انسانوں کی انگلیوں کے نشان کی طرح ایک ہیرا بھی کبھی کسی دوسرے ہیرے سے نہیں ملتا۔ اس لئے ہر قدرتی ہیرا اپنے آپ میں نادرالمثال ہوتا ہے۔ہیرے کی دریافت اگرچہ ہندوستان میں لیکن اسے قدیم یونانی اپنے دیوتاؤں کے آنسو سمجھتے تھے جبکہ قدیم روم والوں کے نزدیک یہ ہیرے ٹُوٹے ہوئے تاروں کا حصہ تھے اور وہ انہیں خوش قسمتی کی علامت اور بد رُوحوں کو بھگانے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔

تاہم مختلف ہیروں سے متعلق بہت ساری کہانیاں دنیا بھر میں گردش کرتی رہی ہیں اور بعض ہیروں کو تو بدقسمتی کی علامت بھی سمجھا گیا ہے۔دنیا کا سب سے مشہور کوہِ نور ہیرا ان میں سے ایک ہے جو ہندوستان میں دریافت ہونے کے بعد فی الحال تاج برطانیہ میں ٹنکا ہوا ہے۔

ہم یہاں ایک ایسے ہیرے کی کہانی بیان کر رہے ہیں جو اپنی خوب صورتی میں بے مثال رہا ہے، تاہم اس کے ساتھ بدشگونی اور نحوست شامل رہی ہے۔ اس مشہور ہیرے کو ’ہوپ‘ کا نام دیا گيا اس لیے نہیں کہ اس سے کوئی امید وابستہ ہے۔

یہ نیلے رنگ کا ہیرا اپنی بے پناہ خوب صُورتی کے ساتھ کئی ناموں سے مشہور رہا ہے۔ اسے کبھی ’لا بیجو دی روئی‘ یعنی بادشاہ کا ہیرا کہا گیا تو کبھی ’لا بلیو دی فرانس‘ یعنی فرانس کا نیلا ہیرا کہا گيا۔اس ہیرے کا تعلق بھی ہندوستان سے بتایا جاتا ہے۔ یہ انڈیا کی موجودہ وسطی ریاست آندھراپردیش کے ضلع گُنٹور میں کولر کان سے 17ویں صدی میں ملا تھا۔

اس ہیرے کی تاریخ کے مطابق اسے فرانس کے ایک تاجر ژان بیپٹسٹ ٹیورنیئر نے خام تراشیدہ صورت میں حاصل کیا تھا۔انہوں نے اس ہیرے کو اس کی تراشیدہ شکل میں فرانس کے بادشاہ لوئی چہار دہم کو فروخت کر دیا۔ایک رپورٹ کے مطابق 1642 میں اپنی دریافت کے بعد سے یہ ہیرا جس کی بھی ملکیت رہا اس کے لیے منحوس ثابت ہوا۔

شراپ کی کہانی

کہا جاتا ہے کہ یہ شروع میں 115 کیرٹ سے زیادہ کا ہیرا تھا اور کان سے دریافت ہونے کے بعد اسے ایک مجسمے کی ایک آنکھ کے طور پر نصب کر دیا گیا تھا۔ جب پجاری کو اس کی چوری کا علم ہوا تو اس نے شراپ دیا کہ یہ جس کے پاس ہو اُس کا بُرا ہو۔

یہ ہیرا انڈیا کی ریاست آندھرپردیش کے ضلع گُنٹور میں کولر کان سے 17ویں صدی میں ملا تھا (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

کہا جاتا ہے کہ ژاں بیپٹسٹ اس کے بعد بیمار پڑے اور موت نے انہیں آلیا لیکن دوسرے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ وہ کافی دنوں تک زندہ رہے اور اس ہیرے کو 1668 میں بادشاہ لوئی چہار دہم کو فروخت کر دیا۔
بادشاہ نے ہیرے کو خریدنے کے بعد اسے 69 کیرٹ میں ترشوا دیا اور اسے اپنے تاج میں ٹانکا جسے ’بادشاہ کا نیلا ہیرا‘ کہا گیا، لیکن اس کے بعد انہیں گینگرین کا مرض لاحق ہوگیا جس میں اُن کی موت ہو گئی۔
اس ہیرے سے متعلق ایک کہانی یہ بھی ہے کہ یہ بادشاہ کے ایک وزیر کے پاس تھا جو اسے خاص موقعے پر پہنتا تھا لیکن پھر اس کے بعد اسے سلطنت بدر کر دیا گيا اور جنگلوں میں بھٹکتے ہوئے اس کی موت واقع ہوئی۔
تاہم اس ہیرے سے متعلق یہ بات تواتر سے آتی ہے کہ لوئی چہارم کے بعد یہ لوئی 16 کی ملکیت ٹھہرا جسے فرانس کے انقلاب کے دوران ذبح کر دیا گیا اور نو ماہ بعد رانی میری کا بھی وہی حشر ہوا۔
بعض افراد کا خیال ہے کہ یہ نیلا ہیرا ہی اُن کی بدنصیبی کا سبب بنا تھا۔

ایک روایت کے مطابق فرانس کے انقلاب کے دوران یہ ہیرا چوری ہو گیا اور 20 سال تک اس کا کوئی سُراغ نہ ملا۔ اس کے بعد 115 کیرٹ کا ہیرا ڈچ جوہری ولہیلم فالس کی ملکیت بنا جسے انہوں نے 45 کیرٹ میں تراش دیا اور اسے آج اسی شکل میں ’بلیو ہوپ ڈائمنڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہیرے کو کاٹے جانے کے بعد تاجر کے بیٹے نے اپنے والد کا قتل کر دیا اور ہیرا حاصل کر لیا لیکن پھر اس نے اپنی جان بھی لے لی۔

’ہوپ‘ ہیرے کو فرانس کے ایک تاجر نے بادشاہ لوئی چہار دہم کو فروخت کر دیا تھا (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)
ایک بار پھر چند دنوں کے لیے اس کا کوئی اتا پتا نہیں تھا لیکن پھر 1838 میں یہ ہیرا ایک برطانوی تاجر کے جواہرات کے ذخیرے میں درج ملا۔ یہ تاجر خاندان ہوپ تھا اور اسی مناسبت سے اسے بلیو ’ہوپ‘ ہیرا کہا گيا۔
سنہ 1912 میں ایک رئیس زادی ایولن والش میکلین نے اس ہیرے کو پیئرے کارٹیئر سے خریدا جس کے ساتھ ہی اُن کی بدقسمتی کا ایک ایسا دور شروع ہوا جو اُن کی موت پر ختم ہوا۔اسے خریدنے کے ساتھ ہی اُن کی ساس فوت ہوگئیں اور اُن کے بیٹے کی نو سال کی عمر میں موت ہو گئی۔ اس کے شوہر نے دوسری عورت کے لیے انہیں چھوڑ دیا اور پاگل ہونے کے بعد ایک ہسپتال میں اس نے دم توڑا۔
ایولن کی بیٹی کی موت منشیات کے بہت زیادہ استعمال سے ہوئی اور بالآخر ایولین کو اپنا اخبار ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ بیچنا پڑا۔انتہائی تنگ دستی اور مقروض حالت میں ایلون کی موت ہوئی۔ ان کے بچ جانے والے بچوں نے 1949 میں ایک مشہور جوہری کے ہاتھوں وہ ہیرا فروخت کر دیا۔
اب یہ ہیرا واشنگٹن ڈی سی کے نیشنل میوزیم میں ہے، یہ نیشنل جیم اینڈ منرل کلیکشن کا حصہ ہے اور اس کی قیمت تقریباً 250 ملین امریکی ڈالر بتائی جاتی ہے۔ تاہم یہاں تک پہنچنے میں بھی اس کی بدقسمتی کی کہانی چلی آتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ جس ڈاکیے نے اسے وہاں تک پہنچایا اس کی موت ایک حادثے میں ہو گئی۔

اس ہیرے کو ایک پینڈنٹ میں جڑ دیا گیا اور یہ گلے کے ہار کا حصہ ہے۔ نیشنل میوزیم میں لوگ سب سے زیادہ اسے ہی دیکھنے جاتے ہیں جو کسی کے لیے عبرت کا نشان تو کسی کے لیے قدرت کا شاندار شاہکار ہے۔
پاکستان کی معاشی سرگرمیاں مستحکم اور شرح سود میں کمی سے بہتر ہورہی ہیں: فچ رپورٹ

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: فروخت کر دیا اس ہیرے کو اس کے بعد فرانس کے کی کہانی دیا اور یہ ہیرا ہیرے کی کے ساتھ کا ہیرا ا ہے کہ کے لیے اور اس کی موت

پڑھیں:

ندا یاسر کو ایک بار پھر اپنی ملازمہ کی چوری کی کہانی سنانے پر تنقید کا سامنا

کراچی(شوبز ڈیسک) اداکارہ و ٹی وی میزبان ندا یاسر سوشل میڈیا صارفین کی تنقید کی زد میں ہیں، اس بار وجہ بنی اُن کی ایک اور ملازمہ سے متعلق چوری کی کہانی جو انہوں نے اپنے پروگرام میں سنائی۔

حال ہی میں ندا یاسر نے اپنے مارننگ شو ’گڈ مارننگ پاکستان‘ میں ایک بار پھر اپنے گھر میں پیش آنے والے چوری کے واقعے کی تفصیلات بیان کیں۔

ندا یاسر نے بتایا کہ جب ان کے بچے بہت چھوٹے تھے اور وہ خود بھی کسی پیشہ ورانہ مصروفیت میں نہیں تھیں، تو اس وقت ان کی ایک سہیلی نے اپنے گھر پر کام کرنے والی ملازمہ کی بیٹی کو ان کے گھر پر کام کے لیے رکھوا دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ان کے بچوں کا اسکول ان کے گھر سے کافی دور تھا، جب کہ ان کی سہیلی کے بچوں کا اسکول ان کے گھر کے قریب تھا۔

ندا یاسر کا کہنا تھا کہ صبح جب وہ اپنے بچوں کو اسکول لے کر جاتی تھیں تو انہیں اسکول میں رکنا پڑتا تھا، اس دوران گھر پر ان کی ملازمہ اکیلی ہوتی تھی، ایک دن ان کی سہیلی نے ان سے کہا کہ اس کی ملازمہ اسکول میں اکیلی بیٹھی رہتی ہے، اگر اجازت ہو تو وہ تمہارے گھر آکر اپنی بیٹی (یعنی ملازمہ) کے پاس وقت گزار سکتی ہے جب تک اسکول کی چھٹی نہیں ہو جاتی۔

میزبان کے مطابق انہوں نے فوراً اجازت دے دی کہ کوئی بات نہیں، جس کے بعد جب وہ اسکول جاتیں اور ان کے شوہر یاسر بھی گھر پر موجود نہ ہوتے تو پورے گھر میں صرف ملازمہ اور اس کی ماں موجود ہوتی تھیں اور پورا گھر ان کے حوالے ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس دوران وہ دونوں خواتین گھر کے اسٹور سے ان کا قیمتی سامان چوری کرتی رہیں اور جب تک وہ ملازمہ ان کے گھر میں کام کرتی رہی، گھر سے خاصا سامان چوری ہوتا رہا۔

ندا یاسر نے مزید کہا کہ ان سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے ملازمہ پر اندھا بھروسہ کیا اور دوسرا یہ کہ وہ اپنی سہیلی کو انکار بھی کر سکتی تھیں۔

اس سے قبل بھی وہ اپنے مارننگ شو میں ایک غیر ملکی ملازمہ کی چوری کی واردات بیان کر چکی ہیں، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ کس طرح اس نے ان کے گھر سے قیمتی اشیا چرائیں۔بعد ازاں وہ بیرونِ ملک، جیسے کہ اٹلی اور ترکیہ میں پیش آنے والے چوری کے واقعات کا بھی کئی بار ذکر کر چکی ہیں۔

ندا یاسر کی جانب سے مسلسل ملازماؤں کی چوری کی کہانیاں سنانے پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ملا جلا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔

ایک صارف نے لکھا کہ ایک پروگرام ندا یاسر کو اکیلے کرنا چاہیے، جس میں وہ آرام سے سب کو بتا دیں کہ کتنی بار ان کے گھر پر چوری ہو چکی ہے، کیونکہ ہر بار ان کے پاس ایک نئی کہانی ہوتی ہے۔

کچھ صارفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جتنی چوریاں ندا یاسر کے گھر میں ہوئی ہیں، اتنی شاید پورے کراچی میں بھی نہیں ہوئیں۔

صارفین نے یہ بھی تبصرہ کیا کہ ندا یاسر کے گھر پیش آنے والی چوری کی کہانیاں سننے کے بعد تو بندہ ملازمہ کو نکال کر خود ہی جھاڑو پونچھا کر لے، لیکن ندا باجی! ہم تو کر لیں گے، آپ کا کیا ہوگا؟

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • سمیع خان نے علیزہ شاہ اور منسا ملک کے جھگڑے کی اصل کہانی بتا دی
  • ویسٹ انڈیز میں دنیا کا سب سے چھوٹا انوکھا سانپ 20 برس بعد دوبارہ دریافت
  • گندھارا تہذیب کا دوسرا بڑا عجائب گھر سوات میں
  • ہمارے پاس الیکشن کمیشن کی ہیرا پھیری کے 100 فیصد ثبوت موجود ہیں، راہل گاندھی
  • میوزیم آئے شخص نے 6 ملین ڈالرز مالیت کا فن پارہ محض کیلا سمجھ کر کھالیا
  • ندا یاسر کو ایک بار پھر اپنی ملازمہ کی چوری کی کہانی سنانے پر تنقید کا سامنا
  • سمی خان نے علیزہ شاہ اور منسا ملک کے جھگڑے کی اصل کہانی بتا دی
  • خاموش سمندر کی گواہی: دوسری جنگِ عظیم کا گمشدہ جاپانی جنگی جہاز کتنے سال بعد دریافت کرلیاگیا
  • ’ہر شو میں ایک نئی کہانی ہوتی ہے‘، ندا یاسر کو پھر تنقید کا سامنا
  • ایف ٹی اے ہندوستان کی صنعتی پالیسی میں ایک خطرناک تبدیلی ہے، جے رام رمیش