پاکستان کو لاپتانستان بنانے والے
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق مقدمے کی سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست لاپتا افراد کی بازیابی میں ناکام ہوگئی ہے۔ ہم جہاں سے چلے تھے وہیں کھڑے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ مقدمہ اس وقت ختم ہوگا جب تمام لاپتا افراد بازیاب ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جبری گمشدہ افراد کے اہل خانہ کے آنسوئوں کا مداوا ایجنسیوں ہی کو کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی لاپتا فرد دہشت گرد ہے تو یہ بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی کو بتانا ہے۔ (روزنامہ جسارت 31 جنوری 2025ء)
آٹھ دس سال پہلے لاپتا افراد کا مقدمہ ایک عام مقدمے کی طرح شروع ہوا تھا مگر اب یہ مقدمہ ریاست پاکستان کی تعریف متعین کرنے والا یا اسے Define کرنے والا مقدمہ بن چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالتیں بھی لاپتا افراد کو بازیاب کرانے اور ذمے داروں کو سزا دینے میں ناکام ہوچکی ہیں، بلکہ ابھی تک تو اس امر کا تعین بھی نہیں ہوسکا ہے کہ لاپتا افراد کو کس کس نے لاپتا کیا ہوا ہے۔ عام آدمی جرم کرتا ہے تو عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کیا ضلعی عدالت بھی اس شخص کی ایسی تیسی کردیتی ہے مگر لاپتا افراد کے کیس میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالتیں ابھی تک ملک کے خفیہ اداروں کے سربراہوں کو بھی عدالت میں طلب نہیں کرسکی ہیں۔ حالانکہ یہ مقدمہ اتنا اہم ہے کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سربراہوں کو کیا آرمی چیف کو بھی اگر عدالت میں طلب کرنا پڑے تو اسے طلب کیا جانا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی تکریم اسلامی تہذیب میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ ہماری تہذیب انسان کو زمین پر خدا کا نائب تصور کرتی ہے۔ ہمارا دین کہتا ہے کہ جس نے ایک آدمی کی جان بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کی جان بچائی، اور اگر کسی نے ایک آدمی کو ناحق قتل کیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا۔ مولانا روم دنیا کے سب سے بڑے شاعر ہیں اور انہوں نے فرمایا ہے کہ انسان کا احترام تہذیب کی روح ہے۔ میر تقی میر نے کہا ہے۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
غالب نے کہا ہے
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
اقبال نے کہا ہے
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
لیکن بدقسمتی سے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو لاپتانستان بنادیا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں صرف سیکڑوں افراد ہی لاپتا نہیں ہیں بلکہ اس بے مثال اور شاندار ملک کی درجنوں اہم ترین چیزیں بھی جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے لاپتا کی ہوئی ہیں۔
پاکستان کی سب سے قیمتی متاع اس کا نظریہ یعنی اسلام ہے۔ یہ اسلام ہی تھا جس کی طاقت نے محمد علی جناح کو قائداعظم بنایا۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے لوگوں کے وکیل جناح کو ایک قوم، ایک تاریخ اور ایک تہذیب کا وکیل بنایا۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے برصغیر کے بکھرے ہوئے مسلمانوں کی ’’بھیڑ‘‘ کو ایک قوم میں ڈھالا۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے پاکستان کو ’’عدم کی تاریکی‘‘ سے نکال کر ’’وجود کی روشنی‘‘ بخشی۔ لیکن ہمارے جرنیلوں نے اقتدار پر قبضہ کرکے اسلام کی بیخ کنی کی تاریخ رقم کی۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا مگر جنرل ایوب نے پاکستان کو سیکولر بنانے کی سازش کی۔ انہوں نے سود کو ’’حلال‘‘ قرار دلوایا۔ جنرل پرویز مشرف جب تک اقتدار میں رہے ملک کو لبرل بنانے کی سازش کرتے رہے۔ جنرل ضیا الحق اسلام پرست تھے مگر انہوں نے اسلام کو صرف اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ بھٹو جنرل ایوب کی پیداوار تھے۔ وہ چھے سال تک ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا بے معنی راگ الاپتے رہے۔ جنرل عاصم منیر خیر سے ’’حافظ قرآن‘‘ بھی ہیں اور ’’سید‘‘ بھی مگر انہوں نے گزشتہ دو سال میں ملک پر اسلام کے غلبے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ بلکہ بھٹو صاحب نے ملک کو اسلامی آئین دیا مگر ہمارے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے ملک کے آئین کو اسلام کا قیدخانہ بنایا ہوا ہے۔ وہ اسلام کو آئین سے نکل کر اجتماعی زندگی پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔
پاکستان کے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے قائداعظم کے عظیم فکری اور عملی ورثے کو بھی لاپتا کیا ہوا ہے۔ قائداعظم کے ورثے کا سب سے اہم پہلو ان کی ’’مزاحمت‘‘ تھی۔ انہوں نے وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ اور ہندو اکثریت کی بے مثال مزاحمت کی۔ مگر پاکستان کے جرنیلوں اور سیاست دانوں نے پہلے دن سے امریکا کے آگے ہتھیار ڈالے ہوئے ہیں۔ امریکا چاہتا ہے تو ہمارے جرنیل افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف ’’جہاد‘‘ کرنے لگتے ہیں، امریکا حکم دیتا ہے تو ہمارے جرنیل مقبوضہ کشمیر میں جہاد سے دستبردار ہوجاتے ہیں، امریکا چاہتا ہے تو ملک میں جمہوریت بحال ہوتی ہے، امریکا دبائو ڈالتا ہے تو انتخابات ہوجاتے ہیں، امریکا چاہتا ہے تو نواز شریف قید سے رہا ہو کر سعودی عرب پہنچ جاتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ بھٹو صاحب کہا کرتے تھے کہ ہمیں بھارت سے ایک ہزار سال جنگ کرنی پڑی تو ہم جنگ کریں گے اور ایک وقت یہ آیا کہ جنرل باجوہ نے درجنوں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم بھارت سے جنگ نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے پاس ٹینکوں میں پٹرول ڈالنے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ دنیا بھر میں قومیں اپنے دشمنوں سے گھبراتی ہیں مگر پاکستانی قوم سب سے زیادہ اپنے جرنیلوں سے ڈرتی ہے۔ اس لیے کہ قوم کی آزادی، خود مختاری اور عزت نفس کو جیسا خطرہ پاکستانی جرنیلوں سے ہے ویسا خطرہ تو اسے بھارت اور امریکا سے بھی نہیں ہے۔
ہر قوم کا اثاثہ اس کی سیاسی قیادت ہوتی ہے مگر پاکستان کے ہر اہم سیاسی رہنما پر ’’جی ایچ کیو ساختہ‘‘ لکھا ہوا ہے۔ بھٹو جنرل ایوب کی پیداوار تھے اور انہیں احتراماً ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔ میاں نواز شریف کیا ان کا پورا خاندان جرنیلوں کی پیداوار ہے۔ عمران خان کو سیاست دان جرنیلوں ہی نے بنایا اور اب انہوں نے جنرل عاصم منیر کو خط لکھ کر ان سے پالیسیوں میں تبدیلی کی ’’درخواست‘‘ کردی ہے۔ خدا خدا کرکے عمران خان سے اپنا ’’پتا‘‘ پیدا کیا تھا مگر ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک بار پھر ’’لاپتا‘‘ ہونے کی تیاری کررہے ہیں۔
پاکستانی جرنیلوں نے 1958ء سے اب تک ملک کے آئین کو ’’لاپتا‘‘ کیا ہوا ہے۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں مارشل لا لگایا تو انہوں نے 1956ء کے آئین کو لاپتا کردیا۔ جنرل ضیا الحق نے 1973ء کے آئین کو دس سال تک لاپتا کیے رکھا۔ کہنے کو اس وقت بھی ملک میں آئین موجود ہے مگر ملک کا اصل آئین جرنیلوں کی ’’خواہش‘‘ ہے۔ اس کا ایک ثبوت پیکا ایکٹ ہے جو آئین کے کئی آرٹیکلز کے منافی ہے۔
سیدنا علیؓ نے کہا تھا معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے مگر انصاف کے بغیر معاشرے کا زندہ رہنا مشکل ہے۔ اس اعتبار سے ملک کی عدالتوں کی آزادی معاشرے اور ریاست کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے لیکن ہمارے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے ملک کی اعلیٰ عدالتوں کو ’’لاپتا‘‘ کیا ہوا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک قتل کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی اور اب عدالت عظمیٰ نے تسلیم کرلیا ہے کہ یہ سزا صحیح نہیں تھی۔ بھٹو کی سزائے موت ’’جوڈیشل مرڈر‘‘ تھا۔ بادی النظر میں عمران خان کے خلاف بھی جتنے مقدمے چل رہے ہیں وہ اپنی اصل میں ’’سیاسی‘‘ ہیں۔ وہ جنرل عاصم منیر کے ساتھ ’’ڈیل‘‘ کرلیں تو چار دن میں سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت اور انتخابات بھی مدتوں سے لاپتا ہیں۔ پاکستان کی جمہوریت فوجی آمریت کے سائے کے سوا کچھ نہیں۔ 2024ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت حاصل کررہی تھی مگر جرنیلوں نے اسے ہرا کر ملک پر شہباز شریف کو مسلط کردیا۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات جماعت اسلامی جیت چکی تھی مگر خفیہ اداروں نے کراچی پر پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ وہاب کو مسلط کردیا۔ یہی پاکستان کو لاپتانستان بنانے کا مکروہ عمل ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: یہ اسلام ہی تھا جس لاپتا افراد پاکستان کو کے ا ئین کو کیا ہوا ہے جنرل ایوب لاپتا کی انہوں نے کو لاپتا ملک کی نے کہا کہا کہ ہے مگر کو بھی
پڑھیں:
بھارت میں گرفتار ہونے والے سارے جاسوس پاکستانی چاکلیٹ کیوں کھاتے ہیں؟
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ اور وزیرِ مملکت برائے داخلہ امور طلال چوہدری نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ کس طرح غلطی سے بھارتی سمندری حدود میں داخل ہونے والے اعجاز ملاح کو بھارتی خفیہ ادارے نے پکڑ کر پاکستان میں جاسوسی کے اہداف دیے۔
وفاقی وزرا کے مطابق اعجاز ملاح کو پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیز نے گرفتار کرکے جب اس سے پوچھ گچھ کی تو انکشاف ہوا کہ وہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی وردیاں اپنے بھارتی ہینڈلر کے سپرد کرنے والا تھا اور اِس کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی، جن میں سب سے اہم زونگ کمپنی کے سم کارڈ تھے۔
یہ بھی پڑھیں: آپریشن سندور میں رسوائی کے بعد بھارت کی ایک اور سازش ناکام، جاسوسی کرنے والا ملاح گرفتار، اعتراف جرم کرلیا
وفاقی وزیر کے مطابق یہ اشیا حوالے کرنے کا مقصد پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کو بھی ملوث کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے کرنسی نوٹ، پاکستان کے سیگریٹ اور پاکستانی کی ماچسیں بھی حوالے کی جانی تھیں۔
اس ساری واردات کا مقصد بظاہر اِتنا خوفناک معلوم نہیں ہوتا لیکن دیکھا جائے تو ماضی میں بھارت نے مختلف واقعات میں پاکستان کی دراندازی ثابت کرنے کے لیے ایسی ہی چیزوں کا سہارا لیا۔
بھارتی حکومت کسی کو پاکستانی ایجنٹ ثابت کرنے کے لیے کبھی تو یہ کہتی ہے کہ فلاں سے پاکستانی کرنسی برآمد ہوئی، فلاں سے پاکستانی چاکلیٹ ریپر، پاکستانی بسکٹ یا پاکستانی سیگریٹ برآمد ہوئے۔ یہ بھارتی حکومت کی پرانی حکمتِ عملی ہے اور خاص کر ایک ایسے ماحول اور معاشرے میں جہاں فوجی کارروائیوں پر سوال اُٹھانا ملک دشمنی سمجھا جاتا ہو، ایسی چیزوں کو قبولیتِ عام ملتی ہے۔
بھارت نے پاکستانی مصنوعات کی بنیاد پر کب کب پاکستانی پر دراندازی کے الزامات لگائے؟بھارت یہ طریقہ واردات 1965 اور 1971 کی جنگوں میں بھی استعمال کر چکا ہے جب یہ دعوے کیے گئے کہ پاکستانی اہلکار بھارتی علاقے میں گھس کر جاسوسی کر رہے تھے اور ثبوت کے طور پر اکثر پاکستانی سیگریٹس، مصالحے، بسکٹ اور چائے کے پیکٹس دکھائے جاتے تھے۔
1999 کی کارگل جنگ میں بھارتی میڈیا نے متعدد جگہوں پر دعویٰ کیاکہ پاکستانی فوجی بھارتی علاقوں میں گھسے ہوئے تھے۔ ثبوت کے طور پر وہی پاکستانی بسکٹ، چائے کے ریپر اور اردو میں لکھے ہوئے ادویات کے لیبل پیش کیے گئے۔ بھارتی دفاعی ماہرین نے بعد میں تسلیم بھی کیا کہ یہ غیر سنجیدہ اور کمزور شواہد تھے۔
2008 میں بھارتی فوج کی پریس کانفرنسوں میں کئی بار پاکستانی بسکٹ، کڑک چائے کے ریپر یا سگریٹ پیک دکھائے گئے اور ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ بھارت میں دراندازی کے لیے لوگ پاکستان سے آئے تھے۔
2013 میں دہلی پولیس نے ایک نوجوان کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا جس کے پاس سے پاکستانی 100 روپے کا نوٹ اور راولپنڈی کی بنی ہوئی چاکلیٹ برآمد ہوئی۔ بعد میں پتا چلا گرفتار شدہ نوجوان ذہنی مریض تھا۔
2016 اڑی حملہ میں بھارتی حکومت نے دعوٰی کیاکہ مارے گئے حملہ آوروں کی پاس سے پاکستانی چاکلیٹس اور بسکٹ برآمد ہوئے ہیں، اس بات کو خود بھارتی میڈیا نے بعد میں مزاحیہ الزام قرار دیا۔
2017 میں بھارت نے دعوٰی کیاکہ پاکستان کا جاسوسی نیٹ ورک پکڑا گیا ہے، اور ثبوت کے طور پر پان پراڈکٹس اور چاکلیٹ ریپر پیش کیے گئے۔
2019 پلوامہ واقعے میں پاکستانی دراندازی شامل کرنے لیے پاکستانی بسکٹ اور چائے کے خالی پیکٹ ثبوت کے طور پر پیش کیے گئے۔
2021 میں بھارتی حکومت نے ایک مقامی چراوہے کو اِس بنیاد پر جاسوس قرار دے دیا کہ اس کے پاس پاکستانی بسکٹ اور اوڑھنے والی چادر تھی، بعد میں وہ شخص بھارتی شہری ہی نکلا۔
21 اگست 2022 کو بھارتی فوج نے الزام لگایا کہ اس نے جموں و کشمیر کے راجوری ضلع میں لائن آف کنٹرول پر دراندازی کی کوشش ناکام بنائی ہے اور مبینہ طور پر گرفتار پاکستانی عسکریت پسند سے پاکستانی کرنسی برآمد ہوئی ہے۔ بھارتی فوج نے اسے پاکستان کی حمایت سے دراندازی کا ثبوت قرار دیا۔
22 اپریل 2025 کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشتگردوں نے سیاحوں پر حملہ کیا، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ بھارتی فورسز نے 28 جولائی 2025 کو آپریشن مہادیو میں 3 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔
بھارتی حکومت کے مطابق ان دہشتگردوں سے مبینہ طور پر پاکستان کی بنی ہوئی چاکلیٹس کی ریپنگز برآمد ہوئیں جو کراچی میں کینڈی لینڈ اور چاکو میکس کی بنی ہوئی تھیں۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ یہ ثبوت پاکستان سے دراندازی کا اشارہ دیتے ہیں، اور دہشتگرد پاکستانی شہری تھے۔
جاسوسوں کی گرفتاری کی اب کئی خبریں سننے کو ملیں گی، بریگیڈیئر (ر) آصف ہاروندفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کا نیٹ ورک اِس وقت بہت زیادہ وسیع ہوگیا ہے۔ یہ نیٹ ورک آج گلف ممالک، کینیڈا، امریکا اور یورپ تک پھیلا ہوا ہے۔
انہوں نے کہاکہ کلبھوشن یادیو ایک ثبوت ہے کہ کس طرح سے اس نے اپنی شناخت چھپا کر ایران میں کاروبار بنایا اور پاکستان میں جاسوسی کے لیے آتا جاتا رہا۔
بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے بتایا کہ غریب مچھیروں کو پکڑ کر اُن کو بلیک میل کرکے اُن سے پاکستان کی جاسوسی کروانا بھارتی خفیہ اداروں کا پرانا وطیرہ ہے، اور موٹر لانچز ہی کے ذریعے سے زیادہ تر پیسوں کی غیر قانونی ترسیل، جیسا کہ حوالہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستانی خفیہ ادارے بہت متحرک ہیں، اب اِس طرح کی بہت سی خبریں دیکھنے سننے کو ملیں گی۔ اس سے قبل کراچی، لاہور اور اِسلام آباد سے اِس طرح کے کئی جاسوس پکڑے جا چُکے ہیں۔
بھارت جامع مسائل کے حل کی طرف قدم نہیں اٹھاتا، ایئر مارشل (ر) اعجاز ملکایئر مارشل (ر) اعجاز ملک نے گزشتہ ماہ میڈیا کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان اور ہمسایہ بھارت کے تعلقات کبھی بہتر نہیں ہو سکتے کیونکہ بھارت پاکستان کے ساتھ جامع مسائل حل کرنے کی طرف قدم نہیں اٹھاتا۔
انہوں نے کہاکہ ان تنازعات میں کشمیر، انڈس واٹر ٹریٹی اور بھارتی ریاستی سرپرستی میں سرحد پار دہشتگردی شامل ہیں۔ ہماری مسلح افواج ہمیشہ قومی خودمختاری اور پاکستان کی سالمیت کا دفاع کرتی ہیں اور ہر چیلنج کے سامنے کھڑی ہے۔
بھارت نے ’را‘ کی فنڈنگ بڑھا کر دائرہ کار وسیع کردیا، دھیرج پرمیشابرطانوی یونیورسٹی آف ہِل میں کریمنالوجی کے پروفیسر بھارتی نژاد دھیرج پرمیشا نے بھارتی اخبار کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور مشیر قومی سلامتی اجیت دوول نے بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کو فنڈنگ بڑھا کر اُس کے دائرہ کار میں اِضافہ کر دیا ہے جو اِس سے پہلے کانگریس کے دور میں نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان بھارت کشیدگی: ہندوستان کو کیا کیا نقصانات اٹھانے پڑ سکتے ہیں؟
’بھارت کے پاس اِس طرح سے وسیع نیٹ ورک 1980 کی دہائی میں تھا۔ خفیہ نیٹ ورک کی وسعت کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی کے اہداف بڑھ گئے ہیں۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بھارتی جاسوسی پاک بھارت جنگ پاکستان بھارت تعلقات خفیہ ادارے متحرک گرفتاریاں معرکہ حق وی نیوز