پاکستان 6 ماہ میں آئی ایم ایف کی بڑی شرائط پوری کرنے میں کامیاب
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
پاکستان 6 ماہ میں آئی ایم ایف کی بڑی شرائط پوری کرنے میں کامیاب WhatsAppFacebookTwitter 0 8 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:(سب نیوز)پاکستان رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی بڑی شرائط پوری کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
وزارت خزانہ کی جانب سے موجودہ مالی سال کے پہلے 6 ماہ کے اخراجات و آمدن کی تفصیلات جاری کر دی گئیں جس کے مطابق پاکستان پہلے 6 ماہ میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی بڑی شرائط پوری کرنے میں کامیاب رہا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2900 ارب ہدف کے مقابلے پرائمری سرپلس 3600 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، اسی طرح چاروں صوبوں نے 750 ارب ہدف کے مقابلے 776 ارب سرپلس بجٹ دیا، صوبوں نے 376 ارب ریونیو ہدف کے مقابلے 442 ارب ٹیکس جمع کیا۔
اسی طرح زرعی آمدن پر ٹیکس پر عمل درآمد سے ریونیو میں مزید اضافہ متوقع ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق 6 ماہ میں ایف بی آر کو ٹیکس ریونیو میں 384 ارب شارٹ فال کا سامنا ہوا، 6009 ارب ہدف کے مقابلے 5624 ارب روپے ٹیکس جمع کیا گیا، اس دورانیے میں تاجر دوست سکیم کے تحت 23.
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی خالص آمدن 5887 ارب روپے رہی، وفاقی حکومت کے اخراجات 8200 ارب سے تجاوز کر گئے جبکہ پہلے 6 ماہ میں 2313 ارب روپے بجٹ خسارہ ہوا۔
وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق اسی دورانیے میں قرضوں پر سود کی مد میں 5141 ارب روپے خرچ کئے گئے جبکہ وفاقی ترقیاتی منصوبوں پر صرف 164 ارب روپے خرچ کئے گئے۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ہدف کے مقابلے ا ئی ایم ایف پہلے 6 ماہ ارب روپے ماہ میں
پڑھیں:
پشاور، سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45لاکھ 80ہزار روپے کا نقصان ہوا۔
اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس،کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5کیسوں میں 4کروڑ 40لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔
مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2کیسز میں حکومت کو 45لاکھ روپے کا نقصان اور 14لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔
رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔