شدید دباؤ کی امریکی پالیسی اب بھی کام نہیں کرے گی، ایران
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 فروری 2025ء) عباس عراقچی نے کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''میرا خیال ہے کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ ایک ناکام تجربہ ہے اور اسے ایک بار پھر آزمانا ایک اور ناکامی ثابت ہو گا۔‘‘ ان کا اس موقع پر یہ بھی کہنا تھا کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی کوئی کوشش نہیں کر رہا۔
ایران یورپی طاقتوں کے ساتھ جوہری مکالمت میں مصروف
ٹرمپ کی واپسی کے بعد سے ایران اور امریکہ کے مابین کوئی رابطہ نہیں ہوا،ایران
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2021ء میں ختم ہونے والی اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران ایران اور عالمی برادری کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے سے نکلنے کے ساتھ ساتھ ایران کے خلاف 'شدید ترین دباؤ‘ کی پالیسی اپنائی تھی اور اس کے خلاف سخت پابندیاں بحال کر دی تھیں۔
(جاری ہے)
ایرانی جوہری معاہدے کے تحت، 'جسے جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن‘ کا نام دیا جاتا ہے، ایرانی جوہری پروگرام پر پابندیوں کے عوض اس پر لگی پابندیوں میں نرمی کی کی گئی تھی۔
واشنگٹن کی طرف سے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے نکل جانے کے اعلان کے بعد ایک برس تک تہران نے اس معاہدے پر عملدرآمد جاری رکھا مگر پھر اس نے بھی طے شدہ نکات سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔
اس کے بعد سے 2015ء میں طے پانے والے اس معاہدے کو قائم رکھنا ایک مشکل امر بن گیا ہے۔ شدید دباؤ کی پالیسی پر ٹرمپ کے دستخطامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل چار فروری کو ایران کے خلاف 'شدید ترین دباؤ‘ کی پالیسی کی بحالی کے احکامات پر دستخط کیے۔ اس فیصلے کا مقصد یہ الزامات ہیں کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی صلاحیت حاصل کرنے کی کوششوں میں ہے۔
ایران ایسی کسی خواہش کی تردید کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے جوہری پروگرام کا واحد مقصد پر امن مقاصد کے لیے استعمال ہے۔
عراقچی کے بقول، ''اگر اہم معاملہ یہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی کوشش نہ کرے، تو یہ قابل حصول ہے اور یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا کافی عرصے قبل سے ایک فتویٰ موجود ہے جو ایران کو جوہری اسلحے سے روکتا ہے۔
آج بدھ پانچ فروری کو ایران کی جوہری ایجنسی کے سربراہ محمد اسلامی نے ایک بار پھر دہرایا کہ ان کا ملک جوہری ٹیکنالوجی کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر عمل پیرا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ''ایران کے پاس جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا پروگرام نہ تو موجود ہے اور نہ ہی ہو گا۔‘‘
ایران کے مغربی ممالک کے ساتھ جوہری مذاکراترواں برس جنوری میں، ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی سے قبل، ایرانی حکام نے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھجوہری پروگرامپر مذاکرات کیے تھے۔
دونوں جانب سے ان مذاکرات کو 'کھلے اور مثبت‘ قرار دیا گیا تھا۔چند روز قبل ایرانی سفارت کار ماجد تخت روانچی نے کہا تھا کہ مذاکرات کا ایک نیا راؤنڈ 'ایک ماہ کے اندر‘ متوقع ہے، تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ابھی کوئی تاریخ طے نہیں ہوئی۔
ا ب ا/ا ا (اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی پالیسی ایران کے کے ساتھ ہے اور کے بعد تھا کہ
پڑھیں:
چین پر عائد ٹیرف میں کمی چینی قیادت پر منحصر ہوگی، ڈونلڈ ٹرمپ
اپنے ایک بیان میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اگلے دو تین ہفتوں میں چین کیلئے ٹیرف طے کرینگے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ چین پر عائد ٹیرف میں کمی کا انحصار چینی قیادت کے عمل پر ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ چین پر منحصر ہے کہ ٹیرف کتنی جلدی نیچے آسکتے ہیں، اگلے دو تین ہفتوں میں چین کے لیے ٹیرف طے کریں گے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ چین پر عائد ٹیرف میں کمی کا انحصار چینی قیادت کے عمل پر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین اور روس کے ساتھ ہم نے ڈیل کرلی ہے، روسی صدر پیوٹن کے ساتھ جلد ملاقات ہوسکتی ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ کینیڈا سے کاریں نہیں چاہتے، کینیڈین کاروں پر عائد ٹیرف میں اضافہ ہوسکتا ہے، کینیڈا کے ساتھ ڈیل پر کام کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ بھارت ٹیرف میں کمی کرے گا۔