حیرت میں ڈال رکھا ہے۔