کوئی بے ایمان ہو تو وہ ججنہیں ہوسکتا، جسٹس عقیل عباسی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
اسلام آباد( مانیٹر نگ ڈ یسک )سپریم کورٹ کے جسٹس عقیل عباسی نے ضلعی عدلیہ کے ججوں سے خطاب کے دوران کہا کہ
جج کا ایمان دار ہونا بنیادی جزو ہے اور خدا کے واسطے انصاف کو نہ بگاڑیں۔سپریم کورٹ کے جسٹس عقیل عباسی نے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ضلعی عدلیہ پر فراہمی انصاف کی بھاری ذمہ داری ہے۔جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ کوئی بے گناہ جیل میں ہو تو عذاب الٰہی قریب تر ہوتا ہے، ججوں کو کسی کے بے گناہ جیل میں ہونے کو ہلکا نہیں لینا چاہیے۔تقریب سے خطاب کے دوران جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ تمام ججوں کو معلوم ہے کہ جیلوں میں کیا ہوتا ہے، تمام ججوں کو اللہ تعالیٰ کے ہاں پیش ہو کر جواب دہ ہونا ہے۔انہوں نے کہا کہ ججوں کے لیے ایمان دار ہونا بنیادی جزو ہے، جج یا جج ہو سکتا ہے یا بے ایمان، کوئی بے ایمان ہو تو وہ جج نہیں ہوسکتا، اللہ کا خوف دل میں رکھیں اور دیانت داری سے فیصلے کریں۔جسٹس عقیل عباسی کا کہنا تھا کہ خدا کے واسطے انصاف کو نہ بگاڑیں، اگر جج بھی انصاف نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ
پڑھیں:
اسرائیلی حملوں میں شہید ہونیوالے ڈاکٹر فریدون عباسی کون تھے؟
حالیہ اسرائیلی حملوں میں شہید ہونیوالے ڈاکٹر فریدون عباسی دوانی ایران کے اُن ممتاز ایٹمی سائنسدانوں میں سے تھے جنہوں نے نہ صرف سائنسی میدان میں اہم خدمات انجام دیں بلکہ ملکی دفاعی ڈھانچے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا تھا۔
11 جولائی 1958 کو ایران کے شہر آبادان میں پیدا ہونے والے فریدون عباسی نے شہید بہشتی یونیورسٹی سے نیوکلیئر فزکس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ نہ صرف ایک ماہرِ طبیعات تھے بلکہ پاسدارانِ انقلاب سے وابستہ برگیڈیئر جنرل کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے تھے۔
ڈاکٹر فریدون عباسی کی علمی زندگی تدریس و تحقیق سے عبارت تھی، اور وہ امام حسین یونیورسٹی اور ایک عرصے تک شہید بہشتی یونیورسٹی میں فزکس کے پروفیسر کے طور پر تدریسی فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
ڈاکٹر فریدون عباسی دوانی کا سب سے نمایاں دور وہ تھا جب وہ ایران کی ایٹمی توانائی کی تنظیم کے سربراہ مقرر ہوئے، 2011 سے 2013 تک اس ادارے کی قیادت کرتے ہوئے انہوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
ان پر اقوام متحدہ اور مغربی انٹیلیجنس اداروں کی جانب سے الزام عائد کیا جاتا رہا کہ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام میں اُس پہلو سے وابستہ تھے جسے ’ملٹری ڈائمینشن‘ کہا جاتا ہے، یعنی وہ ایٹمی ٹیکنالوجی کے ممکنہ فوجی استعمال میں شامل سمجھے جاتے تھے، اسی تناظر میں ان کیخلاف 2007 میں اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیاں بھی عائد کی گئیں۔
ڈاکٹر فریدون عباسی دوانی کی زندگی خطرات سے عبارت رہی، نومبر 2010 میں اُن پر ایک قاتلانہ حملہ کیا گیا، جب تہران میں ان کی گاڑی کے نیچے مقناطیسی بم نصب کیا گیا، تاہم وہ اس حملے میں زخمی ہونے کے باوجود بچ گئے۔
مزید پڑھیں:
مذکورہ قاتلانہ حملے کی ناکام کوشش کا الزام اسرائیلی خفیہ ادارے موساد پر لگایا گیا، جو اس وقت ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کی کوششوں میں سرگرم تھا۔
تحقیق و تدریس کے شعبے میں بھی ان کا اثرورسوخ غیرمعمولی تھا۔ انہوں نے نیوکلیئر فزکس، پلازما ٹیکنالوجی اور ریڈی ایشن ایپلی کیشنز جیسے اہم موضوعات پر 100 سے زائد تحقیقی مقالے شائع کیے، جنہیں بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا۔ وہ شہید بہشتی یونیورسٹی کے اپلائیڈ ریڈی ایشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے بھی وابستہ رہے۔
ایرانی قوم کے لیے ڈاکٹر فریدون عباسی دوانی کی زندگی علم، خدمت اور قومی خودمختاری کے تصور سے جڑی ہوئی تھی، جمعے کو اسرائیلی فضائی حملوں میں ان کی شہادت ایران کے جوہری پروگرام کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوگی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر فریدون عباسی دوانی موساد