اپوزیشن کی بڑی بیٹھک، اکٹھے چلنے کا فیصلہ، ایجنڈے کیلیے کمیٹی قائم
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
اپوزیشن جماعتوں کی قیادت نے قومی ایجنڈے کی تیاری کیلیے کمیٹی کی تشکیل پر اتفاق کرتے ہوئے مل کر چلنے کا فیصلہ کیا ہے.
مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت دھاندلی زدہ الیکشن کی پیداوار ہے جو عوام کی نمائندہ نہیں، یہ حکومت اور الیکشن کمیشن فوری مستعفی ہو جائیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر کے گھراپوزیشن رہنماؤں کا اکٹھ،دھاندلی زدہ الیکشن کے نتیجے میں بننے والی حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا.
سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی بنی گالہ رہائش گاہ پرعشائیہ میں مولانا فضل الرحمن، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، محمود اچکزئی،مصطفی نواز کھوکھر ، پی ٹی آئی کے پی کے کے صدر و چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی جنید اکبراور دیگر رہنما شریک ہوئے۔
ایکسپریس نیوز کو اپنے ذرائع نے اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کے اجلاس کی اندرونی کہانی بتائی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی قیادت نے آئندہ مل کر چلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے قومی ایجنڈے کی تیاری کیلئے کمیٹی بنانے پر اتفاق کیا.
کمیٹی میں جمعیت علمائے اسلام اورپی ٹی آئی کا ایک ایک نمائندہ، شاہد خاقان عباسی اور مصطفی نواز کھوکھر شامل ہونگے،اجلاس میں مولانا فضل الرحمان جارحانہ موڈ میں دکھائی دیئے اور کہاکہ مشترکہ اعلامیہ میں پہلا نکتہ رکھیں کہ یہ عوام کی نمائندہ حکومت نہیں، مستعفی ہوجائے.
مولانا فضل الرحمان نے کسی کا نام لئے بغیردوٹوک الفاظ میں تحریک انصاف کی قیادت سے کہاکہ وہ پہلے ہمارے ساتھ اپنے معاملات کو حل کرے.
مصطفی نواز کھوکھرکا کہنا تھا کہ ہمیں اقتدار کی بجائے اقدار کی سیاست کرنے کی ضرورت ہے، ہماری سیاست عام آدمی کے فائدہ کیلئے ہونی چاہیے۔
ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ اپوزیشن اتحاد کے اجلاس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا،سب جماعتوں کا یہ موقف تھا کہ 8 فروری کا الیکشن دھاندلی زدہ الیکشن تھا،یہ مینڈیٹ عوام کا نہیں،شاہد خاقان عباسی نے میڈیا سے گفتگومیں پیکا ایکٹ کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مولانا فضل کی قیادت
پڑھیں:
تنزانیہ میں الیکشن تنازع شدت اختیار کرگیا، مظاہروں میں 700 افراد ہلاک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تنزانیہ میں عام انتخابات کے نتائج نے ملک کو شدید سیاسی بحران میں دھکیل دیا ہے، جہاں اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق صدر سمیعہ صولوہو حسن نے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی، تاہم اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ ان کے مرکزی رہنماؤں کو قید میں ڈال دیا گیا یا انہیں انتخابی عمل میں حصہ لینے سے روک دیا گیا، جس کے باعث نتائج مشکوک بن گئے ہیں۔
اپوزیشن جماعت چادیما نے نتائج کو غیر شفاف قرار دیتے ہوئے ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا ہے اور دارالحکومت سمیت کئی شہروں میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے ہیں، جہاں مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اپوزیشن ذرائع کے مطابق پولیس اور فوج کی فائرنگ اور تشدد کے نتیجے میں اب تک 700 سے زائد افراد ہلاک جب کہ سیکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔
مظاہرین نے کئی علاقوں میں سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کیں، گاڑیوں کو آگ لگائی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، لاٹھی چارج اور فائرنگ کا استعمال کیا۔ دوسری جانب حکومت نے دارالحکومت سمیت ادیگر حساس شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے، انٹرنیٹ سروسز بھی معطل ہیں جب کہ فوج کو سڑکوں پر تعینات کر دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے مظاہرین کی ہلاکتوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکورٹی فورسز کو عوام کے خلاف غیر ضروری طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اب تک کم از کم 100 ہلاکتوں کی تصدیق ہوچکی ہے، تاہم اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔