کراچی؛ 18 روز قبل لاپتا ہونیوالے 2 بچوں کی عدم بازیابی پر اہلخانہ کا اسمبلی کے باہر احتجاج
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
کراچی:
گارڈن سے پراسرار طور پر لاپتہ ہونے والے کمسن بچوں عالیان اور علی رضا کے لواحقین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ، پولیس کی ناقص کارکردگی کے خلاف لواحقین نے اہل محلہ کی بڑی تعداد کے ہمراہ سندھ اسمبلی کے باہر احتجاج کرتے ہوئے ٹریفک معطل کر دیا۔
دونوں کمسن پڑوسی بچے 5 سالہ عالیان اور 6 سالہ علی رضا گزشتہ ماہ 14 جنوری کی دوپہر گھر کے باہر سے کھیلتے ہوئے لاپتہ ہوئے تھے جس کے بعد گارڈن پولیس نے دونوں بچوں کی گمشدگی کا مقدمہ نمبر 12 سال 2025 کمسن بچے عالیان کی والدہ کی مدعیت میں درج کیا تھا تاہم 18 دن سے لاپتہ کمسن بچوں کو پولیس تاحال بازیاب کرانے میں بری طرح سے ناکام دکھائی دے ری ہے۔
پولیس کی ناقص کارکردگی پر لاپتہ بچوں کے لواحقین کا صبر جواب دے گیا اور انھوں نے اہل محلہ کی بڑی تعداد کے ہمراہ سندھ اسمبلی کے باہر جمع ہو کر لاپتہ بچوں کی بازیابی کے لیے احتجاجی مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوگئی۔
اس موقع پر احتجاج میں شریک خواتین اور بچے لاپتہ ہونے والے دونوں کمسن پڑوسی بچوں کی تصاویر اور پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے جس پر ان کے مطالبات کے حق میں نعرے درج تھے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے صرف اندھیرے میں تیر چلایا جا رہا ہے ، 18 روز گزر جانے کے باوجود پولیس تاحال ہمارے لخت جگروں کا سراغ لگانے میں ناکام دکھائی دیتی ، پولیس صرف زبانی جمع خرچ سے کام لے رہی ہے ، ہم ارباب اختیار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے بچوں کا فوری طور پر سراغ لگایا جائے اب تک کسی کے بھی کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
لاپتہ طالبہ کی لاش ایک ماہ بعد ملی، اسکول ٹیچر گرفتار
بھارتی ریاست مغربی بنگال کے ضلع بیربھوم میں ایک دل خراش واقعے نے سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایک مقامی اسکول کی طالبہ، جو گزشتہ ایک ماہ سے لاپتہ تھی، کی لاش ایک ویران علاقے سے بوری میں بند حالت میں ملی ہے۔ پولیس نے طالبہ کے ایک استاد کو گرفتار کرلیا ہے، جس پر اغوا اور قتل کا الزام ہے۔
طالبہ 22 اگست کو حسب معمول اسکول کے لیے نکلی تھی لیکن واپس گھر نہ پہنچی۔ اہل خانہ اور مقامی افراد نے کئی دنوں تک اس کی تلاش جاری رکھی، مگر کامیابی نہ ملی۔ بالآخر منگل کی شب کالی ڈانگا گاؤں کے مضافات میں واقع ایک سنسان مقام سے ایک بوری برآمد ہوئی، جس میں طالبہ کی لاش موجود تھی۔
متاثرہ لڑکی کے والدین نے الزام لگایا ہے کہ مذکورہ استاد اس سے قبل بھی نازیبا رویہ اختیار کرتا رہا تھا، اور طالبہ نے اس حوالے سے اپنی والدہ کو آگاہ بھی کیا تھا۔ اسی بنیاد پر پولیس نے استاد کو حراست میں لیا، جس نے تفتیش کے دوران جرم کا اعتراف کرلیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی مزید چھان بین جاری ہے، اور یہ بھی جانچ کی جا رہی ہے کہ قتل سے قبل کسی قسم کی زیادتی تو نہیں کی گئی۔ لاش کو فارنزک تجزیے کے لیے بھیج دیا گیا ہے تاکہ حقائق سامنے آسکیں۔
یہ واقعہ معاشرے میں بچوں کے تحفظ، تعلیمی اداروں کی نگرانی، اور متاثرہ خاندانوں کی فوری داد رسی کے حوالے سے کئی سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔