رزق کا ضیاع و اسراف باعث وبال
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
رزق عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنی ’’عطا‘‘ ہے اور اس سے مراد اﷲ تعالیٰ کی ہر عطا کردہ نعمت ہے۔ جس میں مال، طاقت، علم، اناج اور وقت سب نعمتیں شامل ہیں۔ ان کی تقسیم کا اختیار اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالٰی کا مفہوم ہے: ’’بلاشبہ! اﷲ تعالیٰ خود رزاق ہے، مستحکم قوت والا ہے۔‘‘
(سورہ الذاریات)
اﷲ تعالیٰ نے تمام نعائم عطا فرمانے کے بعد ان تمام چیزوں کو استعمال کرنے اور برتنے کی اجازت دی ہے۔ مگر اس میں سب سے اوّلین شرط حلال مقرر کی ہے۔ سورہ مائدہ میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے، مفہوم: ’’لوگ آپ (ﷺ) سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کون سی چیزیں حلال ہیں۔ لہٰذا آپؐ فرما دیجیے کہ ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں۔‘‘
اس سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کے لیے ہر نفع بخش چیز کو حلال قرار دیا ہے اور جو چیز انسانی جسم، صحت اور عقل کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے اس سے منع کیا گیا ہے۔ ایسے ہی سورہ بقرہ میں ارشاد ہے، مفہوم: ’’تم زمین کی پھیلی ہوئی اشیاء میں سے صرف حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔‘‘ اس سے واضح ہُوا کہ اسلام نے ضروریات و خواہشات کی تکمیل کے لیے تمام حلال اور پاکیزہ نفع بخش چیزوں کو استعمال کرنے اور برتنے کی اجازت دی ہے۔
اس میں دوسری شرط اعتدال اور میانہ روی کی مقرر کی ہے اور اس کی بنیاد بھی حفظ صحت و مال اور تمام بنی نوع انسان کی کھانے پینے کی بنیادی ضرورت کی تکمیل ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے، مفہوم: ’’اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، بے شک! اﷲ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سورہ الاعراف) ایسے ہی ایک موقع پر اﷲ تعالیٰ کا سورہ طٰہٰ میں ارشاد کا مفہوم ہے: ’’اور کھاؤ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں روزی کے طور پر دی ہیں اور اس میں زیادتی نہ کرو کہ تم پر میرا عذاب اترے اور جس پر میرا غضب اترا بے شک! وہ ہلاک ہُوا۔‘‘ گویا کہ قرآن کریم نے کھانے پینے کا حکم دینے کے بعد اس میں اسراف اور غلو کی ممانعت بھی ذکر کی اور اس کے مقابلے میں اعتدال و میانہ روی کا حکم دیا اور اسراف و فضول خرچی سے منع کیا اور اس کے ارتکاب پر نعمتوں کے چھن جانے اور سلب ہونے کی وعید ذکر کی جیسا کہ سورہ النحل میں ارشاد کا مفہوم ہے: ’’اﷲ تعالیٰ اس بستی کی مثال ذکر فرماتا ہے جو پورے اطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس ہر جگہ سے چلی آرہی تھی پھر اس نے اﷲ کی نعمتوں کا کفر کیا تو اس نے بھوک اور ڈر کا مزا چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا۔‘‘
اس میں نعمتوں کی ناقدری و ضیاع پر نہ صرف ان کے ہاتھ سے نکل جانے کا ذکر ہے بل کہ اس پر عذاب الہٰی کی بھی وعید سنائی گئی ہے۔ اس لیے آپ ﷺ کی احادیث مبارکہ رزق کی قدردانی کا درس دیتی ہیں۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، مفہوم: نبی کریمؐ میرے گھر تشریف لائے آپ ﷺ نے دیکھا کہ روٹی کا ایک ٹکڑا زمین پر پڑا ہُوا ہے۔ آپؐ نے اسے اُٹھایا، صاف کیا اور پھر کھا لیا اور فرمایا: ’’عائشہ! اﷲ تعالیٰ کی جو نعمتیں تمہاری پڑوسی بن جائیں ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ۔ (حسن سلوک سے پیش نہ آؤگی تو یہ بھاگ جائیں گی) اور جس قوم سے یہ بھاگ جاتی ہیں اس کی طرف واپس لوٹ کر نہیں آتیں۔‘‘ (ابن ماجہ) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قحط سالی، قلت رزق اور تنگ دستی کی ایک وجہ رزق کی ناقدری بھی ہے۔
حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’شیطان تمہارے پاس ہر کام کے وقت آجاتا ہے یہاں تک کے کھانے کے وقت بھی آجاتا ہے۔ پس جب تم میں سے کسی کا لقمہ گرجائے تو اسے اٹھا لے۔ اس کے ساتھ جو مٹی لگی ہے اسے دور کردے پھر اسے کھالے اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے، جب فارغ ہو جائے تو اپنی انگلیاں چاٹ لے۔ پتا نہیں کھانے کے کس حصّہ میں برکت ہے۔‘‘
(صحیح مسلم) اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ رزق کی ناقدری اور اسراف ایک شیطانی فعل ہے اور اس کی قدردانی باعث خیر و برکت ہے۔
طبقات ابن سعد میں ہے کہ اُم المومنین میمونہؓ کو راستے میں چلتے ہوئے ایک انار کا دانہ ملا انہوں نے جیسے ہی دیکھا اٹھا لیا اور یوں فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ رزق ضایع کرنے والے کو پسند نہیں فرماتے۔‘‘ یعنی اگر میں نہ اُٹھاتی تو ضایع ہوجاتا اور یہ ضیاع اﷲ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ ہے۔ بخاری شریف کی طویل روایت کے آخر میں ہے کہ آپ ﷺ نے چند صحابہ کرام کے ساتھ باغ کے گھنے سائے میں بیٹھ کر کھجوریں تناول فرمائیں اور ٹھنڈا پانی نوش فرمایا، پھر ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’قسم ہے اس ذات کی! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ یقیناً یہ ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال کیا جائے گا۔ اور وہ نعمتیں باغ کا ٹھنڈا سایہ، پکی ہوئی عمدہ کھجوریں اور ٹھنڈا پانی ہے۔‘‘
سورہ التکاثر میں بھی آیت کا مفہوم ہے: ’’اُس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘ اس لیے اﷲ تعالیٰ کی ہر نعمت ہمارے پاس بہ طور امانت ہے جس کے بارے میں ہم جواب دہ ہیں۔ چناں چہ فقہاء نے اشیاء خور و نوش میں ہر اُس پہلو و صورت کو ناجائز و قابل تنبیہ قرار دیا ہے جس میں رزق کی ناقدری و ضیاع یا اسراف کی صورت پائی جائے۔ چناں چہ عبادات اور اپنی ضروریات کے لے درکار قوت کے حصول کے بہ قدر کھانا باعث اجر و ثواب ہے اور پیٹ بھرنے کی مقدار کھانا مباح (جس پر نہ اجر اور نہ ہی عتاب) ہے۔ اور پیٹ بھر جانے سے زاید مقدار کھانا پینا حرمت کے درجے میں ہے۔
علامہ شامیؒ نے اس کی وجہ رزق کا ضیاع اور بیماریوں کا خدشہ ذکر کی ہے۔ چناں چہ جب پیٹ بھرنے سے زاید مقدار کھانا حرام قرار دیا گیا ہے تو برتنوں میں چھوڑ کر اور گرا کر ضایع کرنا کس قدر ناپسندیدہ ہوگا۔ اس کی تاکید آپ ﷺ کی حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے جس میں ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’پیٹ سے بڑھ کر کسی برتن کا بھرنا بُرا نہیں۔ ابن آدم کے لیے اتنا کھانا کافی ہے جس سے وہ اپنی کمر سیدھی رکھ سکے۔ اگر اس پر قدرت نہ ہو تو پیٹ کے تہائی حصّہ میں کھائے ، تہائی پانی کے لیے رکھے اور تہائی اپنے لیے۔‘‘ (ابن ماجہ)
ترمذی کی روایت کا مفہوم ہے: ایک شخص نے آپ ﷺ کے سامنے ڈکار لی تو آپؐ نے فرمایا: ’’ہمارے سامنے ڈکار نہ لو، دنیا میں پیٹ بھرے لوگ ہی آخرت میں بھوکے ہوں گے۔‘‘ اس کے بالمقابل ہمارے ہاں شادی، بیاہ و تقریبات کے کھانے، کھانے میں مقابلے اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا منظر پیش کرتے ہیں۔
حتیٰ کہ بعض اوقات انسانی احترام و تقدس اور رزق کی حرمت و قدردانی کی دھجیاں بکھیرتا منظر بن جاتا ہے۔ گویا کہ ہنر و کمال صرف کھانے کے مقابلے میں سب کو مات دینا ہی نہیں بل کہ اس کی بربادی و ضیاع میں بھرے برتنوں کو چھوڑ جانا بھی کمال سمجھا جانے لگا ہے۔ جب کہ فقہاء نے تو اس قدر ذخیرہ اندوزی کو بھی ممنوع قراردیا ہے جس میں کھانے کے خراب ہونے کی وجہ سے ضیاع کا اندیشہ ہو۔
امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ اپنی اقتصادی حالت سے بڑھ کر عمدہ غذاؤں میں خرچ کرنا اسراف و تبذیر ہے۔ بل کہ حکومت وقت کو اختیار حاصل ہے کہ اس حرکت کو طاقت سے روکے۔ (الموسوعۃ الفقہیہ) جب کہ ہمارے سماج میں قرض لے کر رنگ بہ رنگے کھانوں کی محفلوں کو سجانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ہے جس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔
علامہ شامیؒ نے تو روٹی کے بیچ کے حصّے کو کھا کر کناروں کا چھوڑ دینا بھی اسراف قرار دیا ہے۔ شریعت نے مہمان کے سامنے ماحضر کا پیش کردینا مہمان نوازی قراردیا ہے۔ محض تکلفات اور نمود و نمائش کے لیے دستر خوان کو انواع و اقسام کے کھانوں سے بھر دینا اسراف ہے۔
چناں چہ فتاوٰی ہندیہ میں لکھا ہے: ’’رنگا رنگ کے کھانوں کا دستر خوان پر چننا اور ضرورت سے زاید رکھنا اسراف ہے۔‘‘ مسند احمد میں ہے شفیق بن مسلمہؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسیؓ کے پاس کچھ مہمان آئے تو انہوں نے روٹی اور نمک ان کے سامنے پیش کردیا اور فرمایا کہ اگر رسول کریم ﷺ نے مہمان کے لیے تکلف اختیار کرنے سے نہ روکا ہوتا تو میں تمہارے لیے تکلف اختیار کرتا، ان مہمانوں میں سے ایک نے کہا: کاش! ہمارے نمک میں سقر (ایک ترکاری جو بہ طور سلاد استعمال کی جاتی ہے) ہوتا تو حضرت سلمان فارسیؓ نے اپنا وضو والا لوٹا سبزی فروش کے پاس گروی رکھوا کر سقر منگوایا اور اس میں نمک ڈالا، جب مہمان کھانا کھا چکے تو مہمانوں میں سے ایک نے دعا کی: ’’تمام تعریفیں اس اﷲ کے لیے ہیں جس نے ہمیں اپنے عطا کیے گئے رزق پر قناعت بخشی۔‘‘ تو حضرت سلمان فارسی ؓنے فرمایا: ’’اگر اپنے سامنے پیش کردہ پر قناعت اختیار کرلیتا تو سبزی فروش کے پاس میرا لوٹا گروی نہ رکھا جاتا۔‘‘
حضرت سلمان فارسی ؓ ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’تم میں کوئی ہرگز اپنی طاقت سے بڑھ کر مہمان کے لیے تکلف میں نہ پڑے۔‘‘ تکلف چوں کہ ضیاع و اسراف، قرض اور مختلف طرح کے مفاسد کا دروازہ ہے۔ اس لیے اسلافِ امت نے ہمیشہ اس سے اجتناب کیا ہے اور مہمانوں کے لیے تکلف میں پڑنا محبت و الفت کی چادر کو تار تار کرتا ہے۔ جس کو وسعت حاصل نہیں ہوتی اسے قطع کلامی، قطع تعلقی اور رشتہ ناتا توڑنے پر مجبور کرتا ہے۔
اس وقت پوری دنیا میں نمود و نمائش اور تکلفات ِ مہمان نوازی اور چٹ پٹے کھانوں کے شوق اور زبان کے نئے ذائقوں کے فیشن کی وجہ سے جس نعمت کا سب سے زیادہ ضیاع اور ناقدری دیکھنے میں آرہی ہے وہ رزق ہے۔ حتیٰ کہ دنیا کے ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کی بیشتر آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔
اور دنیا کی بیس فی صد آبادی متوازن غذا سے محروم ہے۔ اور دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک کے مطابق ہر سال ایک تہائی اناج ضایع کردیا جاتا ہے جب کہ ضایع کردہ کھانے کی مقدار 1.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حضرت سلمان فارسی رزق کی ناقدری ارشاد فرمایا نعمتوں کے ا جاتا ہے اﷲ تعالی ان کے لیے کھانے کے قرار دیا کے ساتھ چناں چہ ہے کہ ا کے پاس ہے اور اس لیے اور اس میں ہے دیا ہے
پڑھیں:
حج ایک مقدس فریضہ ہے جسکے لئے بلاوا بھی اللہ تعالی کی طرف سے آتا ہے،چیئرمین سی ڈی اے
حج ایک مقدس فریضہ ہے جسکے لئے بلاوا بھی اللہ تعالی کی طرف سے آتا ہے،چیئرمین سی ڈی اے WhatsAppFacebookTwitter 0 24 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز)چیئرمین سی ڈی اے و چیف کمشنر اسلام آباد محمد علی رندھاوا نے سی ڈی اے مزدور یونین (سی بی اے)کی جانب سے اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں حج کی ادائیگی کیلئے سی ڈی اے کے ملازمین کے اعزاز میں ایک اہم تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی. تقریب میں سی ڈی اے بورڈ کے ممبران، چیئرمین پاکستان سویٹ ہوم کے سرپرست اعلی زمرد خان، جنرل سیکرٹری سی ڈی اے مزدور یونین چوہدری محمد یاسین سمیت سی ڈی اے ملازمین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
چیئرمین سی ڈی اے نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی کی سرزمین پر صرف وہی شخص جاسکتا ہے جسے اللہ تعالی خود منتخب کرتا ہے ہم لوگ صرف وسیلہ ہیں انہوں نے کہا کہ جہاں آپ حج کے مقدس موقع پر اپنے اور اپنے اہل خانہ کیلئے دعائیں کریں گے وہیں اپنے پیارے وطن پاکستان اور اپنے ادارے (سی ڈی اے)کی ترقی کیلئے دعا کریں،چیئرمین سی ڈی اے نے کہا اس سال سی ڈی اے مزدور یونین کی درخواست پر 66 افراد کو سی ڈی اے نے بذریعہ قرعہ اندازی میرٹ پر منتخب کیا. سی ڈی اے کے ملازمین جہاں دن رات سی ڈی اے کی ترقی کیلئے کام کرتے ہیں وہاں سی ڈی اے بھی اپنے ملازمین کی حوصلہ افزائی کیلئے ہر سال قرعہ اندازی کے زریعے گریڈ 1 سے گریڈ 16 تک کے ملازمین کو حج کی سعادت کیلئے شفاف طریقے سے منتخب کرتا ہے۔
چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ ادارے میں کام کرنے والے ملازمین کا حق ہے کہ وہ اپنے جائز مطالبات کیلئے ہمارے پاس آئیں اور انشا اللہ انکے جائز مطالبات نیک نیتی کے ساتھ ضرور تسلیم کئے جائیں گے کیونکہ ادارے میں کام کرنے والے محنتی ملازمین کا حق ہے کہ وہ نہ صرف خود قانون کے مطابق ترقی کریں بلکہ ادارے کے لئے بھی اپنی تمام کاوشوں کو بروئے کار لائیں،چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ سی ڈی اے کا عزم ہے کہ اسلام آباد کو دنیا کا خوبصورت اور جدید ترین دارلخلافہ بنایا جائے گا جسکے لئے ہم سب کو ملکر دن رات محنت کرنا ہوگی کیونکہ محنت میں ہی عظمت ہے،انہوں نے کہا کہ ہم سی ڈی اے کے گورننس ماڈل کو بہتر سے بہترین بنانے کیلئے دن رات کوششیں کررہے ہیں تاکہ شہریوں کو اعلی اور معیاری سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے،چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ حج کے مقدس فریضہ کیلئے جانے والے سی ڈی اے کے جن خوش نصیب مرد و خواتین ملازمین کو حج کی سعادت کیلئے سی ڈی اے نے بذریعہ قرعہ اندازی سے منتخب کیا گیا ہے دراصل اللہ تعالی نے انکو اس اعلی فریضے اور بڑی نیکی کیلئے اپنے گھر میں حاضری کیلئے بلایا ہے۔
انہوں نے منتخب ہونے والے ملازمین کو دلی مبارکباد پیش کی اور کہا کہ حج کرنا ایک بہت بڑی نیکی اور اعلی ترین عبادت ہے جہاں آپ حج کے موقع پر اپنے خاندان اور عزیز و اقارب کے لئے دعا مانگیں گے وہیں اپنے ملک عزیز پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے بھی خصوصی دعائیں مانگیں،چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ پاکستان سویٹ ہوم جس طرح زمرد خان کی سربراہی میں یتیم اور بے سہارا بچوں کی پڑھائی اور کفالت میں مدد فراہم کررہا ہے انکی یہ خدمات قابل تحسین ہیں ایسا موقع اللہ تعالی بہت کم خوش نصیبوں کو فراہم کرتا ہے کہ وہ یتیم اور بے سہارا بچوں کا سہارا بنیں،قبل ازیں پاکستان سویٹ ہوم کے سرپرست اعلی زمرد خان نے خطاب میں چیئرمین سی ڈی اے و چیف کمشنر اسلام آباد محمد علی رندھاوا کی سی ڈی اے کی ترقی و خوشحالی کیلئے گراں قدر خدمات کو سراہا. انہوں نے کہا کہ سی ڈی اے مزدور یونین کی درخواست پر 66 ملازمین کو حج پر بھیجوانا سی ڈی اے کا احسن قدم ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سی ڈی اے کی منتخب سی ڈی اے مزدور یونین کے جنرل سیکرٹری چوہدری محمد یاسین نے کہا کہ چیئرمین سی ڈی اے و چیف کمشنر اسلام محمد علی رندھاوا کے انتہائی مشکور ہیں جنہوں نے سی ڈی اے مزدور یونین کی درخواست پر نہ صرف سی ڈی اے کے گریڈ 1 سے گریڈ 16 کے ملازمین کیلئے حج پر جانے والوں کی تعداد میں 10 افراد کا اضافہ کیا جس سے امسال 66 افراد حج کی سعادت کا فریضہ انجام دیں گے. انہوں نے کہا کہ حج پر جانے والے تمام ملازمین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں. انہوں نے کہا کہ چیئرمین سی ڈی اے اور سی ڈی اے مزدور یونین کی خصوصی کاوشوں سے ہر سال ادارے کے ملازمین کو قرعہ اندازی کے ذریعے حج کیلئے بھیجوایا جاتا ہے اور یہ بڑی سعادت کی بات ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سی ڈی اے مزدور یونین کا بنیادی مقصد رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکر مزدوروں کی خدمت کرنا ہے اور ہم نے یہ سب اپنے عمل سے ثابت کیا ہے،سی ڈی اے مزدور یونین مذاکرات پر یقین رکھتی ہے اور اس حوالے سے ملازمین کے حقوق کے تحفظ کیلئے عملی جدوجہد جاری رکھی جائے گی. انہوں نے کہا کہ چیئرمین سی ڈی اے دن رات ادارے کی ترقی کیلئے کوشاں ہیں اور ہم انکی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں. سی ڈی اے کے تمام ملازمین ادارے کی ترقی اور وزیر اعظم کے ویژن کے مطابق وزیر داخلہ اور چیئرمین سی ڈی اے کی قیادت میں اسلام آباد کو خوبصورت اور صاف ستھرا شہر بنانے کیلئے سی ڈی اے کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں،تقریب کے اختتام پر حج کی سعادت حاصل کرنے والے تمام ملازمین میں چیئرمین سی ڈی اے، مزدور یونین کے جنرل سیکرٹری چوہدری محمد یاسین و دیگر بورڈ ممبران نے حج کیلئے لازمی احرام دیگر سفری اشیا اور تحائف بھی تقسیم کئے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان نے بھارتی پروازوں کیلئے فضائی حدود ایک ماہ کیلئے بند کردی، نوٹم جاری پاکستان نے بھارتی پروازوں کیلئے فضائی حدود ایک ماہ کیلئے بند کردی، نوٹم جاری تمباکو ٹیکس۔صحت مند پاکستان کی کلید، پالیسی ڈائیلاگ بارہ ہزار افغان باشندوں کا پاکستانی دستاویزات استعمال کرکے سعودی عرب جانے کا انکشاف سندھ طاس معاہدے پر بھارت کے یکطرفہ اقدامات اور شملہ معاہدے کی معطلی: قانونی نقطہ نظر ایجنسیوں کی کلیئرنس کے بعد اوگرا میں تعیناتی کیلئے 3نام فائنل، سمری وزیراعظم آفس کو ارسال رینجرز نے پاکستانی حدود میں داخل ہونیوالے بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس کے اہلکار کو پکڑلیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم