محکمہ پولیس سندھ میں اصلاحات ضروری
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
چینی سرمایہ کار کا سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنا کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کی مزید بدنامی کا باعث ہے، لگتا ہے کہ سندھ حکومت کے نزدیک یہ ایک معمول کا واقعہ ہے جس پر سندھ حکومت نے اسی طرح نوٹس لیا ہے جس طرح ملک کے اعلیٰ حکام لیتے آئے ہیں جس کا کوئی نتیجہ نکلتا ہے نہ ہی نکلنے کی کوئی خاص امید ہے۔
چینی شہریوں اور سرمایہ کاروں کی جانب سے عدالت عالیہ سے رجوع کرنے کے معاملے پر ترجمان سندھ پولیس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ چینی سرمایہ کاروں کی شکایات کو سینئر پولیس افسران دیکھتے ہیں اور سیکیورٹی خامیاں ختم کرنے کے لیے قانون اور ایس او پی کے تحت اقدامات کیے جاتے ہیں۔ سندھ پولیس کے نزدیک بھی چینی سرمایہ کار کا عدلیہ سے رجوع کرنا بھی معمول ہی کی شکایت ہے۔
سیکیورٹی خامیوں کو ختم کرنے کے لیے چینی سرمایہ کاروں کی کسی بھی حوالے سے سیکیورٹی شکایتیں پیش آنے کی صورت میں فوری طور پر سینئر پولیس افسران شکایتوں کو چیک کرتے اور اس کے حل کو یقینی بناتے ہیں اور سندھ پولیس چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے فول پروف سیکیورٹی انتظامات کو یقینی بنا رہی ہے اور مہمانوں کی حفاظت کے تناظر میں پاکستان اور سندھ کی حکومتیں اقدامات کرتی ہیں۔
چینی سرمایہ کاروں کی طرف سے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنا اگر سندھ پولیس کے مطابق اتنا ہی سادہ معاملہ ہوتا اور چینی سرمایہ کاروں کی حفاظت ایس او پی کے تحت ہو رہی ہوتی تو نوبت عدلیہ تک نہ پہنچتی۔ عدالت میں دی گئی درخواست میں تو الزامات ہی مختلف اور سنگین ہیں کہ ان کی حفاظت ہی ان کے لیے اہم مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔
انھیں آزادانہ نقل و حرکت میسر نہیں۔ درخواست کے مطابق عدالت میں دہائی دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایئرپورٹ پر بلٹ پروف گاڑیوں کے آنے کے نام پر انھیں گھنٹوں محصور کر دیا جاتا ہے اور گھروں کے باہر تالے ڈال دیے جاتے ہیں یہ سلسلہ ان کے گھروں تک بھی جاری رہتا ہے ۔
عدالت عالیہ نے چار ہفتوں میں فریقین کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کر لیا ہے۔ یہ معاملہ ملک کی عزت اور پولیس کی بدنامی کا تھا اس دوران وضاحتیں آجائیں گی یقین دہانیوں میں معاملہ دب جائے گا۔ درخواست میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ چینی سرمایہ کاروں نے پاکستانی اعلیٰ حکام کی دعوت پر یہ سرمایہ کاری کی ہے مگر یہاں آنے کے بعد انھیں آزادانہ نقل و حرکت سے محروم کر دیا گیا ہے۔
پولیس ترجمان کا یہ کہنا درست ہے کہ مہمان سرمایہ کاروں کے لیے ایس او پی پر عمل کیا جاتا ہے جو ان کی حفاظت کے لیے بنائے گئے ہیں جن کی اہمیت سے تو انکار چینی سرمایہ کار بھی نہیں کریں گے کیونکہ دہشت گردی کے باعث مہمانوں کی حفاظت پولیس کے لیے سب سے اہم ہے مگر ایس او پی پر عمل ہی مہمان سرمایہ کاروں کی شکایات کا باعث بن رہا ہے اور ملک میں تو مشہور ہے کہ عوام کی حفاظت کے لیے بھی جو قوانین بنائے جاتے ہیں وہ حفاظت کے بجائے مسئلہ بنا دیے جاتے ہیں اور ان قوانین اور ایس او پی کو رشوت وصولی کا ذریعہ بنا لیا جاتا ہے جن سے شکایات پیدا ہوتی ہیں۔
چینی سرمایہ کاروں نے عدالتوں میں جانے سے قبل پولیس کے سینئر افسران کو بھی اپنی شکایات سے آگاہ کیا ہوگا اور کوئی کارروائی نہ ہونے پر ہی عدلیہ میں درخواست دائر کی، اگر سینئر پولیس افسروں نے مذکورہ شکایات کا اپنی سطح پر ہی ازالہ کیا ہوتا تو نہ عدالت جواب طلب کرتی نہ وزیر داخلہ کو نوٹس لینا پڑتا اور نہ ہی سندھ پولیس کو بیان جاری کرنا پڑتا۔ چینی سرمایہ کاروں نے تنگ آ کر ہی عدلیہ سے رجوع کیا جس کی خبریں میڈیا میں آئی ہیں جس سے ملک کی ساکھ پر سوالات اٹھے اور پولیس کے لیے بدنامی کا باعث بنے، جس کی ساری ذمے داری پولیس پر عائد ہوتی ہے جس نے شکایات کو اہمیت دی نہ ذمے دار پولیس کے خلاف ایکشن لیا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ انھیں ہراسمنٹ اور پولیس کی بھتہ خوری سے نہ بچایا گیا تو وہ لاہور یا چین واپس چلے جائیں گے۔
سوشل میڈیا پر پولیس مظالم کی رپورٹیں آتی رہتی ہیں مگر پولیس کے افسران سوئے رہتے ہیں یا ایکشن دیر سے لیتے ہیں۔ کراچی کے لیے ایئرپورٹ آنے والوں کی پولیس کو بروقت اطلاع ملتی ہوگی تو وہاں چینی سرمایہ کاروں کو ان کے گھر پہنچانے کے لیے متعلقہ پولیس افسران اگر بروقت بلٹ پروف گاڑیوں کا انتظام رکھیں اور انھیں وہاں گھنٹوں انتظار کرانے کے بجائے وقت پر حفاظتی سہولت دیتے تو چینی سرمایہ کاروں کو یہ شکایات نہ ہوتیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ انھیں دیر سے گھر پہنچایا جاتا ہے پھر گھروں میں محصور رکھا جاتا ہے اور ان کے گھروں پر تالے لگا دیے جاتے ہیں یہ پولیس کا غلط اقدام ہے اور چینی سرمایہ کاروں سے رشوت لے کر انھیں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دینا پولیس گردی کی انتہا ہے۔
سندھ مہمان نوازی کے لیے مشہور تھا مگر اب غیر ملکیوں کو بھی لوٹ لیا جاتا ہے اور گزشتہ ماہ ضلع ٹھٹھہ میں دو غیر ملکی سیاحوں کو لوٹا گیا ان سے نقدی اور موبائل فون چھینے گئے تھے جو پولیس نے کئی دنوں بعد برآمد بھی کرا لیا مگر ایسے واقعات سے ملک کی بدنامی تو ہوئی۔ غیر ملکی سائیکلوں تک پہ دنیا میں گھومتے ہیں تو ان کی حفاظت کا بھی موثر انتظام ہونا چاہیے۔ غیر ملکی سیاحوں کی پاکستان آمد کی خبریں تو آتی ہی رہی ہیں مگر ان کے لیے بھی ایس او پی ضروری ہیں جن پر ان سے عمل کرانے سے شکایات دور ہو سکتی ہیں۔ چینی ہمارے مہمان ہی نہیں محسن بھی ہیں اور متوقع دہشت گردی سے محفوظ رکھنا اور رشوت وصولی کا سدباب نہایت ضروری ہونا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چینی سرمایہ کاروں کی کی حفاظت کے سندھ پولیس ایس او پی جاتے ہیں پولیس کے ہیں اور جاتا ہے گیا ہے ہے اور
پڑھیں:
پاکستان کے لیے ناگزیر آئینی مرحلہ، 27ویں آئینی ترمیم کیوں ضروری ہے؟
پاکستان کی ترقی اور اہم آئینی و انتظامی امور میں بہتری کے لیے 27ویں آئینی ترمیم کا نفاذ ایک ناگزیر قومی ضرورت بنتا جا رہا ہے۔ مختلف حقائق کی روشنی میں درج ذیل نکات اس ترمیم کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔
18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو تو اختیارات مل گئے، مگر بلدیاتی حکومتیں 90 فیصد اضلاع میں یا تو ختم کر دی گئیں یا انہیں بااختیار نہیں ہونے دیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل 140-اے کے باوجود صوبوں نے گزشتہ 15 برسوں میں عوام کو مستقل مقامی حکومتیں فراہم نہیں کیں۔ 27ویں ترمیم اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش ہے۔
عالمی ماڈلز جیسے جرمنی، ترکی، بھارت اور اٹلی میں آئینی عدالتیں الگ سے موجود ہیں جو پارلیمان کے قانون، فوجی فیصلوں اور سیاسی تنازعات میں صرف آئینی تشریح کرتی ہیں، حکومت نہیں چلاتیں۔
مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کے کون سے اختیارات وفاق کو مل سکتے ہیں؟ فیصل واؤڈا نے بتا دیا
پاکستان میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 24 لاکھ سے زائد ہے اور ایک سول کیس کا اوسط فیصلہ 8 سے 10 سال میں آتا ہے۔ ایسے میں ایک آئینی عدالت کے قیام اور ججوں کے تبادلوں کے شفاف طریقۂ کار سے عدلیہ پر بوجھ کم ہو سکے گا، آئینی تنازعات کے فوری حل کی راہ ہموار ہوگی اور سپریم کورٹ کا بوجھ قریباً 25 فیصد کم ہو سکتا ہے۔
ایگزیکٹو مجسٹریٹس کے خاتمے کے بعد عدالتوں کا بوجھ 300 فیصد تک بڑھ گیا، جبکہ 70 فیصد مقدمات ایسے ہیں جو موقع پر مجسٹریل اختیارات سے حل ہو سکتے تھے۔
امن و امان، تجاوزات اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی میں صوبائی و انتظامی نظام بے اختیار نظر آتا ہے۔ اس لیے ایگزیکٹو مجسٹریٹ کے نظام کی بحالی ایک مؤثر قدم ہوگا۔
پاکستان میں آبادی کی شرحِ اضافہ 2.55 فیصد سالانہ ہے، جبکہ ایران میں 1.1 فیصد، بھارت میں 0.9 فیصد اور چین میں صرف 0.03 فیصد ہے۔ اگر آبادی کی منصوبہ بندی وفاقی سطح پر مربوط پالیسی کے تحت نہ کی گئی تو 2040 تک پاکستان کی آبادی 34 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے، جس سے وسائل پر شدید دباؤ بڑھے گا۔
مزید پڑھیں: مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ کے لیے 27ویں آئینی ترمیم کی ضرورت ہو تو فوراً کی جائے، اسپیکر پنجاب اسمبلی
صوبہ سندھ اور بلوچستان میں آبادی بڑھنے کی رفتار 2.7 فیصد جبکہ شرح خواندگی 55 فیصد سے کم ہے۔ پنجاب میں خواندگی نسبتاً بہتر (66 فیصد) ہے مگر آبادی کے دباؤ کے باعث صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ اس لیے قومی نصابِ تعلیم اور آبادی کنٹرول کی پالیسیاں وفاقی سطح پر نافذ ہونا ناگزیر ہیں۔
پاکستان میں سالانہ قریباً 19 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہو رہے ہیں۔ صوبائی کارکردگی میں نمایاں فرق ہے: پنجاب 33 فیصد، سندھ 23 فیصد، خیبر پختونخوا 21 فیصد اور بلوچستان 36 فیصد۔ یہ فرق 18ویں ترمیم کے بعد کم ہونے کے بجائے مزید بڑھا ہے، اس لیے تعلیم کو دوبارہ وفاقی دھارے میں لانا ضروری سمجھا جا رہا ہے۔
ملک میں سرکاری اسکولوں کی تعداد ایک لاکھ 86 ہزار سے زائد ہے، مگر ان میں سے نصف سے زیادہ میں بنیادی سہولیات جیسے صاف پانی، بجلی، باتھ روم اور چار دیواری موجود نہیں۔
صوبائی حکومتوں نے تعلیمی بجٹ عمارتوں پر صرف کیا مگر معیارِ تعلیم، اساتذہ کی تربیت اور ٹیکنالوجی کو نظر انداز کیا۔ اس صورتِحال میں وفاقی معیار اور نگرانی ناگزیر ہے۔
مزید پڑھیں: توجہ ترقی پر مرکوز ہے، 27ویں آئینی ترمیم کی فی الحال کوئی ضرورت نہیں، اسحاق ڈار
دنیا کے 57 مسلم ممالک میں سے 42 میں دفاع، آبادی، تعلیم، الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے بنیادی اختیارات وفاق کے پاس ہیں۔ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی اور تعلیم مکمل طور پر صوبوں کے حوالے کر دی گئی، جس سے قومی بیانیے، سلامتی اور شناخت میں تضادات پیدا ہوئے۔
این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ملنے والی رقم گزشتہ 15 برس میں 10 گنا بڑھ گئی، مگر صوبائی ٹیکس وصولی میں صرف 70 تا 80 فیصد اضافہ ہوا۔ خرچ بڑھنے کے باوجود آمدن میں بہتری نہ آنے سے وفاقی مالیاتی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔
دفاعی بجٹ پر اکثر تنقید کی جاتی ہے، حالانکہ پاکستان اپنے جی ڈی پی کا صرف 1.7 فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے، جبکہ سول اخراجات سود، پنشن، سبسڈیز اور گورننس، مجموعی بجٹ کا 52 فیصد تک لے جاتے ہیں۔ اصل اصلاح انہی شعبوں میں ناگزیر ہے، دفاع میں نہیں۔
مزید پڑھیں: حکومت 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ملٹری کورٹس قائم کرنے والی ہے؟
بلوچستان کے بجٹ کا 83 فیصد حصہ تنخواہوں، پنشن اور انتظامی اخراجات پر صرف ہوتا ہے، جبکہ ترقیاتی اخراجات بمشکل 17 فیصد رہ جاتے ہیں۔ صوبہ وفاق سے زیادہ فنڈز کا مطالبہ تو کرتا ہے، مگر ٹیکس اصلاحات، ریونیو بڑھانے اور مقامی حکومتوں کے قیام پر توجہ نہیں دیتا۔
یہی عدم توازن دیگر صوبوں میں بھی موجود ہے اور یہی وہ ادارہ جاتی و مالیاتی خلا ہے جسے 27ویں آئینی ترمیم پُر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
27ویں آئینی ترمیم آبادی، دفاع پاکستان صحت، تعلیم صوبے، وفاق ناگزیر آئینی مرحلہ