کشمیر کا معاملہ، انسانی حقوق بارے آزمائش
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
کشمیر کا معاملہ، انسانی حقوق بارے آزمائش WhatsAppFacebookTwitter 0 4 February, 2025 سب نیوز
تحریر۔۔۔۔ سیدہ کوثر فاطمہ
کسی زمانے میں زمین پر جنت کے نام سے مشہور مقبوضہ کشمیر کی محصور وادی، انسانی حقوق کی عالمگیریت کے تصور کے لئے سخت چیلنج بن گئی ہے کیونکہ 9 لاکھ سے زیادہ بھارتی قابض فوجیوں کو بے گناہ کشمیریوں کو قتل کرنے، اغوا کرنے، تشدد کرنے اوران کی تذلیل کرنے سمیت لامحدود اختیارات حاصل ہیں جس سے اس پورے علاقہ میں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوچکے ہیں۔ کشمیریوں کو دہائیوں سے جس ناگفتہ بہ اورکربناک صورتحال کا سامنا ہے، اس کو دیکھ کر انسانی حقوق کی آفاقیت سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔
تنازعہ1947 میں برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے پیداہوا۔ ریاست کشمیر بھاری اکثریت رکھنے والی مسلم اکثریتی ریاست تھی تاہم اس کے باوجود اسے بھارت میں شامل کئے جانے سے مسلم اکثریتی یہ ریاست ایک مقامی ہندو حکمران کے ماتحت تھی۔ تاہم، اکتوبر 1947 میں، بھارتی افواج نے تقسیم کے فارمولے اور کشمیری عوام کی خواہشات کی کھلم کھلاخلاف ورزی کرتے ہوئے علاقے پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔
بھارتی قبضے کے خلاف مزاحمت کے کشمیریوں کے عزم کی شدت کومدنظر ہوئے، بھارت اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا، جس نے بڑے غور و خوض کے بعد جموں و کشمیر کے خطے میں استصواب رائے کا انعقاد کر کے پرامن حل پر زور دینے والی قراردادیں منظور کیں، تاکہ مسئلہ کشمیر کو اس طرح حل کیا جائے کہ عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں۔ تاہم، یہ جانتے ہوئے کہ بھارتی قبضہ لوگوں کی مرضی کے برعکس ہے، بھارت کشمیریوں اور عالمی برادری سے کیے گئے اپنے وعدوں سے مکر گیا۔ اس کے بعد سے، بھارت جموں و کشمیر پر اپنے ناجائز قبضے کو طول دینے کے لیے ایک کے بعد ایک سمیت تمام ممکنہ حربے استعمال کر رہا ہے۔ بھارت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر کئے گئے غیر قانونی قبضہ کو76سال سے زائد عرصہ گزر چکے ہئں اس کے بعد بھی، بھارتی حکام غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے غیر قانونی اقدامات اور مقبوضہ جموں و کشمیرکے عوام کے حقوق کو مسلسل دبانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت نے اپنے غیر قانونی قبضے کو مزید مستحکم کرتے ہوئے اور بین الاقوامی اصولوں اور معاہدوں کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے، 5 اگست 2019 کو اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کو منسوخ کر دیاتاکہ 5 اگست 2019 کو کی گئی غیر قانونی کارروائی کی سازش، انجینئرنگ ڈیموگرافک اور مقبوضہ علاقے میں سیاسی تبدیلیوں کی آڑمیں کشمیریوں کو پنی ہی سرزمین میں بے اختیار اقلیت میں تبدیل کردیا جائے۔
اس طرح کشمیریوں کے آزادی اور خود ارادیت کے مطالبے کوختم کردیا جائے۔ لہذا اب دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے بے لگام قابض فوج کو برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کو اپنی ہی سرزمین میں اقلیت بنا ئے جانے کے براہ راست حملے کا سامنا ہیھارت نے اپنی قابض افواج کو زیر محاصرہ علاقے میں دہشت کا راج قائم کرنے کے لیے کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ انسانی حقوق کی معتبر تنظیموں کی طرف سے ان خلاف ورزیوں کی تفصیلی رپورٹس موجود ہیں جن میں ماورائے عدالت ہلاکتوں، حراست میں ہونے والی اموات، غیر ارادی طور پر گمشدگیوں، من مانی حراست، تشدد، ذلت آمیز سزائیں، عصمت دری اور چھیڑ چھاڑ، اجتماعی سزا، حقوق کی پامالی اظہار رائے کی آزادی اور مذہب اور عقیدہ تک کا احاطہ کیا گیا ہے۔ بھارت یہ سب کرتے ہوئے اس بات سے غافل ہے کہ وہ طاقت اور دھوکہ دہی سے ہی کچھ وقت لے سکتا ہے جو کسی دن ختم ہو جائے گا۔ پرامن اور جمہوری طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو اپنی مرضی کا حق خود ارادیت استعمال کرنے دیا جائے۔ تنازعہ کے دونوں فریق، پاکستان اور بھارت پہلے ہی کشمیریوں کی مرضی کا پتہ لگانے کے لیے اقوام متحدہ کے زیر انتظام آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے پر رضامندیظاہر کر چکے تھے۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے 12 فروری 1951 کوبھارتی پارلیمنٹ میں اپنے بیان میں کہا تھا کہ ”ہم نے اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں ٹھایا اور اس کے پرامن حل کے لیے اپنی عزت کا لفظ دیا ہے۔ ایک عظیم قوم کی حیثیت سے ہم پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ اس سلسلہ میں ہم نے مسئلہ کوکشمیر کے عوام پر چھوڑ دیا ہے اور ہم ان کے فیصلے کی پاسداری کے لیے پرعزم ہیں۔
ان حالات میں جب بین الاقوامی امن اور انصاف کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی اداروں کی ساکھ دا پر لگی ہوئی ہے، یہ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جموں و کشمیر کے تنازع پر اپنی قراردادوں پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ بھارت پر زور ددیاجائے کہ وہ غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں کو ختم کرے اور غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 سے کیے گئے اپنے تمام غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو واپس لے تاکہ انسانی حقوق کی عالمگیریت میں کمزوروں اور مظلوموں کا اعتماد بحال کیا جا سکے۔
آئیے آج ہم یہ عہد کریں کہ حق خودارادیت کے کشمیریوں کے منصفانہ اور جائز مطالبے کے ساتھ اپنی مضبوط یکجہتی کا اعادہ کریں اور بھارت سے مطالبہ کریں کہ وہ کشمیری عوام کی مرضی کا تعین کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے زیر انتظام آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے کے اپنے وعدے کو پورا کرے۔ ایک دن ظالموں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے گا اور آخرکار انصاف کا بول بالاہو گا۔
ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
’صحت مند ماحول انسانی حق ہے‘،بین الاقوامی عدالت انصاف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) دی ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں ممالک کی ذمہ داریوں کے بارے میں بدھ کو اپنی مشاورتی فیصلے میں کہا ہے کہ پیرس معاہدے کے تحت عالمی حدت میں اضافے کو قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنا ضروری ہے۔ ایسا نہ کرنے والے ممالک پر قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور انہیں اپنے طرزعمل کو تبدیل کرنا، دوبارہ ایسا نہ کرنے کی ضمانت دینا یا ماحول کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنا پڑ سکتا ہے۔
عدالت کے صدر یوجی ایواساوا نے فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا، ’’گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی واضح طور پر وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں، اور ان کے اثرات سرحدوں سے پار جا پہنچتے ہیں۔
(جاری ہے)
‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ صورت حال ’’ماحولیاتی تبدیلی سے لاحق شدید اور وجودی خطرے کی عکاسی کرتی ہے۔" ایواساوا کے مطابق ممالک پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور اپنی قومی ماحولیاتی حکمت عملیوں میں بلند ترین اہداف مقرر کریں۔
پیسیفک آئی لینڈز اسٹوڈنٹس فائٹنگ کلائمیٹ چینج کے ڈائریکٹر وشال پرساد، نے اس فیصلے کو بحر الکاہل کے عوام کے لیے ’’زندگی کی امید‘‘ قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا،’’آج دنیا کے سب سے چھوٹے ممالک نے تاریخ رقم کی۔ آئی سی جے کا فیصلہ ہمیں اس دنیا کے قریب لے آیا ہے جہاں حکومتیں اب اپنی قانونی ذمہ داریوں سے منہ نہیں موڑ سکتیں۔
‘‘اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی سابق سربراہ میری رابنسن نے اس فیصلے کو ’’انسانیت کے لیے ایک مؤثر قانونی ہتھیار‘‘ قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا،'’’یہ بحرالکاہل اور دنیا کے نوجوانوں کی طرف سے عالمی برادری کے لیے ایک تحفہ ہے، ایک قانونی موڑ جو ہمیں زیادہ محفوظ اور منصفانہ مستقبل کی طرف لے جا سکتا ہے۔
‘‘ بین الاقوامی عدالت انصاف کی تاریخ کا سب سے بڑا مقدمہعدالت سے یہ رائے بحرالکاہل میں واقع جزائر پر مشتمل ملک وینوآتو نے مانگی تھی اور اس کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد کرنے والے طلبہ کے ایک گروہ نے کام شروع کیا تھا جن کا تعلق بحر الکاہل میں جزائر پر مشتمل ممالک سے ہے۔
ان طلبہ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے اور اس حوالے سے جزائر پر مشتمل چھوٹے ممالک کے لیے خاص طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
وینوآتو کی جانب سے اقوام متحدہ کے دیگر رکن ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں 29 مارچ 2023 کو جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں عدالت سے دو سوالات پر قانونی مشاورتی رائے دینے کو کہا گیا۔
پہلے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ تحفظ ماحول یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی قانون کے تحت ممالک کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔
جبکہ دوسرے سوال میں عدالت سے رائے لی گئی ہے کہ اگر کسی ملک کے اقدامات سے ماحول کو نقصان پہنچے تو ان ذمہ داریوں کے تحت اس کے لیے کون سے قانونی نتائج ہو سکتے ہیں۔وانواتو کے وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی رالف ریگنوانو نے عدالت کے اس فیصلے کو ''ماحولیاتی اقدام کے لیے سنگ میل‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ تاریخ میں پہلی بار ہے کہ آئی سی جے نے ماحولیاتی تبدیلی کو براہ راست انسانیت کے لیے سب سے بڑے خطرے کے طور پر تسلیم کیا ہے۔
‘‘عدالت نے گزشتہ دسمبر میں تقریباً 100 ممالک اور 12 بین الاقوامی اداروں کے بیانات سنے۔ انٹیگوا اور باربودا کے وزیر اعظم گاسٹن براؤن نے عدالت کو بتایا کہ ''بے لگام اخراج‘‘ کے باعث ان کے جزیرے کی سرزمین سمندر کی نذر ہو رہی ہے۔
اس دوران، امریکہ جیسے بڑے اخراج کرنے والے ممالک نے مؤقف اختیار کیا کہ 2015ء کا پیرس معاہدہ پہلے ہی ریاستوں پر ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کی قانونی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے۔
تاہم، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو اس تاریخی معاہدے سے علیحدہ کر دیا تھا۔ماحولیاتی قانون کی ماہر جوئے چودھری نے کہا،’’پیرس معاہدہ اہم ہے، لیکن یہ واحد قانونی طریقہ نہیں۔ مختلف قوانین کی ضرورت ہے کیونکہ مسئلہ وسیع ہے۔‘‘
’کھوکھلے وعدوں کے دور کا اختتام‘وانواتو نے عدالت سے یہ بھی وضاحت مانگی کہ اگر کوئی ملک اخراج کو روکنے کی ذمہ داری پوری نہ کرے تو اس کے قانونی نتائج کیا ہوں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ، چین، روس اور یورپی یونین جیسے بڑے آلودگی پھیلانے والے ممالک، جو تاریخی طور پر سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کر چکے ہیں، انہیں سب سے زیادہ ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔
چودھری نے کہا، ’’اب تک کے اخراج سے کافی نقصان ہو چکا ہے اور اس کی تلافی ضروری ہے۔‘‘
غریب ممالک، جو ماحولیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات جھیل رہے ہیں، طویل عرصے سے امیر ممالک سے نقصانات کا ازالہ مانگتے رہے ہیں۔
عدالت نے انتباہ دیا کہ ’’عالمی درجہ حرارت میں معمولی اضافہ بھی نقصان اور تباہی میں اضافہ کرے گا۔" اگر ریاستیں اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کریں تو متاثرہ ممالک قانونی چارہ جوئی کے ذریعے معاوضہ حاصل کر سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس میں ’’نقصان و تلافی فنڈ‘‘ قائم کیا گیا تھا، لیکن اب تک صرف 700 ملین ڈالر کے وعدے ہوئے ہیں، جبکہ ماہرین کے مطابق 2030 تک نقصانات سینکڑوں ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔
چودھری نے کہا،’’یہ معاملہ درحقیقت جواب دہی کا ہے۔ یہ ایک اشارہ ہے کہ خالی وعدوں کا دور ختم ہونا چاہیے۔‘‘
فیصلے کے ممکنہ اثراتآئی سی جے کا یہ مشاورتی فیصلہ ان تین فیصلوں میں سے ایک ہے جو حالیہ مہینوں میں ملکوں کی ماحولیاتی ذمہ داریوں کے سلسلے میں جاری کیے گئے ہیں۔
اسی ماہ انٹر-امریکن کورٹ آف ہیومن رائٹس نے بھی ایک رائے دی کہ ممالک شہریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ماحول اور آب و ہوا کو محفوظ بنائیں۔
اگرچہ مشاورتی آراء ملکوں کے لیے قانونی طور پر لازمی نہیں ہوتیں، لیکن ان کی اخلاقی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ دنیا بھر میں ماحولیاتی مقدمات کو تقویت دے سکتا ہے۔ اب تک 60 ممالک میں تقریباً 3,000 مقدمات دائر کیے جا چکے ہیں۔
یہ آئی سی جی کے روبرو آنے والا اب تک کا سب سے بڑا معاملہ ہے جس پر 91 ممالک نے تحریری بیانات داخل کیے اور 97 زبانی کارروائی کا حصہ ہیں۔
لندن اسکول آف اکنامکس سے وابستہ ماہر جوانا سیٹزر نے کہا ’’یہ فیصلہ ایک اہم موڑ ہے۔ عدالت نے جو قانونی تشریح پیش کی ہے، وہ عالمی، قومی عدالتوں اور وکلا کے لیے ایک طاقتور ذریعہ بنے گی۔‘‘
چودھری نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ نومبر میں برازیل میں ہونے والی ماحولیاتی مذاکرات پر بھی اثر ڈال سکتا ہے، کیونکہ اب کچھ معاملات پر قانونی وضاحت موجود ہے۔
انہوں نے کہا، ’’ہم امید کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ ایک واضح قانونی خاکہ دے گا جس کی مدد سے متاثرہ ممالک اور عوام آلودگی پھیلانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا سکیں گے۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین
لوسیا شولٹن نے ہیگ، میں بین الاقوامی عدالت انصاف سے رپورٹنگ میں تعاون کیا۔