زراعت اور لائیو اسٹاک کا پورا ایگریکلچر سیکٹر جمود کا شکار ہے
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
کوئٹہ (نمائندہ جسارت )گورنر بلوچستان شیخ جعفر خان مندوخیل نے کہا ہے کہ زراعت اور لائیو اسٹاک میں اپنی وسیع صلاحیت رکھنے کے باوجود بلوچستان کا پورا ایگریکلچر سیکٹر جمود کا شکار ہے کیونکہ ہم زرعی تجارت پر مبنی ایک جامع حکمت عملی بنانے میں اب تک ناکام ہیں۔ ہم آج بھی معیاری بیجوں کے حصول کیلئے دوسرے ممالک کے محتاج ہیں۔کوئٹہ میں لسبیلہ یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام زراعت پر مبنی تجارت کے فروغ کیلئے ایک مشاورتی سیشن کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے گورنربلوچستان نے کہا کہ ہمارے زمیندار جدید زرعی طریقوں سے نابلد ہیں تو دوسری طرف ہمارے زرعی ماہرین کی ان پٹ بھی ناکافی ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان پورے ملک کی لائیو اسٹاک کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ موسیٰ خیل اور ژوب جیسے اضلاع میں مون سون کی بارشیں بھی وافر مقدار میں ہوتی ہیں جس کا ہمیں مؤثر طریقے سے استعمال کرنا ہوگا۔ جدید سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم بارانی زمینوں کو بھی قابل کاشت بنا سکتے ہیں جس سے پیداواری معیار اور مقدار دونوں میں اضافہ کیا جا سکتا ہے لیکن ہمیں ماہرانہ رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی زرعی تحقیق کو ترقی دینے کیلئے بائیو انجینئرنگ کے ماہرین سے تعاون حاصل کرنا چاہیے ۔ پاکستان کے 44 فیصد رقبے کے ساتھ، بلوچستان ملک کی زرعی ترقی کی قیادت کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قلت آب پر قابو پانے کیلئے اپنے زمینداروں اور کسانوں کو ڈرپ ایریگیشن سسٹم کے بارے میں آگاہ کرنا لازمی ہے اور ژوب سے لیکر خضدار تک زیتون کے درختوں جیسی فصلوں کیلئے کم پانی کے استعمال کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ گورنر نے کہا کہ زرعی معیشت کے فروغ کے حوالے سے لسبیلہ یوبیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عبدالمالک ترین اور ان کی پوری ٹیم خراج تحسین کے مستحق ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نے کہا کہ
پڑھیں:
فنڈز کی کمی اور سیاسی تعطل: امریکا میں بھوک کا نیا بحران سر اٹھانے لگا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکا میں جاری سرکاری شٹ ڈاؤن نے ایک نئے انسانی بحران کی صورت اختیار کر لی ہے، جہاں تقریباً 4 کروڑ 210 لاکھ شہریوں کے بھوک اور غذائی قلت کے خطرے سے دوچار ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق وفاقی حکومت کے پاس فنڈز تیزی سے ختم ہو رہے ہیں جب کہ ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان سیاسی تعطل نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق ہفتے سے امریکا کے سب سے بڑے خوراکی امدادی پروگرام “سپلیمنٹل نیوٹریشن اسسٹنس پروگرام” (SNAP) کی فنڈنگ رکنا شروع ہو جائے گی۔ یہ وہی پروگرام ہے جسے عام طور پر “فوڈ اسٹامپس” کہا جاتا ہے اور جس سے کم آمدنی والے لاکھوں خاندان اپنی روزمرہ غذائی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
امریکی محکمہ زراعت نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہنگامی فنڈز استعمال نہیں کرے گا، حالانکہ اس اقدام سے نومبر کے لیے محدود مدت تک امداد جاری رہ سکتی تھی۔
ڈیموکریٹس نے اس فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ محکمہ زراعت قانونی طور پر پابند ہے کہ وہ تقریباً 5.5 ارب ڈالر کے Contingency Funds استعمال کرے تاکہ شہریوں کو بھوک سے بچایا جا سکے۔
سینیٹر جین شاہین نے الزام لگایا کہ ٹرمپ انتظامیہ بھوک کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے جب کہ دوسری جانب ریپبلکن ارکان کا کہنا ہے کہ بحران کی ذمہ داری ڈیموکریٹس پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ حکومت کو چلانے کے لیے درکار Continuing Resolution Bill کی حمایت سے گریزاں ہیں۔
کانگریس میں بھی امدادی پروگرام کی بحالی پر تنازع شدت اختیار کر چکا ہے۔ چند ریپبلکن اراکین نے نومبر کے لیے جزوی فنڈنگ کا بل پیش کیا ہے، مگر اب تک ووٹنگ نہیں ہو سکی۔
یاد رہے کہ ماضی میں جب شٹ ڈاؤن ہوا تو بھی SNAP نظام کے تحت عوام کو امداد فراہم کی جاتی رہی، مگر اس بار محکمہ زراعت نے اپنے مؤقف میں یو ٹرن لے لیا ہے اور ویب سائٹ سے پرانی ہدایات ہٹا دی ہیں۔