معروف دانشور اشفاق احمد نے کیا خوب کہا تھا کہ انسان غیروں سے ملی عزت اور اپنوں سے ملی ذلت کو کبھی نہیں بھولتا۔ گویا
عزت نفس سے ہر حرف کو اونچا رکھو
اپنی آواز نہیں ظرف کو اونچا رکھو
انسانی رویے اپنا اثر رکھتے ہیں۔ الفاظ کی کاٹ اور لہجے کی درشتگی کا انسان کے کردار و عمل کی تعمیر میں اہم کردار ہوتا ہے۔ معاشرہ اور قوموں کی تشکیل میں عزت نفس کا ایک اہم کردار ہے۔ انسانی معاشروں میں عزت نفس کا خیال چاہے انفرادی سطح پر کیا جائے یا پھر اجتماعی سطح پر، دونوں پہلوؤں کے انسانی رویوں پر گہرے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ جب کسی کو نصیحت کرو تو لہجے کو درست رکھو اور بات خوشگوار انداز میں کرو کیونکہ لہجے کی کرختگی اور عزت نفس کو مجروح کرنے سے ایسا بگاڑ پیدا ہوتا ہے جس کے اثرات نسلوں تک رہتے ہیں۔ کسی کو گالی دینا اور حقیر سمجھنا انسانی نفسیات کے لیے زہر قاتل ہے۔سینئر بیوروکریٹ صغیر شاہد انتہائی خوش اخلاق اور شائستگی سے بھرپور انسان ہیں ایک ملاقات میں ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ریاست یا معاشرے کی ترقی محض مادی وسائل اور ترقیاتی منصوبے شروع کرنے سے منتج نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار اس امر پر ہے کہ ریاست، ارباب اختیار اور اس کی مشینری اس ریاست کے باسیوں کے عزت نفس کا کتنا خیال رکھتے ہیں یعنی احترام انسانیت میں ہی معاشروں اور ریاست کی اصل ترقی مضمر ہے۔آپ چاہے جتنی بھی اچھی عمارتیں تعمیر کر لیں یا پھر سڑکوں کا جال بچھا لیں یا پھر بھلائی کے دیگر منصوبے شروع کر لیں لیکن اگر سرکاری مشینری اپنے شہریوں کی تذلیل کو اپنا شعار بنا لیتی ہے تو پھر آپ بھول جائیں کہ اس ریاست کے باشندے اس کی ترقی میں دل سے اپنا حصہ ڈالیں گے۔
ایک اسسٹنٹ کمشنر کی جانب سے شہریوں کی گاڑیوں کے ٹائروں کو پنکچر کرتے ہوئے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ریاست کی مشینری اور بیکار کریسی کیسے پاکستانی شہریوں کو اپنا غلام سمجھتی اور ان کے ساتھ وہ ناروا رویہ رکھنا اپنا حق سمجھتی ہے۔ اس اقدام سے اس امر کی بھی غمازی ہوتی ہے کہ ریاست پاکستان میں حکمران اور حکمران مشینری شہریوں کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے قانون اور نظام کے نام پر ’’رگڑا‘‘ لگانے پر یقین رکھتی ہے۔ملتان میں ایک بزرگ شہری کے ساتھ غیر ملکی کرکٹ ٹیم کے سڑک سے گزرنے کے دوران ایک سرکاری اہل کار نے جس ’’تہذیب و تمدن‘‘ کا اظہار کیا وہ ساری قوم کا سر شرم سے جھکانے کے لیے کافی ہے۔ ہمارے ایک اور دوست معروف صنعت کار اور لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سابق وائس چیئرمین ایس ایم عمران کا کہنا ہے نظام کو چلانے کے دو طریقے ہیں ایک جبر، سخت قوانین اور ڈنڈے کے زور پر اور دوسرا عوام کو عزت دے کر، انہیں سہولیات فراہم کر کے اور ہمدردی اور محبت کا اظہار کر کے۔ بدقسمتی سے دوسرا طریقہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو آتا ہے اور نہ ہی سرکاری مشینری کو، وہ ایسا کرنا سیکھے ہی نہیں یہ نظام کو طاقت اور جبر سے چلانا چاہتے ہیں۔ ترقی کے پروجیکٹ شروع کرنے سے عوام کو سہولت میسر آتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر نواز شریف دور میں موٹروے بنی تو وہ نواز شریف کی جانب سے پاکستانی قوم کو ایک تحفہ تھا۔ سڑکوں کا جال بننے سے انسان قریب آتے ہیں اور ملک ترقی کرتا ہے۔ تاہم ایسے بڑے ترقیاتی پروجیکٹ بھی عوام کی نظر میں اپنی اہمیت اور افادیت کھو دیتے ہیں اگر ان کی عزت نفس کو مجروح کیا جائے یا پھر ان کی تذلیل کی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ایک دوست بیرون ملک چلے گئے اور انہوں نے وہاں کی حکومت کو ایک خط لکھا کہ ان کے پاس ایک لاکھ ڈالر ہے اور وہ کوئی کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بتایا جائے کہ ان کے لیے کون سا کاروبار بہتر ہے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ انہیں درجنوں سرکاری محکموں نے رابطہ کر لیا اور انہیں مختلف کاروبار کرنے کی فزیبلٹی رپورٹس فراہم کر دی گئیں۔ اس دوران ان سرکاری محکموں میں انہیں بہت عزت و احترام دیا گیا۔ تاہم یہاں دیکھ لیں کہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے تاجروں کو اور بزنس مینوں کو سرکاری سطح پر جس تحقیر کا سامنا ہے اور جس طرح انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس کے بعد کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کوئی پاکستان میں انویسٹمنٹ کرنا پسند کرے گا۔
ملک کی معیشت کی صورت حالات پہلے ہی دگر گوں ہے۔ صنعت کار اپنا کاروبار سمیٹ کر بیرون ملک شفٹ ہو رہے ہیں جب کہ نوجوان روزگار کی تلاش میں بیرون ملک اپنی جانیں گنواتے نظر آتے ہیں۔ ان کے بیرون ملک جانے میں بھی وہ تلخ رویہ اور ناروا سلوک بھی ذمہ دار ہے جس کا سامنا سرکاری مشینری کی جانب سے ہر پاکستانی کو ہے۔ قارئین! یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت ہر مقام اور عہدے پر ایک فرعون بیٹھا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ کوئی بڑا فرعون ہے تو کوئی چھوٹا فرعون۔ کوئی بھی کام پیسے دئیے بغیر نہیں ہوتا۔ ایسے میں تضحیک اور بے توقیری کا احساس ہر شہری کے لیے کسی اذیت سے کم نہیں ہوتا۔ عزت نفس کا احساس ناتوانوں کو ذلت و پستی کی گمراہیوں سے نکالتا ہے اور ستاروں کی بلندی اور چمک سے روشناس کراتا ہے۔ یاد رکھیے! ذلت اور پستی کا علاج سر اٹھانے میں ہے، دنیا کی سروری، شمشیر و سناں میں اور قوم کا رعب ان کے اتحاد میں پوشیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی‘‘۔
دینی عزت اور اسلام کا شرف وہ قیمتی احساسات ہیں جن کا بیج شریعت ربانی نے ہماری کشت جان میں بویا اور مسلمانوں کو ذلت و پستی کے گڑھوں میں گرنے سے محفوظ رکھا ہے۔ ایک مسلمان فطری طور پر صاحبِ حمیت اور غیرت مند ہوتا ہے، وہ کبھی ذلت و پستی کو گوارا نہیں کرتا۔ وہ کسی سرکش کے سامنے سر نہیں جھکاتا، وہ کسی زبان دراز سے خوفزدہ ہوتا ہے اور نہ الزام تراشی کو خاطر میں لاتا ہے۔ وہ کسی بھی جابر کے سامنے کمزور نہیں پڑتا، وہ کسی کی خوشامد نہیں کرتا، کسی کی مکاری میں آتا اور نہ کسی کمینے بزدل کی رفاقت اختیار کرتا ہے۔ اس لیے کہ عزت نفس مسلمانوں کے خون میں گردش کرتی ہے۔ اللہ وحدہ کی توفیق سے اس میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ اس راہ میں دینِ ربانی اس کا مددگار اور حقیقی ایمان اس کا سرمایہ ہے۔ پاکستان کی ترقی کا راز بھی اس میں مضمر ہے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ، نظام اور مشینری اس کے باسیوں کو عزت دے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: عزت نفس کا بیرون ملک ا ہے اور ہوتا ہے وہ کسی کے لیے
پڑھیں:
Self Sabotage
ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ نے اسے ہرن جیسی ٹانگیں اور گھوڑے جیسے پھیپھڑے دیے تھے‘ وہ پورے گاؤں میں سب سے تیز بھاگتا تھا‘ وہ مسلسل سارا دن بھی بھاگ سکتا تھا‘ یہ غیرمعمولی صلاحیت تھی اور اس نے اس صلاحیت سے میرا تھن چیمپیئن بننے کا فیصلہ کیا‘ اس نے جب لوگوں کو اپنے ارادے کے بارے میں مطلع کیا تو سب نے پہلے قہقہہ لگایا اور پھر اسے بتایا میرا تھن گوروں کی اسپورٹس ہے۔
سیاہ فام لوگ یہ نہیں کھیل سکتے‘ ہم ان سے جیت بھی نہیں سکتے‘ ایلوڈ نے وجہ پوچھی تو اسے بتایا گیا‘ گوروں کے پاس پیسہ ہوتا ہے‘ ان کے پاس ٹرینر بھی ہوتے ہیں اور ان کی خوراک بھی ہم سے بہتر ہوتی ہے لہٰذا یہ جی جان سے پریکٹس کرسکتے ہیں‘ اسے یہ بھی بتایا گیا میرا تھن کے سارے ریفری‘ کمنٹیٹرز اور شائقین بھی گورے ہوتے ہیں‘ گورے گوروں کو سپورٹ کرتے ہیں‘ یہ سیاہ فام کو کام یاب نہیں ہونے دیتے‘ تم بھی یہ خواب دیکھنا بند کر دو‘اس کے دوستوں اور بزرگوں نے یہ باتیں اتنی بار دہرائیں کہ یہ اس کے ذہن میں بیٹھ گئیں لیکن اس کے باوجود ایتھلیٹکس اس کا جنون تھا‘ وہ سارا دن بھاگتا رہتا تھا‘ اس کے پاس جوتے نہیں تھے‘ وہ ننگے پاؤں بھی بھاگتا تھا‘ اس کے پاس گراؤنڈ نہیں تھا‘ وہ جنگل میں بھی بھاگتا تھا‘ اس نے میرا تھن میں شریک نہیں ہونا تھا لیکن وہ اس کے باوجود بھی بھاگتا تھا‘ بھاگنا اس کی زندگی تھا۔
وہ فارغ وقت میں جس گراؤنڈ میں بھاگتا تھا وہاں پیٹرک نام کا ایک کوچ نوجوانوں کو پریکٹس کراتا تھا‘ کوچ نے دیکھا ایک سیاہ فام لڑکا کوچنگ کے بغیر اس کے تمام اسٹوڈنٹس سے زیادہ تیز دوڑتا ہے‘ اس نے ایک دن اسے روک کر انٹرویو کیا تو پتا چلا یہ لڑکا غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے‘ دن کے وقت والدین کے ساتھ محنت مزدوری کرتا ہے اور شام کے وقت دوڑنا شروع کر دیتا ہے‘ پیٹرک کو اس پر رحم آ گیا۔
اس نے اسے اپنی کلاس میں شامل کر لیا اور وہ اسے ایتھلیٹس کی بنیادی تکنیکس سکھانے لگا‘ لڑکا پیدائشی اسپورٹس مین تھا‘ یہ بہت جلد تمام تکنیکس سیکھ گیاجس کے بعد پیٹرک نے اس کا نام کینیا کی اگلی میراتھن میں لکھوا دیا‘ وہ میراتھن میں شریک ہوا لیکن ہار گیا‘ اس کی ہار نے کوچ کو ڈسٹرب کر دیا‘کیوں؟ کیوں کہ وہ جانتا تھا اس میں کینیا کے تمام ایتھلیٹس سے زیادہ پوٹینشل ہے‘ اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا‘ کوچ نے میراتھن کی ریکارڈنگ منگوائی اور دیکھنا شروع کر دی‘ وہ بار بار ٹیپ دیکھتا تھا اور کیپ چوج کو دیکھتا تھا‘ اس نے نوٹ کیا دوڑتے وقت جوں ہی کوئی گورا کھلاڑی اس کے قریب آتا تھا تو اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی تھی جب کہ یہ تمام سیاہ فام کھلاڑیوں کو آسانی سے پیچھے چھوڑ دیتا ہے یوں محسوس ہوتا تھا گورے کو دیکھ کر اس کا گیئر ڈاؤن ہو گیا ہو۔
کوچ بار بار ٹیپ دیکھتا رہا اور یہ سوچتا رہا آخر ایشو کیا ہے؟ یہ گورے کھلاڑی کو دیکھ کر آہستہ کیوں ہو جاتا ہے؟ اس کا سانس کیوں پھول جاتا ہے‘ بار بار ٹیپ دیکھنے کے بعد پتا چلا یہ ذہنی طور پر سفید فام کھلاڑیوں سے خائف ہے‘ یہ ان سے گھبراتا ہے اور اس وجہ سے اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی ہے‘ یہ ایک دل چسپ صورت حال تھی‘ کوچ نے اس کا انٹرویو شروع کیا تو پتا چلا اس نے جب بھاگنا شروع کیا تھا تو تمام لوگوں نے اسے بتایا تھا ایتھلیٹکس گوروں کی اسپورٹس ہے‘ اس میں صرف گورے جیتتے ہیں لہٰذا بھاگتے ہوئے جوں ہی کوئی گورا اس کے قریب پہنچتا ہے تو آٹومیٹک اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی ہے۔
کوچ نے اسے سمجھانا شروع کیا لیکن صورت حال جوں کی توں رہی‘ کوچ نے مجبوراً اسپورٹس سائیکالوجسٹ سے رابطہ کیا‘ اس نے کیپ چوج کو اسٹڈی کیا تو پتا چلا گوروں کا غلبہ اس کے سب کانشیس میں چلا گیا ہے‘ یہ اب جتنا چاہے کوشش کر لے اس کا سب کانشیس اسے ہلنے نہیں دے رہا‘ سائیکالوجسٹ نے کوچ کو بتایا‘ ہمارے سب کانشیس میں جب کوئی بات بیٹھ جاتی ہے تو پھر ہمارے اندر سیلف سبوتاژ کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے جس کے بعد ہمیں باہر سے کوئی نہیں ہراتا‘ ہم اندر سے ہار جاتے ہیں‘ ہم اندر سے شکست تسلیم کر بیٹھتے ہیں۔
کوچ کو مسئلہ سمجھ آ گیا لہٰذا اس نے کیپ چوج کو سمجھایا تم نے دوڑتے وقت دائیں بائیں نہیں دیکھنا صرف اور صرف اپنے ہدف پر توجہ دینی ہے‘ دوسرا تم نے یہ گنتے رہنا ہے تم نے کتنے سیاہ فام باشندوں کو پیچھے چھوڑا‘ کیپ چوج کوچ کی بات کو سیریس لیتا تھا لہٰذا اس نے یہ مشورہ پلے باندھ لیا اور نتائج نے سب کو حیران کر دیا‘ آپ بھی یہ جان کر حیران رہ جائیں گے یہ ایلوڈ کیپ چوج 2019میں دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے 42 اعشاریہ 195 کلومیٹر کی میراتھن دو گھنٹے سے کم وقت میں مکمل کرلی اور یہ ورلڈ ریکارڈ تھا اور اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘ آپ اگر آج اس کے ریکارڈز اور ایوارڈز دیکھیں تو آپ کی آنکھیں اور دماغ تھک جائے گا لیکن اس کے ریکارڈز اور ایوارڈز کی فہرست ختم نہیں ہوگی۔
میں آگے بڑھنے سے قبل آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں میراتھن 42 اعشاریہ 195 کلومیٹر کیوں ہوتی ہے؟ 1908میں کوئین الیگزینڈرا برطانیہ کی ملکہ تھی‘ 1908 میں لندن میں اولمپکس ہوئیں‘ ملکہ نے حکم جاری کیا‘ میرا تھن ونڈسر کاسل کے لان سے اسٹارٹ ہو گی اور وائیٹ سٹی اسٹیڈیم میں رائل باکس کے سامنے ختم ہو گی‘ اس حکم کی دو وجوہات تھیں‘ ملکہ چاہتی تھی جب ریس شروع ہو تو اس کا خاندان ونڈسر کاسل کی کھڑکی سے ریس دیکھ سکے اور جب یہ ختم ہو تو ملکہ اور اس کا خاندان رائل باکس میں جیتنے والے کھلاڑی کو دیکھ سکیں اور دوسری وجہ ملکہ کام یاب کھلاڑی کو سب سے پہلے دیکھنا چاہتی تھی‘ ماہرین نے کھڑکی اور باکس کے درمیان کا فاصلہ ماپا تو یہ 26 میل اور 385 میٹر یعنی 42 اعشاریہ 195کلومیٹر تھا یوں میرا تھن 42 اعشاریہ 195 کلو میٹر ہو گئی‘ میں کیپ چوج کی طرف واپس آتا ہوں۔
ایلوڈ کیپ چوج سب کانشیس کے سیلف سبوتاژ کا شکار تھا‘ اب سوال یہ ہے یہ کیا بلا ہوتی ہے؟ ہمارے دماغ کے دو حصے ہوتے ہیں‘ کانشیس (Concious) اور سب کانشیس (Subconcious) کانشیس صرف معلومات اکٹھی کرتا ہے جب کہ سب کانشیس اسے پراسیس کر کے ہمارے یقین کا حصہ بناتا ہے‘ ہماری زندگی کا نوے فیصد حصہ سب کانشیس کے کنٹرول میں ہوتا ہے‘ ہم مسلمان اور پاکستانی ہیں‘ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں یہ سارا ڈیٹا ہمارے بلیو (Believe) سسٹم یا سب کانشیس کاحصہ ہوتا ہے‘ بچوں کا کانشیس اور سب کانشیس پیدائش کے بعد کورا کاغذ ہوتے ہیں‘ ہم سب مل کر اسے بھرتے ہیں یا پر کرتے ہیں‘ بچے ہمیں دیکھ اور سن کر زبان سے لے کر عادتوں تک ہر چیز سیکھتے ہیں اور یہ آگے چل کر ان کا بلیو یعنی یقین بنتا ہے اور یہیں سے ان کی کام یابی اور ناکامی کا سفر شروع ہو تا ہے‘ کیپ چوج کو اس کے ماحول نے اتنی بار گوروں سے ڈرایا تھا‘ اسے اتنی مرتبہ یہ بتایا گیا تھا کہ ایتھلیٹکس گوروں کی اسپورٹس ہے۔
تم سیاہ فام ہو اورتم خواہ کتنا ہی تیز دوڑ لو تم کام یاب نہیں ہو سکتے اور یہ بات بار بار دہرانے کی وجہ سے اس کے سب کانشیس میں چلی گئی جس کے بعد یہ جوں ہی کسی گورے کو دوڑتا ہوا دیکھتا تھا تو اس کا سب کانشیس اسے پیغام دے دیتا تھا تم اس گورے سے نہیں جیت سکتے‘تمہیں زیادہ توانائی ضایع کرنے کی ضرورت نہیں اور اس کے بعد اس کے پھیپھڑے خود بخود ڈھیلے پڑ جاتے تھے اور ٹانگوں کی توانائی کم ہو جاتی تھی یوں اس کے ساتھ بھاگنے والا گورا اس سے آگے نکل جاتا تھا‘ نفسیات کی زبان میں اس عمل کو سیلف سبوتاژ (Self Sabotage) کہتے ہیں یعنی آپ اپنی جیت کو خود ہی ہار میں تبدیل کر دیں‘ آپ اپنی کام یابی کو ناکامی میں بدل دیں یا آپ چھکا مارتے ہوئے جان بوجھ کر آؤٹ ہو جائیں‘ کیپ چوج بھی سیلف سبوتاژ کا شکار ہو گیا تھا‘ اس کے خاندان اور ماحول نے مل کر اس کے دل میں گوروں کا خوف بٹھا دیا تھا جس کے بعد اس کا سب کانشیس اسے گوروں کے مقابلے میں جیتنے نہیں دیتا تھا۔
آپ اگر کیپ چوج کی کہانی توجہ سے پڑھیں تو آپ خود کو بھی سیلف سبوتاژ کا شکار پائیں گے بلکہ رکیے آپ کو پوری قوم سیلف سبوتاژ کا شکار ملے گی‘ آپ کبھی نوٹ کیجیے آپ کو ہر طرف سے ہم ترقی نہیں کر سکتے‘ ہم ٹھیک نہیں ہو سکتے‘ ہم بے ایمان لوگ ہیں‘ ہم میں خداترسی نام کی چیز نہیں‘ ہم بہت گندے ہیں‘ ہم سسٹم نہیں بنا سکتے‘ ہماری حکومت بہت نکمی ہے‘ سارا نظام کرپٹ ہے ‘ ہمیں عدالتوں سے انصاف نہیں ملے گا‘ پاکستان میں کوئی چیز خالص نہیں‘ پولیس بڑی ظالم ہے۔
سیاست دان نالائق اور کرپٹ ہیں‘ مولوی جاہل اور سخت ہیں‘ ہماری فوج بہت کم زور ہے اور ہم سیلاب کنٹرول نہیں کر سکیں گے جیسے فقرے سننے کو ملیں گے‘ آپ کسی جگہ بیٹھ جائیں آپ یہ سوال ضرور سنیں گے پاکستان کا کیا بنے گا‘ کیا ہم ٹھیک ہو جائیں گے اور ہمارا مستقبل کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ‘ آپ حد ملاحظہ کریں‘ ہم نے 10مئی کو جب بھارت کو شکست دی تھی تو پورے ملک نے کہنا شروع کر دیا تھا اگر چین ہماری مدد نہ کرتا تو ہمیں بڑی مار پڑتی‘ یہ کیا ہے؟ یہ سیلف سبوتاژ کی آخری اسٹیج ہے اور اس اسٹیج میں انسان ہو یا ملک یہ اپنا اعتماد مکمل طور پر کھو بیٹھتا ہے اور ہم بدقسمتی سے اس عمل سے گزر رہے ہیں بالخصوص ہماری کرکٹ ٹیم کے سب کانشیس میں یہ بات بیٹھ چکی ہے ہم بھارت سے نہیں جیت سکتے چناں چہ ہم جیتا ہوا میچ بھی ہار جاتے ہیں۔
ہم اگر واقعی زندہ رہنا چاہتے ہیں یا ترقی کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں سیلف سبوتاژ سے باہر آنا ہو گا‘ ہمیں اپنے اوپر اعتماد کرنا ہو گا‘ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہو گا اگر ایلوڈ کیپ چوج تھوڑی سی حکمت عملی بدل کر کام یاب ہو سکتا ہے تو پھر ہم من حیث القوم یہ کیوں نہیں کر سکتے؟ ہم بھی کر سکتے ہیں بس ہمیں حکمت عملی اور جیت کو اپنا یقین بنانا ہو گا اور پھر چند برسوں میں وہ ہو جائے گا جو ہم نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔