پی ٹی آئی میں پھوٹ پڑچکی ، ٹرمپ آگیا ، بانی باہر نہیں آیا ، فیصلے ملکی مفادمیں کرینگے : وفاق وزرا
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
اسلام آباد ؍لاہور؍نارووال؍سیالکوٹ (اپنے سٹاف رپورٹر سے +نیوز رپورٹر+نمائندہ نوائے وقت+نامہ نگار) وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ایک شور تھا ٹرمپ آئے گا تو بانی تحریک انصاف باہر آجائے گا، ٹرمپ بھی آگیا لیکن بانی باہر نہ آ سکا۔ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے حکومت سے مذاکرات کرتے دکھائی نہیں دے رہی۔ امریکہ کسی قسم کی خواہش کا اظہار کرے تو ریاست اپنے تمام تر فیصلے ملکی مفاد میں کرے گی کیونکہ ریاست ملکی دفاع پر سمجھوتا نہیں کرتی۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بھرپور جنگ جاری ہے، دہشت گردی کے واقعات تواتر کے ساتھ ہو رہے ہیں جن کا مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ سیالکوٹ میںمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ محمد آصف نے کہا کہ آج کا جلسہ بے پناہ سرکاری وسائل کا استعمال کیا جا رہا ہے، سرکاری مشینری کو جلسے کی کامیابی کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے، اس طرح کے جلسے دوسرے صوبوں میں کیوں نظر نہیں آتے۔ تینوں صوبوں میں ان کی لیڈر شپ کہیں دِکھائی نہیں دے رہی ، ہمیں کوئی اعتراض نہیں اگر پر امن جلسے کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ دوبارہ نومئی اور چھبیس نومبر برپا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس وقت آج کے جلسے پرمختلف گروہوں میں اختلافات ہیں، یہ رویہ پاکستان اور ہماری ریاست کیلئے بہتر نہیں انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی خیبر پی کے کہتے ہیں 99 فیصد ان کے مطالبات پورے ہو چکے ہیں ، اگر ان کے مطالبات پورے ہو چکے ہیں تو پھر احتجاج کس بات کا، ایک خط لکھا جاتا ہے جس میں ایسے نکات لکھے گے ہیں جن پر شور برپا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی قیادت میں ملک کی اکانومی میں بہتر آئی ہے۔انہوں نے کہا چمن بارڈر سے چینی سمگل کی جاتی تھی اور سمگلنگ کا پیسہ کس کی جیب میں جاتا تھا۔ ان کو صرف کمیشن کی عادت پڑ چکی ہے۔یہ سیاسی لوگ نہیں انکا لیڈر ذہنی بیمار شخص ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ملک میں عالمی ایونٹ چیمپئنز ٹرافی ہونے والا ہے دوبارہ 9 مئی اور 26 نومبر برپا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پاکستان کی عزت کا موقع آتا ہے تو فسادی ٹولہ آسمان سر پر اٹھالیتا ہے، کسی بھی عالمی ایونٹ کی توقیر میں کمی کرنا پی ٹی آئی کا وطیرہ ہے۔ عنقریب عوام کو خوشخبری ملے گی، ایک ڈیڑھ سال میں بڑی تبدیلیاں آپ کو نظر آئیں گی۔ عوام کی حکمرانوں سے امیدیں دوبارہ بندھ رہی ہیں، وہ بہتری دیکھ رہے ہیں، آپ سب اپنے اپنے شہروں میں دیکھیں تو تبدیلیاں نظرآئیں گی۔ ادھر وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انتشار والے ہمارے نہیں ملک کے مخالف ہیں، یہ شرطیں لگاتے تھے اور دعائیں کرتے تھے کہ ملک ڈیفالٹ ہوجائے مگر آج ہمارا شمار دنیا کی بہترین معیشتوں میں ہونا شروع ہوگیا ہے۔لاہور کے حلقہ این اے 127 میں ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح کے موقع پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عطاء اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ جب آئے تھے تعمیر وترقی کا وعدہ کیا تھا تمام علاقوں میں ترقیاتی کام شروع ہو چکے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ تحریک انتشار والوں کے یوم سیاہ کو پورے پاکستان نے مسترد کر دیا ہے عوام تعمیر و ترقی کے ساتھ ہیں۔۔ علیمہ خان بشری بی بی اور گنڈا پور کے اپنے رہنماؤں سے جھگڑے سے لگتا ہے کسی ڈرامے کی سیریل چل رہی ہے ایک سال کی حکومت کے بعد ہم تعمیر وترقی کا دن منا رہے ہیں۔جبکہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی پروفیسر احسن اقبال نے مانک میں ایک بڑے عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 8 فروری 2024 کو عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کیا اور ان اندھیروں کو رخصت کیا، جنہوں نے 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے مسلم لیگ (ن)کا مینڈیٹ چرایا۔ انہوں نے کہا کہ چند جرنیلوں اور ججوں کی ملی بھگت سے RTS سسٹم کو بند کر کے رات کے اندھیرے میں الیکشن پر شب خون مارا گیا، جس کے نتیجے میں پاکستان کی ترقی کا سفر روک دیا گیا، احسن اقبال نے کہا کہ سازشوں کے تحت نااہل حکومت کو مسلط کر دیا گیا، انہوں نے کہا کہ "آج پاکستان میں جتنے بھی بڑے ترقیاتی منصوبے نظر آ رہے ہیں، ان سب پر نواز شریف اور مسلم لیگ (ن)کی مہر لگی ہوئی ہے، احسن اقبال نے تحریک انصاف پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "پی ٹی آئی کی سیاست ایک ایسے ڈرامے کی مانند ہے جسے دیکھ کر عوام کبھی ہنستے ہیں اور کبھی روتے ہیں، لیکن عملی میدان میں ان کی کارکردگی صفر رہی ہے"۔ پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر جھوٹ اور پروپیگنڈہ پھیلانے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا اور عوام کو صرف گمراہ کرنے کی کوشش کی"۔ مسلم لیگ (ن) کو دوبارہ منتخب کر کے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں"۔ عوام کا جوش و خروش دیکھ کر احسن اقبال نے کہا کہ یہ محبت اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر اعتماد کرتے ہیں اور پاکستان کو دوبارہ ترقی کی راہ پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انتشار والے پاکستان کے دشمن ہیں جو شہد ا ء کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام نے پی ٹی آئی کی جھوٹ کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے، یہ روتے رہیں گے اور ہم عوام کی خدمت کرتے رہیں گے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ احسن اقبال نے تحریک انصاف کرتے ہوئے پی ٹی آئی مسلم لیگ رہے ہیں نہیں ا
پڑھیں:
عمران خان شیخ مجیب کے آزار سے ہوشیار رہیں
عمران خان کے حکم کی تعمیل میں علی امین گنڈا پور بضد ہیں کہ وہ افغانستان ضرور جائیں گے اور افغان قیادت سے بات کریں گے۔ سوال مگر یہ ہے کہ برادر ہمسایہ ملک سے خالص دفاعی اور تزویراتی امور پر بات کرنے کے لیے وہ کس حیثیت سے تشریف لے جائیں گے؟ کیا آئین پاکستان کسی صوبے کے وزیر اعلیٰ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ دفاع اور امور خارجہ پر دیگر ریاستوں کے ساتھ معاملہ کرتا پھرے؟
دلچسپ بات یہ ہے دفاع اور امور خارجہ وہ شعبے ہیں جن پر شیخ مجیب جیسے آدمی نے بھی صرف اور صرف وفاق کا اختیار تسلیم کیا تھا۔ اپنے 6 نکات میں شیخ مجیب کا کہنا تھا کہ وفاق کی عملداری صرف دفاع اور امور خارجہ تک ہو اور باقی چیزیں صوبے خود دیکھیں۔ حیرت ہے کہ عمران خان ان دو شعبوں میں بھی وفاق نام کے کسی تکلف کے قائل نہیں۔ سارے احترام اور تمام تر حسن ظن کے باوجود اس سوال سے اجتناب ممکن نہیں کہ کیا اس رویے کو شیخ مجیب پلس کا نام دیا جائے؟
عمران خان تو درویش کا تصرف ہیں، کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، پریشانی یہ ہے کہ صوبائی حکومت کی دانشِ اجتماعی کیا ہوئی؟ کیا اس کی صفوں میں کوئی معاملہ فہم انسان بھی موجود ہے یا قافلہ انقلاب میں صاحب کمال اب وہی ہے جو ہجرِ مجنوں میں ’یا محبت‘ کہہ کر ہر وقت آبلے تھوکتا پھرے؟
ایک سیاسی جماعت کے طور پر تحریک انصاف کا حق ہے وہ اہم قومی امور پر اپنی رائے دے۔ دہشتگردی سے خیبر پختونخوا کا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور وہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ یہ اس کا استحقاق ہے کہ اصلاح احوال کے لیے وہ کچھ تجویز کرے تو وفاق اسے پوری سمنجیدگی سے سنے۔ اسے وفاق کی کسی پالیسی سے اختلاف ہے تو اسے یہ اختلاف بھی بیان کر دینا چاہیے اور اس کام کے لیے سب سے اچھا فورم پارلیمان ہے۔
تحریک انصاف سینیٹ میں بھی موجود ہےاور قومی اسمبلی میں بھی۔ متعلقہ فورمز پر اسے ہر پالیسی پر اپنے تحفظات اور خدشات پیش کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ کیسا رویہ ہے کہ اسمبلیوں میں تو بیٹھنا گوارا نہیں، قائمہ کمیٹیوں سے استعفے دیے جا رہے ہیں، سیاسی قیادت سے مکالمہ گوارا نہیں کہ وہ تو ’سب چور ہیں‘ اور انوکھے لاڈلے کی طرح چلے ہیں سیدھے افغانستان سے بات کرنے، جیسے یہ وفاق کے اندر ایک صوبے کے حاکم نہ ہوں، کسی الگ ریاست کے خود مختار حکمران ہوں۔
امور ریاست 92 کا ورلڈ کپ نہیں ہوتے کہ کھیل ہی بنا دیے جائیں، یہ ایک سنجیدہ چیز ہے۔ ایک فیڈریشن کے اندر وفاق اور صوبوں کا دائرہ اختیار کیا ہے؟ یہ بات آئین میں طے کی جا چکی ہے۔ دفاع اور امور خارجہ وفاق کا معاملہ ہے۔ کس ریاست سے کب اور کیا بات کرنی ہے، یہ وفاق کا استحقاق ہے۔ وفاق کے پاس وزارت دفاع بھی ہے اور وزارت خارجہ بھی۔ ان اداروں کی ایک اجتماعی یادداشت ہوتی ہے جو بہت سارے فیصلوں کی شان نزول ہوتی ہے۔ وفاق یہ فیصلہ کرتا ہے کہ دفاعی معاملات میں کب اور کیا فیصلہ کرنا ہے۔ صوبے وفاق کو تجاویز تو دے سکتے ہیں، اختلاف رائے کا اظہار بھی کر سکتے ہیں لیکن کسی صوبے کو یہ حق نہیں کہ وہ دفاع اور امور خارجہ جیسے معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر انہیں بازیچہِ اطفال بنا دے۔
جب کوئی صوبہ ہمسایہ ریاست کے ساتھ ایسے معاملات خود طے کرنا چاہے تو یہ وفاق کی نفی ہے۔ یہ رویہ ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کے مترادف ہے۔ یہ آئین کی سکیم سے انحراف ہے۔ یہ تخریب اور انارکی کا نقش اول ہے۔ یہ سلسلہ چل نکلے تو ریاست کا وجود باقی رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔
کل کو بھارت کے ساتھ معاملہ ہو تو کیا پنجاب کا وزیر اعلیٰ وفاق کو نظر انداز کرتے ہوئے دلی پہنچ جائے کہ وفاقی حکومت کو چھوڑیے مہاشہ جی، آئیے ہم آپس میں مل بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔
کیا بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کل ایران پہنچ جائیں کہ وفاق پاکستان کو بھول جائیے، آئیے آپ بلوچستان کے ساتھ براہِ راست معاملہ فرما لیجیے۔
کیا کل کو گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ چین جا پہنچیں کہ پاکستان کی وفاقی حکومت کیا بیچتی ہے صاحب، آئیے سی پیک کے معاملات سیدھے میرے ساتھ ہی نمٹا لیں۔
کیا کل کو سندھ کی حکومت سمندری حدود کے سلسلے میں دنیا کو خط لکھتی پھرے گی کہ وفاق کے تکلف میں کیا پڑنا، آئیے سمندری معاملات ہم آپ میں بیٹھ کر طے کر لیتے ہیں۔
ذرا تصور کیجیے کیا اس سب کے بعد فیڈریشن کے لیے اپنا وجود باقی رکھنا ممکن ہوگا؟
تحریک انصاف ایک قومی جماعت ہے۔ اس کی مقبولیت میں بھی کوئی شک نہیں، اس کے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سیاست میں دھوپ چھاؤں آتی رہتی ہے۔ اس کا حل مگر سیاسی بصیرت سے ہی تلاش کیا جاتا ہے نہ کہ ہیجان کے عالم میں بند گلی میں داخل ہو کر۔
قومی سیاسی جماعت ہی اگر وفاق کی نفی کرنے لگے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک بڑھیا، جس نے ساری عمر سوت کاٹا اور آخر میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آصف محمود انگریزی ادب اور قانون کے طالب علم ہیں۔ پیشے سے وکیل ہیں اور قانون پڑھاتے بھی ہیں۔ انٹر نیشنل لا، بین الاقوامی امور، سیاست اور سماج پر ان کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔
wenews افغانستان برادر ہمسایہ ملک پی ٹی آئی دہشتگردی شیخ مجیب الرحمان علی امین گنڈاپور عمران خان وفاق وی نیوز