Express News:
2025-11-04@06:18:15 GMT

رزق کا ضیاع و اسراف باعث وبال

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

رزق عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنی ’’عطا‘‘ ہے اور اس سے مراد اﷲ تعالیٰ کی ہر عطا کردہ نعمت ہے۔ جس میں مال، طاقت، علم، اناج اور وقت سب نعمتیں شامل ہیں۔ ان کی تقسیم کا اختیار اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالٰی کا مفہوم ہے: ’’بلاشبہ! اﷲ تعالیٰ خود رزاق ہے، مستحکم قوت والا ہے۔‘‘

(سورہ الذاریات)

اﷲ تعالیٰ نے تمام نعائم عطا فرمانے کے بعد ان تمام چیزوں کو استعمال کرنے اور برتنے کی اجازت دی ہے۔ مگر اس میں سب سے اوّلین شرط حلال مقرر کی ہے۔ سورہ مائدہ میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے، مفہوم: ’’لوگ آپ (ﷺ) سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کون سی چیزیں حلال ہیں۔ لہٰذا آپؐ فرما دیجیے کہ ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں۔‘‘

اس سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کے لیے ہر نفع بخش چیز کو حلال قرار دیا ہے اور جو چیز انسانی جسم، صحت اور عقل کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے اس سے منع کیا گیا ہے۔ ایسے ہی سورہ بقرہ میں ارشاد ہے، مفہوم: ’’تم زمین کی پھیلی ہوئی اشیاء میں سے صرف حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔‘‘ اس سے واضح ہُوا کہ اسلام نے ضروریات و خواہشات کی تکمیل کے لیے تمام حلال اور پاکیزہ نفع بخش چیزوں کو استعمال کرنے اور برتنے کی اجازت دی ہے۔

اس میں دوسری شرط اعتدال اور میانہ روی کی مقرر کی ہے اور اس کی بنیاد بھی حفظ صحت و مال اور تمام بنی نوع انسان کی کھانے پینے کی بنیادی ضرورت کی تکمیل ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے، مفہوم: ’’اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، بے شک! اﷲ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سورہ الاعراف) ایسے ہی ایک موقع پر اﷲ تعالیٰ کا سورہ طٰہٰ میں ارشاد کا مفہوم ہے: ’’اور کھاؤ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں روزی کے طور پر دی ہیں اور اس میں زیادتی نہ کرو کہ تم پر میرا عذاب اترے اور جس پر میرا غضب اترا بے شک! وہ ہلاک ہُوا۔‘‘ گویا کہ قرآن کریم نے کھانے پینے کا حکم دینے کے بعد اس میں اسراف اور غلو کی ممانعت بھی ذکر کی اور اس کے مقابلے میں اعتدال و میانہ روی کا حکم دیا اور اسراف و فضول خرچی سے منع کیا اور اس کے ارتکاب پر نعمتوں کے چھن جانے اور سلب ہونے کی وعید ذکر کی جیسا کہ سورہ النحل میں ارشاد کا مفہوم ہے: ’’اﷲ تعالیٰ اس بستی کی مثال ذکر فرماتا ہے جو پورے اطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس ہر جگہ سے چلی آرہی تھی پھر اس نے اﷲ کی نعمتوں کا کفر کیا تو اس نے بھوک اور ڈر کا مزا چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا۔‘‘

اس میں نعمتوں کی ناقدری و ضیاع پر نہ صرف ان کے ہاتھ سے نکل جانے کا ذکر ہے بل کہ اس پر عذاب الہٰی کی بھی وعید سنائی گئی ہے۔ اس لیے آپ ﷺ کی احادیث مبارکہ رزق کی قدردانی کا درس دیتی ہیں۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، مفہوم: نبی کریمؐ میرے گھر تشریف لائے آپ ﷺ نے دیکھا کہ روٹی کا ایک ٹکڑا زمین پر پڑا ہُوا ہے۔ آپؐ نے اسے اُٹھایا، صاف کیا اور پھر کھا لیا اور فرمایا: ’’عائشہ! اﷲ تعالیٰ کی جو نعمتیں تمہاری پڑوسی بن جائیں ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ۔ (حسن سلوک سے پیش نہ آؤگی تو یہ بھاگ جائیں گی) اور جس قوم سے یہ بھاگ جاتی ہیں اس کی طرف واپس لوٹ کر نہیں آتیں۔‘‘ (ابن ماجہ) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قحط سالی، قلت رزق اور تنگ دستی کی ایک وجہ رزق کی ناقدری بھی ہے۔

حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’شیطان تمہارے پاس ہر کام کے وقت آجاتا ہے یہاں تک کے کھانے کے وقت بھی آجاتا ہے۔ پس جب تم میں سے کسی کا لقمہ گرجائے تو اسے اٹھا لے۔ اس کے ساتھ جو مٹی لگی ہے اسے دور کردے پھر اسے کھالے اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے، جب فارغ ہو جائے تو اپنی انگلیاں چاٹ لے۔ پتا نہیں کھانے کے کس حصّہ میں برکت ہے۔‘‘

(صحیح مسلم) اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ رزق کی ناقدری اور اسراف ایک شیطانی فعل ہے اور اس کی قدردانی باعث خیر و برکت ہے۔

طبقات ابن سعد میں ہے کہ اُم المومنین میمونہؓ کو راستے میں چلتے ہوئے ایک انار کا دانہ ملا انہوں نے جیسے ہی دیکھا اٹھا لیا اور یوں فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ رزق ضایع کرنے والے کو پسند نہیں فرماتے۔‘‘ یعنی اگر میں نہ اُٹھاتی تو ضایع ہوجاتا اور یہ ضیاع اﷲ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ ہے۔ بخاری شریف کی طویل روایت کے آخر میں ہے کہ آپ ﷺ نے چند صحابہ کرام کے ساتھ باغ کے گھنے سائے میں بیٹھ کر کھجوریں تناول فرمائیں اور ٹھنڈا پانی نوش فرمایا، پھر ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’قسم ہے اس ذات کی! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ یقیناً یہ ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال کیا جائے گا۔ اور وہ نعمتیں باغ کا ٹھنڈا سایہ، پکی ہوئی عمدہ کھجوریں اور ٹھنڈا پانی ہے۔‘‘

سورہ التکاثر میں بھی آیت کا مفہوم ہے: ’’اُس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘ اس لیے اﷲ تعالیٰ کی ہر نعمت ہمارے پاس بہ طور امانت ہے جس کے بارے میں ہم جواب دہ ہیں۔ چناں چہ فقہاء نے اشیاء خور و نوش میں ہر اُس پہلو و صورت کو ناجائز و قابل تنبیہ قرار دیا ہے جس میں رزق کی ناقدری و ضیاع یا اسراف کی صورت پائی جائے۔ چناں چہ عبادات اور اپنی ضروریات کے لے درکار قوت کے حصول کے بہ قدر کھانا باعث اجر و ثواب ہے اور پیٹ بھرنے کی مقدار کھانا مباح (جس پر نہ اجر اور نہ ہی عتاب) ہے۔ اور پیٹ بھر جانے سے زاید مقدار کھانا پینا حرمت کے درجے میں ہے۔

علامہ شامیؒ نے اس کی وجہ رزق کا ضیاع اور بیماریوں کا خدشہ ذکر کی ہے۔ چناں چہ جب پیٹ بھرنے سے زاید مقدار کھانا حرام قرار دیا گیا ہے تو برتنوں میں چھوڑ کر اور گرا کر ضایع کرنا کس قدر ناپسندیدہ ہوگا۔ اس کی تاکید آپ ﷺ کی حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے جس میں ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’پیٹ سے بڑھ کر کسی برتن کا بھرنا بُرا نہیں۔ ابن آدم کے لیے اتنا کھانا کافی ہے جس سے وہ اپنی کمر سیدھی رکھ سکے۔ اگر اس پر قدرت نہ ہو تو پیٹ کے تہائی حصّہ میں کھائے ، تہائی پانی کے لیے رکھے اور تہائی اپنے لیے۔‘‘ (ابن ماجہ)

ترمذی کی روایت کا مفہوم ہے: ایک شخص نے آپ ﷺ کے سامنے ڈکار لی تو آپؐ نے فرمایا: ’’ہمارے سامنے ڈکار نہ لو، دنیا میں پیٹ بھرے لوگ ہی آخرت میں بھوکے ہوں گے۔‘‘ اس کے بالمقابل ہمارے ہاں شادی، بیاہ و تقریبات کے کھانے، کھانے میں مقابلے اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا منظر پیش کرتے ہیں۔

حتیٰ کہ بعض اوقات انسانی احترام و تقدس اور رزق کی حرمت و قدردانی کی دھجیاں بکھیرتا منظر بن جاتا ہے۔ گویا کہ ہنر و کمال صرف کھانے کے مقابلے میں سب کو مات دینا ہی نہیں بل کہ اس کی بربادی و ضیاع میں بھرے برتنوں کو چھوڑ جانا بھی کمال سمجھا جانے لگا ہے۔ جب کہ فقہاء نے تو اس قدر ذخیرہ اندوزی کو بھی ممنوع قراردیا ہے جس میں کھانے کے خراب ہونے کی وجہ سے ضیاع کا اندیشہ ہو۔

امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ اپنی اقتصادی حالت سے بڑھ کر عمدہ غذاؤں میں خرچ کرنا اسراف و تبذیر ہے۔ بل کہ حکومت وقت کو اختیار حاصل ہے کہ اس حرکت کو طاقت سے روکے۔ (الموسوعۃ الفقہیہ) جب کہ ہمارے سماج میں قرض لے کر رنگ بہ رنگے کھانوں کی محفلوں کو سجانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ہے جس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔

علامہ شامیؒ نے تو روٹی کے بیچ کے حصّے کو کھا کر کناروں کا چھوڑ دینا بھی اسراف قرار دیا ہے۔ شریعت نے مہمان کے سامنے ماحضر کا پیش کردینا مہمان نوازی قراردیا ہے۔ محض تکلفات اور نمود و نمائش کے لیے دستر خوان کو انواع و اقسام کے کھانوں سے بھر دینا اسراف ہے۔

چناں چہ فتاوٰی ہندیہ میں لکھا ہے: ’’رنگا رنگ کے کھانوں کا دستر خوان پر چننا اور ضرورت سے زاید رکھنا اسراف ہے۔‘‘ مسند احمد میں ہے شفیق بن مسلمہؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسیؓ کے پاس کچھ مہمان آئے تو انہوں نے روٹی اور نمک ان کے سامنے پیش کردیا اور فرمایا کہ اگر رسول کریم ﷺ نے مہمان کے لیے تکلف اختیار کرنے سے نہ روکا ہوتا تو میں تمہارے لیے تکلف اختیار کرتا، ان مہمانوں میں سے ایک نے کہا: کاش! ہمارے نمک میں سقر (ایک ترکاری جو بہ طور سلاد استعمال کی جاتی ہے) ہوتا تو حضرت سلمان فارسیؓ نے اپنا وضو والا لوٹا سبزی فروش کے پاس گروی رکھوا کر سقر منگوایا اور اس میں نمک ڈالا، جب مہمان کھانا کھا چکے تو مہمانوں میں سے ایک نے دعا کی: ’’تمام تعریفیں اس اﷲ کے لیے ہیں جس نے ہمیں اپنے عطا کیے گئے رزق پر قناعت بخشی۔‘‘ تو حضرت سلمان فارسی ؓنے فرمایا: ’’اگر اپنے سامنے پیش کردہ پر قناعت اختیار کرلیتا تو سبزی فروش کے پاس میرا لوٹا گروی نہ رکھا جاتا۔‘‘

حضرت سلمان فارسی ؓ ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’تم میں کوئی ہرگز اپنی طاقت سے بڑھ کر مہمان کے لیے تکلف میں نہ پڑے۔‘‘ تکلف چوں کہ ضیاع و اسراف، قرض اور مختلف طرح کے مفاسد کا دروازہ ہے۔ اس لیے اسلافِ امت نے ہمیشہ اس سے اجتناب کیا ہے اور مہمانوں کے لیے تکلف میں پڑنا محبت و الفت کی چادر کو تار تار کرتا ہے۔ جس کو وسعت حاصل نہیں ہوتی اسے قطع کلامی، قطع تعلقی اور رشتہ ناتا توڑنے پر مجبور کرتا ہے۔

اس وقت پوری دنیا میں نمود و نمائش اور تکلفات ِ مہمان نوازی اور چٹ پٹے کھانوں کے شوق اور زبان کے نئے ذائقوں کے فیشن کی وجہ سے جس نعمت کا سب سے زیادہ ضیاع اور ناقدری دیکھنے میں آرہی ہے وہ رزق ہے۔ حتیٰ کہ دنیا کے ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کی بیشتر آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔

اور دنیا کی بیس فی صد آبادی متوازن غذا سے محروم ہے۔ اور دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک کے مطابق ہر سال ایک تہائی اناج ضایع کردیا جاتا ہے جب کہ ضایع کردہ کھانے کی مقدار 1.

3ارب ٹن ہے۔ اور اگر اس رجحان کونہ روکا گیا تو یہ مقدار2030ء تک2 ارب ٹن سے تجاوز کر جائے گی۔ اس لیے خوراک کے تحفظ کے نظام میں بہتری اجتماعی سے زیادہ انفرادی کوشش پر منحصر ہے کہ ہم نعمتوں کے استحضار اور شُکر کے ساتھ فضول خرچی سے بچیں اور رزق کی ناقدری نہ کریں تو کتنے فاقہ کشوں کی بھوک مٹانے کا سامان ہوسکتا ہے۔ رزق کی ناقدری پر آنے والے وبال (نعمتوں کے چھن جانے) سے اﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حضرت سلمان فارسی رزق کی ناقدری ارشاد فرمایا نعمتوں کے ا جاتا ہے اﷲ تعالی ان کے لیے کھانے کے قرار دیا کے ساتھ چناں چہ ہے کہ ا کے پاس ہے اور اس لیے اور اس میں ہے دیا ہے

پڑھیں:

تجدید وتجدّْ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-9

 

4

مفتی منیب الرحمن

اس کائنات میں ایک اللہ تعالیٰ کا تشریعی نظام ہے‘ جس کے ہم جوابدہ ہیں اور اْس پر اْخروی جزا وسزا کا مدار ہے اور دوسرا تکوینی نظام ہے‘ جس میں بندے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی مشِیئت کے تابع ہے اور اس پر جزا وسزا کا مدار نہیں ہے۔ تکوینی نظام سبب اور مسبَّب اور علّت ومعلول کے سلسلے میں مربوط ہے۔ ’’سبب‘‘ سے مراد وہ شے ہے جو کسی چیز کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اْس کے نتیجے میں جو چیز وجود میں آئے‘ اْسے ’’مْسَبَّب‘‘ کہتے ہیں‘ اسی کو علّت ومعلول بھی کہتے ہیں لیکن منطق وفلسفہ میں دونوں میں معنوی اعتبار سے تھوڑا سا فرق ہے۔ اسی بنا پر اس کائنات کے نظم کو عالَم ِ اسباب اور قانونِ فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔

معجزے سے مراد مدعی ِ نبوت کے ہاتھ پر یا اْس کی ذات سے ایسے مافوقَ الاسباب امور کا صادر ہونا جس کا مقابلہ کرنے سے انسان عاجز آ جائیں۔ نبی اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر بھی معجزہ پیش کرتا ہے۔ مادّی اسباب کی عینک سے کائنات کو دیکھنے والے کہتے ہیں: قانونِ فطرت اٹل ہے‘ ناقابل ِ تغیّْر ہے‘ لہٰذا قانونِ فطرت کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اْسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ منکرین ِ معجزات نے مِن جملہ دیگر معجزات کے نبیؐ کے معراجِ جسمانی کا بھی انکار کیا اور کہا: ’’رسول اللہؐ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف اور عقلاً مْحال ہے۔ اگر معراج النبی کی بابت احادیث کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اْنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اس پر قادر ہے‘ یہ جاہلوں اور ’’مرفوع القلم‘‘ لوگوں کا کام ہے‘ یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں‘ کوئی عقل مند شخص ایسی بات نہیں کر سکتا۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابل ِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اْنہوں نے راوی کے سَہو وخطا‘ دور اَز کار تاویلات‘ فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا‘‘۔ (تفسیر القرآن) یہ سرسیّد احمد خاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔ الغرض وہ معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں‘ ہمیں وحی ِ ربانی کے مقابل عقلی اْپَج کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طَعن قبول ہے‘ کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی محبت ِ رسولؐ کا تقاضا ہے۔ ان کی فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور مختارِ کْل نہیں ہے‘ بلکہ العیاذ باللہ! وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین ِ فطرت کا پابند ہے۔

ہم کہتے ہیں: بلاشبہ اسباب موثر ہیں‘ لیکن اْن کی تاثیر مشیئتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے‘ لیکن یہ اسباب یا قانونِ فطرت خالق پر حاکم ہیں اور نہ وہ اپنی قدرت کے ظہور کے لیے ان اسباب کا محتاج ہے۔ وہ جب چاہے ان کے تانے بانے توڑ دے‘ معطَّل کر دے اور اپنی قدرت سے ماورائے اَسباب چیزوں کا ظہور فرمائے‘ مثلاً: عالَم ِ اسباب یا باری تعالیٰ کی سنّت ِ عامّہ کے تحت انسانوں میں مرد و زَن اور جانوروں میں مادہ ونَر کے تعلق سے بچہ پیدا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے‘ چنانچہ اْس نے سیدنا عیسیٰؑ کو بِن باپ کے‘ سیدہ حوا کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر اور سیدنا آدمؑ کو ماں باپ دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اْس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن غلام احمد پرویز اور مرزا غلام قادیانی وغیرہ سیدنا عیسیٰؑ کے بن باپ کے پیدا ہونے کو تسلیم نہیں کرتے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک (بن باپ کے پیدا ہونے میں) عیسیٰؑ کی مثال آدم کی سی ہے‘ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا فرمایا‘ پھر اْس سے فرمایا: ہو جا‘ سو وہ ہوگیا‘‘۔ (آل عمران: 59) الغرض یہود کی طرح انہیں عفت مآب سیدہ مریمؑ پر تہمت لگانا تو منظور ہے‘ لیکن معجزات پر ایمان لانا قبول نہیں ہے۔

قرآنِ کریم کی واضح تعلیم ہے کہ کسی کو دین ِ اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین (قبول کرنے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) مگر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ہو اْسے مسلمان رہنے کا پابند کیا جائے گا‘ اسی لیے اسلام میں اِرتداد موجب ِ سزا ہے‘ جبکہ موجودہ متجددین کے نزدیک ارتداد اور ترکِ اسلام کوئی جرم نہیں ہے۔ جمہورِ امت کے نزدیک کتابیہ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے‘ لیکن مسلمان عورت کا کتابی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے‘ مگر متجددین ائمۂ دین کے اجماعی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اس نکاح کے جواز کے قائل ہیں۔

اگر آپ اس تجدّْدی فکر کی روح کو سمجھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ جمہور امت وحی ِ ربانی کو حتمی‘ قطعی اور دائمی دلیل سمجھتے ہیں‘ جبکہ یہ حضرات اپنی عقلی اْپَج کو وحی کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں اور عقلی نتیجہ ٔ فکر کے مقابل انہیں وحی کو ردّ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ وحی بتاتی ہے کہ عاقل مومن کو وحی اور خالق کی مرضی کے تابع رہ کر چلنا ہے‘ جبکہ تجدّْد کے حامی کہتے ہیں: ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ بعض متجدِّدین حدیث کو تاریخ کا درجہ دیتے ہیں‘ جو رَطب ویابس کا مجموعہ ہوتی ہے‘ اْن کے نزدیک حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا‘ ماضی میں ایسے نظریات کے حامل اپنے آپ کو اہل ِ قرآن کہلاتے تھے۔ اگر حدیث سے مطلب کی کوئی بات ثابت ہوتی ہو تو اپنی تائید میں لے لیتے ہیں اور اگر اْن کی عقلی اْپج کے خلاف ہو تو انہیں حدیث کو ردّ کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ جبکہ احادیث ِ مبارکہ کی چھان بین اور صحت کو طے کرنے کے لیے باقاعدہ علوم اصولِ حدیث و اسمائْ الرِّجال وضع کیے گئے ہیں‘ جبکہ تاریخ کی چھان پھٹک اس طرح نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذِکر (قرآنِ کریم) اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتائیں جو اْن کی طرف اُتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر کریں‘‘۔ (النحل: 44) الغرض قرآنِ کریم کی تبیِین کی ضرورت تھی اور اْس کے مْبَیِّن (وضاحت سے بیان کرنے والے) رسول اللہؐ ہیں۔ اگر شریعت کو جاننے کے لیے قرآن کافی ہوتا تو مزید وضاحت کی ضرورت نہ رہتی‘ اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک سے زائد مقامات پر فرائضِ نبوت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور وہ انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ اکثر مفسرین کے نزدیک حکمت سے مراد سنّت ہے۔

ایک صحابیہ اْمِّ یعقوب تک حدیث پہنچی‘ جس میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے بعض کاموں پر لعنت فرمائی ہے۔ وہ عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ’’میں نے دو جلدوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے‘ مجھے تو اس میں یہ باتیں نہیں ملیں‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’اگر تْو نے توجہ سے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ باتیں مل جاتیں‘ کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: ’’اور جو کچھ تمہیں رسول دیں‘ اْسے لے لو اور جس سے وہ روکیں‘ اْس سے رک جائو‘‘۔ (الحشر: 7) اْمِّ یعقوب نے کہا: ’’کیوں نہیں! میں نے یہ آیت پڑھی ہے‘‘ تو ابن مسعودؐ نے فرمایا: رسول اللہؐ نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔ اْس نے کہا: ’’میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہلیہ یہ کام کرتی ہیں‘‘۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جائو دیکھو‘‘۔ وہ گئی اور دیکھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتیں‘ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: ’’اگر میری اہلیہ ایسے کام کرتیں تو میں اْن سے تعلق نہ رکھتا۔ (بخاری)۔

(جاری)

مفتی منیب الرحمن

متعلقہ مضامین

  • فاسٹ فیشن کے ماحولیاتی اثرات
  • تجدید وتجدّْ
  • فضائی آلودگی کا وبال، لاہور دنیا کے آلودہ شہروں میں پھر سرفہرست
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ