Jasarat News:
2025-09-19@00:38:26 GMT

پاکستان کو لاپتانستان بنانے والے

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

پاکستان کو لاپتانستان بنانے والے

اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق مقدمے کی سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست لاپتا افراد کی بازیابی میں ناکام ہوگئی ہے۔ ہم جہاں سے چلے تھے وہیں کھڑے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ مقدمہ اس وقت ختم ہوگا جب تمام لاپتا افراد بازیاب ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جبری گمشدہ افراد کے اہل خانہ کے آنسوئوں کا مداوا ایجنسیوں ہی کو کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی لاپتا فرد دہشت گرد ہے تو یہ بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی کو بتانا ہے۔ (روزنامہ جسارت 31 جنوری 2025ء)

آٹھ دس سال پہلے لاپتا افراد کا مقدمہ ایک عام مقدمے کی طرح شروع ہوا تھا مگر اب یہ مقدمہ ریاست پاکستان کی تعریف متعین کرنے والا یا اسے Define کرنے والا مقدمہ بن چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالتیں بھی لاپتا افراد کو بازیاب کرانے اور ذمے داروں کو سزا دینے میں ناکام ہوچکی ہیں، بلکہ ابھی تک تو اس امر کا تعین بھی نہیں ہوسکا ہے کہ لاپتا افراد کو کس کس نے لاپتا کیا ہوا ہے۔ عام آدمی جرم کرتا ہے تو عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کیا ضلعی عدالت بھی اس شخص کی ایسی تیسی کردیتی ہے مگر لاپتا افراد کے کیس میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالتیں ابھی تک ملک کے خفیہ اداروں کے سربراہوں کو بھی عدالت میں طلب نہیں کرسکی ہیں۔ حالانکہ یہ مقدمہ اتنا اہم ہے کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سربراہوں کو کیا آرمی چیف کو بھی اگر عدالت میں طلب کرنا پڑے تو اسے طلب کیا جانا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی تکریم اسلامی تہذیب میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ ہماری تہذیب انسان کو زمین پر خدا کا نائب تصور کرتی ہے۔ ہمارا دین کہتا ہے کہ جس نے ایک آدمی کی جان بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کی جان بچائی، اور اگر کسی نے ایک آدمی کو ناحق قتل کیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا۔ مولانا روم دنیا کے سب سے بڑے شاعر ہیں اور انہوں نے فرمایا ہے کہ انسان کا احترام تہذیب کی روح ہے۔ میر تقی میر نے کہا ہے۔

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
غالب نے کہا ہے
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
اقبال نے کہا ہے
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق

لیکن بدقسمتی سے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو لاپتانستان بنادیا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں صرف سیکڑوں افراد ہی لاپتا نہیں ہیں بلکہ اس بے مثال اور شاندار ملک کی درجنوں اہم ترین چیزیں بھی جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے لاپتا کی ہوئی ہیں۔

پاکستان کی سب سے قیمتی متاع اس کا نظریہ یعنی اسلام ہے۔ یہ اسلام ہی تھا جس کی طاقت نے محمد علی جناح کو قائداعظم بنایا۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے لوگوں کے وکیل جناح کو ایک قوم، ایک تاریخ اور ایک تہذیب کا وکیل بنایا۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے برصغیر کے بکھرے ہوئے مسلمانوں کی ’’بھیڑ‘‘ کو ایک قوم میں ڈھالا۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے پاکستان کو ’’عدم کی تاریکی‘‘ سے نکال کر ’’وجود کی روشنی‘‘ بخشی۔ لیکن ہمارے جرنیلوں نے اقتدار پر قبضہ کرکے اسلام کی بیخ کنی کی تاریخ رقم کی۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا مگر جنرل ایوب نے پاکستان کو سیکولر بنانے کی سازش کی۔ انہوں نے سود کو ’’حلال‘‘ قرار دلوایا۔ جنرل پرویز مشرف جب تک اقتدار میں رہے ملک کو لبرل بنانے کی سازش کرتے رہے۔ جنرل ضیا الحق اسلام پرست تھے مگر انہوں نے اسلام کو صرف اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ بھٹو جنرل ایوب کی پیداوار تھے۔ وہ چھے سال تک ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا بے معنی راگ الاپتے رہے۔ جنرل عاصم منیر خیر سے ’’حافظ قرآن‘‘ بھی ہیں اور ’’سید‘‘ بھی مگر انہوں نے گزشتہ دو سال میں ملک پر اسلام کے غلبے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ بلکہ بھٹو صاحب نے ملک کو اسلامی آئین دیا مگر ہمارے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے ملک کے آئین کو اسلام کا قیدخانہ بنایا ہوا ہے۔ وہ اسلام کو آئین سے نکل کر اجتماعی زندگی پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔

پاکستان کے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے قائداعظم کے عظیم فکری اور عملی ورثے کو بھی لاپتا کیا ہوا ہے۔ قائداعظم کے ورثے کا سب سے اہم پہلو ان کی ’’مزاحمت‘‘ تھی۔ انہوں نے وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ اور ہندو اکثریت کی بے مثال مزاحمت کی۔ مگر پاکستان کے جرنیلوں اور سیاست دانوں نے پہلے دن سے امریکا کے آگے ہتھیار ڈالے ہوئے ہیں۔ امریکا چاہتا ہے تو ہمارے جرنیل افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف ’’جہاد‘‘ کرنے لگتے ہیں، امریکا حکم دیتا ہے تو ہمارے جرنیل مقبوضہ کشمیر میں جہاد سے دستبردار ہوجاتے ہیں، امریکا چاہتا ہے تو ملک میں جمہوریت بحال ہوتی ہے، امریکا دبائو ڈالتا ہے تو انتخابات ہوجاتے ہیں، امریکا چاہتا ہے تو نواز شریف قید سے رہا ہو کر سعودی عرب پہنچ جاتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ بھٹو صاحب کہا کرتے تھے کہ ہمیں بھارت سے ایک ہزار سال جنگ کرنی پڑی تو ہم جنگ کریں گے اور ایک وقت یہ آیا کہ جنرل باجوہ نے درجنوں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم بھارت سے جنگ نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے پاس ٹینکوں میں پٹرول ڈالنے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ دنیا بھر میں قومیں اپنے دشمنوں سے گھبراتی ہیں مگر پاکستانی قوم سب سے زیادہ اپنے جرنیلوں سے ڈرتی ہے۔ اس لیے کہ قوم کی آزادی، خود مختاری اور عزت نفس کو جیسا خطرہ پاکستانی جرنیلوں سے ہے ویسا خطرہ تو اسے بھارت اور امریکا سے بھی نہیں ہے۔

ہر قوم کا اثاثہ اس کی سیاسی قیادت ہوتی ہے مگر پاکستان کے ہر اہم سیاسی رہنما پر ’’جی ایچ کیو ساختہ‘‘ لکھا ہوا ہے۔ بھٹو جنرل ایوب کی پیداوار تھے اور انہیں احتراماً ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔ میاں نواز شریف کیا ان کا پورا خاندان جرنیلوں کی پیداوار ہے۔ عمران خان کو سیاست دان جرنیلوں ہی نے بنایا اور اب انہوں نے جنرل عاصم منیر کو خط لکھ کر ان سے پالیسیوں میں تبدیلی کی ’’درخواست‘‘ کردی ہے۔ خدا خدا کرکے عمران خان سے اپنا ’’پتا‘‘ پیدا کیا تھا مگر ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک بار پھر ’’لاپتا‘‘ ہونے کی تیاری کررہے ہیں۔

پاکستانی جرنیلوں نے 1958ء سے اب تک ملک کے آئین کو ’’لاپتا‘‘ کیا ہوا ہے۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں مارشل لا لگایا تو انہوں نے 1956ء کے آئین کو لاپتا کردیا۔ جنرل ضیا الحق نے 1973ء کے آئین کو دس سال تک لاپتا کیے رکھا۔ کہنے کو اس وقت بھی ملک میں آئین موجود ہے مگر ملک کا اصل آئین جرنیلوں کی ’’خواہش‘‘ ہے۔ اس کا ایک ثبوت پیکا ایکٹ ہے جو آئین کے کئی آرٹیکلز کے منافی ہے۔

سیدنا علیؓ نے کہا تھا معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے مگر انصاف کے بغیر معاشرے کا زندہ رہنا مشکل ہے۔ اس اعتبار سے ملک کی عدالتوں کی آزادی معاشرے اور ریاست کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے لیکن ہمارے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے ملک کی اعلیٰ عدالتوں کو ’’لاپتا‘‘ کیا ہوا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک قتل کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی اور اب عدالت عظمیٰ نے تسلیم کرلیا ہے کہ یہ سزا صحیح نہیں تھی۔ بھٹو کی سزائے موت ’’جوڈیشل مرڈر‘‘ تھا۔ بادی النظر میں عمران خان کے خلاف بھی جتنے مقدمے چل رہے ہیں وہ اپنی اصل میں ’’سیاسی‘‘ ہیں۔ وہ جنرل عاصم منیر کے ساتھ ’’ڈیل‘‘ کرلیں تو چار دن میں سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت اور انتخابات بھی مدتوں سے لاپتا ہیں۔ پاکستان کی جمہوریت فوجی آمریت کے سائے کے سوا کچھ نہیں۔ 2024ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت حاصل کررہی تھی مگر جرنیلوں نے اسے ہرا کر ملک پر شہباز شریف کو مسلط کردیا۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات جماعت اسلامی جیت چکی تھی مگر خفیہ اداروں نے کراچی پر پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ وہاب کو مسلط کردیا۔ یہی پاکستان کو لاپتانستان بنانے کا مکروہ عمل ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: یہ اسلام ہی تھا جس لاپتا افراد پاکستان کو کے ا ئین کو کیا ہوا ہے جنرل ایوب لاپتا کی انہوں نے کو لاپتا ملک کی نے کہا کہا کہ ہے مگر کو بھی

پڑھیں:

دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ دنیا کو محفوظ بنانے  کے لیے ہے، وفاقی وزیر اطلاعات

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے  کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ دنیا کو محفوظ بنانے  کے لیے ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ پاکستان کی جاری کارروائیاں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ محض قومی فریضہ نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی ذمہ داری بھی ہے جس کا ہدف عالمی امن و استحکام کو برقرار رکھنا ہے۔

انہوں نے اس موقع پر زور دیا کہ جو اقدامات پاکستان نے خطے میں عدم استحکام کے خاتمے اور تحفظِ عامہ کے لیے اٹھائے، وہ نہ صرف ملک کے مفاد میں تھے بلکہ دنیا کو درپیش بڑے خطرات کو بھی کم کرنے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔

مقررین کو مخاطب کر کے عطا تارڑ نے کہا کہ تازہ واقعات نے بین الاقوامی سطح پر غلط فہمی پھیلانے والوں کو بےنقاب کر دیا ہے اور پاکستان نے حقائق کی بنیاد پر اپنی پالیسی کو مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ حالیہ کشیدگی کے دوران بھارت کے پراپیگنڈے کو عالمی اداروں اور مبصرین کے سامنے بےنقاب کیا گیا، جس کے باعث بھارتی موقف کمزور پڑ گیا اور جارحیت کی اصل تصویر عوام کے سامنے آئی۔ پہلگام واقعے جیسے تنازعات کی حقیقت عوامی سطح پر واضح کی گئی اور پاکستان نے شفاف انداز میں حل کے لیے کھلے دل سے تعاون کی پیشکش بھی کی۔

وفاقی وزیر نے 4 روزہ جھڑپوں کے تناظر میں کہا کہ پاکستان نے دفاعی محاذ پر مؤثر کارکردگی دکھائی اور قومی دفاعی قوت کی صلاحیتوں کو منوانے میں کامیاب رہا۔ انہوں نے اس کامیابی کو نہ صرف فوجی پہلو سے بلکہ حکمتِ عملی اور سیاسی سطح پر بھی ایک نمایاں کامیابی قرار دیا، جس کا مقصد خطے میں پائیدار امن کی راہ ہموار کرنا تھا۔

عطا اللہ تارڑ نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان ہمیشہ امن کو اولین ترجیح دے گا مگر اپنی سرحدوں اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔

وزیر اطلاعات نے اس بات پر بھی زور دیا کہ خطے میں امن کے قیام کے لیے بین الاقوامی شراکت داری اور قانونِ بین الاقوامی کے اصولوں کی پاسداری ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ اقوامِ عالم کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی ہے اور بین الاقوامی اداروں کو موثر کردار ادا کرنے کی دعوت دی ہے تاکہ تنازعات کا پائیدار حل ممکن ہو سکے۔

متعلقہ مضامین

  • شہری کی بازیابی کیلیے تمام وسائلاستعمال کیے جائیں‘ سندھ ہائیکورٹ
  • فینٹانل بنانے والے اجزا کی اسمگلنگ: امریکا نے بھارتی کاروباری افراد کے ویزے منسوخ کردیے
  • پاکستان اور یورپی یونین کا معاشی شراکت داری مزید مضبوط بنانے پر اتفاق
  • 5 ویں جماعت کے لاپتا طالبعلم پر چرس کا مقدمہ قائم
  • حکومت صحت کے نظام کو مضبوط بنانے کے لئے پرعزم ہے،سید مصطفی کمال
  • کراچی: شادی والے دن لاپتا ہونیوالے دُلہا کے کیس کا ڈراپ سین، نوجوان کا بیان سامنے آگیا
  • جرمنی: اسلام مخالف ریلی میں چاقو سے حملہ کرنے والے افغانی کو عمر قید
  • جرمنی میں اسلام مخالف ریلی میں چاقو حملہ کرنے والے افغان شہری کو عمر قید کی سزا
  • دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ دنیا کو محفوظ بنانے  کے لیے ہے، وفاقی وزیر اطلاعات
  • شادی کے دن لاپتا ہونے والے نوجوان کی واپسی، ‘زبردستی’ کے رشتے سے بھاگ کر سڑکوں پر پھرنے کا انکشاف