پشاور میں دفعہ 144 نافذ، اسلحہ کی نمائش، کالے شیشوں پر پابندی
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ انتظامیہ نے مزید کہا کہ اسلحہ کی نمائش یا کسی دوسری جگہ منتقلی امن و امان خراب کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں ایک ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔ اسلحہ کی نمائش، کالے شیشوں کے استعمال اور غیر قانونی سکیورٹی گارڈز رکھنے پر پابندی ہو گی، ضلعی انتظامیہ پشاور نے اعلامیہ جاری کر دیا۔ ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ انتظامیہ نے مزید کہا کہ اسلحہ کی نمائش یا کسی دوسری جگہ منتقلی امن و امان خراب کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلحہ کی نمائش
پڑھیں:
ٹرمپ سعودی عرب کو 100 بلین ڈالر سے زائد کا اسلحہ پیکج دینے کو تیار
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 اپریل 2025ء) خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس معاملے کی براہ راست معلومات رکھنے والے چھ ذرائع نے اسے بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ سعودی عرب کو 100 بلین ڈالر سے زیادہ مالیت کے ہتھیاروں کے پیکج کی پیشکش کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس کا اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مملکت کے دورے کے دوران کیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ کا عنقریب سعودی عرب کا دورہ، مقصد 'بڑا کاروباری معاہدہ'
ہتھیاروں کے پیکج کی پیشکش کی یہ خبر اس پس منظر میں سامنے آئی ہے جب سابق صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے ایک وسیع معاہدے کے حصے کے طور پر ریاض کے ساتھ دفاعی معاہدے کو حتمی شکل دینے کی ناکام کوشش کی تھی، جس میں سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی بات بھی کہی گئی تھی۔
(جاری ہے)
ٹرمپ کے غزہ منصوبے نے سعودی اسرائیل تعلقات کو پٹڑی سے اتار دیا، تجزیہ کار
بائیڈن کی تجویز میں چینی ہتھیاروں کی خریداری کو روکنے اور ملک میں بیجنگ کی سرمایہ کاری کو محدود کرنے کے بدلے مزید جدید امریکی ہتھیاروں تک رسائی کی پیشکش کی گئی تھی۔ روئٹرز اس بات کا تعین نہیں کر سکا کہ آیا ٹرمپ انتظامیہ کی تجویز میں بھی ایسی ہی شرائط شامل ہیں۔
وائٹ ہاؤس اور سعودی حکومت کے مواصلاتی دفتر نے اس خبر کے متعلق فوری طور پر تبصرہ کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
امریکہ سعودی دفاعی تعلقات میں اضافہایک امریکی دفاعی اہلکار نے کہا، "صدر ٹرمپ کی قیادت میں مملکت سعودی عرب کے ساتھ ہمارے دفاعی تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ ہمارے سکیورٹی تعاون کو برقرار رکھنا اس شراکت داری کا ایک اہم جزو ہے اور ہم سعودی عرب کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔
"اپنے پہلے دور میں، ٹرمپ نے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت کو امریکی ملازمتوں کے لیے اچھا قرار دیا تھا۔
روئٹرز فوری طور پر اس بات کا تعین نہیں کر سکا کہ اس پیشکش میں کتنے سودے نئے ہیں۔ دو ذرائع نے بتایا کہ ان میں سے بہت سے پر کچھ عرصے سے بات چیت چل رہی ہے۔ مثال کے طور پر، سعودی عرب نے پہلی بار 2018 میں جنرل اٹامکس کے ڈرونز کے بارے میں معلومات کی درخواست کی تھی۔
ذرائع میں سے ایک کے مطابق، سی گارڈین طرز کے ایم کیو۔ نائن بی ڈرونز اور دیگر طیاروں کے متعلق کی 20 بلین ڈالر کی ایک ڈیل پر گزشتہ 12 مہینوں سے بات چیت ہو رہی ہے۔
تین ذرائع نے بتایا کہ امریکی دفاعی کمپنیوں کے کئی ایگزیکٹوز وفد دفاعی سودوں کے سلسلے میں خطے کا سفر کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
امریکہ سعودی دیرینہ دفاعی تعلقاتامریکہ طویل عرصے سے سعودی عرب کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔
2017 میں، ٹرمپ نے مملکت کو تقریباً 110 بلین ڈالر کی فروخت کی تجویز پیش کی تھی۔ لیکن سن دو ہزار اٹھارہ تک، صرف 14.5 بلین ڈالر کی فروخت شروع ہوئی تھی اور کانگریس نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ان سودوں پر سوال اٹھانا شروع کر دیے تھے۔خاشقجی کے قتل کے بعد سن دو ہزار اکیس میں بائیڈن انتظامیہ کے دوران، کانگریس نے سعودی عرب کو جدید ترین مہلک ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی عائد کر دی تھی اور مملکت پر یمن جنگ، جس میں بھاری شہری ہلاکتیں ہوئی تھیں، کو ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔
امریکی قانون کے تحت، ہتھیاروں کے بڑے بین الاقوامی سودوں کو حتمی شکل دینے سے پہلے کانگریس کے اراکین کو ان کا جائزہ لینا چاہیے۔
بائیڈن انتظامیہ نے 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد عالمی تیل کی سپلائی متاثر ہونے کے بعد سعودی عرب کے بارے میں اپنا موقف نرم کرنا شروع کر دیا۔ جارحانہ ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی 2024 میں ہٹا دی گئی تھی، کیونکہ واشنگٹن نے حماس اسرائیل جنگ شروع ہونے کے بعد ریاض کے ساتھ زیادہ شراکت کے ساتھ کام کرنے کا فیصلہ کیا۔
تین ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ مئی میں صدر ٹرمپ کے دورے کے دوران لاک ہیڈ مارٹن کے ایف تھرٹی فائیو جیٹ طیاروں کی فروخت کا معاہدہ بھی ہو سکتا ہے، جس میں سعودی عرب برسوں سے اپنی دلچسپی کا اظہار کرتا رہا ہے۔ تاہم ایک ذرائع کا کہنا تھا کہ اس سودے کا امکان ذرا کم ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین