Nai Baat:
2025-07-26@22:16:14 GMT

پاکستانیوں کی عزت نفس

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

پاکستانیوں کی عزت نفس

معروف دانشور اشفاق احمد نے کیا خوب کہا تھا کہ انسان غیروں سے ملی عزت اور اپنوں سے ملی ذلت کو کبھی نہیں بھولتا۔ گویا
عزت نفس سے ہر حرف کو اونچا رکھو
اپنی آواز نہیں ظرف کو اونچا رکھو
انسانی رویے اپنا اثر رکھتے ہیں۔ الفاظ کی کاٹ اور لہجے کی درشتگی کا انسان کے کردار و عمل کی تعمیر میں اہم کردار ہوتا ہے۔ معاشرہ اور قوموں کی تشکیل میں عزت نفس کا ایک اہم کردار ہے۔ انسانی معاشروں میں عزت نفس کا خیال چاہے انفرادی سطح پر کیا جائے یا پھر اجتماعی سطح پر، دونوں پہلوؤں کے انسانی رویوں پر گہرے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ جب کسی کو نصیحت کرو تو لہجے کو درست رکھو اور بات خوشگوار انداز میں کرو کیونکہ لہجے کی کرختگی اور عزت نفس کو مجروح کرنے سے ایسا بگاڑ پیدا ہوتا ہے جس کے اثرات نسلوں تک رہتے ہیں۔ کسی کو گالی دینا اور حقیر سمجھنا انسانی نفسیات کے لیے زہر قاتل ہے۔سینئر بیوروکریٹ صغیر شاہد انتہائی خوش اخلاق اور شائستگی سے بھرپور انسان ہیں ایک ملاقات میں ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ریاست یا معاشرے کی ترقی محض مادی وسائل اور ترقیاتی منصوبے شروع کرنے سے منتج نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار اس امر پر ہے کہ ریاست، ارباب اختیار اور اس کی مشینری اس ریاست کے باسیوں کے عزت نفس کا کتنا خیال رکھتے ہیں یعنی احترام انسانیت میں ہی معاشروں اور ریاست کی اصل ترقی مضمر ہے۔آپ چاہے جتنی بھی اچھی عمارتیں تعمیر کر لیں یا پھر سڑکوں کا جال بچھا لیں یا پھر بھلائی کے دیگر منصوبے شروع کر لیں لیکن اگر سرکاری مشینری اپنے شہریوں کی تذلیل کو اپنا شعار بنا لیتی ہے تو پھر آپ بھول جائیں کہ اس ریاست کے باشندے اس کی ترقی میں دل سے اپنا حصہ ڈالیں گے۔

ایک اسسٹنٹ کمشنر کی جانب سے شہریوں کی گاڑیوں کے ٹائروں کو پنکچر کرتے ہوئے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ریاست کی مشینری اور بیکار کریسی کیسے پاکستانی شہریوں کو اپنا غلام سمجھتی اور ان کے ساتھ وہ ناروا رویہ رکھنا اپنا حق سمجھتی ہے۔ اس اقدام سے اس امر کی بھی غمازی ہوتی ہے کہ ریاست پاکستان میں حکمران اور حکمران مشینری شہریوں کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے قانون اور نظام کے نام پر ’’رگڑا‘‘ لگانے پر یقین رکھتی ہے۔ملتان میں ایک بزرگ شہری کے ساتھ غیر ملکی کرکٹ ٹیم کے سڑک سے گزرنے کے دوران ایک سرکاری اہل کار نے جس ’’تہذیب و تمدن‘‘ کا اظہار کیا وہ ساری قوم کا سر شرم سے جھکانے کے لیے کافی ہے۔ ہمارے ایک اور دوست معروف صنعت کار اور لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سابق وائس چیئرمین ایس ایم عمران کا کہنا ہے نظام کو چلانے کے دو طریقے ہیں ایک جبر، سخت قوانین اور ڈنڈے کے زور پر اور دوسرا عوام کو عزت دے کر، انہیں سہولیات فراہم کر کے اور ہمدردی اور محبت کا اظہار کر کے۔ بدقسمتی سے دوسرا طریقہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو آتا ہے اور نہ ہی سرکاری مشینری کو، وہ ایسا کرنا سیکھے ہی نہیں یہ نظام کو طاقت اور جبر سے چلانا چاہتے ہیں۔ ترقی کے پروجیکٹ شروع کرنے سے عوام کو سہولت میسر آتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر نواز شریف دور میں موٹروے بنی تو وہ نواز شریف کی جانب سے پاکستانی قوم کو ایک تحفہ تھا۔ سڑکوں کا جال بننے سے انسان قریب آتے ہیں اور ملک ترقی کرتا ہے۔ تاہم ایسے بڑے ترقیاتی پروجیکٹ بھی عوام کی نظر میں اپنی اہمیت اور افادیت کھو دیتے ہیں اگر ان کی عزت نفس کو مجروح کیا جائے یا پھر ان کی تذلیل کی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ایک دوست بیرون ملک چلے گئے اور انہوں نے وہاں کی حکومت کو ایک خط لکھا کہ ان کے پاس ایک لاکھ ڈالر ہے اور وہ کوئی کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بتایا جائے کہ ان کے لیے کون سا کاروبار بہتر ہے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ انہیں درجنوں سرکاری محکموں نے رابطہ کر لیا اور انہیں مختلف کاروبار کرنے کی فزیبلٹی رپورٹس فراہم کر دی گئیں۔ اس دوران ان سرکاری محکموں میں انہیں بہت عزت و احترام دیا گیا۔ تاہم یہاں دیکھ لیں کہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے تاجروں کو اور بزنس مینوں کو سرکاری سطح پر جس تحقیر کا سامنا ہے اور جس طرح انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس کے بعد کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کوئی پاکستان میں انویسٹمنٹ کرنا پسند کرے گا۔
ملک کی معیشت کی صورت حالات پہلے ہی دگر گوں ہے۔ صنعت کار اپنا کاروبار سمیٹ کر بیرون ملک شفٹ ہو رہے ہیں جب کہ نوجوان روزگار کی تلاش میں بیرون ملک اپنی جانیں گنواتے نظر آتے ہیں۔ ان کے بیرون ملک جانے میں بھی وہ تلخ رویہ اور ناروا سلوک بھی ذمہ دار ہے جس کا سامنا سرکاری مشینری کی جانب سے ہر پاکستانی کو ہے۔ قارئین! یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت ہر مقام اور عہدے پر ایک فرعون بیٹھا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ کوئی بڑا فرعون ہے تو کوئی چھوٹا فرعون۔ کوئی بھی کام پیسے دئیے بغیر نہیں ہوتا۔ ایسے میں تضحیک اور بے توقیری کا احساس ہر شہری کے لیے کسی اذیت سے کم نہیں ہوتا۔ عزت نفس کا احساس ناتوانوں کو ذلت و پستی کی گمراہیوں سے نکالتا ہے اور ستاروں کی بلندی اور چمک سے روشناس کراتا ہے۔ یاد رکھیے! ذلت اور پستی کا علاج سر اٹھانے میں ہے، دنیا کی سروری، شمشیر و سناں میں اور قوم کا رعب ان کے اتحاد میں پوشیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی‘‘۔
دینی عزت اور اسلام کا شرف وہ قیمتی احساسات ہیں جن کا بیج شریعت ربانی نے ہماری کشت جان میں بویا اور مسلمانوں کو ذلت و پستی کے گڑھوں میں گرنے سے محفوظ رکھا ہے۔ ایک مسلمان فطری طور پر صاحبِ حمیت اور غیرت مند ہوتا ہے، وہ کبھی ذلت و پستی کو گوارا نہیں کرتا۔ وہ کسی سرکش کے سامنے سر نہیں جھکاتا، وہ کسی زبان دراز سے خوفزدہ ہوتا ہے اور نہ الزام تراشی کو خاطر میں لاتا ہے۔ وہ کسی بھی جابر کے سامنے کمزور نہیں پڑتا، وہ کسی کی خوشامد نہیں کرتا، کسی کی مکاری میں آتا اور نہ کسی کمینے بزدل کی رفاقت اختیار کرتا ہے۔ اس لیے کہ عزت نفس مسلمانوں کے خون میں گردش کرتی ہے۔ اللہ وحدہ کی توفیق سے اس میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ اس راہ میں دینِ ربانی اس کا مددگار اور حقیقی ایمان اس کا سرمایہ ہے۔ پاکستان کی ترقی کا راز بھی اس میں مضمر ہے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ، نظام اور مشینری اس کے باسیوں کو عزت دے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: عزت نفس کا بیرون ملک ا ہے اور ہوتا ہے وہ کسی کے لیے

پڑھیں:

رائے عامہ

جب‘ اس خودنوشت کو پڑھنا شروع کیا۔ تو مصنف‘ رائے ریاض حسین کو قطعاً نہیں جانتا تھا۔ یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کس طرح کے لکھاری ہیں۔ اس کتاب کے ورق پلٹتا گیا تو ورطہ حیرت میں ڈوب گیا۔ سادہ لفظوں پر مشتمل ‘ دل پر اثر کرنے والی تحریر۔ اب ایسے گمان ہے کہ برادرم ریاض کو بہت بہتر طریقہ سے جانتا ہوں۔ اپنی زندگی پر متعدد لوگ ‘ لکھتے رہتے ہیں۔ مگر جس ایمانداری اور تہذیب سے مصنف نے لکھنے کا حق ادا کیا ہے ۔

وہ بہت کم لوگ نباہ پاتے ہیں۔ دراصل اپنی آپ بیتی کو انصاف سے لکھنا آسان نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے جید لکھاری‘ دوران تحریر ڈول جاتے ہیں۔ مگر ریاض حسین نے حد درجہ ایمانداری سے اپنی سرکاری اور خاندانی زندگی کا ذکر کیا ہے۔ یہ نکتہ قابل ستائش ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ رائے ریاض مجھ سے کافی سینئر ہیں اور ان سے دم تحریر ‘ کبھی بھی ملاقات نہ ہو پائی۔ مگر ان کی اور میری زندگی میں کافی قدریںمشترک ہیں۔ تقریباً ایک ہی علاقے سے تعلق‘ اپنی جنم بھومی سے عشق‘ ملک سے شدید محبت اور طاقت کے ایوانوں میں زندگی صرف کرنی۔ کہتا چلوں کہ سرکاری ملازم کے تجربات ‘ اس قدر متنوع اور منفرد ہوتے ہیں‘ کہ اگر آپ نے سرکار کی نوکری نہیں کی ہوئی۔ تو شاید اس کینوس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔

کبھی آپ اقتدار کی غلام گردشوں میں حد درجہ اہم ہوتے ہیں۔ اور کبھی اسی دربار میں معتوب قرار دیے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے متعدد المیوں میں یہ بھی ہے کہ ایک دور میں آپ کو بہترین افسر قرار دیا جاتا ہے۔ کام کی بھرپور ستائش ہوتی ہے۔ اور جب اس کے بعد‘ کوئی متضاد بادشاہ ‘ تخت نشین ہوتا ہے۔تو آپ کو نکما ‘ نکھٹو اور خزانے پر بوجھ بتایا جاتا ہے۔ یہ اتار چڑھاؤ ‘ بہت مشکل ہوتے ہیں‘ اور ہر سرکاری غلام‘ ان میں سے گزرتا ہے۔ بات ’’رائے عامہ‘‘ کی ہو رہی تھی۔ دونشستوں میں اول سے آخری صفحے تک ورق گردانی کرلی۔ اس خوبصورت تحریر سے چند اقتباسات ‘ خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

برادرم حامد میر لکھتے ہیں:ایک دفعہ میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے دہلی گیا تو رائے صاحب بھی وہاں آئے ۔ میں نے کانفرنس کی آرگنائزر راجیت کور کو بتایا کہ رائے ریاض حسین دہلی میں چلتا پھرتا پاکستان ہے۔ رائے صاحب کی اس کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے بار بار احساس ہوا کہ رائے ریاض حسین سرکاری ملازمت سے تو ریٹائر ہو گئے لیکن ان کی پاکستانیت ابھی تک ریٹائر نہیں ہوئی۔ یہ کتاب ایک سچے انسان کی سچی کہانی ہے۔

مصنف آگے لکھتا ہے۔1993کے آخر میں صدر غلام اسحاق خان اور میاں نواز شریف کے درمیان رسہ کشی جاری تھی۔ میاں صاحب ہر ویک اینڈ پر لاہور جاتے تھے۔پریس سیکریٹری سید انور محمود کے پاس پرنسپل انفارمیشن آفیسر (PIO) کا چارج بھی تھا۔ اس لیے لاہور وزیراعظم کے ساتھ میں جاتا تھا۔ آخری دنوں میں ایک عجیب کام شروع ہوا کہ کابینہ کے وزرا ء نے ایک ایک کر کے استعفے دینے شروع کر دیے۔

ایک ویک اینڈ پر صبح سویرے جب ہم اسلام آباد سے لاہور وزیراعظم کے خصوصی جہاز میں روانہ ہونے لگے تو میاں صاحب حسب معمول سب اسٹاف ممبران اور سیکیورٹی کے لوگوں سے ہاتھ ملانے کے لیے جہاز میں پچھلی طرف آئے۔ جب انھوں نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا تو میں نے السلام علیکم کے بعد آہستہ سے کہا ’’جی وہ حسین حقانی نے بھی کام دکھا دیا ہے‘‘۔ میاں صاحب پہلے آگے ہوئے لیکن فوراً واپس ہوئے اور مجھ سے آہستہ سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ میںنے کہا کہ اس نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ حسین حقانی ان دنوں پریس اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر تھے اور فارن پریس کو دیکھتے تھے۔ میاں صاحب نے جب یہ سنا تو آہستہ سے میرے کان میں کہا کہ’’… امریکا کا ایجنٹ ہے‘‘۔ میں کافی دیر تک سوچتا رہاکہ اگر امریکی ایجنٹ ہے تو اتنا عرصہ آپ کے ساتھ کیا کرتا رہا۔ نہ جانے کس مجبوری کے تحت میاں صاحب نے اسے پریس اسسٹنٹ رکھا ہوا تھا۔

دہلی میں پاکستانی سفارت خانے میں تعیناتی کے دورانیہ میں وہاں کی منظر کشی کمال ہے۔12اکتوبر 1999:دہلی ایئرپورٹ جو کہ لاہورکے بادامی باغ بس اسٹینڈ سے بھی بدتر ہے‘ سے اڑ کر آنے والا مسافر جب لاہور ایئرپورٹ پر اترتا ہے اور پھر موٹروے کے ذریعے اسلام آباد آتا ہے تو وہ تقریباً بیہوش ہو جاتا ہے۔

’’بیہوشی‘‘ کے اس سفر کی داستان میں کئی بھارتی دوستوں سے سن چکا ہوں جو پہلی دفعہ پاکستان آتے ہیں اور پھر واپس جا کر پاکستانیوں کی مہمان نوازی کے قصے سناتے ہوئے ان کے منہ سوکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ شیوسینا اور آر ایس ایس کے تربیت یافتہ ‘ بی جے پی کے رہنما پر اس تجربے کا خوشگوار اثر پڑا ہو گا مگر صدیوں کے تجرے کے بعد میں یہ نہیں سمجھتا کہ اس دورے سے بھارت کی سوچ بدل جائے گی یا دل بدل (Change of Heart) جائے گا۔ اس کے لیے ہمیں تین ہزار سال قبل مسیح پہلے پیدا ہونے والا فلسفی‘ جو دنیا کی پہلی یونیورسٹی ٹیکسلا سے منسلک رہا اور چندر گپت موریہ خاندان کی حکومت کو نظریاتی اساس فراہم کی‘ چانکیہ کی تعلیمات پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔

محسن پاکستان ہم شرمندہ ہیں:محسن پاکستان مجھے آپ کا کہوٹہ میں دفتر اس وقت دیکھنے کا موقع ملا جب ایک بہت اہم دوست ملک کی خاص شخصیت وہاں کے دورے پر گئی اور میں سرکاری ڈیوٹی پر تھا تو آپ کے دفتر کے اردگرد چاروں طرف کمرے میں نے خود دیکھے اور سیکیورٹی تو الامان۔ جب آپ پر نیوکلیئر سنٹری فیوجز بیچنے کا الزام لگا تو میں حیران و پریشان تھا کہ اس قسم کی سیکیورٹی میں آپ کس طرح سنٹری فیوجز نہ صرف وہاں سے باہر بلکہ ملک سے باہر بھیج سکتے ہیں یہ کوئی ایسی چیز تو نہیں جو انسان اکیلا جیب میں ڈال کر باہر لے جائے۔

مجھے آج تک آپ کے دفتر کے سامنے چھوٹے سے میوزیم میں رکھا ہوا پتھر یاد ہے۔ جاسوسی کرنے والا پتھر ایک چرواہے کی مدد سے منظر عام پر آیا۔ اس ’’پتھر‘‘ کے اندر سے نکلے ہوئے آلات کسی عام انسان کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی تھے مگر آپ نہایت اطمینان اور حد درجہ طمانیت سے مہمانوں کو اس ’’پتھر‘‘ کی داستان سنا رہے تھے ۔ جو آپ کی جاسوسی پر تعینات کیاگیا تھا اور بالآخر وہ بھی ناکام و نامراد ہوا۔

رائے ریاض حسین نواز ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ شہباز شریف کے ساتھ نیویارک میں راٹھور صاحب نے سارا دن گزارا تھا انھیں اور ڈرائیور کو شدید بھوک لگی ہوئی تھی ایک ریسٹورنٹ پر شہباز شریف نے دو برگر خریدے اور وہ دونوں برگرخود ہی کھا لیے ۔

تاج محل آگرہ واقعی دنیا کی خوبصورت ترین چیز ہے‘ یقین نہیں آتا کہ یہ شاہکار انسان نے تخلیق کیا ہے ۔ مگر آگرہ شہر اتنا گندہ اور غلیظ ہے کہ الامان۔ ہر طرف گائیں ‘ سور اور بندر گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔

تاج محل تو بس یوں ہے کہ جیسے کسی نے ہیرے جواہرات سے جڑا ہوا تاج کسی کوڑے کے ڈھیر پر رکھ دیا ہو۔ تاج محل کا نظارہ قلعے کی اس کھڑکی سے بہت دلفریب ہے جہاں سے شاہ جہاں بیٹھ کر نظارہ کیا کرتا تھا۔ دریائے جمنا البتہ سوکھ چکا ہے مگر تاج محل اپنی آب و تاب سے قائم ہے۔ محبت کی ایک یادگار کے طورپر اور ممتاز محل اور شاہ جہاں کی یاد دلاتا ہے۔ بھارت کی سرزمین پر جگہ جگہ مسلمانوں کی مہر ثبت ہے۔ دہلی کے اندر‘ اورنگ زیب روڈ‘ شاہ جہاں روڈ اور اکبر روڈ وغیرہ جگہ جگہ مسلمانوں کی یاد دلاتے ہیں۔

یہ کتاب اتنی پرتاثیر ہے کہ بار بار پڑھنے کو دل چاہتا ہے!

متعلقہ مضامین

  • نام ماں کا بھی
  • کلاؤڈ برسٹ کیا ہے اور یہ معاملہ کیوں پیش آتا ہے؟
  • بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے ترسیلات زر کی سہولت اسکیم جاری رکھنے کا فیصلہ
  • وزیرِ اعظم کااوورسیزپاکستانیوں کی ترسیلات زربھیجنے کی سہولت سکیم کو جاری رکھنے کافیصلہ
  • پاکستانیوں کی جانب سے بیرون ملک انڈسٹری کا قیام اور ملک میں سرمایہ کاری انتہائی خوش آئند اقدامات ہیں ، گور نر فیصل کریم کنڈی
  • سستے میں اچھا دکھنے کا شوق: پاکستانیوں نے کروڑوں کے لنڈا کے کپڑے خرید لئے
  • ظلم کا لفظ کم پڑ گیا، غزہ، کربلا کی صدا
  • یہ جنگ مرد و عورت کی نہیں!
  • رائے عامہ
  • لیبیا کشتی حادثہ، مزید 2میتیں پاراچنار پہنچا دی گئیں