رزق کا ضیاع و اسراف باعث وبال
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
رزق عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنی ’’عطا‘‘ ہے اور اس سے مراد اﷲ تعالیٰ کی ہر عطا کردہ نعمت ہے۔ جس میں مال، طاقت، علم، اناج اور وقت سب نعمتیں شامل ہیں۔ ان کی تقسیم کا اختیار اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالٰی کا مفہوم ہے: ’’بلاشبہ! اﷲ تعالیٰ خود رزاق ہے، مستحکم قوت والا ہے۔‘‘
(سورہ الذاریات)
اﷲ تعالیٰ نے تمام نعائم عطا فرمانے کے بعد ان تمام چیزوں کو استعمال کرنے اور برتنے کی اجازت دی ہے۔ مگر اس میں سب سے اوّلین شرط حلال مقرر کی ہے۔ سورہ مائدہ میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے، مفہوم: ’’لوگ آپ (ﷺ) سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کون سی چیزیں حلال ہیں۔ لہٰذا آپؐ فرما دیجیے کہ ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں۔‘‘
اس سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کے لیے ہر نفع بخش چیز کو حلال قرار دیا ہے اور جو چیز انسانی جسم، صحت اور عقل کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے اس سے منع کیا گیا ہے۔ ایسے ہی سورہ بقرہ میں ارشاد ہے، مفہوم: ’’تم زمین کی پھیلی ہوئی اشیاء میں سے صرف حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔‘‘ اس سے واضح ہُوا کہ اسلام نے ضروریات و خواہشات کی تکمیل کے لیے تمام حلال اور پاکیزہ نفع بخش چیزوں کو استعمال کرنے اور برتنے کی اجازت دی ہے۔
اس میں دوسری شرط اعتدال اور میانہ روی کی مقرر کی ہے اور اس کی بنیاد بھی حفظ صحت و مال اور تمام بنی نوع انسان کی کھانے پینے کی بنیادی ضرورت کی تکمیل ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے، مفہوم: ’’اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، بے شک! اﷲ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سورہ الاعراف) ایسے ہی ایک موقع پر اﷲ تعالیٰ کا سورہ طٰہٰ میں ارشاد کا مفہوم ہے: ’’اور کھاؤ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں روزی کے طور پر دی ہیں اور اس میں زیادتی نہ کرو کہ تم پر میرا عذاب اترے اور جس پر میرا غضب اترا بے شک! وہ ہلاک ہُوا۔‘‘ گویا کہ قرآن کریم نے کھانے پینے کا حکم دینے کے بعد اس میں اسراف اور غلو کی ممانعت بھی ذکر کی اور اس کے مقابلے میں اعتدال و میانہ روی کا حکم دیا اور اسراف و فضول خرچی سے منع کیا اور اس کے ارتکاب پر نعمتوں کے چھن جانے اور سلب ہونے کی وعید ذکر کی جیسا کہ سورہ النحل میں ارشاد کا مفہوم ہے: ’’اﷲ تعالیٰ اس بستی کی مثال ذکر فرماتا ہے جو پورے اطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس ہر جگہ سے چلی آرہی تھی پھر اس نے اﷲ کی نعمتوں کا کفر کیا تو اس نے بھوک اور ڈر کا مزا چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا۔‘‘
اس میں نعمتوں کی ناقدری و ضیاع پر نہ صرف ان کے ہاتھ سے نکل جانے کا ذکر ہے بل کہ اس پر عذاب الہٰی کی بھی وعید سنائی گئی ہے۔ اس لیے آپ ﷺ کی احادیث مبارکہ رزق کی قدردانی کا درس دیتی ہیں۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، مفہوم: نبی کریمؐ میرے گھر تشریف لائے آپ ﷺ نے دیکھا کہ روٹی کا ایک ٹکڑا زمین پر پڑا ہُوا ہے۔ آپؐ نے اسے اُٹھایا، صاف کیا اور پھر کھا لیا اور فرمایا: ’’عائشہ! اﷲ تعالیٰ کی جو نعمتیں تمہاری پڑوسی بن جائیں ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ۔ (حسن سلوک سے پیش نہ آؤگی تو یہ بھاگ جائیں گی) اور جس قوم سے یہ بھاگ جاتی ہیں اس کی طرف واپس لوٹ کر نہیں آتیں۔‘‘ (ابن ماجہ) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قحط سالی، قلت رزق اور تنگ دستی کی ایک وجہ رزق کی ناقدری بھی ہے۔
حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’شیطان تمہارے پاس ہر کام کے وقت آجاتا ہے یہاں تک کے کھانے کے وقت بھی آجاتا ہے۔ پس جب تم میں سے کسی کا لقمہ گرجائے تو اسے اٹھا لے۔ اس کے ساتھ جو مٹی لگی ہے اسے دور کردے پھر اسے کھالے اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے، جب فارغ ہو جائے تو اپنی انگلیاں چاٹ لے۔ پتا نہیں کھانے کے کس حصّہ میں برکت ہے۔‘‘
(صحیح مسلم) اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ رزق کی ناقدری اور اسراف ایک شیطانی فعل ہے اور اس کی قدردانی باعث خیر و برکت ہے۔
طبقات ابن سعد میں ہے کہ اُم المومنین میمونہؓ کو راستے میں چلتے ہوئے ایک انار کا دانہ ملا انہوں نے جیسے ہی دیکھا اٹھا لیا اور یوں فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ رزق ضایع کرنے والے کو پسند نہیں فرماتے۔‘‘ یعنی اگر میں نہ اُٹھاتی تو ضایع ہوجاتا اور یہ ضیاع اﷲ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ ہے۔ بخاری شریف کی طویل روایت کے آخر میں ہے کہ آپ ﷺ نے چند صحابہ کرام کے ساتھ باغ کے گھنے سائے میں بیٹھ کر کھجوریں تناول فرمائیں اور ٹھنڈا پانی نوش فرمایا، پھر ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’قسم ہے اس ذات کی! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ یقیناً یہ ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال کیا جائے گا۔ اور وہ نعمتیں باغ کا ٹھنڈا سایہ، پکی ہوئی عمدہ کھجوریں اور ٹھنڈا پانی ہے۔‘‘
سورہ التکاثر میں بھی آیت کا مفہوم ہے: ’’اُس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘ اس لیے اﷲ تعالیٰ کی ہر نعمت ہمارے پاس بہ طور امانت ہے جس کے بارے میں ہم جواب دہ ہیں۔ چناں چہ فقہاء نے اشیاء خور و نوش میں ہر اُس پہلو و صورت کو ناجائز و قابل تنبیہ قرار دیا ہے جس میں رزق کی ناقدری و ضیاع یا اسراف کی صورت پائی جائے۔ چناں چہ عبادات اور اپنی ضروریات کے لے درکار قوت کے حصول کے بہ قدر کھانا باعث اجر و ثواب ہے اور پیٹ بھرنے کی مقدار کھانا مباح (جس پر نہ اجر اور نہ ہی عتاب) ہے۔ اور پیٹ بھر جانے سے زاید مقدار کھانا پینا حرمت کے درجے میں ہے۔
علامہ شامیؒ نے اس کی وجہ رزق کا ضیاع اور بیماریوں کا خدشہ ذکر کی ہے۔ چناں چہ جب پیٹ بھرنے سے زاید مقدار کھانا حرام قرار دیا گیا ہے تو برتنوں میں چھوڑ کر اور گرا کر ضایع کرنا کس قدر ناپسندیدہ ہوگا۔ اس کی تاکید آپ ﷺ کی حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے جس میں ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’پیٹ سے بڑھ کر کسی برتن کا بھرنا بُرا نہیں۔ ابن آدم کے لیے اتنا کھانا کافی ہے جس سے وہ اپنی کمر سیدھی رکھ سکے۔ اگر اس پر قدرت نہ ہو تو پیٹ کے تہائی حصّہ میں کھائے ، تہائی پانی کے لیے رکھے اور تہائی اپنے لیے۔‘‘ (ابن ماجہ)
ترمذی کی روایت کا مفہوم ہے: ایک شخص نے آپ ﷺ کے سامنے ڈکار لی تو آپؐ نے فرمایا: ’’ہمارے سامنے ڈکار نہ لو، دنیا میں پیٹ بھرے لوگ ہی آخرت میں بھوکے ہوں گے۔‘‘ اس کے بالمقابل ہمارے ہاں شادی، بیاہ و تقریبات کے کھانے، کھانے میں مقابلے اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا منظر پیش کرتے ہیں۔
حتیٰ کہ بعض اوقات انسانی احترام و تقدس اور رزق کی حرمت و قدردانی کی دھجیاں بکھیرتا منظر بن جاتا ہے۔ گویا کہ ہنر و کمال صرف کھانے کے مقابلے میں سب کو مات دینا ہی نہیں بل کہ اس کی بربادی و ضیاع میں بھرے برتنوں کو چھوڑ جانا بھی کمال سمجھا جانے لگا ہے۔ جب کہ فقہاء نے تو اس قدر ذخیرہ اندوزی کو بھی ممنوع قراردیا ہے جس میں کھانے کے خراب ہونے کی وجہ سے ضیاع کا اندیشہ ہو۔
امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ اپنی اقتصادی حالت سے بڑھ کر عمدہ غذاؤں میں خرچ کرنا اسراف و تبذیر ہے۔ بل کہ حکومت وقت کو اختیار حاصل ہے کہ اس حرکت کو طاقت سے روکے۔ (الموسوعۃ الفقہیہ) جب کہ ہمارے سماج میں قرض لے کر رنگ بہ رنگے کھانوں کی محفلوں کو سجانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ہے جس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔
علامہ شامیؒ نے تو روٹی کے بیچ کے حصّے کو کھا کر کناروں کا چھوڑ دینا بھی اسراف قرار دیا ہے۔ شریعت نے مہمان کے سامنے ماحضر کا پیش کردینا مہمان نوازی قراردیا ہے۔ محض تکلفات اور نمود و نمائش کے لیے دستر خوان کو انواع و اقسام کے کھانوں سے بھر دینا اسراف ہے۔
چناں چہ فتاوٰی ہندیہ میں لکھا ہے: ’’رنگا رنگ کے کھانوں کا دستر خوان پر چننا اور ضرورت سے زاید رکھنا اسراف ہے۔‘‘ مسند احمد میں ہے شفیق بن مسلمہؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسیؓ کے پاس کچھ مہمان آئے تو انہوں نے روٹی اور نمک ان کے سامنے پیش کردیا اور فرمایا کہ اگر رسول کریم ﷺ نے مہمان کے لیے تکلف اختیار کرنے سے نہ روکا ہوتا تو میں تمہارے لیے تکلف اختیار کرتا، ان مہمانوں میں سے ایک نے کہا: کاش! ہمارے نمک میں سقر (ایک ترکاری جو بہ طور سلاد استعمال کی جاتی ہے) ہوتا تو حضرت سلمان فارسیؓ نے اپنا وضو والا لوٹا سبزی فروش کے پاس گروی رکھوا کر سقر منگوایا اور اس میں نمک ڈالا، جب مہمان کھانا کھا چکے تو مہمانوں میں سے ایک نے دعا کی: ’’تمام تعریفیں اس اﷲ کے لیے ہیں جس نے ہمیں اپنے عطا کیے گئے رزق پر قناعت بخشی۔‘‘ تو حضرت سلمان فارسی ؓنے فرمایا: ’’اگر اپنے سامنے پیش کردہ پر قناعت اختیار کرلیتا تو سبزی فروش کے پاس میرا لوٹا گروی نہ رکھا جاتا۔‘‘
حضرت سلمان فارسی ؓ ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’تم میں کوئی ہرگز اپنی طاقت سے بڑھ کر مہمان کے لیے تکلف میں نہ پڑے۔‘‘ تکلف چوں کہ ضیاع و اسراف، قرض اور مختلف طرح کے مفاسد کا دروازہ ہے۔ اس لیے اسلافِ امت نے ہمیشہ اس سے اجتناب کیا ہے اور مہمانوں کے لیے تکلف میں پڑنا محبت و الفت کی چادر کو تار تار کرتا ہے۔ جس کو وسعت حاصل نہیں ہوتی اسے قطع کلامی، قطع تعلقی اور رشتہ ناتا توڑنے پر مجبور کرتا ہے۔
اس وقت پوری دنیا میں نمود و نمائش اور تکلفات ِ مہمان نوازی اور چٹ پٹے کھانوں کے شوق اور زبان کے نئے ذائقوں کے فیشن کی وجہ سے جس نعمت کا سب سے زیادہ ضیاع اور ناقدری دیکھنے میں آرہی ہے وہ رزق ہے۔ حتیٰ کہ دنیا کے ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کی بیشتر آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔
اور دنیا کی بیس فی صد آبادی متوازن غذا سے محروم ہے۔ اور دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک کے مطابق ہر سال ایک تہائی اناج ضایع کردیا جاتا ہے جب کہ ضایع کردہ کھانے کی مقدار 1.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حضرت سلمان فارسی رزق کی ناقدری ارشاد فرمایا نعمتوں کے ا جاتا ہے اﷲ تعالی ان کے لیے کھانے کے قرار دیا کے ساتھ چناں چہ ہے کہ ا کے پاس ہے اور اس لیے اور اس میں ہے دیا ہے
پڑھیں:
خلیفۃ الارض کی ذمہ داریاں ادا کرنے کےلئے ہمیں خود کو قرآن وسنت سے جوڑنا ہوگا،معرفت کا راستہ علم کےذریعے طے کیا جاسکتا ہے،وفاقی وزیر پروفیسر احسن اقبال
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 ستمبر2025ء) وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ، ترقی ، اصلاحات و خصوصی اقدامات پروفیسراحسن اقبال نے کہا ہے کہ خلیفۃ الارض کی ذمہ داریاں ادا کرنے کےلئے ہمیں خود کو قرآن وسنت سے جوڑنا ہوگا،قرآن وسنت اسلامی تہذیب کے بنیادی ستون ہیں ،معرفت کا راستہ علم کےذریعے طے کیا جاسکتا ہے،اسلامی تعلیمات میں کائنات کا کھوج اور تحقیق اللہ تعالیٰ کی تسبیح کی طرح لازم ہے۔بدھ کو یہاں انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس اینڈ ڈیزائن میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کی امت میں پیدا ہونے پرہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے ، یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے، دنیا کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کی ذمہ داری نبی کریمﷺ کی امت پر ہے تاکہ کوئی گمراہی کے راستے پر بھٹک کر ہدایت سے محروم نہ رہے۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ اس وقت مسلمانوں کی آبادی دو ارب سے بڑھ چکی ہےمگر ایک کروڑ آبادی والے ملک نے دو ارب لوگوں کو آگے لگایا ہوا ہے اور وہ جب اورجیسے چاہتا ہے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتا ہے۔ا ن کا کہنا تھا کہ غزہ میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم وستم کا بازار گرم ہے، اسلامی ممالک کے سربراہان کا اجلاس بھی ہوا مگر آج بھی غزہ پر بمباری ہوئی ہے ، ہم اکثریت میں ہونے کے باوجود اقلیت کے ہاتھوں نقصان اٹھا رہےہیں ۔ انہوں نے حدیث نبویﷺ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم اصل زندگی اور اس کے مقاصد کو بھول کر دنیا کی محبت میں گرفتار ہوچکے ہیں ، اپنے اصل فرض سے غافل ہوکر ہم پستی کی وادیوں میں گرتے جارہے ہیں ، صحابہ کرام نے مٹھی بھر ہونےکے باوجود اسلام کو مراکش سے انڈونیشیا تک پہنچایا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ قرآن وسنت اسلامی تہذیب کے بنیادی ستون ہیں ،قرآن موجود ہے اور رہے گا اسی طرح سیرت بھی ہمارے پاس موجود ہے اور قیامت تک رہے گی مگراس کے باوجود مغلوب ہوتے جارہے ہیں کیونکہ ہماری زندگی قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔ احسن اقبال نے کہا کہ سپین میں مسلم تہذیب کے عروج کے وقت تمام علوم کے ماہرین کا تعلق اسی امت سے تھا ،اہم شعبوں میں مسلمان سکالرز موجود تھےکیونکہ ان لوگوں نے قرآن کریم اور سیرت سے رہنمائی حاصل کی تھی۔انہوں نے کہا کہ قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالیٰ علم کا منبہ ہیں اور مسلمانوں کوسمجھنا چاہئے کہ معرفت کا راستہ علم کےذریعے طے کیا جاسکتا ہے،اسلامی تعلیمات میں کائنات کا کھوج اور تحقیق اللہ تعالیٰ کی تسبیح کی طرح لازم ہے، ہم نے قرآن و سنت کو سرچشمہ ہدایت سمجھنے کی بجائے قرآن کریم کومحض ایک مقدس کتاب اور سیرت کو ایک متبرک کہانی سمجھ لیا ہے ،اگر ہم عشق رسول کا دعوی کرتے ہیں تو ہمیں رشوت، ملاوٹ کے خاتمے ، محلوں اور بازاروں میں گندگئی پھیلانے ،اپنے غصے پر قابو پانے، ہمسایوں کے حقوق کا خیال کرنے اور ناپ تول ٹھیک کرنے پر عمل کرنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سیرت نبوی سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے ان کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی کو گزارنا ہے ،اگر ایسا نہ کیا تو ہم پستیوں میں گرتے چلے جائیں گے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اس وقت دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے ، پاکستا ن موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے بڑے ممالک میں شامل ہے، انسان اور فطرت کے درمیان تعلقات عدم توازن کا شکار ہونے سے دنیا اس مسائل کا سامنا کررہی ہے حالانکہ نبی کریم ﷺ نے 1500 سال قبل ہمیں پانی کے تحفظ ، شجرکاری اور ماحولیات کے متعلق اہم تعلیمات دی تھیں۔انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے درخت لگانے کو صدقہ جاریہ قرار دیا تھا، آپ ﷺ نے جنگوں میں درختوں کی حرمت کا فرمان جاری کیا ، ماحولیات کے لئے مخصوص علاقوں کا تصور بھی ہمیں نبی کریمﷺ سے ملا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی زندگی میں توازن قائم کرنا ہوگا کیونکہ کائنات توازن پر قائم ہے، سادگی اپنانے سے وسائل کو محفوظ بناسکتے ہیں ، ہمیں پانی کی ایک ایک بوند کی حفاظت کرنا ہوگی، بحیثیت مسلمان ہر شخص کو ایک درخت لگانا چاہئے ۔وفاقی وزیر نے کہا کہ خلیفۃ الارض کی ذمہ داریاں ادا کرنے کےلئے ہمیں خود کو قرآن وسنت سے جوڑنا ہوگا۔\932