مولانا فضل الرحمن و دیگر اکابرین توجہ فرمائیں
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
مولانا فضل الرحمن،مفتی محمد تقی عثمانی،مفتی منیب الرحمن،مولانا قاری محمد حنیف جالندھری،پروفیسر ساجد میر سمیت دیگر مسلم قائدین کی خدمت میں اس نیت سے کالم کے ذریعے یہ چندگزارشات پیش کر رہا ہوں تاکہ ان کے توسط سے عوام بھی جان سکیں کہ پاکستان میں گستاخ ملعونوں کو بچانے کے لئے کس کس طرح کی سازشیں ہو رہی ہیں۔سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کی توہین پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث مجرمان کو تحفظ دینے کے لئے اب کچھ دیدہ اور نادیدہ قوتیں سرگرم ہو چکی ہیں۔اس حوالے سے پہلے مرحلے میں ایسے مجرمان کو ضمانت پر رہا کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ اب تک 17 ایسے مجرمان کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری منظور کر لی گئ، جن کے خلاف ریکارڈ پر نا قابل تردید شواہد موجود ہیں کہ وہ مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کی بدترین توہین کے مرتکب ہوئے۔ زیر حراست مذکورہ مجرمان کی جانب سے دائر کی جانے والی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری کی سماعت کے دوران جو طرز عمل اختیار کیا، اس سے واضح ہے کہ وہ ایک مائنڈ سیٹ کے تحت جیل کی سلاخوں کے پیچھے موجود گستاخوں کو بہر صورت آزاد کرنا چاہتے ہیں۔قابل افسوس امر ہے کہ مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کے بدترین گستاخوں کو مسلسل ضمانت پر رہا کرنے کے خلاف اب تک کوئی مئوثر آواز نہیں اٹھی۔
مقدس ہستیوں کی توہین کے مرتکب زیر حراست مجرمان کو ماورائے آئین و قانون ریلیف دینے کے عمل کے خلاف اگر آئین و قانون کے مطابق اقدامات نہ کئے گئے تو پھر نہ صرف یہ کہ ان فیصلوں کا اثر ملک کی دوسری عدالتوں پر بھی ہو گا بلکہ مقدس ہستیوں کے گستاخوں کو آئندہ قانون کی گرفت میں آنے کا کوئی خوف بھی نہیں رہے گا۔ جس کے نتیجے میں مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کی گستاخیاں مزید عام ہو جائیں گی۔خاکسار سمجھتا ہے کہ یہی اصل مقصد ہے کہ جس کے لئے مقدس ہستیوں کے ثابت شدہ گستاخوں کو ضمانت پر رہائی دلوا کر ہمارا امتحان لیا جارہا ہے کہ کیا ہم اسے قبول کرتے ہیں یا نہیں۔اگر آج ہم خاموش رہے تو کل مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کے گستاخوں کے خلاف قانون کو حرکت میں لانا ایک خواب بن جائے گا۔ دوسرے مرحلے میں مذکورہ مجرمان کو تحفظ دینے کے لئے اسپیشل برانچ پولیس لاہور پنجاب سے جنوری 2024ء میں ایک رپورٹ مرتب کروائی گئی۔جس میں چند مخصوص افراد پر ’’بلاسفیمی بزنس‘‘ کا الزام عائد کیا گیا۔ یعنی یہ کہا گیا کہ چند مخصوص افراد مالی فوائد کے حصول کے لئے توہین مذہب و توہین رسالت کے مقدمات کا اندراج کروا کر مذکور و مقدمے میں نامزد مجرمان سے پیسوں کا تقاضا کرتے ہیں۔مذکورہ رپورٹ کو تقریباً سات ماہ تک خفیہ رکھنے کے بعد پاکستان سے مفرور امریکہ میں موجود اسلام اور پاکستان دشمن بھگوڑے صحافی احمد نورانی کے ذریعے فیکٹ فوکس نامی نیوز ویب سائٹ پر جولائی 2024 ء جاری کروایا گیا۔ پھر مذکورہ رپورٹ اور فیکٹ فوکس کی خبر کی بنیاد پر قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کو متحرک کیا گیا۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان نے اپنے قانونی مینڈیٹ سے تجاوز کرتے ہوئے مذکورہ مجرمان کے خلاف عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کے متعلق اکتوبر 2024ء میں ایک یکطرفہ رپورٹ مرتب کی قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی جانب سے مرتب کی گئی 62 صفحات کی رپورٹ مذکورہ مجرمان کو تحفظ دینے کے لئے مذکورہ مجرمان کی جانب سے گھڑی گئی کہانی پر مشتمل ہے۔یعنی مذکورہ رپورٹ میں صرف مجرمان کی جانب سے بنائی گئی کہانی کو ذکر کیا گیا۔جو موقف ایف آئی اے سمیت دیگر سرکاری حکام نے کمیشن کے روبرو پیش کیا گیا،اسے رپورٹ کا حصہ ہی نہیں بنایا گیا۔جو ثابت کرتا ہے کہ مذکورہ رپورٹ صرف اور صرف مذکورہ مجرمان کو تحفظ دینے کے لئے ہی مرتب کی گئی۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سات رکنی قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی ایک رکن کے شوہر اسلام آباد کی عدالت میں مذکورہ مجرمان کی وکالت بھی کر رہے ہیں۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی مذکورہ رپورٹ کو زیر حراست مجرمان اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے عدالتوں سے ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔مذکورہ رپورٹ کی بنیاد پر سندھ ہائیکورٹ سے گیارہ مجرمان نے اپنے خلاف سیشن کورٹ ملیر کراچی میں جاری ٹرائل کے خلاف حکم امتناعی حاصل کر کے اپنے خلاف درج مقدمے کا ٹرائل رکوا دیا ہے۔اس کے علاوہ مذکورہ زیر حراست مجرمان میں سے 100 سے زائد مجرمان کے ورثا نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک مشترکہ پٹیشن دائر کر رکھی ہے۔مذکورہ پٹیشن کے ذریعے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی رپورٹ کی بنیاد پر توہین مذہب و توہین رسالت کے مقدمات کے خلاف تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بنوانے کی کوشش کی جارہی ہے۔جبکہ قانون کے مطابق جو مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، ان کے متعلق کوئی کمیشن بن ہی نہیں سکتا۔ان مقدمات کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ صرف عدالتیں ہی کر سکتی ہیں۔اس کے باوجود بھی مذکورہ پٹیشن کے ذریعے کوشش کی جارہی ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ وفاقی حکومت کو مجبور کر دے کہ وہ تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے۔تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ مذکورہ تحقیقاتی کمیشن کے ذریعے ایسی رپورٹ مرتب کروائی جائے کہ جس کی بنیاد پر نہ صرف یہ کہ سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کی توہین پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث تقریبا ًپانچ سو زیر حراست مجرمان کو یقینی تحفظ مل جائے بلکہ توہین مذہب و توہین رسالت کے متعلق قوانین کو بھی غیر موثر کرنے کی راہ ہموار ہو۔
متذکرہ بالا تمام حقائق و واقعات ثابت کرتے ہیں کہ ایک ایجنڈے کے تحت نہ صرف یہ کہ مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کی بدترین توہین کے مرتکب مجرمان کو تحفظ فراہم کر کے مقدس ہستیوں کی گستاخی کے سلسلے کو مزید فروغ دینے کی کوشش ہورہی ہے بلکہ توہین مذہب و توہین رسالت کے متعلق قوانین کو ختم یا غیر مئوثر کرنے کے لئے جو سازشیں ایک عرصے سے کی جارہی ہیں،انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کی بھی کوشش ہو رہی ہے۔ماضی میں جب کبھی بھی اس قسم کی کوئی صورتحال پیدا ہوئی تو اس کے خلاف عملی میدان میں جدوجہد کی مذہبی قائدین کی ایک عظیم تاریخ ہے۔لہذا اس نازک ترین وقت میں بھی تمام مذہبی قائدین بالخصوص مولانا فضل الرحمن،شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی،مفتی منیب الرحمن، و یگر اکابرین سے گزارش ہے کہ ان تمام سازشوں کو ناکام بنانے، مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کی عزت و ناموس کے تحفظ اور ان کی عزت و ناموس پر حملہ آور ہونے والے مجرمان کو قانون کے مطابق عبرتناک منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے ایک دفعہ پھر قائدانہ کردار ادا کیجئے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی توہین مذہب و توہین رسالت کے مجرمان کو تحفظ دینے کے لئے مذکورہ مجرمان مذکورہ رپورٹ کی بنیاد پر گستاخوں کو کی جانب سے مجرمان کی کے ذریعے کے متعلق کے خلاف کیا گیا صرف یہ
پڑھیں:
گریٹر ڈائیلاگ ضرورت، جب بھی آئین سے تجاوز ہوا مسائل بڑھے: حافظ نعیم
لاہور+سرگودھا (خصوصی نامہ نگار+نمائندہ خصوصی +نامہ نگار) جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ انجینئر حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ملکی مسائل کے حل کے لیے گریٹر ڈائیلاگ وقت کی ضرورت ہے۔ آئینی حدود سے جب بھی تجاوز کیا گیا، ملک میں بے چینی بڑھی اور مسائل میں اضافہ ہوا۔ لاہور میں تحریک انصاف کے رہنماء میاں محمد اظہر کے انتقال پر تعزیت کے بعد لیاقت بلوچ کی موجودگی میں سابق وفاقی وزیر حماد اظہر کے ہمراہ ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ اصولوں کو سامنے رکھنا ہوگا، آئین میں ہر پارٹی، جماعت اور ادارے کے لیے فریم ورک موجود ہے اور سب کو اسی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ سب کو سوچنا چاہیے کہ ملک کو اسی طرح چلنے دینا چاہیے یا مسائل کے حل کے لیے مل بیٹھیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ میاں اظہر سیاسی تعلق میں وضع داری کے حامل شخصیت تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میاں اظہر ہمارے بزرگ تھے۔ جماعت کے وفد نے حماد اظہر سے تعزیت کی اور ان کے والد کے انتقال پر دُکھ کا اظہار کیا اور مغفرت کے لیے دعا کی۔دریں اثنا جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے سرگودھا آمد پر مرکز جماعت اسلامی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں مک مکا کی سیاست جاری ہے اور عوام کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ ریزرو سیٹوں کو ناجائز طریقے سے ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے اپنے حق میں استعمال کیا جو کہ آئین اور جمہوریت کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ پی ٹی آئی قیادت نے احتجاج کی بجائے مک مکا کی راہ اختیار کی۔ جماعت اسلامی نے عوام کے درپش مسائل پر مبنی "چارٹر آف ایشوز" مرتب کرنے اور ایک بھرپور عوامی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو پورے ملک میں جاری تحریک کا حصہ ہوگی۔