ججز کی تعیناتی کے معاملے پر سپریم کورٹ کے 4 ججز کا چیف جسٹس کو خط
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
عدالت عظمٰی میں ججز تعیناتی کے معاملے پر سپریم کورٹ کے 4 ججز نے چیف جسٹس پاکستان یحیٰی آفریدی کو خط لکھ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ کس کے ایجنڈے اور مفاد پر عدالت کو اس صورتحال سے دوچار کیا جا رہا ہے؟ اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کی سینیارٹی طے ہونے تک ججز تعیناتی روکی جائے۔
خط میں سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ 26 ویں ترمیم کیس میں آئینی بینچ فل کورٹ کا کہہ سکتا ہے، نئے ججز آئے تو فل کورٹ کون سی ہو گی یہ تنازع بنے گا۔خط میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں تین ججز ٹرانسفر ہوئے، آئین کے مطابق نئے ججز کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں دوبارہ حلف لازم تھا، حلف کے بغیر ان ججز کا جج ہونا مشکوک ہوجاتا ہے۔
ججز نے خط میں مؤقف اپنایا کہ اس کے باوجود اسلام آباد ہائی کورٹ میں سنیارٹی لسٹ بدلی جا چکی، موجودہ حالات میں ججز لانے سے کورٹ پیکنگ کا تاثر ملے گا، پوچھنا چاہتے ہیں عدالت کو اس صورتحال میں کیوں ڈالا جا رہا ہے؟خط میں مزید کہا گیا ہے کہ کس کے ایجنڈے اور مفاد پر عدالت کو اس صورتحال سے دوچار کیا جا رہا ہے؟ججز نے مؤقف اپنایا کہ 26 ویں ترمیم کے فیصلے تک ججز تعیناتی مؤخر کی جائے، کم از کم آئینی بینچ سے فل کورٹ کی درخواست پر فیصلے تک تعیناتی مؤخر کی جائے۔
مزید کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کی سینیارٹی طے ہونے تک ججز تعیناتی روکی جائے۔چار ججز نے خط میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں حالیہ ججز ٹرانسفر پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق ججز کا تبادلہ عارضی طور پر ہوسکتا ہے مستقل نہیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ ججز کا تبادلہ مقررہ وقت کے لیے ہی ہوسکتا ہے غیرمعینہ مدت کے لیے نہیں، مدت مقرر نہ ہونے کا مطلب ہے کہ تبادلے کا حکم کسی بھی وقت واپس لیا جا سکتا ہے۔
ججز نے مؤقف اپنایا کہ تبادلہ اسی صورت ممکن ہے جب ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد پوری ہو، تبادلے کے بعد آئینی طور پر ججز حلف لینے کے بھی پابند ہیں، ججز کا حلف اسی ہائی کورٹ کے لیے ہوتا ہے، جس کے لیے انہیں تعینات کیا گیا ہو۔خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ ججز کا حلف تمام ہائی کورٹس کے لیے نہیں ہوسکتا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئینی نکات بالائے طاق رکھتے ہوئے ازخود سینیارٹی کا تعین کر لیا۔
ججز نے لکھا کہ لاہور ہائی کورٹ کا سینیارٹی میں 15ویں نمبر کا جج اسلام آباد میں سینیئر ترین جج بنا دیا گیا، سینیئر ترین جج ہونے کے باعث سرفراز ڈوگر اب سپریم کورٹ کے بھی اہل ہوچکے، ججز کی سینیارٹی کیسے تبدیل ہوسکتی ہے؟ججز نے مزید کہا کہ آئینی بینچ اگر فل کورٹ کی درخواستیں منظور کرتا ہے تو فل کورٹ تشکیل کون دے گا؟ججز کا کہنا تھا کہ اگر فل کورٹ بنتی ہے تو کیا اس میں ترمیم کے تحت آنے والے ججز شامل ہوں گے؟ اگر نئے ججز شامل نہ ہوئے تو پھر سوال اٹھے گا کہ تشکیل کردہ بینچ فل کورٹ نہیں، اگر موجودہ آئینی بینچ نے ہی کیس سنا تو اس پر بھی پہلے ہی عوامی اعتماد متزلزل ہے۔
خط میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ عوام کو موجودہ حالات میں ’کورٹ پیکنگ‘ کا تاثر مل رہا ہے، جاننا چاہتے ہیں کس کے ایجنڈا اور مفاد کے لیے عدالت کی تذلیل کی جا رہی ہے؟واضح رہے کہ یکم فروری کو صدر مملکت آصف زرداری نے لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ سے ایک، ایک جج کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلہ کردیا تھا۔اس سے قبل 31 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے دوسری ہائی کورٹ سے جج لا کر اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس بنانے کی خبروں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے آئین کے آرٹیکل 200 کی شق (ون) کے تحت تین ججز کے تبادلے کر دیے، جس کا نوٹی فکیشن وزارت قانون و انصاف کی جانب سے جاری کر دیا گیا۔نوٹیفکیشن کے مطابق جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کا لاہور ہائی کورٹ، جسٹس خادم حسین سومرو کا سندھ ہائی کورٹ اور جسٹس محمد آصف کا تبادلہ بلوچستان ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیا گیا۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائی کورٹ میں میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے مو قف اپنایا ججز تعیناتی مزید کہا چیف جسٹس فل کورٹ کی جائے رہا ہے کے لیے ججز کی ججز کا
پڑھیں:
اسلام آباد ہائی کورٹ کا جیل حکام کو عمران خان سے وکیل کی فوری ملاقات کرانے کا حکم
ہائی کورٹ نے عمران خان سے سلمان اکرم راجا کی آج ہی ملاقات کرانے کا حکم جاری کردیا۔ بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ پر ریاست مخالف مواد شیئر کرنے کی بنیاد پر پابندی کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے کی، جس میں عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا پیش ہوئے جب کہ بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان بھی عدالت میں موجود تھیں۔ دورانِ سماعت جیل حکام نے عدالت میں جواب جمع کرا دیا، جس پر عدالت نے جواب کی کاپی فریقین کو فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ آپ کے 24 مارچ کے آرڈر کے باوجود ملاقات نہیں ہوئی ۔ عدالت نے پوچھا کہ جن اتھارٹیز نے آنا تھا وہ کہاں ہیں ؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ آج منگل ہے، بانی سے ملاقات کا دن ہے ۔ میں نے بانی سے مل کر اس کیس متعلق ہدایت لینی ہیں۔ ملاقات کے کیس میں ابھی جو لارجر بینچ کا آرڈر آیا ہے وہ ابھی ہمیں ملا نہیں ۔ جسٹس ارباب محمد طاہر نے ریمارکس دیے کہ میں نے دستخط کر دیے ہیں وہ آرڈر آپ لے لیں ۔ وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ پہلے ہم بہت سے آرڈرز کی کاپیاں لے کر گئے ہیں لیکن عمل نہیں ہوا ۔ آج دیکھتے ہیں اس آرڈر پر ہوتا ہے یا نہیں ۔ عدالت نے حکم دیا کہ سلمان اکرم راجا کی عمران خان سے ملاقات آج یقینی بنائی جائے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل اور اسٹیٹ کونسل فون کال کے ذریعے جیل حکام کو آگاہ کریں۔ سماعت کے دوران جیل حکام کی جانب سے بانی پی ٹی آئی کے ایکس اکاؤنٹ پر پابندی کے کیس میں رپورٹ جمع کروائی گئی جب کہ نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی نے عدالت سے جواب جمع کرانے کے لیے وقت مانگ لیا۔ وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ میری بانی پی ٹی آئی تک رسائی نہیں ہے، ہدایات لینے کے بعد ہی جواب دے سکتا ہوں۔ بعد ازاں عدالت نے سلمان اکرم راجا کی آج ہی عمران خان سے ملاقات کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔