Daily Sub News:
2025-11-05@01:57:40 GMT

کشمیر کا معاملہ، انسانی حقوق بارے آزمائش

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

کشمیر کا معاملہ، انسانی حقوق بارے آزمائش

کشمیر کا معاملہ، انسانی حقوق بارے آزمائش WhatsAppFacebookTwitter 0 4 February, 2025 سب نیوز

تحریر۔۔۔۔ سیدہ کوثر فاطمہ
کسی زمانے میں زمین پر جنت کے نام سے مشہور مقبوضہ کشمیر کی محصور وادی، انسانی حقوق کی عالمگیریت کے تصور کے لئے سخت چیلنج بن گئی ہے کیونکہ 9 لاکھ سے زیادہ بھارتی قابض فوجیوں کو بے گناہ کشمیریوں کو قتل کرنے، اغوا کرنے، تشدد کرنے اوران کی تذلیل کرنے سمیت لامحدود اختیارات حاصل ہیں جس سے اس پورے علاقہ میں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوچکے ہیں۔ کشمیریوں کو دہائیوں سے جس ناگفتہ بہ اورکربناک صورتحال کا سامنا ہے، اس کو دیکھ کر انسانی حقوق کی آفاقیت سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔
تنازعہ1947 میں برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے پیداہوا۔ ریاست کشمیر بھاری اکثریت رکھنے والی مسلم اکثریتی ریاست تھی تاہم اس کے باوجود اسے بھارت میں شامل کئے جانے سے مسلم اکثریتی یہ ریاست ایک مقامی ہندو حکمران کے ماتحت تھی۔ تاہم، اکتوبر 1947 میں، بھارتی افواج نے تقسیم کے فارمولے اور کشمیری عوام کی خواہشات کی کھلم کھلاخلاف ورزی کرتے ہوئے علاقے پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔
بھارتی قبضے کے خلاف مزاحمت کے کشمیریوں کے عزم کی شدت کومدنظر ہوئے، بھارت اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا، جس نے بڑے غور و خوض کے بعد جموں و کشمیر کے خطے میں استصواب رائے کا انعقاد کر کے پرامن حل پر زور دینے والی قراردادیں منظور کیں، تاکہ مسئلہ کشمیر کو اس طرح حل کیا جائے کہ عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں۔ تاہم، یہ جانتے ہوئے کہ بھارتی قبضہ لوگوں کی مرضی کے برعکس ہے، بھارت کشمیریوں اور عالمی برادری سے کیے گئے اپنے وعدوں سے مکر گیا۔ اس کے بعد سے، بھارت جموں و کشمیر پر اپنے ناجائز قبضے کو طول دینے کے لیے ایک کے بعد ایک سمیت تمام ممکنہ حربے استعمال کر رہا ہے۔ بھارت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر کئے گئے غیر قانونی قبضہ کو76سال سے زائد عرصہ گزر چکے ہئں اس کے بعد بھی، بھارتی حکام غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے غیر قانونی اقدامات اور مقبوضہ جموں و کشمیرکے عوام کے حقوق کو مسلسل دبانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت نے اپنے غیر قانونی قبضے کو مزید مستحکم کرتے ہوئے اور بین الاقوامی اصولوں اور معاہدوں کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے، 5 اگست 2019 کو اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-A کو منسوخ کر دیاتاکہ 5 اگست 2019 کو کی گئی غیر قانونی کارروائی کی سازش، انجینئرنگ ڈیموگرافک اور مقبوضہ علاقے میں سیاسی تبدیلیوں کی آڑمیں کشمیریوں کو پنی ہی سرزمین میں بے اختیار اقلیت میں تبدیل کردیا جائے۔
اس طرح کشمیریوں کے آزادی اور خود ارادیت کے مطالبے کوختم کردیا جائے۔ لہذا اب دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے بے لگام قابض فوج کو برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کو اپنی ہی سرزمین میں اقلیت بنا ئے جانے کے براہ راست حملے کا سامنا ہیھارت نے اپنی قابض افواج کو زیر محاصرہ علاقے میں دہشت کا راج قائم کرنے کے لیے کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ انسانی حقوق کی معتبر تنظیموں کی طرف سے ان خلاف ورزیوں کی تفصیلی رپورٹس موجود ہیں جن میں ماورائے عدالت ہلاکتوں، حراست میں ہونے والی اموات، غیر ارادی طور پر گمشدگیوں، من مانی حراست، تشدد، ذلت آمیز سزائیں، عصمت دری اور چھیڑ چھاڑ، اجتماعی سزا، حقوق کی پامالی اظہار رائے کی آزادی اور مذہب اور عقیدہ تک کا احاطہ کیا گیا ہے۔ بھارت یہ سب کرتے ہوئے اس بات سے غافل ہے کہ وہ طاقت اور دھوکہ دہی سے ہی کچھ وقت لے سکتا ہے جو کسی دن ختم ہو جائے گا۔ پرامن اور جمہوری طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو اپنی مرضی کا حق خود ارادیت استعمال کرنے دیا جائے۔ تنازعہ کے دونوں فریق، پاکستان اور بھارت پہلے ہی کشمیریوں کی مرضی کا پتہ لگانے کے لیے اقوام متحدہ کے زیر انتظام آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے پر رضامندیظاہر کر چکے تھے۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے 12 فروری 1951 کوبھارتی پارلیمنٹ میں اپنے بیان میں کہا تھا کہ ”ہم نے اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں ٹھایا اور اس کے پرامن حل کے لیے اپنی عزت کا لفظ دیا ہے۔ ایک عظیم قوم کی حیثیت سے ہم پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ اس سلسلہ میں ہم نے مسئلہ کوکشمیر کے عوام پر چھوڑ دیا ہے اور ہم ان کے فیصلے کی پاسداری کے لیے پرعزم ہیں۔
ان حالات میں جب بین الاقوامی امن اور انصاف کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی اداروں کی ساکھ دا پر لگی ہوئی ہے، یہ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جموں و کشمیر کے تنازع پر اپنی قراردادوں پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ بھارت پر زور ددیاجائے کہ وہ غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں کو ختم کرے اور غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 سے کیے گئے اپنے تمام غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو واپس لے تاکہ انسانی حقوق کی عالمگیریت میں کمزوروں اور مظلوموں کا اعتماد بحال کیا جا سکے۔
آئیے آج ہم یہ عہد کریں کہ حق خودارادیت کے کشمیریوں کے منصفانہ اور جائز مطالبے کے ساتھ اپنی مضبوط یکجہتی کا اعادہ کریں اور بھارت سے مطالبہ کریں کہ وہ کشمیری عوام کی مرضی کا تعین کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے زیر انتظام آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے کے اپنے وعدے کو پورا کرے۔ ایک دن ظالموں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے گا اور آخرکار انصاف کا بول بالاہو گا۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

پڑھیں:

مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں سچ بولنے پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے

ذرائع کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور سچ بولنے پر ان کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ آج جب دنیا بھر میں صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، بھارتی فورسز کے اہلکار کشمیری صحافیوں کو مسلسل ہراساں اور گرفتار کر رہے ہیں اور انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ذرائع کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور سچ بولنے پر ان کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کی زیر قیادت بھارتی حکومت مقبوضہ علاقے میں میڈیا کا گلا گھونٹنے کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، انہیں گرفتاریوں، پوچھ گچھ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مخصوص واقعات میں صحافیوں سے ان کے ذرائع کے بارے میں پوچھ گچھ، آلات کی ضبطگی اور سوشل میڈیا پوسٹس یا خبروں کی رپورٹنگ پر ملک دشمن قرار دینے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس سے مقبوضہ علاقے میں صحافیوں کے اندر خوف و دہشت اور سیلف سنسر شپ کا کلچر پیدا ہوا ہے۔2019ء میں دفعہ370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی صحافت میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ مقامی صحافیوں کو ہراساں کیے جانے، نگرانی اور انسداد دہشت گردی کے الزامات کا سامنا ہے جبکہ غیر ملکی نامہ نگاروں کو تنقیدی رپورٹنگ پر علاقے تک رسائی سے انکار یا ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد بھارتی بیانیے کو فروغ دینا اور خطے میں حالات معمول کے مطابق ظاہر کرنا ہے جس پر بین الاقوامی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے۔ الجزیرہ نے نومبر 2024ء کی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اکتوبر کی ایک سرد دوپہر کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں دس سالہ تجربہ رکھنے والے صحافی 33سالہ احمد(فرضی نام) کو ایک نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی۔ کال کرنے والے نے اپنی شناخت ایک پولیس افسر کے طور پر کرتے ہوئے احمد سے اس کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں سوالات پوچھے۔احمد نے انتقامی کارروائیوں کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر الجزیرہ کو بتایا کہ ایسا پہلی بار نہیں تھا بلکہ گزشتہ پانچ سالوں میں مجھے ہر چند ماہ بعد اس طرح کی کالیں موصول ہوتی رہی ہیں۔

احمد کا کہنا ہے کہ وہ پوچھتے ہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں، میں اس وقت کس کے لئے لکھ رہا ہوں، میں کس قسم کی خبریں چلاتا ہوں اور یہاں تک کہ آیا میں نے حال ہی میں بیرون ملک سفر کیا ہے؟سرینگر میں ایک صحافی نے بتایا کہ پچھلے چھ سالوں سے کم از کم ایک درجن ممتاز صحافیوں کو مسلسل نگرانی میں رکھا جا رہا ہے۔ ان سے ان کی رپورٹنگ یا سفر کے بارے میں تفصیلات پوچھی جا رہی ہیں جس سے حق رازداری اور پریس کی آزادی کا حق سلب کیا جا رہا ہے۔ ان صحافیوں کے پاسپورٹ ضبط کر لیے گئے ہیں جس سے انہیں بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس ماحول نے صحافیوں کو سیلف سنسر شپ اور حساس موضوعات سے گریز پر مجبور کیا ہے۔
متعدد صحافیوں پر کالے قوانین لاگوں کئے گئے ہیں جن کے تحت بغیر مقدمہ چلائے گرفتار اور نظربند کیا جا سکتا ہے۔ کئی صحافیوں کو نام نہاد مشکوک سرگرمیوں پر گرفتار اور نظربند کیا گیا ہے اور انہیں ضمانت پر رہا ہوتے ہی دوبارہ گرفتار کیا جاتا ہے۔

صحافیوں کو ان کے ذرائع یا رپورٹنگ کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا جاتا ہے اور موبائل فون، لیپ ٹاپ اور کیمرے سمیت ان کا سامان ضبط کیا جاتا ہے اور اکثر واپس نہیں کیا جاتا۔ احتجاجی مظاہروں کی کوریج کے دوران کئی صحافیوں کو پولیس نے مارا پیٹا۔ کئی صحافیوں کو گرفتار کر کے طویل عرصے تک نظربند کیا گیا۔ اگست 2018ء میں آصف سلطان کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت سرینگر میں فائرنگ سے متعلق ایک خبر چلانے پر گرفتار کیا گیا۔ مسرت زہرہ کو کالے قانون یو اے پی اے کے تحت اپریل 2020ء میں سوشل میڈیا پوسٹس پر ملک دشمن قرار دیا گیا جو اب جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ الجزیرہ اور بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سجاد گل کو جنوری 2022ء میں گرفتار کیا گیا اور رہائی کے عدالتی حکم کے باوجود پی ایس اے کے تحت نظربند رکھا گیا۔

عرفان معراج کو مارچ 2023ء میں بھارت مخالف سرگرمیوں کے الزام پر کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا۔ فہد شاہ کو بی جے پی حکومت اور اس کی پالیسیوں پر تنقیدی رپورٹس شائع کرنے پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ پیرزادہ عاشق کے خلاف اپریل 2020ء میں ایک خبر چلانے پر مقدمہ درج کیا گیا۔ پلٹزر ایوارڈ یافتہ فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد متو اور مصنف گوہر گیلانی سمیت کئی ممتاز صحافیوں کو بھارتی حکام نے فرانس، امریکہ اور جرمنی جیسے ممالک میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنسوں، ایوارڈ زکی تقریبات اور نمائشوں میں شرکت سے روکنے کے لیے بیرون ملک سفر نہیں کرنے دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی حکومت علاقے میں میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے بار بار گرفتاریوں سمیت ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ دفعہ 370کی منسوخی سے پہلے اور بعد میں آصف سلطان، فہد شاہ، ماجد حیدری اور سجاد گل جیسے نامور صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی پر کالے قوانین پی ایس اے اور یواے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ ممتاز صحافی عرفان معراج انہی کالے قوانین کے تحت دہلی کی تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں۔

بی جے پی حکومت نے 2014ء میں اقتدار میں آنے کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں درجنوں صحافیوں کو گرفتار اور ہراساں کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020ء میں نام نہاد میڈیا پالیسی متعارف کرانے کے بعد بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزاد صحافت کو تقریبا ناممکن بنا دیا ہے۔ صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے ہراساں اور اغوا کیا جاتا ہے، دھمکیاں دی جاتی ہیں اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافت کو جرم بنا کر زمینی حقائق کو چھپا رہا ہے۔ د

ی وائر کے ایک تجزیے میں کہا گیا ہے کہ سرینگر سے شائع ہونے والے اخبارات کے ادارتی صفحات بی جے پی کے بیانیے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ تجزیہ سے پتا چلا ہے کہ اخبارات کے مضامین میں تنازعہ کشمیر جیسے موضوعات پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے غیر سیاسی مسائل پر بحث کی جاتی ہے۔ 2024ء میں فرانسیسی صحافی وینیسا ڈوگناک کو جو طویل عرصے سے کشمیر اور دیگر حساس مسائل پر رپورٹنگ کرنے پر مودی کی ہندوتوا حکومت کی نگرانی میں تھیں، بھارت سے نکال دیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014ء سے بی جے پی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر اور بھارت بھر میں 20 سے زیادہ صحافیوں کو گرفتار کیا ہے۔

بھارت میں سیاسی اسکینڈلز کی تحقیقات کے لیے مشہور صحافی راجیو پرتاپ کے حالیہ قتل نے صحافیوں کو درپیش خطرات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ پرتاپ 18 ستمبر 2025ء کو اتراکھنڈ میں لاپتہ ہو گیا تھا اور دس دن بعد اس کی لاش اترکاشی ضلع کے جوشیارہ ہائیڈرو الیکٹرک بیراج سے ملی تھی۔ اسی طرح روزنامہ جاگرن کے صحافی راگھویندر باجپائی کو 8 مارچ 2025ء کو بی جے پی کے زیر اقتدار ریاست اتر پردیش کے ضلع سیتاپور میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ مندر کے ایک پجاری نے اس کے قتل کا منصوبہ بنایا جب باجپائی نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا اور اسے کیمرے میں ریکارڈ کیا۔ایک اور کیس میں چھتیس گڑھ کے ضلع بیجاپور سے تعلق رکھنے والے ایک 33 سالہ فری لانس صحافی مکیش چندراکر لاپتہ ہو گیا جس نے یکم جنوری 2025ء کو بستر کے علاقے میں 120کروڑ روپے لاگت کی سڑک کی تعمیر کے منصوبے میں بدعنوانی کو بے نقاب کیا تھا۔ دو دن بعد اس کی لاش ایک ٹینک سے ملی جو ایک مقامی کنٹریکٹر کی ملکیت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جموں قتل ِ عام اور الحاقِ کشمیر کے متنازع قانونی پس منظر کا جائزہ
  • کشمیر کی صورتِحال پر عالمی خاموشی خطرناک ہے: مشعال ملک
  • ایسی دنیا چاہتے ہیں جہاں مساوات، یکجہتی و انسانی حقوق کا احترام ہو، آصف زرداری
  • ایسی دنیا چاہتے ہیں جہاں مساوات، یکجہتی اور انسانی حقوق کا احترام ہو، آصف زرداری
  • یومِ شہدائے جموں پر آئی ایس پی آر کا نیا نغمہ جاری
  • وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے وفاق سے صوبائی حقوق کیلئے باضابطہ خط و کتابت کا کہہ دیا
  • اقوام متحدہ، یورپی یونین، اوآئی سی سے کشمیری حریت رہنمائوں کی رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ
  • مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں سچ بولنے پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے
  • امریکی صدر کے حکم پر کیریبین میں منشیات بردار کشتی پر حملہ، 3 افراد ہلاک
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات