Nai Baat:
2025-11-05@00:54:31 GMT

1035 دن بعد

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

1035 دن بعد

جب میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں تو 10اپریل 2022ء کو 1035 دن گزر چکے ہیں اور جب آپ یہ پڑھ رہے ہیں یہ 1036 واں دِن گزر رہا ہے۔ قریب قریب، تین برس پہلے کا دس اپریل وہ دن تھا جب اس وقت کے نصب شدہ وزیراعظم اپنے اوپر سے مقتدر قوتوں کی چھتری اٹھنے کے بعد اتحادیوں کی حمایت کھو بیٹھے تھے جو ڈنڈے کی وجہ سے ان کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ سچ یہ ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں بھی انہیں درجنوں ایسی سیٹیں ملی تھیں جو دھونس اور دھاندلی کی وجہ سے تھیں،انتخابی نتائج والا سافٹ وئیر آر ٹی ایس بٹھانے کے بعد ملی تھیں۔ اپریل 2022ء کے بعدعمران خان کے لئے دوسرا اہم ترین دن 5اگست 2023ء کا تھا جب وہ توشہ خانہ کیس میں سزا پانے کے بعد گرفتار ہوئے تھے۔ اس گرفتاری کو بھی ساڑھے پانچ سو کے بعد مزیددو دن اوپر گزر چکے ہیں۔ہمارے پاس سوشل میڈیا پر ایسے بہت سارے ٹویپس یا ٹرولز موجود ہیں جو ایک 1035 دنوں سے ہی مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں کہ عمران خان اقتدار میں واپس آ رہا ہے اور ساڑھے پانچ سو دنوں سے دوسرا جھوٹ بول رہے ہیں کہ مقتدر حلقے اس سے کوئی ڈیل کر رہے ہیں اور وہ رہا ہونے جا رہا ہے۔ ہمارا ایک ’نیم صحافی‘ تو اس کے ساتھ سابقے لاحقے لگا کے یہ بھی لکھتا چلا جا رہا ہے کہ وہ یعنی عمران خان ڈنکے کی چوٹ پر واپس آ رہا ہے۔ مجھے آج تک وہ ڈنکا نہیں ملا مگر وہ چوٹیں ضرور مل جاتی ہیں جو ایک کے بعد دوسری لگ رہی ہیں۔ میرے پاس کوئی علم نجوم نہیں ہے مگر میں پاکستان کی سیاست کا ایک طالب علم ضرور ہوں ، ایوانوں کے اندر ، باہر، نیچے اور پیچھے ہونے والی بہت ساری پیش رفتوں کا عینی شاہد اور اسی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ اگر عمران خان خود بھی یہ کہتا ہے کہ وہ واپس آ رہا ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے، گمراہ کرتا ہے۔

یہ بات نہیں کہ عمران خان نے اس دوران ایوان اقتدار میں دوبارہ جانے یا جیل سے باہر آنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی کوششوں میں ’ اوور ‘ ہو گیا جیسے 9 مئی 2023 ء کی کوشش۔ مگر اس سے پہلے ہمیں ان کوششوں کو بھی یاد رکھنا ہوگا جو اس نے عارف علوی کے ایوان صدر میں ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کی تھیں یعنی جنرل قمر جاوید باجوہ سے غیر آئینی ، غیر قانونی اور غیر اخلاقی ملاقات۔ اس نے فوج کے نیوٹرل ہونے پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ فوج اس کی مدد کرے اور اسے ( درست طور پر) خدشہ تھا کہ اگر قمر جاوید باجوہ کے بعد ایک بہت ہی ایماندار، جرات مند ، محب وطن اور پروفیشنل جرنیل حافظ عاصم منیر نے فوج کی قیادت سنبھال لی تواس کے لئے ایسی ملاقات بھی ممکن نہیں رہے گی لہٰذا اس نے لاہور کے لبرٹی چوک سے اسلام آباد کے دروازے روات تک ایک لانگ مارچ بھی کیا تھا تاکہ ان کی فوج کی سربراہی کو روک سکے مگر وہ اس میں بھی ناکام رہا تھا۔ نو مئی اس کی سب سے بڑی موو تھی جب اس نے اپنی گرفتاری کی صورت میں ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملوں اور قبضوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔ یہ اتنی بڑی سازش تھی کہ اس میں کچھ بڑے جرنیل اور کچھ اس کے نیچے کے عہدیدار بھی شامل تھے۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری ہونے والی پریس ریلیزوں کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید سے بھی اس بارے تفتیش کی جا رہی ہے اور ان کے سیاسی لوگوں کے ساتھ رابطے اور ڈانڈے مل رہے ہیں۔ عمران خان نے فوج کو ہر طرح سے دباو میں لانے کی کوشش کی کہ وہ غیر جانبداری چھوڑ دے اوراس کو اقتدار دینے کے لئے سہولت کاری کرے۔ اس نے امریکہ اور برطانیہ میں آرمی چیف کے خلاف مظاہرے کروائے۔ اس نے اپنے اسرائیلی اور امریکی سرپرستوں کو استعمال کرتے ہوئے امریکی ایوان نمائندگان سے قراردادیں منطور کروائیں۔ کرائے پر دستیاب امریکی سیاستدانوں سے ٹوئٹ اور تقریریں کروائیں مگر وہ سب ناکام رہے۔عمران خان فوج اور پی ڈی ایم کی دشمنی میں ملک اور عوام تک کا دشمن بن گیا اوراس نے پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی کوشش کی جو اب بھی سول نافرمانی کی جاری کال کی صورت میں جاری ہے ۔

میں جب یہ کالم لکھ رہا ہوں تو8 فروری کے انتخابات کو بھی ایک سال مکمل ہوچکا ۔ اس ایک برس میں پی ٹی آئی کو سب سے بڑا سیاسی نقصان پنجاب میں ہوا ہے کہ جب عمران خان نے فائنل کال دی تو اس صوبے سے کسی ایک جگہ سے بھی ایک سو بندے ایک ساتھ نہیں نکلے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان کی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لاہور جیسے سیاسی شہر کی سڑکوں پر اکیلے گھومتے اور ویڈیوز بناتے ہوئے ایکسپوز ہوئے۔ ہمیں ان انتخابات اور ان میں لگائے ہوئے الزامات کا بھی حقیقی، عقلی اور منطقی جائزہ لینا ہو گا۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اس نے 180 سیٹیں جیتیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس نے ان سیٹوں پر انتخابی عذر داریاں دائر کیں جن پر اسے اس کے مطابق ہروایا گیا مگراس کے پاس اس کی جیت کے ثبوت فارم 45موجود ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی انتخابی عذر داریوں میں مسلم لیگ نون کے خلاف تو دھاندلی ثابت نہیں کر سکی مگر وہ خود اپنی جیتی ہوئی قومی اور صوبائی اسمبلی کے ایک درجن سے زائد مختلف سیٹیں ضرور کھو بیٹھی۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ جنوری کے آغاز میں جب حکومت سے مذاکرات شروع ہو رہے تھے تو پی ٹی آئی عملی طور پر گذشتہ برس ہونے والے عام انتخابات کے آڈٹ کے مقابلے سے دستبردار ہو گئی تھی ، یہ مطالبہ چارٹر آف ڈیمانڈ میں موجود ہی نہیں تھا، پی ٹی آئی کو علم تھا کہ اس کے پاس فارم 47کے ذریعے دھاندلی کے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت نہیں ہیں جیسے 26جنوری کو مارے جانے والے یاغائب ہونے والوں کے شناختی کارڈ نمبر۔

مجھے ماضی کو بہت زیادہ ڈسکس نہیں کرنا کیونکہ بہت سارے اہل نظر سب جانتے ہیں، سب سمجھتے ہیں۔ مجھے یہ کہنا ہے کہ 1035 دنوں کے بعد بھی عمران خان آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں وہ دس اپریل کو تھے بلکہ اسے مزید واضح کر لیجئے کہ وہ اپنی مزید حماقتوں سے مزید بری صورتحال کا شکار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی ملک دشمن حرکتوں سے ان بندشوں کو مزید مضبوط کر لیا ہے جن میں وہ اپنی نااہلی، بدعنوانی اورہٹ دھرمی کی وجہ سے پھنسایا تھا۔ وہ جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کے بعدبڑی مشکلات کا شکار ہونے والے ہیں۔ شہباز شریف اور مریم نواز نے اپنی کارکردگی سے عمران خان کے سیاسی تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، کوئی روئے چیخئے یا پیٹے، پی ٹی آئی ختم شُد ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی یہ ہے کہ رہے ہیں رہا ہے کے بعد کے لئے مگر وہ تھا کہ

پڑھیں:

عمران خان سے ملاقات کے بعد ہی 27ویں ترمیم پر ریسپانس دیں گے، بیرسٹر گوہر

راولپنڈی:

پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ بانی سے ملاقات کے بعد ہی 27ویں ترمیم پر ریسپانس دیں گے، اس معاملے پر سیاسی کمیٹی میں بات کریں گے اور اس پر اپنی اسٹریٹیجی بنائیں گے۔

داہگل ناکہ پر میڈیا سے گفت گو میں انہوں ںے کہا کہ بانی عمران خان سے آج بھی ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی، دو سال سے عدالت کے احکامات پر عمل نہیں ہو رہا، یہ ظلم اور زیادتی ہے، بانی کو آپ جتنا چاہے جیل میں رکھیں لیکن وہ لوگوں کے دلوں میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بانی سے ملاقات کے بعد 27ویں ترمیم پر ریسپانس دیں گے، اس معاملے پر سیاسی کمیٹی میں بات کریں گے اور اس پر اپنی اسٹریٹیجی بنائیں گے، آئین میں اگر ترمیم ہونی ہے تو وہ پہلے اتفاق رائے سے ہوتی رہی ہے، عدلیہ ہمیشہ متنازع رہی ہے لیکن 26 ویں ترمیم نے ملک میں دراڑ پیدا کر رکھی ہے اب 27ویں ترمیم آرہی ہے۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ 18 ویں ترمیم ہو رہی تھی تو 101 آرٹیکلز میں ترامیم ہوئیں، 26 ویں ترمیم کو  لے کر ورژن میں 56 آرٹیکلز تھے جب پہلا ورژن ہمارے پاس آیا تو اس میں 50 آرٹیکلز تھے، فائنل ورژن پر پہنچے تو 25 آرٹیکلز میں ترامیم کرنا تھیں، ان 25 آرٹیکلز میں سے ایک آرٹیکل میں پی پی، 6 آرٹیکلز میں جے یو آئی، 17 آرٹیکلز میں حکومتی ترامیم تھیں باقی مصنوعی ترامیم تھیں لیکن 5 ترامیم پر تنازع تھا۔

انہوں ںے بتایا کہ ان پانچ متنازع ترامیم میں آرٹیکل 175 اے جس کے ذریعے جوڈیشل کمیشن بنایا گیا تھا، آرٹیکل 191 جس کے ذریعے آئینی بنچ بنوایا گیا تھا، آرٹیکل 179 جس کے ذریعے چیف جسٹس کے لئے تین سال کا مدت کا تعین کروایا گیا تھا، آرٹیکل 209 جس کے ذریعے ججز پر نظر رکھنے کے لئے کمیشن کو اختیارات دیئے گئے تھے اور پانچویں ترمیم الیکشن کمیشن سے متعلق رکھی تھی، باقی سب ترامیم مصنوعی یا کاسمیٹکس تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 243 میں حکومت کا جو پہلا ورژن ہمارے پاس آیا تھا تو اس میں آرٹیکل 200 ججز کے ٹرانسفر سے متعلق حکومت نے ضرور لکھا تھا کہ جج کی مرضی کے بغیر اس کی ٹرانسفر کا اختیار ہونا چاہے لیکن اکتوبر میں جو پہلا ورژن آیا اس میں یہ شامل نہیں تھا، آرٹیکل 243 کو افواج سے متعلق تھا یہ حکومت کے پہلے ورژن میں موجود تھا جو کاپی ہمیں 12 اکتوبر کو دی گئی تھی، پھر اس کے بعد اسے ختم کر دیا گیا، ہمیں دیئے گئے ورژن میں تحریر تھا کہ آرمی سربراہان سے متعلق جو قوانین ان کی عمر سے متعلق ہے ان کو تحفظ حاصل ہوگا اس میں ترمیم نہیں کی جائے گی البتہ این ایف سی ایوارڈ سے متعلق کوئی بات کسی بھی وقت نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ تعلیم اس ملک کے بچوں کا ایک اہم مسئلہ ہے جب یہ شعبہ صوبوں کے پاس گیا تو انھوں نے کئی اسکول آؤٹ سورس کردیئے، پاپولیشن ویلفیئر صوبوں کے پاس گیا اس وقت ریورس کرنا صوبوں کا نقصان ہوگا، اس وقت اس چیز کو ریورس کرنے سے صوبوں کا نقصان ہوگا اسے ریورس نہ کیا جائے، 18ویں ترمیم اتفاق رائے سے ہوئی تھی اسے ریورس کرنا ریاست، حکومت، عوام، جمہورہت کا نقصان ہوگا اسے ٹچ نہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ آج تک 26 ترامیم ہوئی ہیں، 9،11,15ویں ترامیم پاس نہیں ہوئی  باقی 23 ترامیم پاس ہوچکی ہیں، کسی ترمیم میں آرٹیکل 163 کو تبدیل نہیں کیا، اگر تبدیل کیا تو 18ویں ترمیم میں اس حد تک تبدیل کیا گیا کہ صوبوں کا حصہ پچھلے ایوارڈ کے مقابلہ میں کم نہیں کیا جائے گا، سال 2007ء میں آخری این ایف سی ایوارڈ آیا تھا، اس کے بعد ایوارڈ نہیں آسکے، سارے صوبے گیارہویں این ایف سی ایوارڈ کے منتظر ہیں،کے پی کو جو حصہ ملتا ہے وہ تقریبا 14.6فیصد ہے،یہ آئین میں درج ہے کہ وہ کم نہیں کیا جائے گا۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پی ٹی آئی کا موقف ہے کسی ایسی شق کو نہیں چھیڑا جائے جو صوبوں کے اتفاق رائے کے بغیر ہو، مشترکہ مفادات کونسل نے بھی فیصلہ کیا تھا کہ جب تک اتفاق رائے نہ ہو نہریں نہیں نکالیں گے اس لیے جو محکمے صوبوں کے پاس چلے گئے اتفاق رائے کے بغیر اس معاملے کو واپس کرنا خطرے کو مول لینے والی بات ہے، پہلے آئینی عدالت بنانا چاہ رہے تھے پھر آئینی بنچ بنایا گیا اس پر بھی کوئی راضی نہیں ہے وہ عدلیہ کی آزادی پر قدغن ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ کریٹیکل اسٹیپ لیں جس سے ملک کا بھلا ہو اور ادارے مضبوط ہوں،  بجائے اس کے کہ آپ آئین کی ان شقوں کا درج کریں جس سے صوبوں کا تناؤ اور بڑھ جائے گا اس سے ملک کا نقصان ہوگا۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ مشال یوسف زئی کا ٹویٹ پارٹی سے متعلق ہے پارٹی کے معاملات کو پارٹی تک رہنے دیں، ہر محب وطن پاکستانی یہ کہہ رہا ہے کہ اسٹیک ہولڈر اپنی تلواریں اپنی نیام میں رکھیں اور ایک ایک اسٹیپ پیچھے ہوجائیں، ایسی صورتحال میں اشتعال انگیز ویڈیو دکھانا، آگ پر تیل چھڑکنے والی بات ہے، بانی جب آرڈر کریں تو پھر اسلام آباد آنے کی بات کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پر تنقید ہو رہی ہے تو ہم کوئی کنگ نہیں، میں گالم گلوچ کے مخالف ہوں، تنقید کے خلاف نہیں، اگر کوئی کسی کی عیادت کرتا ہے تو کوئی ایسی بات نہیں، میں شاہ محمود، اعجاز چوہدری کی عیادت کے لئے گیا تھا، بانی کی رہائی کے لئے کوشش کر رہے ہیں اور کریں گے۔

میڈیا سے گفت گو میں سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میری ملاقات سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ نے آج خصوصی احکامات دئیے ہیں، میں نے ہائیکورٹ کا آرڈر ایس ایچ او کو واٹس ایپ کیا ہے، آرڈر کی کاپی میرا ایسوسی ایٹ لے کر آرہا ہے، جسٹس ارباب صاحب نے ایڈوکیٹ جنرل کو میری ملاقات کے بارے حکم دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سب 27 ویں ترمیم کو رد کرتے ہیں اس اسمبلی کے استحقاق کو رد کرتے ہیں کوئی بھی آئینی ترمیم فارم 47 والی اسمبلی نہیں کرسکتی ہے، بلاول بھٹو کی ٹویٹ کے ذریعے جو باتیں سامنے آئی ہیں انتہائی خوفناک ہیں، پاکستان میں آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کیا جارہا ہے، آزاد عدلیہ کے تصور کو ختم کیا جارہا ہے، ہم تو اس ترمیم کی بہرحال مخالفت کریں گے اگر کوئی ہم سے کہے گا کہ اس کی مخالف میں حمایت کریں تو ہم کریں گےم ہم سمجھتے ہیں تمام جماعتوں کو اس کی مخالفت کرنی چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان سے میری ملاقات بہت ضروری ہے، بںیادی حق ہے کہ ملزم کی اپنے وکیل سے بات کرائی جائے کوئی بھی ملزم اپنا ٹویٹر اکاؤنٹ آپریٹ نہیں کرسکتا، بہنوں کی اڈیالہ جیل کے باہر ٹاک کو اگر کوئی اٹھا کر ٹویٹ کر دیتا ہے تو اس سے ہمارا یا بانی کا کیا تعلق ہے؟ بانی اپنا ایکس اکاؤنٹ خود نہیں چلا رہے، بانی کونٹینٹ کو ڈس اون نہیں کرتے، جو لوگ ان سے جو بات کرکے آتے ہیں، بات کرنا ان کا حق ہے، کوئی قانون اس سے نہیں روکتا اگر کوئی بانی کو کوٹ کرتا ہے تو ٹھیک کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے ہم نے آرڈر لیا تھا کہ بانی جیل کے اندر بھی میڈیا سے بات کرسکتے ہیں، کیا ریاست مخالف بیانیہ ٹویٹ کیا جاتا ہے وہ عدالت فیصلہ کرے گی، ریاست مخالف کیا ہوتا ہے اس کی تعریف و تشریح ہونا بہت ضروری ہے، یہ کہنا کہ ہمارا الیکشن لوٹا گیا یہ ریاست مخالف بیانیہ ہے؟؟ کب تک آپ اس سچ کو یہ کہہ کر چھپائیں گے کہ یہ ریاست مخالف ہے۔

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کی رہائی کیلئے جنگ جاری رکھیں گے، علیمہ خان
  • عمران خان نے اچکزئی کو اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا اختیار دے دیا
  • بانی پی ٹی آئی کا متبادل کوئی نہیں، بات ختم، عمران اسماعیل
  • نہ فارم 47 پر مذاکرات ہوں گے نہ اسٹیبلشمنٹ سے: عمران خان
  • فارم 47 یا اسٹیبلشمنٹ سے کسی قسم کی بات نہیں ہوگی، عمران خان
  • فارم 47 نہ ہی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات چیت ہوگی، عمران خان
  • عمران خان سے ملاقات کے بعد ہی 27ویں ترمیم پر ریسپانس دیں گے، بیرسٹر گوہر
  • ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل
  • پی ٹی آئی کی اصل قیادت جیل میں ہے، باہر موجود لوگ متعلقہ نہیں: فواد چوہدری
  • شاہ محمود قریشی نے عمران خان کی رہائی مہم میں شمولیت کی مبینہ پیشکش مسترد کر دی