مضبوط میڈیا: جمہوری معاشروں کی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
صحافیوں، صحافتی اداروں، انسانی اور ڈیجیٹل حقوق تنظیموں کے تحفظات کے باوجود حکومت نے سوشل میڈیا اور فیک نیوز سے متعلق پیکا ایکٹ ترمیمی بل اسمبلی سے منظور کرانے کے بعد سینٹ سے بھی منظور کرا لیا۔ سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل کے فیصلے کو ہائیکورٹ کے بجائے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی شق اس ٹربیونل کی آئینی حیثیت پر ایک سوال اور اس کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کے اختیارات کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔ ایسے قانون صرف میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانے کے لئے بنائے جاتے ہیں اور ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں ان کا کبھی درست استعمال نہیں ہو سکتا اور یہ صرف اپنے مخالفین کی آواز کو دبانے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ بظاہر تو نظر آ رہا ہے کہ یہ بل موجودہ شکل میں کالا قانون ہے۔ اس بل کو بنیاد بنا کر صحافیوں کے خلاف پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
مہذب معاشرے میں چند عناصر کو بنیاد بنا کر پوری صحافی برادری کو قانون کے شکنجے میں کسنے کے لئے منصوبے بنانا یا اپنے سیاسی حریفوں کو پابندِ سلاسل کرنا یہ کسی طور مناسب نہیں ہوتا ۔حکومت نے جس جلد بازی میں یہ بل پاس کرایا ہے اس کے کیا محرکات ہیں یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے، اس کی یہ جلد بازی اس کی نیک نیتی پر سوال تو اٹھائے گی۔ سارے میڈیا کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی خواہش کے پیچھے کون سے محرکات ہیں یہ بات آنے والے دنوں میں سمجھ آئے گی لیکن کچھ مفروضات ضرور ذہن میں غالب آ رہے ہیں، وہ جس طرف نشاندہی کر رہے ہیں وہ درست نہیں ہے اس کے نتائج اب بہت خطرناک ہوں گے۔ حکومت اور مقتدر اداروں کو ایک بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ سوشل میڈیا کی آڑ میں دوسرے ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ روایتی میڈیا قوانین کا پابند ہے اور رہے گا لیکن مکمل زبان بندی ممکن نہیں ہے۔
سیاست دان ہمارے بڑے بھولے ہیں ہر آمر کے سامنے میڈیا نے آواز اٹھائی جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے کبھی میڈیا کو کچھ نہیں کہا تھا بلکہ وہ دونوں تو میڈیا کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگے رہتے تھے لیکن میڈیا نے اصولوں کی خاطر یا پھر سیاسی قیادت کا کیس لڑتے ہوئے ان دونوں کو دشمن بنایا اور پھر میڈیا نے اس کی بھاری قیمت ادا کی۔ آصف زرداری جب نیو یارک کی رعنائیوں اور میاں نواز شریف سرور پیلس کی رونقوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے اس وقت بھی پاکستان کی صحافتی تنظیمیںسیاسی ڈکٹیٹروں کے خلاف سڑکوں پر نعرہ زن تھیں۔ آج وہی میاں صاحب اپنے کولیشن پارٹنر زرداری صاحب کی مدد سے میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے کسی کے احکامات پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔
حکومت نے پیکا ایکٹ میں جیسی سخت ترامیم کی ہیں کیا سوچتے ہیں کہ کل ان کے کسی ادارے سے تعلقات خراب ہوئے تو کیا یہ میڈیا ان کی آواز بن سکے گا جب اسے پیکا ایکٹ کے تحت سخت سزائیں نظر آ رہی ہوں گی؟ دنیا بھر میں ہتکِ عزت کا دعویٰ ہمیشہ سول کیس ہوتا ہے جب کہ یہاں اس کے لئے کریمینل پروسیڈنگز کا قانون پاس کر دیا گیا ہے۔ جس میڈیا کی آزادی کو پابندِ سلاسل کیا جا رہا ہے یہ وہی میڈیا ہے جس نے پرویز مشرف کے خلاف تمام تر مزاحمت کی۔ یہ وہ وقت تھا جب ہماری عدلیہ بھی فوجی ڈکٹیٹر مشرف کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس نے وہی فیصلے کئے جو جنرل مشرف چاہتا تھا۔ اس نے بھی لوگوں اور میڈیا کا ساتھ نہیں دیا۔ کسی کو اٹک قلعے کی بجائے سرور پیلس پسند تھا تو کسی کو دبئی اور لندن میں رہنا اچھا لگتا تھا اور جو سیاسی لاٹ بچ گئی تھی انہیں وزارتیں پسند تھیں۔ ججوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانا اچھا لگتا تھا۔
پیکا ایکٹ کا اصل مقصد حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے والے صحافیوں کا منہ بند کرنا ہے لیکن قانون منظور کرنے والے بھول گئے کہ صحافیوں کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔ وہ تو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور نہ قابو میں آتے ہیں۔ جب کوئی ظالم حکمران صحافیوں کی آواز دبانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ سب مل کر اسے کوسنے لگتے ہیں اور آخر کار یا تو حکمرانوں کو توبہ کرنا پڑتی ہے یا پھر اقتدار چھوڑنا پڑتا ہے۔ یہ قرار داد سیاست دانوں کی کامیابی نہیں بلکہ جمہوریت کی ناکامی ثابت ہو گی۔ پارلیمنٹ اور میڈیا کی بقا جمہوریت میں ہے لہٰذا آپس میں لڑنے کی بجائے دونوں ایک دوسرے کو مضبوط بنائیں۔ میڈیا کے لئے ا یسے قوانین نہ بنائیں کہ وہ کل آپ کے لئے کہیں کھڑا ہی نہ ہو سکیں۔
آپ سے درخواست ہے کہ اس قانون کو واپس لے لیا جائے کیونکہ غلطی بلاشبہ بانجھ نہیں رہتی لیکن اس امر کا احساس ہو جائے کہ غلطی سرزد ہو گئی ہے اور اس کے ازالے کی مخلصانہ خواہش بھی بیدار ہو جائے تو اصلاح احوال میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ معاملہ وہاں بگڑتا ہے جہاں کسی فریق کی انا پھن پھیلا کر کھڑی ہو جائے اور وہ غلطی پر ڈٹ جائے۔ ایسی صورت میں غلطی، مزید غلطیوں کو جنم دیتے چلی جاتی ہے اور ازالہ اس وقت ہوتا ہے جب غلطیوں کا ایک گھنا جنگل چار سو پھیل چکا ہوتا ہے اور سب کچھ سفر رائیگاں نذر ہو چکا ہوتا ہے۔ صحافی معاشرے کے سامنے حالات و واقعات کی تصویر پیش کرتا ہے، بعض تصویریں بعض گروہوں کے مفادات پر اثر انداز ہوتی ہیں، اس لئے وہ متعلقہ صحافی کو بلیک میلر قرار دیتے ہیں، اسے دھمکیوں کا نشانہ بناتے ہیں یا صفحۂ ہستی سے نابود کر دیتے ہیں۔ دنیا کے پس ماندہ معاشروں میں اس ظالمانہ رویے کی مثالیں زیادہ نظر آ تی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف مفاہمت اور مصالحت کی حکمتِ عملی اختیار کرتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ کیونکہ آزاد میڈیا ہی سب کے لئے بہتر ہے اسے پھلنے پھولنے سے نہ روکا جائے۔ اس کے پر نہ کاٹے جائیں، اسے زنجیریں نہ پہنائی جائیں، اس کا گلا نہ گھونٹا جائے۔ انا کو چھوڑ کر جھک جانے کے لئے بڑا حوصلہ چاہئے۔ بلاشبہ معاشرے کی ناہمواریوں، حکمرانوں کی خامیوں اور سیاست دانوں کی نا اہلیوں کو نمایاں کرنا ہمارا بنیادی وظیفہ ہے۔ جمہوری معاشروں کو ایک مضبوط میڈیا کی ضرورت ہوتی ہے جو حکومتوں کو دیانتدار رہنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: پیکا ایکٹ میڈیا کی نہیں ہو ہو جائے ہوتا ہے کا ایک کے لئے ہے اور
پڑھیں:
ملک میں اس وقت وہ آئیڈیل جمہوریت نہیں ہے، جس کی آج ہمیں ضرورت ہے،سعید غنی
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 جولائی2025ء)پاکستان پیپلز پارٹی کراچی کے صدر و صوبائی وزیر سعید غنی اور پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری سینیٹر سید وقار مہدی نے کہا ہے کہ اس ملک میں اس وقت وہ آئیڈیل جمہوریت نہیں ہے، جس کی آج ہمیں ضرورت ہے وہ تب آئے گی جب تمام ادارے اپنے دائرے میں راہ کر کام کریں۔ صدر آصف علی زرداری کی مرہون منت اس ملک میں 1973 کا آئین اپنے حقیقی روح کے مطابق رائج ہوا ہے۔ صوبوں کو اور پارلیمنٹ کو اختیار آصف علی زرداری کی ہی مرہون منت ہے اور ان کی دانش اور سیاسی بصیرت کے باعث اس وقت ملک میں جمہوریت مستحکم ہوتی جارہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی 2007 میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مشکلات سے دوچار ہوگئی تھی لیکن آصف علی زرداری ہی تھے، جنہوں نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے منشور اور ان کے وژن کو لے کر اس ملک میں پیپلز پارٹی اور سیاست کو مستحکم کیا۔(جاری ہے)
ایدھی سینٹر کے بچوں کے ساتھ آج صدر پاکستان آصف علی زرداری کی سالگرہ کی تقریب منا کر جو خوشی ہوئی ہے وہ دیگر تقریبات کے مقابلے بہت ہی زیادہ خوش آئند ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز صدر پاکستان و پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر ایدھی سینٹر میٹھادر میں معصوم بچوں اور بچیوں کے ہمراہ سالگرہ کے کیک کاٹنے کی تقریب کے موقع پر کیا۔ صوبائی وزیر سعید غنی، سید وقار مہدی، جاوید ناگوری، فیصل ایدھی، تیمور سیال، اقبال کشمیری، سید اشرف شاہ و دیگر نے بچوں اور بچیوں کے ساتھ سالگرہ کا کیک کاٹا اور بچوں میں تحائف بھی تقسیم کئے۔ اس موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا کہ آج ہم نے صدر مملکت کی سالگرہ ایدھی ہوم میں منائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری کی سالگرہ کی آج شہر میں بہت تقریبات ہو رہی ہیں، لیکن یہ تقریب سب سے اچھی تقریب ہے۔ یہ معصوم بچے جن کو ایدھی صاحب نے پالا ہے، ان بچوں کی دعاوں کی بہت تاثیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں اس طرح کے بچے ہیں ان کے ساتھ مل کر خوشیاں منائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم فیصل ایدھی کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں آج یہ موقع فراہم کیا کہ ہم اس شخص کی سالگرہ یہاں ان بچوں کے ساتھ منائیں جس نے اس ملک میں بحالی جمہوریت اور اس ملک میں جمہوریت اور پارلیمنٹ کے وقار کو بلند کیا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری کی اس ملک کے لئے گراں قدر خدمات ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی 2007 میں شہادت کے بعد لوگ کہتے تھے پیپلز پارٹی ختم ہے۔ آصف علی زرداری کی حکمت عملی اور جس انداز میں انہوں نے اپنا سیاسی کردار ادا کیا جس سے پیپلز پارٹی کا اس ملک میں سیاسی کردار مزید بڑھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کی سیاست اور جمہوریت کی بحالی کے لئے جو بنیادی تبدیلیاں درکار تھی وہ آصف علی زرداری کی سیاسی دانش کی وجہ سے ممکن ہوئی ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے وقت ہمارے پاس پارلیمان میں سادہ اکثریت بھی نہیں تھی، اس کے باوجود تمام جماعتوں کو ملا کر اٹھارویں ترمیم لانا کوئی معمولی کارنامہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری نے 73 کے آئین کو اس کی اصل روح کے مطابق بحال کروایا، این ایف سی ایوارڈ صدر آصف علی زرداری نے دیا۔ اس کے بعد آج تک این ایف سی ایوارڈ نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ کئی برسوں سے نیا این ایف سی ایوارڈ نہیں مل رہا۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ بہت ساری مشکلات کے باوجود آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کو متحد رکھا اور آصف علی زرداری ہی ہیں جو مسائل اور مشکلات سے اس ملک کو نکال سکتے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ اس وقت بھی ملک میں آئیڈیل جمہوریت نہیں ہے۔ ہم اس وقت دستیاب وسائل میں راہ کر ہی اپنے منشور اور سیاسی مقاصد کو حاصل کرسکتے ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ اصل معاملات جنرل ضیا کے دور سے خراب ہوئے اور اس کے بعد سے سیاسی جماعتوں کو کھل کر سانس لینا کا موقع آج تک نہیں مل سکا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اداروں کا اپنی حدود سے تجاوز کرکے اس میں مداخلت کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مداخلت میں صرف فوج نہیں بلکہ عدلیہ کا بھی بڑا کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک سیاسی ورکر ہوں اور جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں اور جس طرح کی آئیڈیل جمہوریت اس ملک میں ہونی چاہیے اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام ادارے جن میں ایگزیکٹو، پارلیمنٹ، میڈیا، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سب کو اپنے اپنے دائرے میں راہ کر آئین کے تحت کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہاں ایسے عدالتی فیصلے بھی آئے ہیں جس سے پارلیمنٹ پر حملہ ہوتا ہے تو پارلیمنٹ اس سے نمٹنے کے لئے کوئی اور راستہ نکالتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام اداروں کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ آئین میں جو دائرہ ان کے لئے مختص ہے اس میں راہ کر ہی وہ کام کریں گے تو ہی اس ملک میں حقیقی اور آئیڈیل جمہوریت آسکتی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ تمام معاملات کے راستے بات چیت کے ذریعے نکلیں گے۔ ہر ادارے کو آئین کا پابند رہنا ہوگا۔ لیاری کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ لیاری میں پیپلز پارٹی نے بہت کچھ کیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے بہت تعلیمی ادارے بنائے ہیں۔ ابھی ہمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تعلیمی اداروں کے لئے اچھا ماحول دیا جائے، امن و امان کی صورتحال کو مزید بہتر بنایا جائے اور وہ اقدام کئے جائیں کہ وہاں کے لوگ اپنے آپ کو پرسکون تصور کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ سندھ حکومت کی جانب سے قیام امن کے لئے ہر سطح پر اقدامات کئے جارہے ہیں۔ سیف سٹی پروگرام کی مدد سے اسٹریٹ کرائم پر قابو پایا جارہا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بجلی کے حوالے سے صرف کراچی یا سندھ نہیں بلکہ ملک میں مسائل ہیں اور اس ہی وجہ بجلی مہنگی ہونا ہے اور اس وجہ سے ہی لوگ بل ادا نہیں کرسکتے اور لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگتنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے بھی سندھ حکومت نے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایات پر صوبے بھر میں مفت سولر کی فراہمی کا منصوبہ شروع کیا ہے اور لاکھوں افراد میں جو مہنگے بجلی کے بل ادا نہیں کرسکتے انہیں سولر سسٹم کی فراہمی کی جارہی ہے تاکہ وہ اپنا معیار زندگی بہتر بنا سکیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ صوبوں کا شیئر تبدیل نہیں ہوگا۔ صرف سندھ نہیں کوئی بھی صوبہ اپنے وسائل میں کمی کو قبول نہیں کرے گا۔ ایسی صورتحال میں نیا این ایف سی نہیں لایا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب سمیت کوئی بھی صوبہ اپنے وسائل میں کمی نہیں چاہتا۔ اصل مسئلہ ایف بی آر کی کوتاہی ہے، جو لوگ ٹیکس دیتے ہیں ان پر ٹیکس لگائے جا رہے۔ اگر وفاقی حکومت اور ایف بی آر اپنے ٹیکس وصولی کا سسٹم بہتر بنائے تو صوبوں کے حصہ میں کمی کی بات ہی ختم ہوجائے گی۔ حب کینال سے پانی کی فراہمی کے سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ موجودہ سندھ حکومت نے حب کینال کی مرمت کے ساتھ ساتھ اس کے ساتھ ایک نئی کینال بھی 10 ارب سے زائد کی لاگت سے بنانا شروع کی ہے اور یہ اسی سال اگست کے میں مکمل ہوجائے گی، اس کے بعد پرانی کینال کی مرمت کریں گے، اس وقت ہمارے پاس حب کینال سے 100 ملین گیلن پانی کا کوٹہ منظور ہے لیکن کئی برسوں سے کینال کی خستہ حالی کی وجہ سے وہاں سے بمشکل 60 سے 65 ایم جی ڈی یومیہ پانی کی ہم لے سکتے تھے، اب نئی کینال کی تعمیر کے بعد 100 ایم جی ڈی اور ساتھ میں پرانی کینال کی مرمت کو مکمل کرکے کراچی کو 200 ایم جی ڈی پانی حب کینال سے ملے گا۔ اس سلسلے میں ہم نے وفاقی وزیر سے اضافی پانی مانگا ہے۔ حب ڈیم سے جو پانی آئے گا اس سے ڈسٹرکٹ ویسٹ اور سینٹرل کا فائدہ ہوگا۔ تجاوزات کے خاتمہ کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تجاوزات کا ایک بہت بڑا ایشو ہے۔ یہ ایک مستقل مسئلہ ہے اس میں سب کو ذمے داری ادا کرنی ہوگی۔ ہم نے بہت سے ایسے اقدامات کئے ہیں جس سے کراچی میں ٹریفک کے مسائل میں قدرے بہتری آئی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ فیصل ایدھی نے کبھی بھی حکومتوں سے کوئی مدد طلب نہیں کی۔ یہ فیصل ایدھی کا بڑا پن ہے۔ اگر ایدھی کو ہماری ضرورت ہو ہم حاضر ہیں۔ ان کی مدد کرکے ہمیں بہت بڑی خوشی ہوگی۔اس موقع پر ایدھی سینٹر کے سربراہ فیصل ایدھی نے کہا کہ آج زرداری صاحب کی سالگرہ ہے۔ سب لوگوں کو زرداری صاحب کی سالگرہ مبارک ہو انہوں نے اپنی خوشیوں کا موقعہ ہمارے ساتھ منایا ہم سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔