دانیہ شاہ، جو مرحوم عامر لیاقت حسین کی تیسری اہلیہ کے طور پر مشہور ہوئیں، نے حالیہ انٹرویو میں اپنی شادی کے فیصلوں اور خواتین کو مشورے دینے کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔

فروری 2022 میں 18 سالہ دانیہ نے عامر لیاقت سے شادی کی اور صرف تین ماہ بعد مئی میں تنسیخ نکاح کے لیے پنجاب کی عدالت میں درخواست دائر کی۔ عامر لیاقت کے انتقال کے بعد دانیہ نے حکیم شہزاد لوہا پاڑ سے دوسری شادی کی۔

ایک پوڈکاسٹ انٹرویو میں دانیہ نے شادی سے قبل ڈیٹنگ کرنے والی خواتین کو نصیحت کی کہ وہ اس طرح کے تعلقات سے گریز کریں اور خودداری کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ خواتین کو ایسے مرد سے شادی کرنی چاہیے جو عمر میں بڑا ہو اور ان کے جذبات و حالات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

اپنے ذاتی تجربے پر بات کرتے ہوئے دانیہ نے کہا کہ انہوں نے کم عمر مرد سے شادی اس لیے نہیں کی کیونکہ وہ ان کی ماضی کی زندگی کو قبول نہیں کر پاتا اور انہیں ذلیل و رسوا کر دیتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے موجودہ شوہر، جو ان سے کافی بڑے ہیں، ہر مشکل گھڑی میں ان کا ساتھ دیتے ہیں اور ان کی خوشی کو ترجیح دیتے ہیں۔

دانیہ کے مطابق ایک اچھا شوہر وہی ہوتا ہے جو اپنی بیوی کا خیال رکھے، اس کی پسند نا پسند کا احترام کرے اور اس کے ساتھ مخلص رہے۔

دانیہ شاہ کے ان خیالات پر سوشل میڈیا پر مختلف آراء سامنے آئی ہیں، جہاں کچھ صارفین ان کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ دیگر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: دانیہ نے

پڑھیں:

سیاست میں خواتین کا کردار

معاشرے کے ہر شعبے میں خواتین کا کلیدی کردار رہا ہے۔دیکھا جائے تو ان کے کردار کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔تحریک پاکستان سے لے کر 8 فروری 2024 ء کو ہونے والے عام انتخابات تک پاکستان کی سیاست میں خواتین کا سیاسی کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔میکسم گورکی نے تاریخ ساز ناول ماں میں ایک عورت کا جو خاکہ پیش کیا وہ ہمیں محترمہ فاطمہ جناح،بیگم سلمی تصدق حسین،رعنا لیاقت علی خاں اور فاطمہ صغری کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔یہ وہ خواتین ہیں جن کے شانہ بشانہ ہزاروں خواتین نے اپنی زندگیاں جدوجہد پاکستان کے لیے وقف کیں۔ان خواتین کی تحریک پاکستان میں جدوجہد اور حوصلہ کسی طرح بھی مردوں سے کم نہیں تھا۔جبکہ قیام پاکستان کے بعد بھی ملکی سیاست میں خواتین نے اپنا جو کردار نبھایا،نہایت اہمیت کا حامل ہے۔محترمہ فاطمہ جناح نے تو جنرل محمد ایوب خاں کی آمریت کا بخوبی ڈٹ کر مقابلہ کیا جبکہ رعنا لیاقت علی خاں نے اہم کلیدی عہدوں پر خدمات سرانجام دیں۔اسی طرح محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھی سیاسی کردار اور جدوجہد کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔بے نظیر بھٹو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بھی بنیں۔اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی وراثت سنبھالی۔پھر اس کی حفاظت کرتے ہوئے جان تک قربان کر دی۔مشکل وقت میں بیگم کلثوم نواز نے بھی جس طرح میاں محمد نواز شریف کا ساتھ دیا وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔آج مریم نواز سیاست میں ہیں۔انہوں نے پڑھائی سے فارغ ہو کر اپنے لئے جو راستہ چنا۔وہ سیاست کا راستہ تھا۔اگرچہ یہ ایک بہت ہی کٹھن راستہ تھا۔مگر انہوں نے ذرا بھی تامل نہیں کیا۔ابتدائی دنوں میں قید بھی کاٹی۔جیل کے مشکل حالات بھی جھیلے۔مگر پائے استقلال میں ذرا بھی لغزش نہیں آئی۔مریم اورنگ زیب، شیری رحمن،شیریں مزاری،شہلا رضا، عظمی بخاری،نفیسہ شاہ،شازیہ مری، تہمینہ دولتانہ، فہمیدہ مرزا، سیدہ عابدہ حسین اور اب آصفہ بھٹو سمیت درجنوں خواتین ایسی ہیں جنہوں نے سیاست کے میدان میں بھرپور کردار ادا کر کے اپنی بصیرت اور صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔
ڈاکٹر یاسمین راشد جو میڈیکل کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔عمر کے اس حصے میں جیل کاٹ رہی ہیں جب انسان کو زیادہ آرام اور اپنا بہت خیال رکھنے کے ضرورت ہوتی ہے۔بے شمار اور بھی ایسی خواتین ہیں جنہوں نے قیدوبند کی صعوبتوں کے باوجود اپنی جماعت کے ساتھ وفا نبھائی ہے۔ مشکل حالات میں بھی ڈٹ کر کھڑی رہی ہیں اور ہر چیلنج قبول کیا ہے۔ہسپتال ہوں،تعلیمی ادارے یا سائنس ٹیکنالوجی کے شعبے،حتی کہ کارخانوں، کھیتوں، کھلیانوں میں بھی خواتین کا نمایاں کردار نظر آتا ہے۔ اسی طرح سپورٹس کے میدان میں بھی خواتین نمایاں کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔خواتین کی انہی خدمات کو دیکھتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سیاسی جماعتوں کو یہ ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ خواتین کی مخصوص نشستوں کیساتھ ساتھ عام نشستوں پر بھی خواتین کو پانچ فیصد نمائندگی دیں۔مختلف سٹڈیز سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاست میں خواتین کی تعداد جتنی زیادہ ہو گی اتنی ہی زور دار اور بھرپور طریقے سے خواتین کے سیاسی اور معاشرتی حقوق کی بات سامنے آئے گی۔دنیا کے کئی ممالک کی قیادت اس وقت خواتین کے ہاتھ میں ہے۔مثلاً امریکہ میں کملا ہیرس نائب صدر کے عہدہ پر فائز ہیں۔نیوزی لینڈ میں جینڈا آرڈون دوبارہ وزیراعظم اور جرمنی میں اینگلا مرکل، چانسلر منتخب ہو چکی ہیں۔ ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر۔ خواتین ہر جگہ کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں۔پاکستان میں بھی دن بدن اس بات کا اداراک بڑھ رہا ہے کہ خواتین کو اس دور میں ہرگز بھی سیاست اور زندگی کے دیگر شعبوں سے الگ اور دور نہیں رکھا جا سکتا۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ سالوں میں اعلی ترین عہدوں پر خواتین کو براجمان ہوتے دیکھا ہے۔ اس وقت لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس بھی ایک خاتون عالیہ نیلم ہیں۔اگرچہ آج کی ہماری خواتین بہت پڑھی لکھی اور ذہین و فطین ہیں۔مختلف شعبہ ہائے زندگی میں انہوں نے اپنی کارکردگی اور خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انہیں ڈی گریڈ کیا جاتا ہے۔وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کی وہ حقدار اور مستحق ہیں۔پاکستان میں سیاست کرنا اور اس سے وابستہ رہنا ہمیشہ ہی سے ایک مشکل عمل رہا ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں خواتین کی سیاست میں شمولیت کی اہمیت بڑھی ہے۔ہمارا ملک اس حوالے سے خوش قسمت ہے کہ یہاں خواتین نے بہت سے نامساعد حالات کے باوجود جس طرح خود کو منوایا ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ خواتین سیاستدان جمہوریت کی بقا کے لیے ہر آمر کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑی رہیں اور کلمہ حق کہنے سے باز نہیں آئیں۔سیاست میں خواتین کی بہت زیادہ کردار کشی بھی ہوتی ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔اس کردار کشی کی بنیاد قیام پاکستان کے وقت سے ہی رکھ دی گئی تھی۔ تاکہ خواتین اپنی کردار کشی کے ڈر سے ناصرف سیاست سے دور رہیں بلک کسی ہ دوسرے شعبے میں بھی اپنی کارکردگی نہ دکھا سکیں۔
مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے 1965 ء میں اپنے وقت کے سب سے بڑے آمر جنرل ایوب خاں کے مقابلے میں صدارتی الیکشن لڑنے کا فیصلہ جمہوریت کے تسلسل کے لیے کیا۔محترمہ نہیں چاہتی تھیں کہ سیاست میں فوج کا کوئی عمل دخل یا کردار ہو۔اس سوچ اور کوشش کی سزا محترمہ فاطمہ جناح کو کردار کشی کی صورت میں ملی اور مہم چلائی گئی کہ وہ مغربی ایجنٹ ہیں۔ یہیں سے خواتین سیاستدانوں کو اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے دیوار سے لگانے کا عمل شروع ہو اور آمریت کی نرسری میں تیار ہونے والا یہ مکروہ عمل آج ایک تناور درخت بن چکا ہے۔نسیم ولی خاں بھی اپنے شوہر ولی خاں کے شانہ بشانہ آمریت کے خلاف لڑیں۔جس دور میں بیگم نسیم ولی خاں اپنے روشن خیالات کے ساتھ میدان سیاست میں آئیں، اس وقت پختون خواتین ایسا قدم اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ نسیم ولی نے شوہر کے جیل جانے کے بعد ناصرف پارٹی کی کمان سنبھالی بلکہ سیاست میں اپنا سکہ بھی منوایا۔بیگم نصرت بھٹو کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ضیا الحق کی بدترین آمریت میں ان کی قربانیوں کی داستان نہایت طویل ہے۔شوہر ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد 1977 ء میں پارٹی کی کمان اپنے ہاتھ میں لی جبکہ آمریت کے خلاف مظاہروں کی پاداش میں ان پر سرعام لاٹھیاں بھی برسائی گئیں۔ جس میں شدید زخمی بھی ہوئیں۔ انہیں بھی نہ صرف غدار بلکہ بدچلن عورت تک کہا گیا، لیکن وہ آمر کو للکارنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں۔ نصرت بھٹو اس ملک اور جمہوریت کی خاطر اپنی بیٹی صنم بھٹو کے علاوہ خاندان کے تمام افراد کو قربان کرنی والی واحد سیاستدان خاتون کا اعزاز رکھتی ہیں۔ پرویز مشرف کا دور آیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی سیاست کرنے کی پاداش میں بے شمار مشکلات اور سختیوں کا سامنا کرنا پڑا۔حتی کہ جلاوطن بھی ہوئیں۔بیگم کلثوم نواز بلاشبہ سیاست میں زیادہ سرگرم نہیں تھیں لیکن نواز شریف کو جب پرویز مشرف نے حکومت سے بیدخل کیا تو کلثوم نواز نے عملی سیاست میں قدم رکھا اور بیماری کے باوجود اپنا فعال کردار ادا کیا۔ اب مریم نواز میدان سیاست میں ہیں اور والد کے بیانئیے کو لے کر چل رہی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سیاست میں خواتین کا کردار
  • بھارت کی پاکستان کیلیے آئی ایم ایف فنڈنگ رکوانے کی ایک اور کوشش
  • ہانیہ عامر کی سردار جی 3 میں شمولیت پر تنازع کھڑا ہوگیا
  • اگر ٹرمپ کو پہلے سے پتہ تھا تو انہوں نے اسرائیل کو کیوں نہیں روکا ملیحہ لودھی
  • اگر ٹرمپ کو پہلے سے پتہ تھا تو انہوں نے اسرائیل کو کیوں نہیں روکا؟ ملیحہ لودھی
  • راولپنڈی میں 16 سالہ لڑکے سے اجتماعی بدفعلی، ویڈیوز وائرل
  • اداکارہ ہانیہ عامر کو حج کے دوران پوسٹ کی گئی تصاویر پر شدید تنقید کا سامنا
  • "فیلڈ مارشل عاصم منیر امریکہ جانے کی بجائے ہنگامی طورپر سعودی عرب پہنچ گئے" سینئر صحافی رضوان رضی کا دعویٰ
  • اسرائیل نے اپنے لیے تلخ اور تکلیف دہ قسمت کا انتخاب کیا، سزا ضرور ملے گی: خامنہ ای
  • ہانیہ عامر کی حج کی ادائیگی کے بعد سعودی عرب کے مختلف مقامات کی سیر