نورا فتیحی سے متعلق دل خراش خبر وائرل، مداح پریشان ہوگئے
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
بالی ووڈ کی مشہور اداکارہ اور ڈانسر نورا فتیحی سے متعلق ایک دل خراش خبر نے ان کے مداحوں کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔
انٹرنیٹ پر گزشتہ روز ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ نورا فتیحی ایک بنجی جمپ حادثے میں ہلاک ہوگئی ہیں۔
View this post on InstagramA post shared by Living India News (@livingindianews)
یہ ویڈیو پوسٹ ہونے کے فوراً بعد ہی وائرل ہوگئی اور کئی دیگر اکاؤنٹس نے بھی اس خبر کو دوبارہ سے شیئر کیا۔ تاہم بعد ازاں علم ہوا کہ یہ خبر مکمل طور پر غلط تھی اور اداکارہ بالکل ٹھیک ہیں۔
وائرل ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ ایک خاتون بنجی جمپنگ کے دوران حادثے کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اور ویڈیو کے کیپشن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ خاتون نورا فتیحی ہیں۔
وائرل ویڈیو کو صرف چند گھنٹوں میں 18 ملین سے زیادہ ویوز مل گئے تاہم بعد میں یہ پوسٹ ڈیلیٹ کردی گئی تھی۔
اس وائرل پوسٹ کو کئی دیگر اکاؤنٹس سے بھی شیئر کیا گیا جس پر مداحوں کو اس خبر کی صداقت پر یقین آگیا۔ حالانکہ ویڈیو میں حادثے کا شکار ہونے والی خاتون کا چہرہ واضح نہیں تھا، تاہم بعد میں مداحوں نے اس بات کا ادراک کرلیا کہ وہ خاتون نورا فتیحی نہیں ہیں۔
سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہونے والی اس غلط خبر سے مداحوں کو شدید صدمہ پہنچا۔ اور حقیقت عیاں ہونے کے بعد مداحوں کی جانب سے شدید برہمی کا اظہار کیا جارہا ہے۔
نورا فتیحی نے خود اس خبر کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں اور اپنے نئے گانے "Snake" کی پروموشن میں مصروف ہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں وہ بالکل ٹھیک نظر آرہی ہیں۔
View this post on InstagramA post shared by Nora Fatehi (@norafatehi)
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نورا فتیحی
پڑھیں:
پریشان کن خبر ،ٹائیفائیڈ بخار میں مہلک تبدیلی، علاج کا آخری حل بھی ناکام
دنیا ایک بار پھر ایک مہلک بیماری کے بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا کر رہی ہے۔ ٹائیفائیڈ بخار، جو اب اپنی نئی شکل میں انتہائی خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سائنسدانوں کی نئی تحقیق کے مطابق، ’سیلمونیلا ٹائیفی‘ نامی بیکٹیریا جو ٹائیفائیڈ کا سبب بنتا ہے، اب کئی مؤثر اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا کر چکا ہے، جن میں وہ ادویات بھی شامل ہیں جو پہلے ’آخری حل‘ سمجھی جاتی تھیں۔
جدید تحقیق کی سنگین وارننگ
ایک بین الاقوامی تحقیق کے مطابق، ٹائیفائیڈ کی وہ اقسام جو اب دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں، خاص طور پر جنوبی ایشیا سے، انہیں ’ایکسٹینسِولی ڈرگ ریزسٹنٹ‘ یا ’ایکس ڈی آر‘ یعنی انتہائی مزاحم اقسام قرار دیا گیا ہے۔ یہ اقسام ’فلوئوروکوئنولونز‘ اور تیسری نسل کی ’سیفالوسپورِنز‘ جیسی جدید اور طاقتور ادویات کے خلاف بھی مؤثر مزاحمت دکھا رہی ہیں۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر جیسن اینڈریوز کا کہنا ہے، ’جس رفتار سے یہ مزاحم اقسام سامنے آ رہی ہیں اور دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں، وہ باعثِ تشویش ہے۔ اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ ان بیماریوں سے متاثرہ ممالک میں روک تھام کے اقدامات کو وسعت دی جائے۔
بیماری کا عالمی پھیلاؤ
تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ 1990 سے اب تک ٹائیفائیڈ کی یہ مزاحم اقسام تقریباً 200 بار مختلف ممالک میں منتقل ہو چکی ہیں۔ 2016 میں پاکستان میں اس بیماری کی ایک سپر ریزسٹنٹ قسم دریافت ہوئی، جو چند سالوں میں ملک میں سب سے زیادہ عام قسم بن چکی ہے۔
علاج میں مشکلات اور ممکنہ بحران
عالمی سطح پر ہر سال ٹائیفائیڈ بخار کے ایک کروڑ 10 لاکھ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، جن میں سے تقریباً 1 لاکھ افراد اس کا شکار ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے، تو یہ بیماری ہر پانچ میں سے ایک مریض کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ اب جبکہ مزاحم اقسام عام ہو رہی ہیں، علاج مزید پیچیدہ اور مہنگا ہو رہا ہے۔
ویکسین کی ضرورت اور رسائی کا بحران
اگرچہ ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کے لیے ویکسین موجود ہے، مگر دنیا کے کئی حصوں میں، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، لوگوں کو ان ویکسینز تک رسائی حاصل نہیں۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو دنیا ایک نئے صحت کے بحران کا سامنا کر سکتی ہے۔
حفاظتی تدابیر اور عوامی شعور کی ضرورت
ٹائیفائیڈ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر درج ذیل اقدامات پر فوری عمل درآمد ناگزیر ہے:
صاف پانی اور حفظانِ صحت کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔
ویکسینیشن مہمات کو ترجیح دی جائے، خاص طور پر خطرے سے دوچار علاقوں میں۔
اینٹی بایوٹکس کا غیر ضروری اور بے جا استعمال بند کیا جائے تاکہ مزید مزاحمت نہ بڑھے۔
عوامی سطح پر شعور بیدار کیا جائے تاکہ ابتدائی علامات پر بروقت تشخیص و علاج ممکن ہو۔
ٹائیفائیڈ بخار کی نئی، خطرناک اقسام ہمارے عالمی صحت کے نظام کے لیے ایک کڑا امتحان بن چکی ہیں۔ یہ وقت ہے کہ حکومتیں، طبی ادارے اور عوام سب مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کریں، وگرنہ صدیوں پرانی بیماری ایک بار پھر انسانیت کے لیے بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔